اخلاقیات سوائے مذہب کہیں میسر نہیں۔ مذہب سوائے ’اسلام‘ کوئی کامل نہیں
مارک مینسن…ترجمہ وتلخیص مع حواشی: ناصر فاروق
سوچو، اگر میں تمہارے چہرے پر ایک مُکا ماروں! کوئی وجہ نہ ہو۔ کوئی جواز نہ ہو۔ بس یوں ہی تشدد کی خاطر! تم شاید بدلہ لو، شاید یہ بدلہ جسمانی ہو: تم پلٹ کرگھونسا مارو۔ ہوسکتا ہے یہ بدلہ زبانی ہو: تم شاید چار باتیں سنادو۔ یا شاید تمہارا ردعمل سوشل قسم کا ہو: پولیس بلاؤ اورمجھے سزا دلواؤ۔ غرض جو بدلہ بھی تم لو، تم میرے لیے منفی جذبہ ظاہر کرو گے۔ بہرحال میری یہ بلا جواز حرکت ہمارے درمیان ناانصافی کا تاثر پیدا کردے گی۔ ظاہر ہے میں ایک بُرے فرد کے طور پر سامنے آؤں گا۔ اچھے بُرے کی ایک تفریق سی واضح ہوجائے گی: یہ تاثرکہ ہم میں سے ایک اپنی سرشت میں نیک اور دوسرا بد ہے۔
میری حرکت سے جو تکلیف ہوئی، اُس نے اچھے بُرے کا فرق واضح کیا۔ اور یہ محض انسانوں کے درمیان ہی پیش نہیں آتا۔ اگر ایک کتا بھی تمہیں کاٹ لے، تم بدلہ لوگے۔ اگر تمہارے جوتے کی نوک کافی کی میز سے ٹکرا جائے، تم کیا کروگے؟ میز کو بُرا بھلا کہوگے! اگر تمہارا مکان سیلاب میں بہہ جائے، تو تمہیں گہرا دُکھ ہوگا، زندگی سے شکایتیں ہوں گی! یہ سب اخلاقی حالت کے مختلف مظاہر ہیں۔ یہ کچھ اس طرح کا احساس ہے کہ جیسے کچھ غلط ہوگیا ہے۔ جہاں کہیں دکھ درد ہوگا، وہاں ہمیشہ احساسِ کمتری یا احساسِ برتری ہوگا۔ سختی، تکلیف، اور آزمائش سے فرار ممکن نہیں(1)۔
جب کبھی ہمارا اخلاقی اونچ نیچ سے واسطہ پڑتا ہے، احساس ابھرتا ہے کہ یہ اونچ نیچ نہیں ہونی چاہیے: اس درد کا درماں ہونا چاہیے، اس تکلیف کی تلافی ہونی چاہیے۔ یقینا تمہارے ساتھ زیادتی ہوئی، اور تم ہرگز اس کے مستحق نہ تھے۔ اس لیے اب تم اپنے استحقاق کے لیے کچھ نہ کچھ کروگے، ورنہ دل گرفتہ اور افسردہ رہوگے!
