نئے اور پرانے قبائلی نظام کی بحث

قبائلی اضلاع میں صوبائی انتخابات کے التواء کا خدشہ

وزیراعظم عمران خان نے پچھلے دنوں گورنرہائوس پشاور میں ایک قبائلی جرگے سے خطاب میں کہا ہے کہ قبائلی اضلاع میں نیا نظام لایا جارہا ہے جو قبائلی عوام کے رہن سہن، روایات اور رواج سے متصادم نہیں ہوگا، نئے نظام میں قبائلی علاقوں میں جرگہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی اور عوام کی مشاورت سے مسائل حل کیے جائیں گے، کوشش ہے کہ نئے نظام سے قبائلی روایات اور طرزِ زندگی زیادہ متاثر نہ ہو، نیا اور پرانا قبائلی نظام ایک ساتھ چلے گا۔ عمران خان کا کہنا تھاکہ قبائلی اضلاع میں پرانا جرگہ سسٹم فعال بنائیں گے تاکہ لوگوں کو فوری اور سستا انصاف ملے، ہماری پہلی ترجیح نئے اضلاع کی ترقی ہے۔ قبائلی علاقوں میں مشران اورعمائدین کی وجہ سے امن برقرار رہا، قبائلیوں کے مسائل قبائلی عوام کی مشاورت سے ہی حل ہوں گے۔
وزیراعظم کی لَے میں لَے ملاتے ہوئے گورنر خیبر پختون خوا شاہ فرمان کا بھی کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں ترقیاتی اقدامات سمیت تمام امور میں قبائلی مشران و عوام کی مشاورت یقینی بنائی جائے گی،گورنر خیبر پختون خوا کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی جنگ اور امن و امان کے قیام میں قبائلی عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں، ہر قسم کی صورتِ حال میں قبائلی مشران نے دانش مندی سے اپنا کردار نبھایا ہے اور قبائلی مشران کی بدولت امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ گورنر خیبر پخون خوا کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان واحد وزیراعظم ہیں جو قبائلی علاقوں پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں اور ان کی پوری کوشش ہے کہ قبائلی علاقے جلد از جلد ملک کے ترقی یافتہ علاقوں کی فہرست میں شامل ہوجائیں۔ گورنر خیبر پختون خوا نے قبائلی عمائدین کی جانب سے قبائلی اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن اور ناانصافی کی شکایات کو وزیراعظم کے نوٹس میں لانے اور ان شکایات کے ازالے کی یقین دہانی بھی کرائی۔
قبائلی عوام کے ساتھ ماضی کے حکمرانوں کی طرح موجودہ نااہل حکمران کتنے مخلص ہیں اس کا اندازہ وزیراعظم عمران خان کے ان ارشاداتِ عالیہ سے ہوتا ہے جن میں وہ کبھی انضمام کے عمل کو مکمل کرکے قبائلی اضلاع کو دیگر ترقی یافتہ اضلاع کے برابر لانے کی خوش خبریاں دن رات سناتے نہیں تھکتے، اور اب وہ ایک بار پھر اپنا روایتی یوٹرن لیتے ہوئے انضمام کے ایک سال بعد قبائل کو نئے نظام کے ساتھ ساتھ پرانے نظام کے تسلسل اور اس فرسودہ نظام کو جاری رکھنے کا سندیسہ دے رہے ہیں۔ ان سے بھی بڑھ کر حیرت گورنر خیبرپختون خوا شاہ فرمان کے ان فرامین پر ہوتی ہے جن میں وہ وزیراعظم کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے نہ صرف پرانے روایتی قبائلی نظام جسے جرگہ سسٹم کے خوشنما الفاظ کے تڑکے کے ساتھ قبائل بالخصوص پرانے فرسودہ نظام کے دلدادہ افراد پر نئے لیبل کے ساتھ بیچنے کی کوشش کی جا رہی ہے، بلکہ منتخب ارکان پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی میں ملنے والی متوقع نمائندگی کے بجائے غیر منتخب بااثرسابق ملکان اور سفید ریش حضرات کو چور دروازے سے نوازنے کی باتیں کی جارہی ہیں جس سے عمومی تاثر یہی ابھر کر آرہا ہے کہ موجودہ حکمران نہ تو انضمام کے عمل کی تکمیل میں سنجیدہ ہیں اور نہ ہی انہیں قبائل کی ترقی اور ان کے احساسِ محرومی کے خاتمے سے کوئی دلچسپی ہے۔ حیرت گورنر شاہ فرمان کے اس بیان پر بھی ہے جس میں انہوں نے قبائلی علاقوں میں کرپشن کی شکایات پر کوئی ایکشن لینے کے بجائے ان شکایات کو وزیراعظم کے نوٹس میں لانے کا لولی پاپ دے کر ان کرپشن اسکینڈلز کی نشاندہی کرنے والوں کے منہ بندکرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
افسوس اس بات پر ہے کہ گورنر کا کرپشن کی بیخ کنی کے حوالے سے متذکرہ بیان ایک ایسے موقع پر آیا ہے جب ابھی چند دن قبل ہی ذرائع ابلاغ میں یہ اطلاعات رپورٹ ہوچکی ہیں کہ پشاور اور سابقہ خیبر ایجنسی کے سنگم پر واقع باڑہ شیخان کا نوتعمیر شدہ پل کرپشن کی نذر ہوکر ناکارہ ہونے کے بعد انگریز دور کا زائدالمیعاد پل افغانستان اور دیگر علاقوں کو جانے والی بھاری گاڑیوں کے لیے دوبارہ استعمال کیا جانے لگا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ1990ء میں ایک انگریز نے اس پل کا دورہ کیا تھا، ریکارڈ میں جب اس کی میعاد چیک کی گئی تو انہوں نے اس پل کو ناکارہ قرار دیا تھا۔ دوسری جانب متنی جمرود شاہراہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شاہراہ بین الاقوامی طرز پر تعمیر کی گئی ہے، تاہم ناقص میٹریل کے استعمال سے بھاری گاڑیوں کا بوجھ برداشت نہیں کرسکی ہے، جس کے باعث کم ہی عرصے میں یہ شاہراہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ متنی جمرود تعمیر ہونے والی شاہراہ کے بارے میں باڑہ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر حاجی مومن آفریدی نے سینیٹ میں تحریک التوا بھی پیش کی تھی جس پر کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، لیکن کمیٹی کی رپورٹ تاحال پیش نہیں ہوسکی ہے، اور یہ معاملہ جوں کا توں لٹک رہا ہے۔
