آپ بیتی مرزا غالب

کتاب : آپ بیتی مرزا غالب
مرتب : ڈاکٹر خالد ندیم
صفحات : 304، قیمت:500 روپے
ناشر : نشریات۔ الحمد مارکیٹ، اردو بازار لاہور
0321-4589419
ڈسٹری بیوٹرز : کتاب سرائے، الحمد مارکیٹ غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور
فون042-37320318
فضلی بک سپر مارکیٹ اردو بازار کراچی
021-32629724

نابغہ ٔ روزگار شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ 15 فروری 1869ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوئے، چنانچہ 15 فروری 2019ء کو اردو کے اس عظیم شاعر کی ایک سو پچاسویں برسی کی مناسبت سے ڈاکٹر خالد ندیم نے غالب کی تحریرات سے یہ آپ بیتی تحقیق و تدوین سے مرتب اور تصنیف کردی ہے جوکہ غالبیات میں وقیع و ثمین اضافہ ہے۔
ڈاکٹر رئوف پاریکھ تحریر فرماتے ہیں:
’’ڈاکٹر خالد ندیم جب نوجوان تھے (کیونکہ جوان تو اب بھی ہیں) تو یہ عاجز ان کا شمار اردو کے اُن نوجوان محققین میں کیا کرتا تھا، جن سے بڑی امیدیں تھیں۔ راقم نے ڈاکٹر صاحب موصوف کا ذکر اپنی ایک دو تحریروں میں ان نوجوان محققین کے باب میں بھی کیا تھا جو اردو تحقیق کے ابھرتے ہوئے ستارے تھے… ہمارے خالد ندیم صاحب قبیلۂ تحقیق کے اُن جوانوں میں شامل ہیں جو اپنی ضوفشانیوں سے علم کی راہوں کو روشن کرتے رہے۔ بقول اقبال چونکہ ان کا شباب بے داغ ہے اور ضرب کاری رکھتے ہیں، چنانچہ قبیلے کی آنکھ کا تارا ہیں۔ بلاشبہ وہ مستقبل میں اردو تحقیق کے اس قافلے کا ایک سالار بننے کی صلاحیتوں سے مالامال ہیں… جو لوگ اپنی راتیں کتابوں کو دیتے ہیں صبح دم گجر بھی انہی کے نام کا بجتا ہے۔ خالد ندیم کے علمی کاموں کو دیکھ کر یہی کہنا پڑتا ہے کہ کار استاد را نشاں دگر است۔ ان کے یادگار اور باقی رہ جانے والے کاموں میں اب ان کی تازہ کتاب ’’آپ بیتی مرزا غالب‘‘ بھی شامل ہوگئی ہے۔ نہایت ذمہ داری سے عرض کرتا ہوں کہ مستند ترین مآخذ کی مدد سے مرتب کی گئی یہ غالب کی مستند ترین سوانح ہے۔
ڈاکٹر خالد ندیم کی تحقیق و تنقید اور ترتیب سے میر سے فیض تک، اختر حسین رائے پوری حیات و خدمات، شبلی شکنی کی روایت، عہدِ حاضر کا فکری بحران اور اقبال، شبلی کی آپ بیتی، آپ بیتی علامہ اقبال اور زیرنظر کتاب آپ بیتی مرزا غالب۔ اس کے علاوہ ترجمہ اور مرتبہ کتابیں بھی بارہ کے قریب ہیں جو ان کے قلم سے صادر ہوئی ہیں‘‘۔
کتاب کے ناشر جناب محمد رفیع الدین حجازی تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ دنیا نور و ظلمت کا آمیزہ ہے۔ کہیں علم و حکمت اور فلسفہ و شعر کی کرنیں اہلِ دنیا پر جلوہ فگن ہیں، تو کہیں ظلم و بربریت اور جہالت و حماقت کی سیاہی حکمران ہے، گویا صبح، دوپہر، سہ پہر، شام اور پھر رات کا پہیہ گھومتا رہتا ہے۔ اہلِ دنیا فطرت کی اس کاریگری کو ایک معمول سمجھتے ہیں، البتہ گاہے اس معمول میں ایسا فرق رونما ہوجاتا ہے کہ اہلِ زمین چونک جاتے ہیں اور نعرہ ہائے تحسین ان کے لبوں پر مچل اٹھتا ہے۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب کی ہستی کا ورود بھی ایک ایسا ہی امر تھا، جس نے اپنی ندرتِ خیال سے دلوں کو مسخر اور ارواح کو بالیدگی عطا کردی۔
