لندن میں اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس نے متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرلیا ہے۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے اہلکاروں نے منگل کی صبح شمال مغربی لندن میں الطاف حسین کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور انھیں انٹرویو کے لیے ساتھ لے گئے۔ لندن پولیس کے بیان کے مطابق 60 برس سے زیادہ عمر کے اس شخص کو شمال مغربی لندن میں ایک مکان سے پولیس کریمنل ایویڈینس ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا اور اس پر عالمی سطح پر جرائم پر اکسانے یا ان میں مدد دینے کا شبہ ہے۔ مذکورہ شخص کو جنوبی لندن کے پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا ہے اور اسی معاملے میں تحقیقات کے لیے پولیس افسران شمال مغربی لندن کے ایک مکان کے علاوہ ایک کمرشل ایڈریس کی بھی تلاشی لے رہے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ معاملے کی تحقیقات کے دوران برطانوی پولیس کے افسران پاکستانی حکام سے رابطے میں رہے ہیں اور تحقیقات جاری ہیں۔ اپریل میں میٹروپولیٹن پولیس کے دہشت گردی کی تفتیش کرنے والے یونٹ نے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا جہاں پاکستانی حکام نے ان سے تعاون کیا تھا۔ الطاف حسین کی باقاعدہ گرفتاری کے بعد انھیں مقامی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا جہاں ایک یا دو روز میں ان کی ضمانت پر رہائی ہوسکتی ہے، تاہم اب اس مقدمے کے سلسلے میں باقاعدہ فردِ جرم عائد ہو گی اور عدالت میں مقدمہ چلے گا۔ خیال رہے کہ پاکستانی حکومت نے ستمبر 2016ء میں الطاف حسین کے خلاف ایک ریفرنس برطانوی حکومت کو بھجوایا تھا۔ اس ریفرنس کے ساتھ الطاف حسین کی مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقریر کی کاپی اور مبینہ طور پر اپنی جماعت کے لوگوں کو تشدد اور بدامنی پر اکسانے کے شواہد بھی برطانوی حکام کو فراہم کیے گئے تھے۔ اس ریفرنس میں برطانوی حکام سے کہا گیا تھا کہ ایم کیو ایم کے قائد نے نہ صرف برطانوی بلکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے، لہٰذا ان کے خلاف برطانوی قوانین کے تحت کارروائی کی جائے۔ فروری 2017ء میں پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے الطاف حسین کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کی منظوری دی تھی۔
یاد رہے کہ الطاف حسین نے 22 اگست 2016ء کو کراچی میں اپنی جماعت کے کارکنان سے ایک ٹیلی فونک خطاب میں پاکستان کے خلاف نعرے بازی کی تھی۔ اس خطاب کے بعد مبینہ طور پر ایم کیو ایم کے ارکان کی جانب سے مقامی میڈیا کے ملازمین اور دفتر پر حملے بھی کیے گئے تھے۔ اس سے قبل ا؎سکاٹ لینڈ یارڈ اکتوبر 2016ء میں منی لانڈرنگ کیس میں الطاف حسین سمیت چھ افراد کے خلاف تحقیقات ختم کرچکی ہے۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ترجمان نے اُس وقت بی بی سی اردو کو بتایا تھا کہ تمام ثبوتوں کی تحقیقات کے بعد اسکاٹ لینڈ یارڈ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس بات کے ناکافی ثبوت ہیں کہ 2012ء اور 2014ء کے درمیان ملنے والی پانچ لاکھ پاؤنڈ کی رقم جرائم کے ذریعے حاصل کی گئی تھی، یا اس رقم کو غیر قانونی کاموں کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔(بی بی سی)
