ذیابیطس وہ مرض ہے جو دیمک کی طرح خاموشی سے انسانی جسم کے اندرونی اعضا کو چاٹ جاتا ہے، اور اگر اس کے بارے میں بروقت معلوم نہ ہوسکے تو یہ بینائی سے محرومی سے لے کر گردوں کے فیل ہونے اور دیگر لاتعداد طبی مسائل کا سبب بنتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر ذیابیطس ٹائپ ٹو کے شکار 25 فیصد افراد کو اکثر اس کا شکار ہونے کا علم ہی نہیں ہوتا، تو یہ ضروری ہے کہ بلڈ شوگر چیک اپ کرانا معمول بنالیا جائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ کون سی عمر ہے جب بلڈ شوگر کا چیک اپ کرانا زندگی کے معمولات کا حصہ بنانا چاہیے؟ مگر اس سے پہلے جان لیں کہ صحت مند افراد کا بلڈ شوگر لیول کیا ہونا چاہیے۔
ایک صحت مند شخص کا کھانے سے پہلے شوگر لیول 70 سے 100 ایم جی/ ڈی ایل، اور کھانے کے بعد 70 سے 140 ایم جی/ ڈی ایل ہوتا ہے، جبکہ ذیابیطس کے آغاز یا پری ڈائیبٹیس کے شکار افراد میں کھانے سے قبل 101 سے 125 ایم جی/ ڈی ایل، اور کھانے کے بعد 141 سے 200 ایم جی/ ڈی ایل ہوسکتا ہے۔ ذیابیطس کے شکار افراد میں کھانے سے قبل بلڈ شوگر 125 ایم جی/ ڈی ایل یا اس سے زیادہ، جبکہ کھانے کے بعد 200 ایم جی/ ڈی ایل یا اس سے زائد ہوسکتا ہے۔ ہر وہ شخص جس کی عمر 45 سال سے زیادہ ہو، اسے اپنا ابتدائی بلڈ شوگر چیک اپ کرالینا چاہیے، اگر نتیجہ نارمل آتا ہے تو ہر تین سال بعد ایسا کرنا چاہیے۔ اگر جسمانی وزن بہت زیادہ بڑھ جائے تو بھی بلڈ شوگر لیول چیک اپ ہر ایک سے 3 ماہ کے اندر کرا لینا چاہیے۔ جبکہ ہائی بلڈ پریشر، کولیسٹرول لیول میں اضافہ، ہر وقت بیٹھے رہنے یا امراض قلب کی صورت میں بھی اس چیک اپ کو عادت بنالینا چاہیے۔ اگر پری ڈائیبٹیس کی تشخیص ہوچکی ہے تو ہر سال اس چیک اپ کو عادت بنانا چاہیے۔ دورانِ حمل اگر خواتین میں ذیابیطس کی تشخیص ہوتی ہے تو انہیں ہر تین سال بعد ذیابیطس کی اسکریننگ کرانی چاہیے۔ بلڈ شوگر بڑھنے کی علامات میں بہت زیادہ پیاس، بہت زیادہ پیشاب آنا خاص طور پر رات کو، وزن میں کمی، جلد پر خارش، زخم جو معمول کے بجائے بہت دیر سے بھریں۔
لو بلڈ شوگر کی علامات میںکمزوری اور کپکپاہٹ محسوس ہونا، جلد زرد پڑ جانا اور ٹھنڈ سمیت چپچپاہٹ محسوس ہونا، چڑچڑاہٹ، الجھن اور خراب رویّے کا مظاہرہ، دل کی دھڑکن کی رفتار اچانک بڑھ جانا، مریض کا ہوش و حواس کھو دینا یا بے ہوش ہوجانا شامل ہیں۔
بچے کی کھانسی کی ’آواز‘ سن کر مرض بتانے والی ایپ تیار
چھوٹے بچے کھانسی کا شکار ہوتے رہتے ہیں جس کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ اب ایک ایپ کے ذریعے ان کی کھانسی کی آواز نوٹ کرتے ہوئے پیشگوئی کی جاسکتی ہے کہ بچے کے کس مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔کھانسی کی آواز اور شدت سن کر ایپ بتاسکتی ہے کہ آخر بچہ دمے کا شکار ہے، اسے نمونیا ہے، یا اس کی سانس کی نالی میں سوزش ہے۔
آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف کوئنزلینڈ کے ڈاکٹر پال پورٹر اور پروفیسر ادنتھا ابی رتنے نے پہلے بچوں کی کھانسیوں کا ایک مکمل ڈیٹا بیس بنایا ہے۔ اس میں 1437 بچوں کی کھانسی کی صدائیں جمع ہیں جن کی عمر 29 روز سے لے کر 12 برس تک ہے۔ ہر بچے کو لاحق کھانسی اور اس سے وابستہ مرض کی پوری تفصیل بھی ڈیٹا بیس کا حصہ ہے۔ مشین لرننگ الگورتھم کی بدولت ایپ کو 852 ریکارڈنگز پر تربیت دی گئی ہے ۔ ایپ ہر کھانسی کی آواز سن کر اس سے وابستہ مرض کی رہنمائی کرتی ہے۔ اگلے مرحلے میں اسپتال لائے جانے والے نئے مریض بچوں پر یہ ایپ آزمائی گئی۔ 585 بچوں میں 81 سے 97 فیصد درستی کے ساتھ ان کے مرض کی پیشگوئی کی گئی جو بعد میں مزید ٹیسٹ سے واضح ہوکر سامنے آئی۔ یوں پہلے مرحلے میں ہی ڈاکٹروں کو مرض کے بارے میں اچھا اشارہ مل گیا۔ اس ایپ کو ریس ایپ کا نام دیا گیا ہے۔ مزید بہتری کے بعد ایپ اس قابل ہوسکتی ہے کہ دوردراز علاقوں میں گھر بیٹھے والدین اپنے بچے کے مرض سے آگاہ ہوسکیں، یا پھر ٹیلی میڈیسن سسٹم کے ذریعے دور بیٹھے ڈاکٹر سے مشورہ لے سکیں، اور ڈاکٹر دوا تجویز بھی کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر پال پورٹر کہتے ہیں کہ بچوں میں سانس کے امراض کی شناخت بہت مشکل ہوتی ہے اور ماہر ترین ڈاکٹر بھی اس میں مات کھا جاتے ہیں۔ ’’یہ نئی ٹیکنالوجی ریاضیاتی تصورات، مشین لرننگ، اسپتالوں کے ریکارڈ اور ڈاکٹروں کی رائے پر مبنی ہے اور اس سے بچوں میں کھانسی کے مرض کی کامیاب شناخت ہوسکتی ہے۔‘‘
وٹامن ڈی کینسرسے ہونے والی اموات کو کم کرتا ہے
اگر کینسر کے شکار مریض اپنے معمول کے علاج کے ساتھ ساتھ وٹامن ڈی کے سپلیمنٹ استعمال کرتے رہیں تو ان کی عمر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ امریکی سوسائٹی آف کلینکل آنکالوجی کی سالانہ میٹنگ میں ماہرین نے اس ضمن میں اپنی تحقیقات پیش کی ہیں۔ یہ سروے مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی اور اسی شہر میں ہرلے میڈیکل سینٹر نے مشترکہ طور پر انجام دیا ہے۔ ٹیم کے سربراہ طارق ہیکل نے کہا ہے کہ کینسر سے متاثرہ افراد میں وٹامن ڈی کا مسلسل استعمال ان کی موت کے خطرے کو کم تو کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس بات کا کوئی ثبوت نہ مل سکا کہ وٹامن ڈی کینسر لاحق ہونے کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ماہرین نے اپنی تحقیق میں 79 ہزار مریضوں کا ڈیٹا کھنگالا ہے جس میں تین سال تک مریضوں کو وٹامن ڈی دیا گیا تھا اور بقیہ مریضوں کو فرضی دوا (پلے سیبو) کھلائی گئی، اس کے بعد کینسر کے وقوع ہونے اور اموات کو نوٹ کیا گیا تھا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ جنہوں نے تین سال تک وٹامن ڈی استعمال کیا، دیگر مریضوں کے مقابلے میں وہ زیادہ عرصے تک زندہ رہے۔ اسی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ سرطان کے شکار مریض وٹامن ڈی سے اپنی بقا کا دورانیہ طویل کرسکتے ہیں۔ اس سب کے باوجود طارق ہیکل یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ درحقیقت وٹامن ڈی کی کتنی مقدار اس میں مفید ثابت ہوسکتی ہے، تاہم انہوں نے اس پر مزید تحقیق کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ دوسری جانب یہ بھی واضح نہ ہوسکا کہ وٹامن ڈی درحقیقت کتنے عرصے تک کھایا جائے، لیکن سروے میں تین سال تک وٹامن ڈی کھانے کے فوائد ضرور سامنے آئے ہیں۔ اپنے اس مطالعے کے بعد انہوں نے ڈاکٹروں پر زور دیا ہے کہ وہ کینسر کے شکار مریضوں کو وٹامن ڈی کا نسخہ ضرور لکھ کر دیں۔