لیویز فورس کے پولیس میں ادغام کے نوٹیفکیشن کی سیاسی جماعتوںکی جانب سے مخالفت
بلوچستان کابینہ نے2 مئی 2019ء کو کوئٹہ کے لیے اسپیشل سیکورٹی ڈویژن کے قیام کی منظوری دی ہے۔ اس کا مقصد شہر کے حفاظتی اقدامات کو مزید مؤثر بنانا ہے۔ چناں چہ اس مقصد کی خاطر ایس پی رینک سے سپاہی رینک تک کی 1305اسامیاں تخلیق کی جائیں گی۔ سیکورٹی ڈویژن کو جدید تربیت، اسلحہ، مواصلاتی نظام اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے گا۔ اسی اجلاس میں کابینہ نے لسبیلہ، گوادر اور کوئٹہ کے اضلاع کو مکمل طور پر بی سے اے ایریا میں تبدیل کرنے کی منظوری بھی دی۔ یعنی ان اضلاع میں لیویز فورس مکمل طور پر پولیس نظام میں مدغم ہوجائے گی۔ وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ لیویز فورس کے امور کی بہتری اور استعدادِ کار میں اضافے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، اور بی ایریا میں امن و امان کے قیام کو ترجیح حاصل نہیں رہی ہے۔ لہٰذا پولیس سمیت لیویز فورس کی آپریشنل استعداد میں اضافے کے منصوبوں اور ضروریات کو آئندہ کی پی ایس ڈی پی میں شامل کرلیا جائے گا۔ انہوں نے لیویز فورس کے کوئیک رسپانس شعبے کی تشکیل کی ہدایت بھی کی۔
پرویزمشرف کے دورِ آمریت میں بلوچستان کے اندر بی ایریا کو اے ایریا میں ضم کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ اس پر عمل درآمد کا آغاز بھی کردیا گیا۔ صوبے کے اندر تھانوں کے لیے نئی عمارتیں تعمیر کی گئیں، چناں چہ اس اقدام کے خلاف صوبے کے اندر مخالفانہ سیاسی آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔ صوبائی کابینہ کے حالیہ فیصلے کے بعد ایک بار پھر بلوچستان اسمبلی میں حزبِ اختلاف بلکہ صوبائی حکومت کی اتحادی عوامی نیشنل پارٹی سمیت صوبے کی کئی سیاسی جماعتوں نے اس اقدام کی مخالفت کی ہے۔ پیش ازیں عوامی نیشنل پارٹی اسمبلی میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم نہ کرنے کی قرارداد پیش کرچکی ہے۔ قرارداد لانے والوں میں اپوزیشن کی بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ملک نصیر شاہوانی بھی شامل تھے۔ قرارداد اسمبلی سے منظور ہوچکی ہے، گویا اسمبلی میں حزبِ اختلاف نے صوبائی کابینہ کے حالیہ فیصلے سے شدید اختلاف کیا ہے۔ حزبِ اختلاف جمعیت علمائے اسلام (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی پر مشتمل ہے۔ ناقد جماعتیں کہتی ہیں کہ آمر جنرل پرویزمشرف نے 2003ء میں لیویز فورس کے خاتمے اور مختلف اضلاع میں رد و بدل کا فیصلہ کیا جس کے بعد صوبے کی تمام سیاسی و جمہوری جماعتوں نے یک آواز ہوکر احتجاج کیا اور تحریک کا آغاز کردیا، جس کے بعد حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا اور لیویز فورس پھر سے بحال ہوگئی۔2010ء میں لیویز ایکٹ صوبائی اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا، اس ایکٹ کے بعد اب حکومت کسی نوٹیفکیشن یا ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے لیویز فورس کو ختم نہیں کرسکتی۔ لیویز فورس کی کارکردگی پولیس سے حد درجہ بہتر ہے، لیویز صوبے کے90 فیصد رقبے کو کنٹرول کرتی ہے جبکہ پولیس محض 10فیصد رقبے کی سیکورٹی پر مامور ہے۔ پولیس فورسز پر سالانہ کم و بیش25 ارب روپے خرچ کیے جارہے ہیں جبکہ لیویز کا بجٹ محض 10ارب روپے ہے۔ پولیس کا ایک سپاہی0.86کلومیٹر کو کنٹرول کرتا ہے، جبکہ لیویز کا ایک سپاہی13کلومیٹر کے کنٹرول پر مامور ہے۔ اس کے باوجود جرائم کا تناسب پولیس کی نسبت لیویز کی عمل داری والے علاقوں میں کم ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ سابقہ حکومت نے لیویز فورس کی بحالی، استعداد اور تربیت بڑھانے کے لیے بنیادی اقدامات اٹھائے جس میں کوئٹہ میں لیویز ڈائریکٹریٹ کی عمارت کی تعمیر بھی شامل ہے جہاں لیویز کے تمام افسران کے دفاتر موجود ہیں۔ کوئٹہ اور خضدار میں وسیع علاقے پر لیویز ٹریننگ سینٹر تعمیر ہوئے۔ خضدار سینٹر سے تین ہزار اہلکار تربیت لے چکے ہیں۔ لیویز فورس میں کوئیک رسپانس فورس بنائی گئی جس کے پانچ سو اہلکاروں نے کمانڈو تربیت مکمل کی ہے۔ لیویز انٹیلی جنس اور انویسٹی گیشن کے ادارے بنائے گئے۔ لیویز ہیڈکوارٹر میں آئی ٹی سیکشن فعال ہے اور ساتھ لوکیٹر سسٹم بھی موجود ہے۔ صوبائی حکومت کی اتحادی عوامی نیشنل پارٹی نے محض مخالفت پر بس نہیں کیا ہے بلکہ انضمام کو روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ پارٹی کے صوبائی سیکریٹری جنرل مابت کاکا نے 20 مئی 2019ء کو ان اضلاع کی لیویز فورس کے پولیس میں ادغام سے متعلق محکمہ داخلہ و قبائلی امور کی جانب سے جاری کیا گیا نو ٹیفکیشن بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔آئینی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ نوٹیفکیشن لیویز فورس ایکٹ 2010سے متصادم ہے،اور صوبائی اسمبلی سے ترمیم کیے بغیر انضمام کا یہ نو ٹیفکیشن غیر قانونی ہے۔آئینی درخواست میں نو ٹیفکیشن کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ گویا حکومت کے لیے بی ایریا کو اے ایریا میں تبدیل کرنے کے اقدامات آسان نہ ہوں گے۔لہٰذا اس مسئلے پرمزید پیش رفت سے قبل پوری طرح افہام و تفہیم پیدا کیا جائے۔