جہاں کے بلند و بالا پہاڑ آسمان کو چھوتے ہیں، اور جہاں حدِّ نظر سرسبز وادیاں، خوبصورت جھیلیں اور حیرت انگیز جنگلات کی زندگی ہے جو دنیا سے ابھی اوجھل ہے
گرمی بڑھتے ہی سیاحتی مقامات پر لوگوں کے جانے کا رجحان بڑھ جاتا ہے، اور ویسے بھی ذہنی و جسمانی سکون کے لیے سفر ضروری ہے۔ یہ سیر وسفر کا شوق ہی زندگی کی علامت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سفر وسیلہ ظفر، اور علم میں بھی اضافے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس سے سوچ کے نئے دریچے کھلتے ہیں اور انسان ایک نئی طاقت، جوش اور جذبہ لے کر لوٹتا ہے۔ ہمارا ملک پاکستان خوش قسمتی سے فطری حسن و جمال کے مظاہر سے بھرا پڑا ہے اور قدرت کے بے شمار دیے ہوئے خوبصورت، حسین اور دلکش تحفوں میں قدیم وادی دیر میں واقع جہاز بانڈہ اور کٹورا جھیل شاید اپنی خوبصورتی اور رعنائی میں سب سے منفرد اور الگ ہیں۔ یہاں کے ندی، نالے اور گنگناتے آبشار کائنات کے فطری حسن و جمال کے حقیقی مظہر ہیں۔ اگر آپ کو رنگینی، دل کشی، رعنائی اور حسن کے مفہوم کو سمجھنا اور ان کا راج دیکھنا ہو تو اس وادی کا سفر کرنا ہوگا۔ یہ دل نشین مقام ذہنی اور جسمانی طور پر آپ کو مضبوطی اور روحانی سکون عطا کرتا ہے، دلوں میں نئی اُمنگ جگاتا ہے، جو لوگ یہاں کا رُخ کرتے ہیں وہ یہاں کے منفرد مناظر میں کھوکر رہ جاتے ہیں۔
جہاز بانڈہ پاکستان کے درجنوں پہاڑی مستقر میں سے ایک اہم دریافت ہے، جو ضلع دیر بالا، خیبر پختون خوا میں واقع ہے۔ ان پہاڑوں پر سال کے زیادہ عرصے برف جمی رہتی ہے۔ اس وادی میں مرکزی سڑک دیر کے شمالی علاقوں کی واحد اہم سڑک ہے جو ان علاقوں کے لوگوں کے لیے ملک کے میدانی علاقوں سے رابطہ پیدا کرتی ہے۔ یہ علاقہ پہاڑوں کے دامن میں سطحِ سمندر سے 11500 فٹ بلند ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں واقع یہ وادی بلاشبہ بہت خوب صورت ہے اور اپنی شناخت کے انتظار میں ہے۔ یہ عام لوگوں سے لے کر کوہ پیماؤں تک کے لیے ایک دلچسپ اور دلفریب مقام ہے۔ یہاںگھنے جنگلات ہیں، آبشار ہیںاور ان میں زندگی کا ایک نیا پن ہے۔
جہاز بانڈہ جانے کے لیے کراچی، لاہور، اسلام آباد سے مردان اور پھر دیر سے روانہ ہوں گے تو راستے میں شیرنگل، پاتراک، بریکوٹ، بیار اورکلکوٹ کے دیدہ زیب علاقوں سے آپ کا گزر ہوگا۔ یہ سارے علاقے تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہاں آپ کو راجا کی راجدھانی کے اثرات بھی ملیں گے۔ یہاں کی مقامی زبان گائوری ہے جو اب معدوم ہوتی جارہی ہے۔ جہاز بانڈہ کے لیے آپ کو تھل سے پہلے دائیں طرف دروازو جسے مقامی طور پر درانوٹ کہا جاتا ہے، کی طرف جانا ہوگا۔ اگر اسی راستے پر سیدھا چلے جائیں گے تو تھل آئے گا، جہاں سے آگے کمراٹ ویلی کی طرف راستہ جاتا ہے، جس کے ندی نالے اور گنگناتے آبشار بھی حسنِ فطرت کا خزانہ ہیں۔ دروازو کے بعد سے پتھریلے اور مشکل راستے میں سفر کرتے ہوئے جو پہلا گائوں آئے گا اُس کا نام لاموتی ہے جسے مقامی زبان میں ’’کینولام‘‘ کہتے ہیں۔ ’’لاموتی‘‘کے رہنے والوں کو مقامی زبان میں ’’کینور‘‘ کہا جاتا ہے۔’’لام‘‘سے مراد گائوں ہے، اس طرح کینولام کا مطلب کینور کے رہنے والے ہیں۔ لاموتی پہنچنے کا ایک دوسرا راستہ بھی ہے جو مردان سے کالام براستہ باڈ گوئی ٹاپ کا ہے، اور یہاں سے سیاح لاموتی آتے ہیں۔ اس راستے میں مدین، بحرین دیکھنے کے ساتھ اہم بات یہ ہے کہ گلیشیئر کو باڈگوئی میں سڑک کے قریب دیکھ سکتے ہیں جو کمراٹ اور جہاز بانڈہ میں دور دور نظر آتے ہیں۔
اب ہم دوبارہ لاموتی کی بات کرتے ہیں۔ یہ علاقہ گھنے جنگلات سے بھرا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دیر کوہستان میں جنگلات سب سے زیادہ یہیں ہیں۔ یہاں کے لوگ نرم مزاج ہوتے ہیں۔ رہن سہن، بودو باش کالام کے لوگوں کی طرح ہے۔ ان کے مردوں کی بڑی تعداد کراچی میں روزگار کے لیے آتی ہے۔ لاموتی سے دو راستے ہیں، ایک راستہ سیدھا باڈگوئی ٹاپ کی طرف جاتا ہے۔ جہاز بانڈہ جانے کے لیے سیدھے ہاتھ پر سفر کریں گے تو آگے متول محلہ یا چھوٹا سا گائوں کہہ لیں، اس سے گزرتے ہیں۔ یہاں تقریباً سو خاندان آباد ہیں۔ اس سے آگے چند کلومیٹر سفر کے بعد جندرئی گائوں آتا ہے۔ یہ اس علاقے کا باقاعدہ آبادی کے لحاظ سے آخری گائوں ہے اور گاڑی کا سفر یہیں تک کا ہوتا ہے۔ سیاح عموماً رات یہیں گزار کر آگے کا سفر صبح شروع کرتے ہیں، کیونکہ اس کے بعد آپ کا دور دور تک کم ہی انسانوں سے واسطہ پڑے گا، بلند پہاڑی اور ناہموار راستے آپ کی ہمت کا امتحان لے رہے ہوں گے۔ اس پورے علاقے میں کوہستانی زبان بولی جاتی ہے۔ زیادہ تر کوہستانی رہتے ہیں لیکن ایک قابلِ ذکر تعداد گجر قوم کے لوگوں کی بھی موجود ہے۔ جندرئی کے لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت اور کھیتی باڑی ہے۔ گرمیوں میں مال مویشی لے کر جہاز بانڈہ چلے جاتے ہیں اور سردیوں میں جب برف پڑتی ہے تو واپس آجاتے ہیں۔ جندرئی میں ایک خوبصورت تاریخی عجائب گھر بھی موجود ہے جس میں ہزاروں سال پرانے کوہستانی نوادرات، اسلحہ، برتن، لکڑی کی بنی قیمتی چیزیں آپ کو ماضیِ قدیم میں لے جائیں گے۔کھڑائوں چپل بھی آپ کو دیکھنے کو ملے گی جو لکڑی کی بنی ہوتی ہے۔ غرض یہ میوزیم تہذیبی، ثقافتی، تاریخی روایت کا عکاس ہے۔ اس میوزیم کی تعمیر اور اس خطے کو باہر کی دنیا سے متعارف کرانے میں یہاں کی علاقائی شخصیت راجا تاج محمد کا اہم کردار ہے۔ وہ سیاحت دوست بھی ہیں اور متحرک بھی۔ راجا گیسٹ ہائوس کے نام سے جہازبانڈہ کا واحد گیسٹ ہائوس بھی ان ہی کا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ راجا صاحب سیاح دوست آدمی ہیں، اکثر پیسے نہیں لیتے، اور کبھی لیتے بھی ہیں تو بہت کم ہوتے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کے لوگ نہ صرف سیاحت اور سیاحوں کو سپورٹ کرنے والے مہمان نواز ہیں بلکہ ملنساری اور عاجزی بھی ان کی خاص شناخت ہے جس کی گواہ ان کے کشادہ چہروں اور پیشانیوں پر موجود اطمینان اور مسرت کی چمک ہے۔ راجا کے ساتھ اس علاقے کو پروموٹ کرنے میں منیر کوہستانی کا بھی بڑا کردار ہے جو 2010ء سے کمراٹ اور جہاز بانڈہ کو سوشل میڈیا پر پروموٹ کررہے ہیں (کمراٹ الگ ٹریک پر واقع ہے)۔
اپر دیر سے بذریعہ جیپ دروازو 85کلومیٹر اور تقریباً پانچ گھنٹے کا سفر ہے، جہاں سے جندرئی (Jandrai )کا راستہ دس کلومیٹر اور آدھے گھنٹے کا سفر ہے۔ جیسا کہ ذکر ہوا کہ راستہ نشیب و فرازسے بھرا اور خراب ہے۔ دیر میں ان چند برسوں میں بڑی تیزی سے سڑکوں کا جال بچھا ہے اور ماضی میں سابق مقامی ایم پی اے محمد علی نے یہاں پر بڑی دلچسپی اور لگن کے ساتھ کام شروع کیا، سڑکوں کے کئی پروجیکٹس کی منظوری بھی ہوئی اور شیرنگل تک زبردست سڑک تیار بھی ہوئی، لیکن پھر ان کے بعد اس دلچسپی کے ساتھ کام نہیں ہوپایا ہے۔ وہاں جانے کے لیے دیر سے کبھی کبھار سواری والی گاڑیاں بھی مل جاتی ہیں، لیکن بہتر یہی ہے کہ دیر سے ہی جندرئی تک جیپ کرائے پر حاصل کرلی جائے جس کا کرایہ چار سے پانچ ہزار روپے ہے۔ اگر آپ کمراٹ سے واپس آتے ہوئے یہاں آنا چاہتے ہیں تو تھل سے آسکتے ہیں۔ یہاں سے دو، تین ہزار میں گاڑی مل جاتی ہے۔ کمراٹ ویلی سے جندرئی 25کلومیٹر کا سفر ہے۔ اس علاقے کے لال آلو خاصے مشہور ہیں۔ گوبھی، شلغم، سلاد کے پتے عمومی طور پر کاشت کیے جاتے ہیں۔ جندرئی سے اوپر ایک گائوں انار ہے جہاں مقامی کوہستانیوں نے مٹر کی فصل پہلی بار لگائی تھی تو اس میں انہیں بہت زیادہ فائدہ ہوا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس گمشدہ علاقے کی اگر حقیقی دریافت ہوجائے تو یہاں بہت سے کامیاب تجربات ہوسکتے ہیں، اور اہم بات یہ ہے کہ مقامی لوگ بھی نئے تجربات کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں اور اپنے علاقے کی ترقی چاہتے ہیں، بس ریاست کی طرف سے وسائل اور رہنمائی کی ضرورت ہے جو ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جندرئی اور جہاز بانڈہ کے اردگرد کا علاقہ دنیا کی بہترین اور نایاب جڑی بوٹیوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ شیرنگل یونیورسٹی میں یہاں کی جڑی بوٹیوں پر تحقیق بھی ہوئی ہے، یہاں سے ایک ریسرچ کے لیے پانچ ہزار نمونے اکٹھے کیے گئے تھے، لیکن جس معیار کی تحقیق ہونی چاہیے اور جس سطح پر ہونی چاہیے، ویسی تحقیق نہیں ہوئی۔
