ایرانی نائب وزیرخارجہ کا قونصل خانے میں تقریب سے خطاب

ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی سفارت خانے اور ثقافتی مرکز بہت زیادہ متحرک نظر آتے ہیں۔ شاہ کے دور میں اس کی ضرورت نہ تھی، اس لیے کہ شاہ ایران مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا تھانیدار تھا اور امریکہ اس کا پشت پناہ تھا، اور اکثر و بیشتر ممالک امریکہ کے دائرۂ اثر میں تھے۔ لیکن ایرانی انقلاب امریکہ اور مغرب کے لیے ایک زبردست دھچکا تھا اور انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی مولوی اتنی بڑی تبدیلی لاسکتا ہے۔ امریکہ کو ایران میں انقلاب کو سمجھنے میں خاصی مشکل ہوئی۔ ایران کے ہمسائے میں پاکستان تھا اور اس خطے کے مولوی جو تھے اُن کا حال امریکہ کو معلوم تھا۔ وہ ایران میں ایک طاقتور انقلاب کو ابتدا میں نہ سمجھ سکا، اور جب اسے احساس ہوا کہ یہ ایک انقلاب ہے، اس کی پشت پر کروڑوں عوام ہیں جنہوں نے انقلاب کے قائد امام خمینی کی قیادت میں ایک طاقتور شہنشاہیت کو اُٹھا کر پھینک دیا ہے اور اقتدار علماء کے ہاتھ میں آگیا ہے، تو اسے خطرہ محسوس ہوا کہ اگر انقلاب کے اثرات کو نہ روکا گیا تو مشرق وسطیٰ میں تیل پیدا کرنے والے ممالک بھی انقلاب کی زد میں آسکتے ہیں۔ اس کے بعد امریکہ اور اسرائیل متحرک ہوگئے اور سازشیں شروع کردیں، انہوںنے عراق کو حملے کے لیے اُکسایا، اور ہم جانتے ہیں کہ 8 سال تک ایران اس جنگ کی زد میں تھا۔ امریکہ نے عراق میں اسلحہ کے ڈھیر لگادیے۔ لیکن وہ اس کھیل میں بری طرح ناکام ہوگیا اور تیل پیدا کرنے والے ممالک جو اس جنگ میں وسائل کے حوالے سے شریک تھے سب ناکام ہوگئے۔ اس کے بعد امریکہ اور اس کے حلیفوں نے ایران پر معاشی پابندیاں لگادیں۔ ایران نے بڑی ذہانت اور کامیاب پالیسی کے ذریعے مزاحمت کی اور قوم میں قوتِ مدافعت طاقتور عنصر کے طور پر اُبھر آئی۔ اس طرح امریکہ انقلاب کو ناکام نہ کرسکا۔ بعد میں امریکہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے میں ایران کے سامنے بیٹھ گیا، اور اس معاہدے میں چین، روس، برطانیہ، جرمنی اور امریکہ آمنے سامنے ہوگئے۔ یہ معاہدہ امریکی صدر اوباما کا تاریخی کارنامہ تھا۔ اس طرح ایران 2015ء میں معاشی اور سیاسی دبائو سے نکل آیا۔ اس پر ایران میں جشن کا سماں تھا۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے کامیاب ڈپلومیسی سے ایران کو ایک اعلیٰ مقام پر لاکھڑا کیا، اور وزیر خارجہ جواد ظریف نے ان 5 ممالک کے شاطر ذہنوں کا بڑی خوبصورتی سے مقابلہ کیا اور معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس معاہدے کی سب سے زیادہ مخالفت اسرائیل نے کی، اس نے اپنے وجود کو خطرے میں محسوس کیا، وہ امریکہ پر دبائو ڈالتا رہا کہ اس معاہدے کو ختم کیا جائے۔ نیتن یاہو نے کوئی 2 گھنٹے امریکی ٹی وی چینل پر اپنا تجزیہ پیش کیا۔ ان کے تجزیے کا ایک ہی محور تھا کہ ایران خفیہ طور پر ایٹمی قوت بننے کی تیاری کررہا ہے اور ایران کا یہ عمل اسرائیل اور مشرق وسطیٰ میں خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، اور اگر ایران ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہوگیا تو اسرائیل سب سے زیادہ تباہی کا شکار ہوجائے گا۔ سعودی عرب بھی اس پورے عرصے میں امریکہ اور مغرب کو اُکساتا رہا کہ ایران کے خلاف نرم پالیسی ترک کی جائے اور اس پر پابندیاں لگائی جائیں، اور خطرے کی دہائی دیتا رہا۔ حالانکہ ایران نے وہ تمام شرائط تحریری طور پر تسلیم کرلیں جو ان پانچ ممالک نے پیش کی تھیں، لیکن 2019ء تک آتے آتے امریکہ کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا اور یک طرفہ طور پر اس نے معاہدے سے نکلنے کا اعلان کردیا۔ اخلاقی اور سیاسی طور پر ایک ملک کا اس طرح معاہدے سے علیحدہ ہونا کسی لحاظ سے درست نہ تھا، لیکن امریکہ نے سعودی عرب اور اسرائیل کی خاطر یہ قدم اُٹھا لیا اور سعودی عرب پر دبائو ڈال کر 3 کھرب ڈالر کا معاہدہ کرلیا، اور اس میں ایک کھرب ڈالر کا اسلحہ امریکہ سعودی عرب کو دے گا۔
1979ء کے انقلاب کے بعد سے مشرق وسطیٰ میں خاندانی مملکتیں انقلاب سے خوف زدہ رہیں۔ اِن تمام ممالک میں جمہور کی آواز صرف قبرستان میں سنائی دیتی ہے۔ ان حصوں میں قبرستان جیسا سناٹا دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ کی جمہوری منافقت کا پردہ اِن ممالک میں چاک نظر آتا ہے۔ کسی دور میں سوویت یونین میں یہ نقشہ نظر آتا تھا، آج یہ نقشہ اِن امریکن نواز ممالک میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔امریکہ کے معاہدے سے نکلنے کے بعد سے ایران اور امریکہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوگئے ہیں۔ امریکہ کی اسلام دشمن پالیسی نے اس نقشے میں رنگ بھرا ہے۔ امریکہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کو خوف زدہ کرکے جنگ کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ایران کی انقلابی حکومت امریکہ کے بے جا مطالبات کے سامنے سرنگوں ہونے سے انکار کرچکی ہے اور مزاحمت کے لیے تیار ہے۔ امریکہ معاہدے میں شریک ممالک پر دبائو بڑھا رہا ہے کہ ایران کا مکمل مقاطعہ کیا جائے۔ اب تک تو اس میں امریکہ کو کامیابی نہیں ہوئی ہے، لیکن پاکستان نہ چاہتے ہوئے اس دبائو کا شکار نظر آرہا ہے اور اس کشمکش سے دامن بچاتا نظر آرہا ہے۔ اگر جنگ کے شعلے بھڑک اُٹھے تو پاکستان کی سرحدیں غیر محفوظ ہوجائیں گی اور اِن شعلوں کی تپش سے پاکستان دامن نہیں بچا سکے گا۔
یہ ایک مختصر سا تجزیہ کیا ہے تاکہ جو نقشہ بننے جارہا ہے اس سے آگاہی حاصل ہوسکے۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں ایران کے نائب وزیر خارجہ جناب سید رسول موسوی ایران کے قونصل خانے میں ایک افطار ڈنر میں علماء اور دانشوروں سے مخاطب ہونے والے تھے۔ رمضان المبارک میں ایرانی ثقافتی مرکز اور قونصل خانے میں افطار ڈنر ضرور ہوتا ہے۔ آج امریکہ کی غلط پالیسی کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی نظر آرہی ہے اور خاص طور پر موجودہ وقت میں ایران اس کی زد میں ہے۔ ایران کے کوئٹہ میں مقیم قونصل جنرل آقائے سید عمر رفعی نے دعوت کا اہتمام کیا تھا اور اس میں جمعیت علمائے اسلام نظریاتی، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے لوگ مدعو تھے۔ کاسی قبیلے کی ممتاز شخصیت ملک انور کاسی بھی موجود تھے۔ مرکزی جامع مسجد کے خطیب انوارالحق حقانی بھی تھے۔ ہاشم موسوی، عبدالقادر لونی، سید عبدالستار شاہ چشتی بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن جماعت اسلامی کے نائب امیر نمائندگی کررہے تھے۔ قاری عبدالرحمن ان مواقع پر ہمیشہ نظر آتے ہیں۔ اس اہم نشست کا آغاز ڈاکٹر عطاء الرحمن نے کیا۔ اس کے بعد قاری عبدالرحمن نے ابتدائی کلمات ادا کیے اور موجود شخصیات کا فارسی میں تعارف کرایا۔ اس کے بعد عبدالقادر لونی نے اردو میں اپنی پارٹی کی طرف سے ایران کے مہمان کو خوش آمدید کیا اور برملا اعلان کیا کہ امریکہ نے حملہ کیا تو جمعیت نظریاتی اس جنگ میں امریکہ کے خلاف ایران کے ساتھ کھڑی ہوگی، اور اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ مولانا عبدالقادر لونی کا یہ بیان ایک جرأت مندانہ مؤقف تھا جسے سامعین نے خوب سراہا۔ مولانا انوارالحق حقانی نے بھی اپنا تجزیہ پیش کیا۔ ملک انور کاسی دانشور ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کرچکے ہیں، وہ ایران بھی جاچکے ہیں، انہیں دعوتِ خطاب دینا چاہیے تھی۔ لیکن قاری عبدالرحمن نے انہیں نظرانداز کیا۔ ہاشم موسوی نے بھی مہمانِ عزیز کو خوش آمدید کیا اور اپنا مؤقف پیش کیا۔ اس کے بعد جناب سید رسول موسوی نے بڑے تحمل اور دھیمے لہجے میں اپنی گفتگو کا آغاز کیا اور ایران کا مؤقف دلائل کے ساتھ سامعین کے گوش گزار کیا۔ ان کے خطاب کے حصوں کا وقفے وقفے سے اردو میں ترجمہ ہورہا تھا اور سامعین بڑے انہماک سے سن رہے تھے۔ ایران ایک مہذب اور تاریخی قوم ہے اور قبل از مسیح اس کا ایک شاندار ماضی رہا اور یہ کئی براعظموں پر حکمران رہی ہے۔ اس کے نمائندوں کی گفتگو اور اخلاق سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کا ماضی ایک شاندار ماضی رہا ہے اور یہ تہذیب و تمدن سے آشنا قوم ہے۔ امریکہ کو عراق کے ذریعے جارحیت کے بعد سے اندازہ ہوجانا چاہیے تھا کہ اسے شکست دینا اتنا آسان نہیں ہے۔ نائب وزیر خارجہ جناب سید موسوی نے تین انتہائی اہم نکات بیان کیے۔ ایک بات انہوں نے بڑے اعتماد سے کہی کہ ایران امریکی جارحیت کا بڑی قوت سے مقابلہ کرے گا اور ایران کو زیر کرنا امریکہ کے لیے اتنا آسان نہ ہوگا، اسے آٹھ سالہ عراقی جارحیت سے اندازہ لگالینا چاہیے۔ یہ جنگ دراصل عراق اور ایران کی نہ تھی بلکہ حقیقت میں امریکہ اور ایران کی تھی، اور اس جنگ میں بعض عرب ممالک بڑی قوت سے شامل تھے۔ ایرانی قوم نے بڑی دلیری اور جرأت سے مسلط کردہ اس غیر اخلاقی جنگ کا مقابلہ کیا اور کامیاب رہی۔
اُن کا یہ تجزیہ ہمارے دور کی بات ہے اور ہم اس کے شاہد ہیں۔
ایک یورپی ملک کے وزیراعظم نے ایران عراق جنگ کے حوالے سے بڑی اہم بات کہی، انہوں نے کہا کہ ’’ایران میں انقلاب ہے، ایران سے آپ جنگ لڑ سکتے ہیں، لیکن انقلاب کو شکست نہیں دے سکتے ‘‘۔ ان کا یہ قول وقت نے حرف بہ حرف درست ثابت کیا۔ اور یہ بھی ایک خوشگوار تاریخی حقیقت ہے کہ 8 سالہ جنگ نے ایران کے اندر ایک نیا جذبہ پیدا کیا اور وہ ایک طاقتور قوم اور طاقتور ملک کے طور پر اُبھر کر سامنے آگیا۔ ہم نے کبھی ملوکیت کا گہرائی سے تجزیہ نہیں کیا، اگر کرتے تو ہمارے سامنے بے شمار حقائق آتے۔ ملوکیت خواہ وہ شخصی ہو یا فوجی… تن تنہا جارحیت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ہم اس کا تلخ مشاہدہ 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ میں کرچکے ہیں۔ مصر پر اسرائیل نے حملہ کیا اور پھر تمام عرب ممالک اس جنگ میں شریک ہوگئے۔ مصر میں صدر ناصر ایک فوجی آمر تھے، شام میں حافظ الاسد بھی فوجی آمر تھے، کرنل قذافی بھی فوجی آمر تھے، عراق میں بھی فوجی آمریت تھی، یمن میں فوجی آمریت تھی، سعودی عرب، اردن، کویت، اومان، قطر میں خاندانی بادشاہتیں تھیں، اور ان میں وہ ممالک جو روس نواز کمیونسٹ تھے، اور وہ بادشاہتیں جو امریکن نواز تھیں ان دونوں کو ایک چھوٹے سے اسرائیل نے شکست دی، اُس نے شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کیا جو اب تک برقرار ہے، اور اردن کے ہاتھ سے بیت المقدس نکل گیا، فلسطین نکل گیا، نہر سویز پر اسرائیل کا قبضہ ہوگیا۔ ایران اس جنگ سے دور رہا اور محفوظ رہا۔
اس مختصر تجزیے کا مقصد یہ ہے کہ ملوکیت خواہ بادشاہت کی شکل میں ہو یا فوجی غاصب جرنیلوں کی سنگینوں کے نیچے ہو، تصادم ہو تو شکست اس کا مقدر ٹھیرتی ہے۔