استحقاق کا یہ احساس ہی ’عزتِ نفس‘ کی قدر پیدا کرتا ہے۔ ہم فیصلہ کرتے ہیں یہ نہیں وہ بہتر ہے۔ ایک شخص اچھا اور دوسرا بُرا ہے۔ ایک واقعہ زیادہ پُرکشش ہے، دوسرا واقعہ بے مزا لگتا ہے۔ یہ خیر و شر کا ہی فرق ہے جہاں انسانی اقدار جنم لیتی ہیں۔
اب فرض کرتے ہیں میں تم سے ’گھونسا مارنے‘ پرمعافی مانگتا ہوں۔ میں کہتا ہوں ’جو میں نے کیا وہ بالکل غلط تھا اور مجھے پچھتاوا ہے۔ میں چاہتا ہوں تمہیں کیک بناکر کھلاؤں یا کچھ پیسے وغیرہ دے کرتلافی کروں‘۔ چلو فرض کرتے ہیں کہ میری تلافی سے تمہیں کچھ اطمینان ہوجائے۔ تم نے میری معافی قبول کرلی، اور اپنا دل بالکل صاف کرلیا۔ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ اب ہم ایک اخلاقی سطح پر آگئے۔ اچھے بُرے کا جو فرق آیا تھا وہ مٹ گیا۔ میں نے یہ مشکل حل کردی۔ اب ہم میں سے کوئی بہتر، کوئی بدترنہیں۔ اب ہم برابرہیں۔ مساوات کی یہ صورت ’امید‘ (ایمان) بحال کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمہاری فطرت خراب نہیں، اور اس دنیا کے ساتھ بھی کوئی اخلاقی مسئلہ نہیں۔ تم عجز، سو ڈالر، اور ایک محبت بھرے کیک کے ساتھ خوشگوار دن گزارسکتے ہو(2)۔
اب ایک اور منظرکی جانب چلتے ہیں۔ میں تمہیں مُکا نہیں مارتا، بلکہ تمہیں ایک مکان خریدکرتحفہ کرنے کی پیشکش کرتا ہوں۔ ہاں بالکل! میں تمہارے لیے ایک گھر خرید لیتا ہوں۔ یہاں بھی ایک احساسِ کمتری اور احساسِ برتری کا پہلو نکل آئے گا۔ ایک جانب محسن ہوگا دوسری جانب ممنون ہوگا۔ مگر یہاں بھی تم مجھ سے اخلاقی برابری کی سعی کروگے۔ شاید بہت زیادہ شکرگزار ہوگے، گلے لگالوگے، دعائیں دو گے، کوئی تحفہ دو گے، یا کوئی دوسری صورت ڈھونڈوگے تاکہ بارِ احسان کا احساس کچھ کم ہوجائے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ تم خودداری کا مظاہرہ کرو۔ شکریہ کے ساتھ میری پیشکش مسترد کردو، کیونکہ تمہیں بخوبی اندازہ ہوگا کہ یہ بارِ احسان نہیں اتارا جاسکتا۔ تاہم یہ واضح ہے کہ اچھے یا بُرے کی نسبت محسن اور ممنون کا فرق مثبت نوعیت کا ہوگا۔ تمہارے اندر شکرگزاری کے بھرپور جذبات پیدا ہوں۔ شاید تمہاری آنکھوں سے خوشی کے آنسو بھی چھلک جائیں۔
یہ ہماری نفسیات کی فطرت ہے کہ احساسِ برتری یا احساسِ کمتری کی ہر صورت ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثبت کی کمی مثبت اور منفی کی منفی سے دور کرتے ہیں۔ یہ سارا عمل ہمارے احساسات کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہر عمل مناسب ردعمل یا مخالف ردعمل کی صورت سامنے لاتا ہے۔
ہمارے احساسات اسی حساب کتاب سے دنیا کو برتتے ہیں۔ اگر کوئی مووی لطف سے زیادہ تکلیف دے تو تم بیزار ہوجاؤگے۔ اگر تمہاری ماں سالگرہ منانا بھول جائے تو شاید تم چھ ماہ تک اُسے نظر انداز کرو، اور اگر سمجھدار ہوتو اُسے اپنے دکھ سے آگاہ کردوگے۔ اگر تمہاری قوم کسی احمق کا انتخاب کرلے تو شاید تم اپنے لوگوں، حکومت، اور رائے دہندگان سے خفا ہوجاؤ گے۔ ہر تجربے میں اچھے بُرے کا یہ عدم توازن موجود ہوتا ہے۔ افسردگی کا احساس لاچاری سے پیدا ہوتا ہے، لاچاری کسی ایسی کمی یا نقصان پر، جس کا ازالہ قوت سے باہر ہو۔ غصہ اس کمی کو طاقت یاجارحیت کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خوشی کا احساس تکلیف سے نجات میں ہے، جبکہ پچھتاوا یہ ہے کہ تمہیں وہ تکلیف کبھی نہیں پہنچی جس کے تم سزاوار تھے۔
نقصان کی تلافی کی یہ خواہش ہی دراصل ’انصاف کا احساس‘ ہے۔ یہی مختلف تاریخی ادوار میں بطور اصول قوانین میں شامل کیا گیا۔ جیسے بابلی بادشاہ حمورابی کا کلاسیکی قانون ’’آنکھ کے بدلے آنکھ، اور دانت کے بدلے دانت‘‘ (3) یا کتابِ مقدس کا سنہرا اصول ’’دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو‘‘، اور جیسے کھیل میں ’’جیسے کو تیسا‘‘ کی پالیسی ہے۔ انصاف کی یہی روح ہمارے احساسات میں کارفرما ہے۔ آزمائشوں سے گزرکر ہی ہمارے احساسات اعلیٰ اقدار کشید کرتے ہیں۔ یہ مشاہدے اور منطق سے پیدا نہیں ہوتیں۔ لہٰذا اعلیٰ اقدار کے لیے آزمائشیں ناگزیر ہیں(4)۔
اسے یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہماری حسیات واقعات کے اسباب اور نتائج میں حساب کتاب سے ربط پیدا کرتی ہیں، جبکہ احساسات اچھے بُرے یا خیروشر کے مراتب واضح کرتے ہیں۔ حسیات چیزوں میں تعلق تلاش کرتی ہیں جبکہ احساسات چیزوں میں بہتر اور بدتر کی نوعیت سامنے لاتے ہیں۔ حسیات واضح کرتی ہیں کہ چیزیں کس طرح ہیں، جبکہ احساسات بتاتے ہیں کہ چیزوں کو کس طرح ہونا چاہیے(5)۔
جب ہم تجربات سے گزرتے ہیں، ہمارے احساسات اچھی بری اقدار مرتب کرتے ہیں، یہ ہمارے تحت الشعور میں کتابوں کی الماری کی مانند ہیں جہاں اہم ترین تجربات (انسانوں سے تعلقات وغیرہ، حقوق اللہ) سب سے اوپر والی قطار میں آراستہ ہوتے ہیں جبکہ غیر اہم تجربات (ٹیکس، موت، اور بدہضمی وغیرہ) سب سے نچلی رومیں ہوتے ہیں۔ ہمارے احساسات فیصلہ سازی کے لیے بالائی شیلف کے تجربات کوکام میں لاتے ہیں۔ اس طرح اقدار کی درجہ بندی ہوتی ہے۔ میں اپنی ایک دوست کی مثال دیتا ہوں۔ وہ پارٹی کی بہت شوقین تھی، رات رات بھر سرور و سرود کی محفلیں جمتی تھیں، پھر وہ صبح کام پر چلی جاتی تھی، اور پھر آکر سوتی تھی۔ ایک دن وہ دوستوں کے ساتھ بیرون ملک (تیسری دنیا میں) رضاکارانہ مشن پر گئی، یتیم بچوں کی مدد کرتی رہی، اور پھر سب کچھ یکایک بدل گیا۔ اُس کی اقدار بدل گئیں۔ پارٹیاں بے مزا ہوگئیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ اب اس کی اعلیٰ قدر ضرورت مند بچوں کی مدد بن چکی تھی۔ وہ راتوں کو سکون کی نیند سونے لگی۔ مے نوشی اور منشیات سے نجات حاصل کرلی۔ اُس کے پارٹی دوستوں نے یہ دیکھا تو بڑی ملامت کی اور اپنی اقدار کے تناظر میں اُسے بڑا محروم خیال کیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ محروم نہیں، اُس نے کچھ نہیں کھویا بلکہ نئی اور اعلیٰ اقدار کے تجربوں سے آشکار ہوگئی۔ کسی بھی شے کی اچھائی یا بُرائی قدر سے برآمد ہوتی ہے۔ جیسی آپ کی اقدار ہوں گی ویسی ہی چیزیں آپ کے تجربات میں آئیں گی۔ اقدار بدلنے سے کوئی احساسِ زیاں نہ ہوگا، الٹا آپ تعجب کریں گے کہ کس قدر حماقتوں، جہالتوں میں ماضی برباد کیا۔ اس قسم کا تاسف اور شرمندگی اچھی بات ہے۔ یہ آپ کی عمدہ نشوونما کرتے ہیں۔ یہ ہمیں ہماری امیدوں کے حصول سے قریب تر کرتے ہیں۔
’گھونسے‘ والی مثال کی جانب لوٹتے ہیں۔ اگر تمہیں مُکا مارا جائے اور تم اس کا بدلہ نہ لے سکو، تم میں اتنی طاقت ہی نہ ہو کہ انتقام لے سکو۔ پھر کیا ہوگا؟ تم دھیرے دھیرے بے بسی اور لاچاری کی یہ صورتِ حال قبول کرلوگے، اور اسے ہی اپنی قدر بنالو گے کہ ’ٹھیک ہے میں اس مُکے کا مستحق ہوں۔ اگر میں اس کا مستحق نہ ہوتا تو پھر بدلہ لینے کا اہل ہوتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجھ میں ہی کوئی ایسی کمی ہے جس نے مجھے اس کمتری میں مبتلا کیا ہے، جبکہ مارنے والا یقینا برتر ہے۔‘ یہ ردعمل ہمارے احساسات کا ہی دوسرا انتخاب ہے۔ جب بدلے کی کوئی صورت ہم سے نہیں بنتی، یا ناممکن ہوتی ہے تو ہم ہتھیار ڈال دیتے ہیں، شکست تسلیم کرلیتے ہیں، اور اسے کمتر قدر کے طورپر اختیار کرلیتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ہم خود ملامتی سے ہوجاتے ہیں اور طاقت ور ہی کو برحق مان لیتے ہیں۔ اس صورت حال کو اگر دوسری جانب سے لیا جائے، تو ہم طاقت ور ہونے کی صورت میں برتر یا بالاتر ہونے کی قدر وضع کرلیتے ہیں، اور اپنی اہمیت پر مبالغہ آرائی کی کئی موٹی پرتیں چڑھا دیتے ہیں۔ یہ دونوں رویّے کھوٹے سکے کے دو رُخ ہیں۔ احساسِ برتری اور احساسِ کمتری دونوں تباہ کن ہیں۔ دنیا کی بہتری کی فکر ناگزیر ہے، یہی ہمیں ’امید‘ تک لے جاسکتی ہے۔ احساسِ برتری اور احساسِ کمتری سب کے لیے یکساں مہلک ہیں(6)۔
نیا تجربہ نئی شناخت؟
ہماری اقدار ہمارے احساسات کا مجموعہ نہیں بلکہ باقاعدہ کہانیاں ہیں۔ جب ہمیں کسی چیز کا احساس ہوتا ہے، تو ہماری حسیات اس چیز کی وضاحت میں پورا بیانیہ گھڑ لیتی ہیں۔ جب تمہیں نوکری سے نکال دیا جاتا ہے، تو تم اس واقعہ کے اردگرد اپنا بیانیہ وضع کرلیتے ہو: کہ گھٹیا باس نے برسوں کی وفاداری کا یہ صلہ دیا کہ کھڑے کھڑے نکال دیا! ہم ان بیانیوں کے ذریعے اپنی وضاحت کرتے ہیں۔ ہم ان کا تبادلہ کرتے ہیں، اور جن سے ہمارے بیانیے ملتے ہیں اُن سے تعلقات استوار کرتے ہیں، ہم ان لوگوں کو دوست، اتحادی، اور اچھا خیال کرتے ہیں۔ جن سے ہمارے بیانیے ٹکراتے ہیں انہیں بُرا جانتے ہیں۔ ہر کتاب، قصہ، اور تاریخ ان ہی اقداری بیانیوں سے متصف ہوتے ہیں۔ ان بیانیوں کا مجموعی ربط ہی ہماری شناخت ہے۔ یہ ہمارے ہر اظہار میں نظر آتا ہے، خواہ وہ فیس بُک کا ذاتی صفحہ ہی کیوں نہ ہو۔ تم اس شناخت کا دفاع اس طور کرتے ہو جیسے یہ تمہاری سرشت میں ہمیشہ سے موجود ہو۔ ہماری یہ شناختیں زندگی بھر ساتھ ساتھ گردش کرتی ہیں اور نئی نئی اقدار اور معنی سمیٹتی چلی جاتی ہیں۔ ماہرینِ نفسیات یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے مگر اتنا واضح ہے کہ بچپن کا کوئی صدمہ شخصیت پرگہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ بچپن کے اچھے برے تجربات زندگی بھر ہماری شناختوں پر اپنے آثار ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ بچپن میں بننے والی اچھی بری قدریں زندگی بھر domino effectمرتب کرتی رہتی ہیں۔