اب ہم اپنے سفر کو آگے بڑھاتے ہیں، جہاں جانے کے لیے آپ کو اپنے پائوں اور قوتِ ارادی کا سہارا لینا ہوگا، کیونکہ آگے کا سفر پیدل کا ہے لیکن بہت خوبصورت، دلکش، حسین اور سحر طاری کردینے والا ہے۔ یہ سفر اور خوبصورت دنیا دیگر سیاحتی مقامات کے برعکس حدِّ نظر موجود پائیں گے (گھوڑوں کا مستقبل میں استعمال شروع ہوسکتا ہے)۔ راستے میں ایک مشکل چڑھائی بھی آتی ہے جسے ایربی(Airbi) کہتے ہیں، جب آپ ڈیڑھ دو گھنٹے پیدل چل لیں گے تو ایک سرسبز و شاداب جگہ آئے گی جسے ایربی بانڈہ کہتے ہیں، یہاں کے بارے میں مقامی لوگ کہتے ہیں کہ جیسے آپ نے جنت کی طرف سفر شروع کردیا ہے، اور اس سفر کے یہ دل لبھانے والے خوبصورت پڑائو ہیں۔ ایربی سے مزید گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ سفر کرنے کے بعد جہاز بانڈہ آجائے گا، اور آپ قدرت کے خوبصورت نظاروں میں کھوجائیں گے، سفر کی تھکن کا احساس یکسر ختم ہوجائے گا، آپ زمین پر جنت کا وہ ٹکڑا دیکھ رہے ہوں گے جس کا نام بھی شاید آپ نے پہلے نہ سنا ہو۔ یہ انتہائی پُرکشش اور پُرفضا سیاحتی علاقہ ہے جو لوگوں کی نظروں سے تاحال اوجھل ہے، اور اس کا شمار بھی پاکستان کے اُن گمشدہ مقامات میں کیا جاسکتا ہے کہ جنہیں ابھی تک صحیح طرح سے دریافت نہیں کیا جاسکا ہے۔ یہ بہت وسیع و عریض میدان کی مانند ہے۔ اس کے چاروں طرف پہاڑ ہیں اور پہاڑوں کے درمیان کا علاقہ رن وے کی طرح ہے جس میں جہاز لینڈ کرتا ہے۔ یہاں چھوٹے چھوٹے بنکر نما مکان بنے ہوئے ہیں۔ یہاں رہائش کے لیے ریسٹ ہائوس تو ایک ہی ہے لیکن ٹینٹ مل جائیں گے، اور آپ اپنے خیمے اور ٹینٹ بھی لگا سکتے ہیں، اس طرح وہ آپ کی مفت رہائش ہوگی۔
بلاشبہ جہاز بانڈہ عام لوگوں کے علاوہ کوہ پیماؤں کے لیے قدرت کی بے پناہ نیرنگیوں سے معمور ایک دلچسپ اور دلفریب مقام ہے۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کے بلند و بالا پہاڑ آسمان کو چھوتے ہیں، اور جہاں حدِّ نظر سرسبز وادیاں، خوبصورت جھیلیں اور حیرت انگیز جنگلات کی زندگی ہے جو دنیا سے ابھی اوجھل ہے۔ یہاں کا پُرکشش ماحول جہاز بانڈہ کو سچ مچ ایک خواب بنانے کے لیے کافی ہے۔ جب سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے تو اس کے مناظر آپ کو بت بنادیتے ہیں اور آپ تصورات کی خوبصورت دنیا میں چلے جاتے ہیں، اور جب واپس آتے ہیں تو اس دنیا کی خوبصورتی کے درمیان اپنے آپ کو پاتے ہیں۔ سورج طلوع ہوتے وقت اونچے برفیلے پہاڑ ایسے چمکتے ہیں کہ یہ دودھیا نظر آتے ہیں۔ جبکہ غروبِ آفتاب کے وقت جب سورج پہاڑوں کے پیچھے چھپ جاتا ہے تو وادی میں دھیمی روشنی والی شام کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے۔ گرمیوں میں موسم خوشگوار رہتا ہے اور سردیوں میں شدید سردی اور برف باری ہوتی ہے۔ یہاں کے لوگ بہت سادہ دل اور امن پسند ہیں۔ اپنی قدیم تہذیب میں رنگے ہوئے ہیں۔ یہ وادی اور اس کے مکین انسان دوست ہیں، محبت کرنے والے ہیں اور سیاحت کے لیے آنے والے مہمانوں کے لیے آنکھیں بچھاتے ہیں۔ اسی لیے یہاں کے نہ صرف مقامی لوگ بلکہ پہاڑوں، ندی نالوں، جھیلوں، آبشاروں، چشموں اور گلیشیئروں کی یہ پوری وادی موسم گرما (مئی تا ستمبر) میں سیاحوں کی منتظر رہتی ہے۔ مئی میں یہاں کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 11، اور کم سے کم 3 درجہ سینٹی گریڈ رہتا ہے، ستمبر کے اختتام تک راستہ کھلا رہتا ہے جس کے بعد برسات اور موسم سرما میں وادی میں نقل و حمل مشکل ہوجاتی ہے۔
جہاز بانڈہ کی دلکشی اور خوبصورتی سے آگے چھ کلومیٹر دوری پر کٹورا جھیل موجود ہے، جیسے مقامی زبان میں ’’گان سر‘‘ کہا جاتا ہے۔ کٹورا جھیل جاتے ہوئے ڈھنڈبانڈہ، ٹورہ جھیل اور چھوٹی جھیلوں کے ساتھ بڑے آبشار دنو پشکیر، کونڑ اور کاڑ کے ساتھ کئی خوبصورت جھرنے ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ گول کٹورے کی مانند ’’کٹوراجھیل‘‘ دنیا کی منفرد جھیل ہے، آبشار سے گرتے پانی اور جھیل میں تیرتے برف کے ٹکڑوں کو آپ دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔ جھیل چاروں طرف سے بلند و بالا پہاڑی گلیشیئرز اور الپائن کے دیوقامت گھنے جنگلات میں گھری ہوئی ہے۔ ان جنگلات میں نایاب جانوروں کی کثرت ہے، جس میں مارخور قابلِ ذکر ہیں۔ جھیل سے متعلق کئی دیومالائی کہانیاں بھی مشہور ہیں جو آپ کو مقامی لوگوں سے سننے کو ملیں گی۔ اگر آپ امسال سیر و سیاحت کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس بار اپر دیر کا سفر کریں اور جہاز بانڈہ اور وادی کمراٹ کے سفر کی تیاری کریں۔ یہ سفر یقینا آپ کی زندگی کا سب سے دلچسپ، دلکش اور منفرد سفر ہونے کے ساتھ ناقابلِ فراموش بھی ہوگا۔ لیکن وہاں جاکر اس بات کا خیال رکھیں کہ قدرتی حسن آپ کے طرزعمل سے متاثر نہ ہو۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ وہاں جانے والے‘ دیگر سیاحتی مقامات کی طرح اس خوبصورت وادی میں بھی گندگی اورکچرا پھیلا رہے ہیں جس سے وہاں کے مقامی لوگ بھی پریشان ہیں۔ امید ہے آپ اس طرزعمل کو اختیار نہیں کریں گے اور ایسے لوگوں کی مذمت کریں گے۔