سمندر میں تیل کی تلاش بند ہونے کی اصل کہانی
قدرت نے سمندر کی گہرائیوں میں آئل اور گیس کی تلاش میں پاکستان کو بھرپور کامیابی عطا کردی تھی اور اس خوش خبری کا باقاعدہ اعلان کسی بھی وقت متوقع تھا، اور وزیراعظم عمران خان ایسے ہی قوم سے نوافل ادا کرنے کی اپیلیں نہیں کررہے تھے۔ خوشی سب کے چہروں پر دیکھی جا رہی تھی، لیکن اچانک نہ جانے کیا ہوا کہ امریکہ اور اٹلی کی ENIاور EXXON جیسی تیل کی تلاش کے لیے مشہورِ زمانہ کمپنیاں اپنا بوریا بستر گول کرکے چلتی بنیں اور پاکستان کا آئل اور گیس کا بیش بہا خزانہ ایک بار پھر وہیں کا وہیں رہ گیا۔ 45 برس اور اب میں ایک فرق دیکھنے میں آیا کہ اُس وقت گوادر میں اس سائٹ کو مکملSEAL کردیا گیا، جبکہ آج ہماری ملکی سیکورٹی ایجنسیاں اور نیوی وہاں موجود ہیں۔ تیل اور گیس کی تلاش کے لیے ایکسن کمپنی 30 نومبر 1999ء میں قائم ہوئی، جس کا ہیڈ کوارٹر ارونگ ٹیکساس میں واقع ہے جو ایکسن اور موبل کا ادغام ہے۔ ایکسن آئل اینڈ گیس کے ماہرین اور انجینئرز کو کیا ہوا کہ وہ سب کچھ روک کر چلتے بنے اور یہ کیوں ہوا؟ اس کے پیچھے کارفرما بہت سی کہانیاں سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں، لیکن اس پر کچھ کہنے سے پہلے آپ کو 45 برس پیچھے کی جانب لیے چلتا ہوں۔ آپ سے گزارش ہے کہ ایک دفعہ اس کہانی کو غور سے پڑھیے گا، تاکہ معلوم ہوسکے کہ جب آج کی طرح قوم کو گوادر کے قریب سمندر میں تیل نکلنے کی بہت بڑی خوش خبری سنائی جانے والی تھی کہ صرف ایک دن پہلے اس ملک اور قوم کے ساتھ وہ کچھ ہو گیا‘ جو آج ہوا ہے۔
جیسے ہی گوادر سے کچھ فاصلے پر سمندر میں تیل کی تلاش کا کام شروع ہوا، بلوچستان میں ہمیشہ کسی ایسے ہی موقع پر بلوچ سرداروں کی جانب سے بغاوت شروع کرا دی گئی، جس میں آج کی دنیائے صحافت کے بہت سے پرندے بھی روس اور بھارت کی شہ پر لندن کی یونیورسٹیوں سے واپس آکر بلوچ سرداروں اور افغان سیکورٹی فورسز میں شامل ہوکر پاکستان کے خلاف گوریلا جنگ میں شامل ہوگئے۔ یہ بتانا اس لیے ضروری ہے کہ آج کی نئی نسل تک وہ سچ پہنچادیا جائے، تاکہ ٹی وی پروگراموں میں ہر وقت مسنگ پرسنز کے واویلے کی اصل حقیقت تک پہنچا جا سکے، اور نئی نسل کو یقین ہوجائے کہ یہ لوگ آج سے نہیں بلکہ مدتوں سے جس وطن کا کھا پی رہے ہیں، جہاں بیٹھ کر موج میلے کررہے ہیں، اسی سے نمک حرامی میں سب سے آگے کیوں ہیں؟ یہ 1973-74ء کی بات ہے جب پاکستان میں پی پی پی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی اور امریکہ کی میراتھن آئل کارپوریشن، جس کا ہیڈ کوارٹر ہیوسٹن میں ہے، گوادر کے قریبی سمندر میں تیل کی تلاش میں پوری لگن سے مصروف تھی، اس ائل کمپنی میں ایک امریکن جو بہت عرصہ کراچی میں رہنے کی وجہ سے اردو زبان سے اچھی طرح واقف ہوچکا تھا، بحیثیت ِڈپٹی چیف جیالوجسٹ کام کررہا تھا، جبکہ اس کمپنی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ایک پاکستانی ڈاکٹر مکی وردگ تھے، جو فصیح وردگ کے بھائی تھے۔