مرزا غالب ایک طرف معلمِ تہذیب، آفاقی شاعر، بے باک نقاد اور فلسفی ہے، تو دوسری جانب ایک زندہ دل شخصیت اور شگفتہ اسلوب کا مالک بھی۔ بہرحال، مطالعۂ غالب سے ایک عمومی تاثر یہ ابھرتا ہے کہ ایک باغی انسان دم توڑتی ہوئی سلطنت میں اپنا بانکپن قائم رکھنے کی سر توڑ کوشش کررہا ہے، چنانچہ ڈاکٹر خالد ندیم کی تالیف ’’آپ بیتی مرزا غالب‘‘ ایک شاعر کی داستانِ حیات ہی نہیں بلکہ آخری ہچکی لیتی ہوئی مسلم تہذیب اور سلطنت کا منظرنامہ بھی ہے۔
برصغیر میں شاعری کا فن ایک مثلث کے طور پر نظر آتا ہے، یعنی میر، غالب اور اقبال۔ میر اگر شاعری کی ابتدا ہے تو اقبال فکر و فن کی انتہا۔ غالب نہ شہرِ آشوب بیان کرتا ہے اور نہ ہی ملّی تہذیب کی تباہی کا نوحہ بلند کرتا ہے، بلکہ وہ فرد کی جذباتی اور نفسیاتی وارداتوں اور گرہوں کو کھولتا ہے، ’مَیں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘۔ غالب کا فن اس بلندی پر ہے کہ اس کی شخصی کمزوریوں سے صرفِ نظر کرنا پڑتا ہے، اور ایسا غالب کے زمانے میں بھی تھا۔ غالب کے چاہنے والوں میں مولانا صہبائی اور مومن خاں مومن جیسے اصحاب بھی تھے، اور یہ ایسے اصحاب تھے کہ ’دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں‘۔
غالب کی شاعری کا جدید اسلوب جہاں اس کی مقبولیت کی بنیاد بنا، وہیں غالب کی مخالفت کا سبب بھی۔ غالب نے زبان و بیان کے مروجہ پیمانوں کو چھوڑ کر اپنی طرز اور روش اختیار کی، جسے اہلِ ہند نے بتدریج بادِ نسیم سمجھ کر وصول کیا۔
مرزا غالب کی وفات کے پانچ چھ دہائیوں کے بعد بانگِ درا کے دیباچے میں شیخ عبدالقادر نے اقبال کے بارے میں لکھا تھا:
’’کسے خبر تھی کہ غالب مرحوم کے بعد ہندوستان میں پھر کوئی ایسا شخص پیدا ہوگا جو اردو شاعری کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دے گا، اور جس کی بدولت غالب کا بے نظیر تخیل اور نرالا اندازِ بیان پھر وجود میں آئیں گے اور ادبِ اردو کے فروغ کا باعث ہوں گے‘‘۔
کوئی بھی قوم اپنی تاریخ، تہذیب اور ثقافت سے کنارہ کش ہوکر آگے نہیں بڑھ سکتی، لہٰذا نوجوانوں کو اپنے ورثے سے آگاہ کیا جانا ضروری ہے۔ یہی وہ نکتہ تھا جس نے ڈاکٹر خالد ندیم کو مہمیز دی اور انہوں نے برصغیر کے تہذیبی و فکری زعما کی آپ بیتیوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سلسلے میں وہ شبلی کی آپ بیتی اور آپ بیتی علامہ اقبال پیش کرچکے ہیں۔ یہ ان کی محبت کا اظہار ہے کہ زیرنظر تالیف کی اشاعت کے لیے بھی انہوں نے نشریات کو منتخب کیا‘‘۔
صاحبانِ علم و تحقیق کی آرا ’’آپ بیتی مرزا غالب‘‘ پر بڑی مثبت ہیں۔ ڈاکٹر نجیب جمال فرماتے ہیں:
’’خالد ندیم سے پہلے بھی غالب کے سوانح پر چند عمدہ کتب لکھی گئی ہیں، مگر آپ بیتی مرزا غالب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ انہوں نے پوری کتاب یہاں تک کہ اس کا دیباچہ بھی غالب کے لفظوں میں ترتیب دیا ہے۔ خالد ندیم نے غالب کی یہ مکمل تصویر اردو فارسی مکاتیب مہرنیم روز اور دستنبو کے تال میل سے کچھ اس طرح بنائی ہے کہ غالب کی زندگی کی کوئی کڑی گم نہیں ہوتی، کسی مقام پر دلچسپی معدوم نہیں ہوتی اور ان کی شخصیت کا طلسم نہیں ٹوٹتا۔‘‘
ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کی رائے ہے:
’’ڈاکٹر خالد ندیم ویسے بھی مزاج، رواج اور خراج کے اعتبار سے تفصیل، تعمیل اور تکمیل کے آدمی ہیں۔ زمانے کے سانحات کو سہتے سہتے انہوں نے سوانح کی رمز کو پالیا ہے، عطیہ فیضی کے جملہ عشاق کی سوانحاتِ جمیلہ، ان کی فنکاری اور تجربہ کاری کی شاہد ہیں اور اِس آپ بیتی میں تو اپنے مرزا اسد اللہ خاں غالب مکمل آب و تاب اور پورے طمطراق سے سامنے آگئے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر محمد یارگوندل سرگودھا یونیورسٹی لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر خالد ندیم کی مرتبہ آپ بیتی مرزا غالب، (غالب) کی گزشتہ آپ بیتیوں سے اس لیے منفرد ہے کہ اسے انہوں نے ممکنہ حد تک غالب کے تاحال دستیاب اردو، فارسی خطوط، اردو فارسی منثورات، اردو فارسی منظومات اور غالب سے متعلق سرکاری انگریزی دستاویزات کی مدد سے ترتیب دیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر خالد ندیم نے زیرنظر آپ بیتی کو دس حصوں میں تقسیم کیا ہے، یوں کہ ہر حصہ غالب کی زندگی کے کسی ایک رخ، کیفیت اور صورت حال کو پیش کرتا ہے، اور لطف یہ کہ ہر باب کا عنوان غالب کے کسی حسب ِحال مصرعے پر قائم کیا گیا ہے۔ مثلاً 1828ء۔ 1829ء کے دور کا نام ’کلکتے کا جو ذکر کیا‘ رکھا ہے۔ اسی طرح 1850ء۔1857ء کا دور جس میں مرزا قلعہ مُعلّیٰ سے منسلک ہوئے اس کا عنوان ’غالب وظیفہ خوارہے۔ اور آخری باب جو 1865ء۔1869ء تک کا ہے اس کا عنوان ’دمِ واپسیں برسرِ راہ ہے‘ تجویز کیا ہے۔
’’آپ بیتی مرزا غالب‘‘ کے مطالعے سے نہ صرف حالاتِ غالب کا علم ہوتا ہے بلکہ غالب کی بعض درونِ خانہ قلبی کیفیات بھی قاری تک پہنچ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر خالد ندیم نے اس تالیف میں توقیت کا خاص خیال رکھا ہے اور حالاتِ غالب کی تدوین میں ترتیبِ زمانی و مکانی کو ملحوظ رکھا ہے۔ یوں اس آپ بیتی میں سوانحی تسلسل برقرار رہا ہے۔
یہ بات بلاتامل کہی جاسکتی ہے کہ جس طرح مرزا غالب پر سوانح عمریوں میں مالک رام کی ’’ذکرِ غالب‘‘ اوّلیت کا درجہ حاصل کرچکی ہے، اسی طرح لمحۂ موجود تک غالب پر آپ بیتیوں میں ڈاکٹر خالد ندیم کی ’’آپ بیتی مرزا غالب‘‘ اوّلیت کا درجہ رکھتی ہے۔ اس تالیف میں واقعتا آپ بیتی کا رنگ پیدا ہوگیا ہے۔ غالب کی ایک سو پچاسویں برسی کے موقع پر ڈاکٹر خالد ندیم کی یہ کاوش غالب کے طلب گاروں کے لیے کسی ارمغان سے کم نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نہایت عمدہ آپ بیتی ہے جو بڑی محنت اور تحقیق سے مرتب کی گئی ہے۔
کتاب خوب صورت طبع کی گئی ہے۔ مجلّد ہے۔ رنگین سرورق سے آراستہ ہے۔