یہ بھی پاکستان کی تاریخ ہے

ابوسعدی
۔1948ء میں جماعت اسلامی دستورِ اسلامی کے لیے اپنی پوری قوت کے ساتھ میدان میں اتر آئی۔ اس جدوجہد میں خان عبدالقیوم خان صاحب (سابق) وزیراعلیٰ صوبہ سرحد کی مہربانی سے جیل جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ میرے جیل جانے کی داستان بھی کچھ کم دلچسپ نہیں۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ:
27 اکتوبر 1948ء کو میں پنجاب سے تجارتی مال لے کر جب (پشاور صدر میں) دکان پر حاضر ہوا تو تھوڑی دیر کے بعد مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری صاحب تشریف لائے اور مجھ سے فرمانے لگے کہ آپ مسلم لیگ کے رکن بنیں اور 2 آنے (اُس وقت پاکستانی روپے کے سولہ آنے ہوتے تھے) چندہ دیں۔ میں نے ان سے کہاکہ بھائی میں جماعت اسلامی کا رکن ہوں، میں دوسری جماعت کا رکن کیسے بن سکتا ہوں! اس پر وہ بگڑ گئے اور فرمانے لگے: تم لوگ پاکستان کے دشمن ہو۔ اب ہم تم لوگوں کو ٹھیک کردیں گے۔ اس بات پر انہوں نے تھانے میں رپورٹ کردی اور مجھے تھانے بلالیا گیا۔ جب تھانے پہنچا تو محرر نے مجھے بینچ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں وہاں خاصی دیر تک بیٹھا رہا، تقریباً4 بجے اے ایس آئی جناب شیخ محمد افضل صاحب (جو آج کل معطل ہوچکے ہیں) آئے اور بڑی تلخ کلامی سے محرر کو مخاطب ہوکرکہاکہ اس ذلیل کتے کو بینچ پر کیوں بٹھا رکھا ہے۔ پھر اس کے بعد انہوں نے مارنا شروع کردیا اور ساتھ ساتھ گالیاں بھی دینا شروع کردیں۔ یہ بھی کہتے رہے کہ تمہیں ہم اسلامی قانون دیتے ہیں۔ پھر محرر سے کہا کہ کل اس کا منہ کالا کرکے بازاروں میں پھرانا۔
رات حوالات میں کاٹی، صبح اٹھتے ہی مجھے ہتھکڑیاں پہنا کر بازار میں ایک شیر فروش کی دکان پر لے گئے اور ایک سپاہی نے میرا منہ سیاہی سے کالا کردیا۔ اگرچہ میں نے بہت سمجھایا مگر وہ باز نہ آئے۔ قصہ مختصر انہوں نے مجھے بازاروں میں خوب پھرایا۔ لوگ مجھ سے پوچھتے کہ کیا معاملہ ہے؟ تو ان سے یہ کہہ دیتا کہ جو لوگ اس ملک میں اسلامی نظام کا مطالبہ کرتے ہیں ان کا یہ حشرکیا جاتا ہے۔
حکومت نے یہ کام انتہائی سوچی سمجھی اسکیم کے تحت کیا۔ اندازاً 2 بجے دوپہر کو مجھے ای اے سی کی عدالت میں لے گئے، مگر چونکہ عدالت کا وقت ختم ہوچکا تھا، اس لیے مجھے کورٹ انسپکٹر کے سامنے پیش کردیا گیا۔ انسپکٹر صاحب نے جب میرے چہرے کی طرف دیکھا تو سپاہی پر ناراض ہوئے کہ ایسی حرکت تم لوگوں کونہیں کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے میری ہتھکڑی اتروا دی اور مجھے غسل خانے بھی بھیج دیا گیا۔ پورے ایک ماہ کے بعد مجھے اے سی صاحب جن کا نام ظفر تھا، کے سامنے پیش کردیاگیا۔
اے سی صاحب نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ آپ ملک میں انتشار پھیلاتے ہیں اور سازش کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے مجرم ثابت کریں۔ مگر انہوں نے کوئی اور جواب تو نہ دیا صرف یہ کہاکہ ’’اسلامی دستور کا مطالبہ جرم ہے‘‘۔ میں نے کہاکہ پھر تو میں واقعی مجرم ہوں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ تم 2 ہزار روپیہ ضمانت دو۔ میں نے کہاکہ میں اس ضمانت کے لیے کسی بھی صورت میں تیار نہیں ہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ پھر تمہیں ایک سال کے لیے جیل میں رہنا پڑے گا۔ میں نے کہاکہ الحمدللہ، مجھے یہ قید منظور ہے۔ میں اس جرم کی پاداش میں پورا ایک سال جیل میں رہا۔
(جماعت اسلامی پشاور کے ایک کارکن کی خودنوشت، بشکریہ ’’ہم نے جماعت اسلامی کو کیسا پایا؟‘‘ مرتبہ: پروفیسر نورورجان۔ ص:103۔104)

درد کا احساس جسم میں صرف جلد کو ہوتا ہے

جدید طب نے یہ دریافت کیا ہے کہ وہ اعصاب جو درد کا ادراک کرتے ہیں… خواہ درد چوٹ لگنے، جلنے یا شدید گرمی یا سردی کی وجہ سے ہو… فقط جلد میں پائے جاتے ہیں۔ یعنی اگر جسم میں سوئی چبھوئی جائے تو درد صرف جلد کی سطح پر ہوگا، لیکن اگر سوئی جلد سے آگے گزار دی جائے تو بقیہ گوشت میں فی الواقع درد نہیں ہوگا۔ یہ اگرچہ جدید ترین تحقیق ہے لیکن اس کی طرف اشارہ قرآن مجید میں صدیوں پہلے سے موجود ہے: ’’جن لوگوں نے ہماری آیات ماننے سے انکار کردیا انہیں بالیقین ہم آگ میں جھونکیں گے، اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزا چکھیں۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور اپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت خوب جانتا ہے‘‘۔ (النسا:56)
یعنی درد اور تکلیف کا تعلق قرآن مجید میں صرف جلد سے بیان کیا گیا ہے، اور مزید تکلیف پہنچانے کے لیے بار بار جلد ہی تبدیل کی جائے گی۔
(ڈاکٹر غلام مرتضیٰ مرحوم)

فرض شناسی

میدانِ جنگ میں سپہ سالار نے ایک توپچی کو حکم دیا کہ میدان سے پرے ایک گھر نظر آرہا ہے، اسے مسمار کر دو تاکہ دشمن اس کے پیچھے پناہ نہ لے سکے۔ سپاہی نے فوراً تعمیل کی لیکن ساتھ ہی اُس کے آنسو ٹپکنے لگے۔ سپہ سالار نے وجہ پوچھی تو کہا: یہ گھر میرا تھا اور اس میں میری بیوی دو بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔
(مرتب: علی حمزہ)

زبان زد اشعار

ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
(مرزا اسد اللہ خان غالبؔ)

تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
(محمد مومن خان مومنؔ)

مانگنے والا گدا ہے! صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطان سب گدا
(علامہ اقبالؔ)

ہنسی کے ساتھ یاں رونا ہے مثل قلقل مینا
کسی نے قہقہہ اے بے خبر مارا تو کیا مارا
(شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ)