میڈیا مالی بحران حقیقت کیا ہے؟۔

چند ماہ سے یہ بات سنی اور کہی جارہی ہے کہ اس وقت ملکی میڈیا اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے۔ برسوں سے قائم میڈیا ادارے اپنے ملازمین کی تعداد کم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں صحافت کے بڑے بڑے معتبر نام بھی ڈائون سائزنگ کا شکار ہوکر اداروں سے فارغ ہوئے اور اسی دکھ میں دنیا سے بھی چلے گئے۔ یہ بحران اصل میں ہے کیا؟ کیا یہ سیٹھ مالکان کا پیدا کردہ ہے جو منافع میں کمی کو خسارے کا نام دیتے ہیں؟ یا حکومت ذمہ دار ہے؟ تحریک انصاف کی حکومت کا مؤقف ہے کہ سابق حکومت مصنوعی طور پر تشہیری مہم کے ذریعے سرکاری اداروں کے بجٹ کھا گئی ہے اور اب حکومت کے پاس اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے تشہیری مواد کی ادائیگی کے لیے وسائل نہیں ہیں، لہٰذا میڈیا کے ادارے حکومت پر انحصار کے بجائے اپنے وسائل خود پیدا کریں۔ اگر حکومت یہ اعلان کرکے فیصلہ کرلیتی کہ ہر سرکاری ادارہ حکومتی کنٹرول سے آزاد ہوکر اپنی تشہیری مہم چلائے تو شاید ملکی میڈیا کبھی بھی بحران کا شکار نہ ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ تو حکومت کا مؤقف ہے، اب یہاں مالکان کا مؤقف بھی آجانا چاہیے۔ ان کا مؤقف ہے کہ حکومت وسائل دے گی تو ادارہ چلے گا۔ لیکن اتفاق یہ ہے کہ یہ ساری صورت حال گزشتہ عام انتخابات کے بعد ہی پیدا ہوئی جب ملک کے تمام بڑے قومی اخبارات اور برقی ذرائع ابلاغ نے انتخابی مہم میں سیاسی جماعتوں کے اشتہارات کے ذریعے خوب خوب کمائی کی۔ انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتوں کے اخراجات کی تفصیلات الیکشن کمیشن میں داخل کرائے جانے والے گوشواروں میں موجود ہے۔ قومی اسمبلی کے ایک امیدوار کے لیے قانونی طور پر پچاس لاکھ روپے تک اخراجات کی حد مقرر تھی لیکن اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے ایک امیدوار نے صرف ایک اردو اخبار کو ستّر لاکھ روپے سے زائد کا بل ادا کیا ہے۔ اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں میں چالیس سے زائد امیدوار میدان میں تھے۔ سیاسی جماعتوں نے مجموعی طور پر، اور آزاد امیدواروں نے جو رقم خرچ کی اس کی تفصیل الیکشن کمیشن میں ہے۔ یہ تفصیل قومی اسمبلی میں ضرور پیش کی جانی چاہیے جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ میڈیا کے ذریعے تشہیری مہم پر اٹھنے والے کُل اخراجات کتنے رہے۔ اگر یہ تفصیل سامنے آجائے تو میڈیا مالکان کی جانب سے بحرانی کیفیت پیدا کرنے کی اصل وجوہات کا بھی پتا چل جائے گا۔ دوسرا پیمانہ مشتہرین کی نمائندہ تنظیم پاکستان ایڈورٹائزنگ ایسوسی ایشن ہے۔ ان تمام اداروں سے آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات حاصل کی جائیں تو بھی انتخابی مہم میں سیاسی جماعتوں کے اخراجات کی تفصیل مل سکتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملکی میڈیا میں مجموعی طور پر بیس ارب سے زائد تخمینے سے انتخابی امیدواروں کی تشہیری مہم چلائی گئی۔ اس رقم کا بڑا حصہ بھی میڈیا کے چند اداروں کے ہاتھ لگا ہے، لیکن ملازمین کی برطرفیاں اور بحرانی کیفیت بھی انہی کی جانب سے سامنے آئی۔ یہی اصل سوال ہے کہ انتخابات کے فوراً بعد نئی حکومت کے آتے ہی میڈیا انڈسٹری میں بحران کیسے کھڑا ہوگیا؟ اس وقت ملک میں کم و بیش اسّی ٹی وی چینل کام کررہے ہیں، جن میں سے صرف پندرہ ایسے ہیں جن کی ریٹنگ نوٹ کی جاتی ہے، لہٰذا اشتہارات بھی انہی کو زیادہ ملتے ہیں۔ ماجرا یہ ہے کہ ایک خاص ذہنیت کے ساتھ یہ بات آگے بڑھائی گئی کہ میڈیا بحران کا شکار ہے، اور نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت میڈیا مالکان ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوگئے اور اس لڑائی میں عامل اخبار نویس پس کر رہ گیا، جس کے ہاتھ میں آزادیٔ صحافت کا جھنجھنا دے دیا گیا۔ آج جب کہ حکومت واجبات کا ایک بڑا (19 ارب) حصہ ریلیز کرچکی ہے، لیکن بحران وہیں کا وہیں ہے، بلکہ میڈیا اداروں میں مزید ڈائون سائزنگ ہونے جارہی ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ اس کی وجہ تلاش نہیں کی جارہی ہے، اور اخبار نویسوں کی تنظیمیں متحرک تو نظر آتی ہیں مگر عملی طور پر انتہائی غیر مؤثر ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ان کا کمزور تنظیمی ڈھانچہ ہے۔نہ ویج بورڈ کے مطابق طے شدہ اجرت مل سکتی ہے اور نہ عامل اخبار نویسوں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ عامل اخبار نویسوں کی تنظیموں میں اس وقت مایوسی کا عالم ہے، اسی لیے نظریاتی تفریق مٹا کر یکجا ہونے کی بات کی جاتی ہے، لیکن یہ بیل بھی منڈھے نہیں چڑھ رہی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے لیڈر اخبار نویسوں کے حقوق کے نام پر میڈیا مالکان کی پچ پر کھیل رہے ہیں۔ آج کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ پی ایف یو جیز کے بعد اب ملک میں ایک نئی ایپنک بنائی جارہی ہے، اس کا کردار بھی ایک پاکٹ یونین جیسا ہی ہوگا۔ حالیہ بحران میں کیا ہوا ہے؟ اخبارات کے ایڈیشن بند ہوئے ہیں، انہیں سینٹرلائزڈ کردیا گیا ہے اور سینکڑوں کارکن بے روزگار ہوچکے ہیں، لیکن پی ایف یو جیز اپنی بیلنس شیٹ سامنے رکھیں کہ وہ اب تک برطرف کیے جانے والے کتنے ملازمین کو بحال کرا سکی ہیں؟ اس تلخ ترین صورت حال پر تجزیہ یہی ہے کہ میڈیا مالکان نے کارکنوں کو اپنے مقاصد کے لیے بھرپور بھڑکایا، معاشی قتل کیا اور حکومتِ وقت کے خلاف مؤثر انداز سے استعمال کیا، یعنی ایک تیر سے کئی شکار کیے۔ حالانکہ غیر جانب دارانہ تجزیہ کرنے والے کارکن اور صحافی جانتے ہیں کہ میڈیا کا بحران موجودہ حکومت کا پیدا کردہ ہرگز نہیں ہے، لیکن میڈیا مالکان کی لائن پر چلنے والے مخصوص عناصر سوسائٹی اور کم فہم میڈیا ورکرز کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے ہیں کہ میڈیا کے بحران کی ذمہ دار موجودہ حکومت ہے۔ واجبات مل جانے کے بعد حکومت اور میڈیا مالکان کس طرح شیرو شکر ہوئے ہیں، مختصر وقت میں میڈیا مالکان کو حکومت نے اربوں روپے کے چیک جاری کردیے جبکہ کارکنوں کو کچھ بھی نہیں ملا۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کس اشاعتی و نشریاتی ادارے نے حکومت سے بھاری رقوم کے چیک لینے کے بعد کارکنوں کی تمام زیرالتوا تنخواہیں ادا کردیں؟ صورت حال جوں کی توں کیوں ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ کارکنوں کو مخصوص عناصر کے ذریعے حکومت اور خود ان کے مفادات کے خلاف استعمال کیا گیا اور فائدہ چند لوگوں نے اٹھایا۔