1974ء میں اس کمپنی کو پہلی کامیابی ملی جب 42 میٹر کی گہرائی سے حاصل مواد نے ان کے اندازوں کو درست ثابت کردیا۔ اس شام میراتھن کمپنی نے پاکستانی انجینئرز کے ساتھ مل کر خوب جشن منایا اور ساتھ ہی وزیراعظم بھٹو کو گوادر آنے کی درخواست کردی تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے قدرت کی پاکستان کے لیے اس نعمت کو دیکھ سکیں اور اس کے لیے عیدِ قرباں کے تیسرے روز کے لیے پروگرام ترتیب دے دیا گیا، لیکن عیدِ قرباں کے دن شاہ ایران بغیر کسی پروگرام یا سرکاری اطلاع کے اچانک لاڑکانہ ذوالفقار علی بھٹو کی رہائش گاہ آپہنچے اور پھر وہاں نہ جانے کیا ہو ا۔ اُس روز ہونے والی شاہ ایران سے گفتگو کا ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کسی بھی کتاب میں ذکر نہیں کیاہے، نہ جانے کیوں۔ جب وہ اور بہت بڑی بڑی باتوں کے حوالے اپنی کتابوں میں دے چکے،تو اس ملاقات کا حال احوال بیان کرنے میں کیا ممانعت تھی؟”’ا گر مجھے قتل کیا گیا‘‘ کے کسی ایک پیرا گراف میں وہ بتا دیتے کہ پروگرام کے مطا بق وہ عیدِ قرباں کے تیسرے روز گوادر پہنچے، لیکن میراتھن آئل کمپنی کے چیف سے انہوں نے نہ جانے کیا کہہ دہا کہ اگلے ہی دن جس میراتھن آئل کمپنی نے 42 میٹر کی کھدائی کے بعد تیل کے آثار دریافت کرلیے تھے، اس سائٹ کوSEAL کرنا شروع کردیا اور چند دنوں بعد وہ گوادر اور کراچی سے اپنا بوریا بستر سمیٹ کر عملے سمیت واپس امریکہ پہنچ گئی۔
پاکستانی جو اس امریکی کمپنی کے ساتھ کسی بھی حیثیت میں کام کررہے تھے، یوں اپنا گھر لُٹتے دیکھ کر سر پکڑ کر رہ گئے، اور بہت سے تو اس بری طرح روئے جیسے ان کا بہت ہی قریبی فوت ہوگیا ہو۔ میں اس کمپنی کے ساتھ نہایت ہی اہم فرائض انجام دینے والے ایک صاحب کو جانتا ہوں، جنہوں نے جنون کی حد تک اس کمپنی کے ساتھ کام کرتے ہوئے دن رات ایک کردیے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے جب تلاش کیے گئے تیل کی سائٹ بند کی جارہی تھی تو ان کا کہنا ہے کہ میرا دل چاہا کہ یہ سب کچھ دیکھنے کے بجائے سمندر میں چھلانگ لگا دوں، لیکن ان کا ایمان آڑے آگیا اور وہ اس قدر بددل ہوئے کہ بوجھل قدموں اور روتی ہوئی آنکھوں سے کینیڈا چلے گئے۔ ان سے اگر کبھی وطن واپس آکر پھر سے اپنا تجربہ قوم کے نوجوانوں کے سپرد کرنے کی بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ میرا تجربہ پاکستان کے آقا کبھی بھی کام نہیں آنے دیں گے۔
1973-74ء میں میراتھن آئل کمپنی نے بے تحاشا سرمایہ خرچ کرتے ہوئے گوادر کے قریبی سمندر میں تیل کی تلاش کے لیے کام شروع کیا تھا اور اس کمپنی کو اس کے طلب کیے جانے والے ہرجانے سمیت نہ جانے کتنے کروڑ ڈالر حکومتِ پاکستان نے کسی سے لے کر یا کہاں سے ادا کیے، یہ کوئی راز نہیں۔ میراتھن کے 45 برس بعد جب کیکڑا ون سےEXXONاورENI کمپنیاں اپنا کام بند کرکے واپس روانہ ہونے لگیں تو اس بوڑھے پاکستانی کی مجھے ایک بار پھر فون پر ہچکیوں میں بندھی ہوئی آواز سنائی دی ”میں نے تمہارے کالم لکھنے کے بعد کہا تھا ناں کہ کچھ نہیں ہو گا، وہ سب کچھ برباد کرکے رکھ دیں گے‘‘۔ دیار ِغیر میں بیٹھے ہوئے اس بوڑھے پاکستانی کے ساتھ میری آنکھوں سے بے ساختہ بہنے والے آنسو سوال کرنے لگے کہ نہ جانے ہم اس دیمک کی تباہ کاریوں سے کب آزاد ہوں گے؟
(منیر احمدبلوچ۔روزنامہ دنیا،11جون2019ء)