جب ہم جوان ہوتے ہیں، ہماری شناختیں کمزور ہوتی ہیں، تجربہ کم ہوتا ہے، ہمیں اپنے سرپرستوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، اور وہ سب گڑبڑ کردیتے ہیں۔ باپ چھوڑکر چلا جاتا ہے۔ تمہارے تین سالہ احساسات پہلا نتیجہ یہ اخذ کرتے ہیں کہ تم محبت وشفقت کے قابل ہی نہ تھے۔ ماں بھی تمہیں کسی نئے امیر شوہرکے چکر میں چھوڑ جاتی ہے۔ تم اس نتیجے پر پہنچتے ہو کہ کسی رشتے میں کوئی محبت نہیں، کوئی رشتہ قابلِ بھروسا نہیں۔ یہ احساسات ہمارے خیالات کا ایسا دردناک پس منظر بن جاتے ہیں، جو ہمیشہ ذہن پر نقش رہتا ہے(7)۔ اس صورت حال کو بدلنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ نئے تجربات سے واسطہ پڑے، ایسے تجربات سے جو نئی متبادل اقدار سے آشکار کریں۔ ان نئی اقدار کو اپنانا بغیر آزمائش اور تکلیف کے ممکن نہیں، اس تکلیف سے گزرنا ہوگا، مگر یہ مفید ہوگا، اس کے بغیر کامیابی اور تسکین نہیں ملے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ بغیر آزمائش کچھ حاصل نہیں ہوتا، (بے شک، عسر کے ساتھ ہی یسر ہے۔ مترجم) کچھ نیا بننے کے لیے پرانے کی جدائی کا کرب اٹھانا پڑتا ہے۔ جب ہم اپنے گزشتہ بیانیے اور اقدار ترک کرتے ہیں تو اپنی ذات کا کچھ حصہ چھوڑنا پڑتا ہے۔
اقدار کی کشش ثقل
ہماری اقدار جذباتی کشش ثقل کی حامل ہیں: ہم اُنہیں اپنے مدار میں کھینچ لیتے ہیں جو ہماری اقدار سے اتفاق کرتے ہیں۔ جبکہ اُنہیں ہم دور دھکیلتے ہیں، جن کی اقدار سے ہم اتفاق نہیں کرتے۔ یہ کششیں ہمارے مدار بناتی ہیں۔ یہ مدار ایک دوسرے کے تناسب پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ جب کوئی تجاوز کرتا ہے تو دوسرے کی حدود پامال ہوتی ہیں۔ اس طرح ہمارے بڑے بڑے گروہ بنتے ہیں۔ ہماری اقدار اور مقاصد ایک ہوجاتے ہیں۔ اقدار کی یہ کشش ثقل انسانوں میں تنازع اورکشمکش کا بنیادی محرک ہے۔ ہماری مستحکم اقدار ہم آہنگی کا تقاضا کرتی ہیں اور دوسروں کی اقدار سے تصادم اختیار کرتی ہیں۔ اس طرح ایک اقدار کے حامل گروہ متحد ومنظم نظر آتے ہیں: سائنس دان سائنس دانوں کے ساتھ، پادری پادریوں کے ساتھ، ایک جیسے مفادات والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ، اور ایک جیسی نفرت پالنے والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی اختیارکرتے ہیں۔ سارے انسانی نظام آخرکار جمع ہوتے ہیں، گروہی مطابقت پیدا کرتے ہیں، اجتماعی شناخت سے جُڑ جاتے ہیں۔ اس طرح انفرادی شناخت اجتماعی شناخت میں ڈھل جاتی ہے۔ جس طرح ایک فرد اپنی شناخت کی حفاظت کرتا ہے، بالکل اسی طرح ایک گروہ اپنی شناخت کا تحفظ کرتا ہے۔ اس اجتماعی شناخت کا دائرہ ثقافت سے قوم تک پھیل جاتا ہے۔ لہٰذا لوگ اعلیٰ اقدار کے لیے جان دینے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ یوں یہ تصادم جنگ کی صورت اختیارکرجاتے ہیں۔ یوں فاتح اقدار مفتوح اقدار کی جگہ لیتی ہیں، اور تاریخ پیش رفت کرتی ہے۔ فاتح اقدار انسانوں کے لیے روشن مستقبل کی ’امید‘ بن جاتی ہیں۔ جب یہ اقدار اثرکھودیتی ہیں، نئی اقدار جگہ پُرکرتی ہیں۔ نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی انسان کی ترقی ہے(8)۔
حواشی:
1) ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کررہے ہیں۔ آخرکار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔ (الانبیا، 35)
2) مسلم شریف کی روایت ہے کہ ’’نیکی حُسنِ اخلاق کا نام ہے اور برائی وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تمہیں ناپسند ہو کہ لوگ اسے جانیں‘‘ (رواہ مسلم و ابوداؤد)۔ ترمذی شریف میں ایک جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو۔‘‘
3)’’توراۃ میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان،آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا بدلہ قصاص (برابر) ہے۔ جو اللہ کے نازل کردہ احکام پر فیصلہ نہیں دیتے وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔ (المائدہ:45)
4) ہم ضرور تمہیں خوف وخطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں، اور جب کوئی مصیبت پڑے، توکہیں کہ ’’ہم اللہ کے ہی ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کرجانا ہے‘‘ انہیں خوش خبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی، اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔ (البقرہ، 155۔158)
5) اعلیٰ اقدار احساسات سے تشکیل پاتی ہیں۔ جبکہ مغربی تہذیب کی اقدار حسیات پر تشکیل دی گئی ہیں۔ لہٰذا مغرب اعلیٰ انسانی اقدار کا حامل نہیں، اس کے لیے ’احساسات‘ یعنی انسانی ’روح‘ سے رجوع کرنا ہوگا۔ یہ روح وہ ہے جو خدائے رحمان و رحیم نے انسان میں پھونکی ہے۔ انسانی احساسات پر مبنی کامل اقدار صرف ’دینِ فطرت‘ اسلام کی تعلیمات میں دی گئی ہیں۔
6) لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر، نہ زمین میں اکڑ کر چل، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر، اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔ (لقمان، 18۔19)
7) مارک مینسن مغربی معاشرے، مغربی تہذیب، اور مغربی طرزِ زندگی کے تناظر میں اپنا مقدمہ استوار کررہے ہیں۔ تاہم وہ مغربی تناظر میں ہی کہیں کہیں مشرق اورمذہبی معاشروں پر بھی حجت قائم کردیتے ہیں، یہ صرف مارک مینسن کا مسئلہ نہیں، یہ مغربی دانش کا عمومی مسئلہ ہے، اسے مسئلہ ’استشراقیت‘ میں سمجھا جاسکتا ہے۔
8) مغربی معاشرے کے لیے واضح پیغام ہے کہ ’حسیات‘ پر مکمل انحصار ’اعلیٰ اقدار‘ کا حامل نہیں بناسکتا۔ انسانی روح کے تقاضے سمجھنے ہوں گے۔ خیروشرکے معیار سمجھنے ہوں گے۔ عجز، مساوات، اورانصاف کی شرائط پوری کرنی ہوں گی۔ اقدار کے اس تصادم میں فتح ’اعلیٰ ترین اقدار‘ کا مقدر ہے۔ اعلیٰ اقدار ’حسیات‘ اور مادہ پرستی سے برآمد نہیں ہوتیں۔ یہ اعلیٰ اخلاقیات ہی سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اخلاقیات سوائے مذہب کہیں میسر نہیں۔ مذہب سوائے ’اسلام‘ کوئی کامل نہیں۔