دریں اثناء معلوم ہوا ہے کہ خیبر پختون خوا کی حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ایک خط لکھا ہے جس میں سیکورٹی خدشات کے باعث قبائلی اضلاع میں 2 جولائی کو ہونے والے انتخابات 20 دن تک ملتوی کرنے کی درخواست کی گئی ہے، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ موجودہ حکومت قبائلی علاقوں میں اصلاحات اور ان علاقوں کو صوبائی اسمبلی اور صوبائی حکومت میں حصہ دینے میں کتنی مخلص اور سنجیدہ ہے۔ اس متذکرہ مکتوب کے بارے میں الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے تاحال انہیں ایسی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے، تاہم خیبر پختون خوا حکومت کے ترجمان اور صوبائی وزیر اطلاعات شوکت علی یوسف زئی نے ضم شدہ اضلاع میں انتخابات ملتوی کرانے کے ضمن میں الیکشن کمیشن کو لکھے جانے والے خط کی تصدیق کی ہے۔
محکمہ داخلہ و قبائلی امور خیبر پختون خوا کی طرف سے 3 جون کو لکھے گئے اس خط میں کہا گیا ہے کہ نئے ضم شدہ اضلاع میں انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے خطرات موجود ہیں اور سرحد پار افغانستان سے بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کو رد نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا ایسی صورت حال میں ضم شدہ اضلاع میں پُرامن انتخابات ممکن نہیں ہیں۔ اس خط میں انتخابات ملتوی کرانے کی پانچ وجوہات بتائی گئی ہیں۔ ان میں سرحد پار سے دہشت گردی کے خطرات، سیاسی رہنماؤں کو ممکنہ طور پر حملوں میں نشانہ بنانا، شمالی وزیرستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ، ضم شدہ اضلاع کی لیوی فورس کا غیر تربیت یافتہ ہونا اور ان کی کمانڈ ڈپٹی کمشنرز سے ضلعی پولیس افسروں کو دینے کے عمل کے ساتھ ساتھ انضمام کے عمل میں پیچیدگیاں شامل ہیں۔ خط میں درخواست کی گئی ہے کہ مذکورہ وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضم شدہ اضلاع میں انتخابات کو فوری طور پر 20 دنوں کے لیے ملتوی کیا جائے تاکہ وہاں پُرامن انتخابات کے انعقاد کے لیے فول پروف انتظامات کیے جا سکیں۔ صوبائی حکومت کی طرف سے جو خط لکھا گیا ہے اس میں سیکورٹی خدشات کو انتخابات کے التواء کی بڑی وجہ قرار دیاگیا ہے، حالانکہ زمینی حقائق اس سے بالکل مختلف نظر آتے ہیں، کیونکہ 2013ء اور2018ء کے عام انتخابات جن بدترین حالات میں ہوئے تھے ان کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ حالات حد درجہ بہتر ہیں، حقیقت یہ ہے کہ شمالی وزیرستان کے سوا باقی کسی قبائلی ضلع میں ایسے حالات نہیں ہیں کہ وہاں الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی جواز بن سکے، تاہم یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ گزشتہ ماہ پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کی طرف سے ضم شدہ اضلاع میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے لیے ایک آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی سے اتفاقِ رائے سے منظور ی کے بعد مزید کارروائی کے لیے ایوانِ بالا بھیجا جاچکا ہے جس کے بارے میںماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ بل ایوانِ بالا سے منظورہو جاتا ہے تو اس صورت میں ضم شدہ اضلاع میں نئے سرے سے حلقہ بندیاں کی جائیں گی اور ایسی صورت میں وہاں صوبائی اسمبلی کے انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں۔ تاہم ابھی تک یہ بل چونکہ ایوانِ بالا میں ایجنڈے پر نہیں آیا ہے، لہٰذا الیکشن کمیشن موجودہ 16 حلقوں پر ہی طے شدہ شیڈول کے مطابق 2جولائی کو الیکشن کرانے کا پابندہے، لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے امن وامان کوجواز بناکر ان انتخابات کے التواء کی جودرخواست سامنے آئی ہے اس نے ایک بار پھر قبائلی اضلاع کے انضمام کے ساتھ ساتھ یہاں تاریخ میں پہلی دفعہ ہونے والے صوبائی ا سمبلی کے انتخابات کو شکوک وشبہات کاشکاربنا کر قبائلی عوام کی امیدوں پر پانی پھیردیا ہے۔