تحریک انصاف حکومت کا پہلا بجٹ

یہ بجٹ زمینی حقائق کے برعکس اندازوں اور تخمینوں کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے

وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے70کھرب 22 ارب کا بجٹ پیش کردیا ہے۔ یہ بجٹ غیر منتخب مشیر نے آئی ایم ایف کی ہدایت پر بنایا، منتخب وزیر مملکت حماد اظہر نے پڑھا اور ووٹرز عوام پر لاگو ہوا۔ بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن جماعتوں کے ارکان سیاہ پٹیاں باندھ کر ایوان میں داخل ہوئے، اور طے شدہ منصوبے کے مطابق بجٹ تقریر کا نصف حصہ مکمل ہونے پر عین اُس وقت احتجاج شروع کردیا جب بجٹ تقریر میں ٹیکس نافذ کرنے کے اعلانات کیے گئے۔ وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہبازشریف ایک دوسرے کے آمنے سامنے نشستوں پر بیٹھے رہے، تاہم دونوں میں کسی نے بھی ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کی کوشش نہیں کی۔ سابق وزیر خزانہ اسد عمر بجٹ تقریر کے دوران نوٹس لیتے رہے۔ مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ بھی دوسری نشست پر براجمان ہوئے۔ یہ بجٹ اب سینیٹ میں بھی پیش کردیا گیا جو چودہ روز کے اندر اندر اپنی سفارشات قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو بھیجے گا۔ بجٹ میں تین بنیادی نکات ہیں۔ حکومت نے بدترین معاشی صورت حال کے باوجود گزشتہ بجٹ کے حجم سے تیس فی صد زائد حجم کے ساتھ بجٹ پیش کیا ہے، اس طرح یہ بجٹ زمینی حقائق کے برعکس اندازوں اور تخمینوں کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے اور نئی ڈیوٹیاں نافذ کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے چینی، گھی، سیمنٹ مہنگا ہوجائے گا لیکن اس کے باوجود بجٹ خسارہ کم نہیں ہوگا جو اس وقت 3560ارب ہے۔ آمدن کا تخمینہ 6617 ارب ہے۔ بجٹ میں قومی ترقیاتی پروگرام کے لیے 1800 ارب رکھے گئے، عسکری بجٹ1150 ارب تک مستحکم رہے گا، پنشن اخراجات کا تخمینہ421 ارب روپے رکھا گیا، 80 ہزارمستحق لوگوں کو بلاسود قرضے دیے جائیں گے، گریڈ 16تک کے ملازمین کے لیے10فیصد، گریڈ20 تک کے لیے 5 فیصد تنخواہ میں ایڈہاک ریلیف دیا گیا ہے۔ گریڈ 21سے 22کے ملازمین کی تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ وفاقی کابینہ نے رضاکارانہ اپنی تنخواہوں میں 10کمی کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر مملکت حماد اظہر، سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کے صاحب زادے ہیں، اور پہلی بار قومی اسمبلی میں منتخب ہوکر آئے ہیں۔ بجٹ تقریر کے وقت وہ پُرسکون رہے، اور اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود اطمینان کے ساتھ بجٹ تقریر کی۔
بجٹ میں تجارتی خسارہ کم کرنے کے اقدامات نظر آتے ہیں، لیکن حکومت اپنے پہلے ہی بجٹ میں پچاس لاکھ گھر بنانے کا منصوبہ تقریباً ترک کرتے ہوئے دکھائی دی ہے۔ اسی طرح پانچ سال میں ایک کروڑ نوکریاں دینے کا بھی اپنے پہلے بجٹ میں کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں دے سکی۔ زیادہ تر زور درآمدات، برآمدات اور سبسڈیز ختم کرنے یا کم کرنے پر دیا گیا ہے۔ بجٹ تقریر میں یہ بات تسلیم کی گئی کہ ملکی قرضے اور ادائیگیاں 31 ہزار ارب ہوگئے تھے، زرمبادلہ کے ذخائر 18ارب سے گرکر 10 ارب رہ گئے، اورمالیاتی خسارہ 2200 ارب تک پہنچ گیا، تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالرتک پہنچ چکا ہے، تجارتی خسارے میں 4ارب ڈالر کی کمی لائے۔ برآمدات میں پچھلے پانچ سال میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ بجلی کا گردشی قرضہ 1200ارب تک پہنچ گیا تھا۔ سرکاری اداروں کی کارکردگی میں 1300 ارب کا خسارہ تھا۔ روپے کی قدر مستحکم رکھنے کے لیے اربوں روپے جھونک دیے گئے۔ ان تمام شعبوں کے بارے میں اطلاعات ملکی ذرائع ابلاغ میں دی جاچکی ہیں، یہ بات بھی تسلیم کی گئی کہ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ گرنا شروع ہوا، اور ترقی کا زور ٹوٹ گیا۔ بجٹ تقریر میں چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 9.2 ارب ڈالر کی امداد کا بھی ذکر ہے، لیکن یہ کہاں خرچ ہوئے اس کا کوئی ذکر نہیں۔ بجٹ میں یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ چین سے 313 اشیاء پر ڈیوٹی فری تجارت ہوگی، اس سے ملکی معیشت میں کیا فرق پڑے گا اس کاکوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ ایف بی آر کو550 ارب کا ہدف دیا گیا ہے، یہ بھی یقین دہانی کرائی گئی کہ بجلی صارفین کو لاگت سے کم بجلی فراہم کی جائے گی، 200 ارب کی سبسڈی رکھی جائے گی۔ غربت کے خاتمے کے لیے وزارت بنائی گئی ہے۔ احساس پروگرا م سے غریبوں کی مدد کی جائے گی۔ 80ہزار مستحق لوگوں کو بلاسود قرضے دیے جائیں گے۔ مجموعی طور پر سول بجٹ 437 ارب، اور عسکری بجٹ 1150ارب تک مستحکم رکھا جائے گا۔ زراعت کے لیے 12 ارب رکھے گئے ہیں۔ بلوچستان کے لیے ترقیاتی بجٹ 10.4ارب رکھا گیا ہے۔ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لیا جائے گا۔ قومی ترقیاتی پروگرام کے لیے 1800 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اور غیر ترقیاتی اخراجات کا حجم 6192 ارب 90 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔ آبی وسائل کے لیے 70 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔ کراچی کے لیے 45.5 ارب روپے فراہم کیے جارہے ہیں۔ سود کی ادائیگیوں کے لیے2891 ارب 40 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ الیکٹرونک مصنوعات سمیت درجنوں اشیاء پر ٹیکس اور ڈیوٹی میں اضافے، لگژری اشیاء کی درآمد پر اضافی ڈیوٹی2فیصد سے بڑھاکر3 فیصدکرنے اور مڈل مین کی آمدن پر انکم ٹیکس عائدکرنے کی تجویز ہے۔
نئے مالی سال 20-2019ء کے وفاقی بجٹ میں نان ٹیکس آمدن کا تخمینہ 12 سو 50 ارب روپے لگایا گیا ہے، جب کہ چینی پر سیلزٹیکس 8 فیصد سے بڑھاکر 17فیصدکرنے، اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، پنشن میں10سے15فیصداضافے کی تجویز ہے۔ اسی طرح ٹیکس وصولیوں میں 1400ارب روپے کا اضافہ کیا جائے گا اور نوجوانوں کے لیے آسان قرضوں کا پروگرام اور 5ارب روپے ریسرچ سپورٹ فنڈزکی تجویز بھی شامل ہے۔ بجٹ میں کفایت شعاری، مالیاتی نظم و نسق، بیرونی شعبے کے انتظام اور غریب طبقے کے تحفظ پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ سرکاری دستاویز کے مطابق مالی سال 2019-20ء کے بجٹ میں اٹامک انرجی کمیشن کے لیے 24 ارب 45 کروڑ روپے، نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کے لیے 155 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جبکہ ترقیاتی منصوبوں پر925 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ محکمہ ریلوے کے لیے 16 ارب روپے، این ٹی ڈی سی، پیپکو کے لیے42 ارب روپے، جبکہ نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی کے لیے 30 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ فنانس ڈویژن کے لیے 36 ارب روپے، وزیراعظم یوتھ پروگرام کے لیے 10 ارب روپے اور آئی ڈی پیز کے لیے ساڑھے 32 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ اسی طرح سیکورٹی بڑھانے کے لیے بھی ساڑھے 32 ارب، جبکہ فاٹا کے10 سالہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ دستاویز کے مطابق سماجی شعبے کی ترقی کے لیے 94 ارب، ترقیاتی منصوبوں پر 925 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ توانائی منصوبوں کے لیے 80 ارب، ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے لیے 200 ارب، جبکہ پانی سے متعلق منصوبوں پر70 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ صحت اور آبادی سے متعلق منصوبوں کے لیے 20 ارب، ماحولیات کی بہتری کے لیے 8 ارب، اور ایس ڈی جیز پروگرام کے لیے 24 ارب روپے، جبکہ آزاد کشمیر اور فاٹا کے لیے 49 ارب روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ٹریکٹر پر سیلزٹیکس 5 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کیا جائے گا۔ اسٹیل مصنوعات پر بھی ڈیوٹی بڑھانے کی تجویز ہے اور 70 ارب کی چھوٹ ختم ہوگی اور 40 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگیں گے۔ نئے مالی سال کے بجٹ کا حجم 6 ہزار 800 ارب روپے ہوگا جس میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف ساڑھے پانچ ہزار ارب رکھنے کی تجویزہے۔ نئے بجٹ میں پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی بڑھانے کی تجویز ہے، جبکہ سیمنٹ، اسٹیل، چینی سمیت الیکٹرانک مصنوعات، گاڑیاں اور مشینری مہنگی ہونے کا امکان ہے۔ لگژری درآمدی اشیاء پر ڈیوٹی، ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے۔ آڑھتی، کمیشن ایجنٹ، مڈل مین کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ بجٹ میں کارپوریٹ سیکٹر کے لیے ٹیکس میں کمی نہ کرنے کی تجویز ہے، جبکہ چھوٹے کاروباری افراد پر فکسڈ ٹیکس لاگو ہوگا۔ نان فائلرز کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی تجویز ہے۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس چھوٹ سالانہ 12 لاکھ سے کم کرکے 6 سے 8 لاکھ، جبکہ کارپوریٹ سیکٹر کے لیے ٹیکس میں کمی نہ کرنے کی تجویز ہے۔ 5 برآمدی سیکٹرز کے لیے زیرو ریٹ ٹیکس کی سہولت ختم کرنے کی تجویز ہے جس میں ٹیکسٹائل، چمڑہ، قالین، کھیلوں کی مصنوعات، سرجیکل آلات شامل ہیں۔ نئے بجٹ میں بجلی، گیس، مشروبات، ٹریکٹرز بھی مہنگے ہوجائیں گے۔ مجموعی سرکاری قرضوں کی ادائیگی میں دو طرفہ ذرائع سے کی جانے والی ادائیگیاں سب سے زیادہ یعنی 48 فیصد یا 4 ارب 40 ہزار ڈالر رہیں۔ آئندہ مالی سال کے لیے 18 کھرب 30 ارب روپے کے اخراجات منظور کیے گئے اور 300 ترقیاتی منصوبے شامل ہیں۔ حکومت نئی بین الاقوامی منڈیوں کی جانب توجہ دینے کے ساتھ ساتھ صرف ریاست سے ادھار لینے کے بجائے عالمی بانڈ پروگرام متعارف کروائے گی، اس سے سرمایہ کاری میں اضافے اور ادھار کی لاگت میں کمی کی توقع کے ساتھ ساتھ حکومت کو انہیں جاری کرنے کے وقت کا اختیار حاصل ہوگا، بلکہ قرضوں کی منتقلی میں صرف ہونے والے وقت کی بھی بچت ہوگی، تاہم حکومت ترقیاتی مقاصد کے لیے طویل مدتی رعایتی قرضے لیتی رہے گی۔ بتایا گیا کہ رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران بیرونی سرکاری قرضوں میں تقریباً 3 ارب 90 کروڑ ڈالر تک کا اضافہ ہوا، جبکہ گزشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران یہ اضافہ 6 ارب 70 کروڑ ڈالر تھا۔ پاکستان کے غیر ملکی قرضوں اور واجبات (ای ڈی ایل) میں سرکاری و نجی شعبوں کے لیے، لیے گئے تمام غیر ملکی قرضوں کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے واجبات شامل ہیں۔ غیر ملکی کمرشل بینکس اور یورو/سکوک بانڈز) سے لیا جانے والا ادھار چند سال میں بہت حد تک بڑھا ہے، تاہم غیر ملکی قرضے زیادہ تر کثیر اور دو طرفہ ذرائع پر مشتمل ہیں۔ مجموعی ادائیگیوں میں غیر ملکی قرضوں کا حصہ 3 ارب 10 کروڑ 80 لاکھ ڈالر رہا، یہ کمرشل قرضے بنیادی طور پر ادائیگیوں میں توازن قائم کرنے کے لیے حاصل کیے گئے تھے جس میں حکومت نے مختلف ذرائع سے ایک ارب 15 کروڑ ڈالر توانائی اور تعمیراتی منصوبوں کو متحرک کرنے میں صرف کیے۔ حکومت نے 2040ء تک ملک میں فروخت ہونے والی نئی گاڑیوں میں سے 90 فیصدکو الیکٹرک وہیکل پر منتقل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ آئندہ 5 برسوں کے دوران میڈیم ٹرم ٹارگٹ کے تحت ایک لاکھ کار، وین، جیپ اور اسمال ٹرک کو الیکٹرک وہیکل پر منتقل کرکے مارکیٹ تک رسائی دینے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، جبکہ2030ء تک سالانہ 60 ہزار کے تناسب سے کار، وین، جیپ اور اسمال ٹرک کی نئی سیلز میں 30 فیصد، جبکہ 2040ء تک 90 فیصدکو الیکٹرک وہیکل پر منتقل کرکے مارکیٹ تک رسائی دینے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
پالیسی کے تحت میڈیم ٹرم ٹارگٹ کے تحت آئندہ5 سال کے دوران ملک میں ایک ہزار بسوں کو الیکٹرک وہیکل پر منتقل کرکے مارکیٹ تک رسائی دینے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جبکہ2030ء تک بسوں کی نئی سیلز میں50 فیصد جبکہ 2040ء تک الیکٹرک وہیکل پر منتقل کرکے مارکیٹ تک رسائی دینے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔پالیسی کے مطابق گاڑیوں کو الیکٹرک وہیکل پر منتقل کرنے سے پاکستان کو سالانہ110بلین روپے کی آمدنی یا بچت ہوگی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کےفیصلے کا انتظار!۔

اعلیٰ عدلیہ کے دو ججوں کے خلاف ریفرنس، آصف علی زرداری کی گرفتاری، اپوزیشن کی حکومت مخالف متوقع تحریک اس وقت زبان زدِ عام ہیں۔ ججوں کے خلاف ریفرنس پر حکومت کا مؤقف اور وکلا کا ردعمل بھی کھل کر سامنے آچکا ہے، کوئی ابہام نہیں رہا۔ اب صرف سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کا انتظار ہے، جہاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا اپنا دفاع کریں گے اور سپریم جوڈیشل کونسل اس ریفرنس پر اپنے فیصلے کے ذریعے بولے گی۔ جسٹس افتخار چودھری کے خلاف ریفرنس کے وقت وکلا متحد تھے اور فیصلہ سڑکوں پر ہوا تھا، لیکن اِس بار معاملہ کچھ مختلف نظر آرہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ بار نے احتجاج کا اعلان کیا ہے تاہم بار میں تقسیم کا عمل بھی شروع ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں حکومت کے ریفرنس کی حمایت میں پنجاب کے دو درجن وکیل سامنے آئے ہیں جنہوں نے اسلام آباد میں اجلاس منعقد کرکے پاکستان بار کونسل کی ہڑتال میں شامل ہونے سے انکار کرنے کا اعلان کیا۔ اس اجلاس کا انعقاد پنجاب بار کونسل کے رکن ایڈووکیٹ شاہد گوندل نے کیا تھا۔ شاہد گوندل تحریک انصاف کے سرگرم رکن ہیں اور وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑ چکے ہیں۔ انہیں وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے میں قانونی مشیر لگایا گیا ہے۔ اس اجلاس میں رمضان چودھری بھی سرگرم رہے جو بابر اعوان کے معتمد خاص ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیے جانے پر صدرِ مملکت عارف علوی کو دو خطوط لکھے ہیں جن میں انہوں نے حکومتی اراکین کی جانب سے میڈیا پر کی جانے والی کردارکشی پر سخت افسوس کا اظہار کیا ہے اور لندن میں پراپرٹیز کے حوالے سے تفصیلات بتائی ہیں۔ خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میرے خلاف جو ریفرنس دائر کیا گیا اُس کی کاپی فراہم کرنے کا کہا تھا لیکن وہ مجھے نہیں دی گئی، جبکہ جوڈیشل کونسل نے ابھی تک کوئی نوٹس جاری نہیں کیا ہے لیکن میرے خلاف ایک تحریک شروع کردی گئی ہے، جس کا مقصد جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر اثرانداز ہونا ہے، ریفرنس میں جن تین جائدادوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان سے کیسے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ میں نے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے؟ حکومتی اراکین کی جانب سے میری فیملی کو آدھے سچ کے ذریعے بدنام کیا جارہا ہے جو کہ اہلِ خانہ اور میرے لیے نہایت ہی تکلیف دہ ہے۔ میری اہلیہ عبدالحق کھوسو کی بیٹی اور اسپین کی شہری ہیں۔ میرے بچے تعلیم حاصل کرنے کے بعد لندن میں قانونی طور پر کام کررہے ہیں، حکومتی اراکین کی جانب سے جن پراپرٹیز کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں، یہ دراصل وہ ہیں جن میں میرے بچے اور ان کی بیویاں رہتی ہیں۔ان پراپرٹیز کے مالک وہی ہیں۔ یہ جن کے نام پر ہیں، ان کی ملکیت چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے، نہ تو انہیں کسی ٹرسٹ کے تحت اور نہ ہی کسی آف شور کمپنی کے تحت حاصل کیا گیاہے۔ صدرِ مملکت سے درخواست کی کہ وزیراعظم سے پوچھیں، کیا انہوں نے اپنی بیویوں اور بچوں کی جائدادیں اور اثاثے ظاہر کیے ہیں؟
ججز ریفرنسز پر اس سے زیادہ اظہارِ خیال مناسب نہیں ہوگا، اس بارے میں حتمی رائے یہی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔

تحریک انصاف … غیر منتخب اور منتخب لوگوںکی سرد جنگ

حکومت میں غیرمنتخب اور منتخب لوگوں کی سرد جنگ جاری ہے۔ فواد چودھری نے اعتراف کیا کہ حکومت غیر منتخب لوگوں کے اثر میں ہے، اور منتخب لوگ فیصلوں سے بے خبر ہیں۔ اگر فواد چودھری کے بیان کو اپوزیشن کے سیاسی بیانیے سے جوڑا جائے تو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ فواد چودھری نے بھی حکومت میں رہتے ہوئے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا ہے اور یہ بات تسلیم کی ہے کہ وزراء کی وزارتیں غیر منتخب لوگوں کی وجہ سے تبدیل ہوئیں، اہم فیصلے ہوجاتے ہیں، پتا ہی نہیں چلتا۔ ان کی وزارت میں نعیم الحق، یوسف بیگ مرزا، ارشد خان اور طاہر خان نے مداخلت کی۔ انہوں نے یہ بات بھی تسلیم کی ہے کہ تحریک انصاف میں غیرمنتخب اور منتخب لوگوں کے درمیان سرد جنگ ہے، ایک وقت میں پانچ لوگ کام کریں گے تو وہی ہوگا جو ہوتا ہے، کیا پارٹی ان کے حوالے کردیں جو کونسلر بھی نہیں رہے؟ بالآخر منتخب لوگ ہی فیصلہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ وزارت کی تبدیلیوں میں غیر منتخب پاور میں تھے۔ وزیراعظم کے مصروف شیڈول ہوتے ہیں، مقامی سیاست کے لیے وقت نہیں ہوتا، اصل قوت پارلیمان اور منتخب شدہ لوگ ہیں، بالآخر فیصلہ اور مسائل کا حل وزیراعظم کو ہی کرنا ہے۔ ایک سیاسی حلقہ اس ساری صورت حال کو حکومت کے خلاف ایک منظم سازش سے تعبیر کررہا ہے، اس کا کہنا ہے کہ پاکستان کے خلاف بڑی سازش ہونے والی ہے جس کی تیاریاں چل رہی ہیں، اس سازش میں بھارت اور امریکہ شامل ہیں جبکہ پاکستان کے اداروں میں موجود وہ لوگ بھی ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں جو ان کے لیے کام کرتے ہیں۔ امریکہ میں موجود لابیز متحرک ہوچکی ہیں اور ان کا نشانہ پاکستان ہے، جو تحریک شروع کی جارہی ہے وہ1977ء کی تحریک کی طرح ہو گی، اس تحریک کا اصل مقصد عمران خان کو ہٹانا ہے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کردار بھی سامنے آئے گا۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پی ٹی آئی حکومت کی 10 ماہ کی کارکردگی پر وائٹ پیپر جاری کیا ہے اور حکومت کی معاشی پالیسیوں پر ایک ہی نکتہ بیان کیا کہ ملکی تاریخ میں اتنے کم عرصے میں افراطِ زر میں اتنا اضافہ کبھی نہیں ہوا، حکومت کے اگلے مالی سال میں مہنگائی کی شرح 12فیصد سے بڑھ جائے گی، اس سال حکومتی آمدن میں 400 سے 500 ارب کا شارٹ فال ہے، حکومت کے ریونیو وہی ہیں جو پچھلے مالی سال میں تھے۔ ان کے مطابق حکومت کے جاری اخراجات بڑھ کر7ہزار ارب روپے تک جا پہنچے ہیں، ایک سال میں قرضے میں 5 ہزار ارب کے لگ بھگ اضافہ ہوگا، اگر یہ حکومت 5سال رہی تو یہ قرضے 50 ہزار ارب تک ہوجائیں گے۔