ایک نظر اُن اداروں پر جن کی آمدنی کا بڑا حصہ میڈیکل کالج ہیں۔ یہ ادارے کیوں کارکنوں کے مسائل نہیں سمجھ رہے؟ اس کی بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ میڈیا میں اس لیے آئے کہ ان کی دیگر اداروں میں سرمایہ کاری بڑھتی رہے اور محفوظ بھی رہے، اور حکومتِ وقت کے ساتھ بہترین ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہوجائے۔ اسی لیے ایسے اداروں سے ایک ٹیلی فون کال پر ملازمین برطرف کردیے جاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک ادارے میں ایسا ہوچکا ہے۔ یہ ادارہ پاکستان کے بعد اب بیرونِ ملک میڈیکل کالجز قائم کررہا ہے مگر بڑے پیمانے پر اپنے ادارے سے ملازمین کو نکالنے کی تیاری بھی ہورہی ہے۔ یہ کیسا اتفاق ہے کہ یہ ادارے بحران کا شکار ہیں اور ٹی وی چینلز کے لیے لائسنس بھی لے رہے ہیں۔ متعدد اخبارات میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ اخبار کو بارہ اور سولہ صفحات کے بجائے چار صفحات تک لایا جائے گا اور پھر اسے ای اخبار کی سمت لے جایا جائے۔ نہیں معلوم کہ ان دنوں ان کا مشیرِ خاص کون ہے؟ لیکن انہیں شاید یہ بتانے والا کوئی نہیں کہ میڈیا میں جب کوئی ادارہ ملازمین کو نکالنے لگے تو اس کی اہمیت ختم ہونے لگتی ہے۔ کئی ادارے دوبارہ کبھی اپنی پہلی پوزیشن پر نہیں آ پاتے۔
یہ بات طے ہے کہ اب میڈیا کو بہتر کرنے کے لیے ہمیں میڈیا انڈسٹری میں نوجوانوں کی ایک پوری کھیپ تیار کرنی ہوگی، ایسے لوگ جو زمانے کے مزاج اور ریٹنگ کے بدلتے رجحانات کو سمجھ سکیں، جو حوصلہ مند ہوں، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال جانتے ہوں اور اسمارٹ کمیونی کیشن کو اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہوں۔ میڈیا کا کھیل اب چار الفاظ لکھنے یا بولنے کا کھیل اور فن نہیں رہا، اب بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنا ہوگا۔ آپ نہ مارکیٹنگ کو نظرانداز کرسکتے ہیں، نہ ای میڈیا کی اہمیت کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے، اور نہ ہی پرانے آئیڈیاز کو نئی مارکیٹ میں بیچا جاسکتا ہے۔ صحافت کا سفر جرنلزم سے ہوتا ہوا ماس کمیونی کیشن سے آگے چلا گیا ہے، اور صحافی کا سفر جرنلسٹ کی حدوں کو پار کرکے کمیونی کیٹر تک پہنچ چکا ہے۔ بدقسمتی سے اب مارکیٹ جن نئے پہلوؤں کا تقاضا کررہی ہے ابھی تک اس جانب توجہ نہیں دی جارہی، جس کی وجہ سے حالات بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ اب نئے لوگوں کو نئے انداز سے تربیت دینے کی ضرورت ہے، اور یہ کام صحافتی ادارے خود کو اپ ڈیٹ کیے بنا نہیں کرسکتے۔ جدید تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کرنے کے لیے ایڈیٹوریل بورڈ کو مضبوط اور وقت کے لحاظ سے اپ ڈیٹ کرنا ہوگا۔