فرد کی بچپن سے جس ماحول میں نشوونما ہوتی ہے، وہی ماحول لاشعور میں موجود ان احساسات و میلانات و رجحانات کی فروغ پذیری اور غلبے کا ذریعہ بنتا ہے۔ چونکہ عام طور پر فرد کو بچپن سے نفسانی جذبات کے مظاہر و مناظر اور نفسیانیت سے عبارت ماحول ملتا ہے، اس لیے فرد کے لاشعور میں شروع سے مادی جذبات و احساسات کی فروغ پذیری اور ان احساسات کے مچلتے رہنے کے عمل کا غلبہ ہونے لگتا ہے۔ یہی جذبات آگے چل کر فرد کی شخصیت کو حاسدانہ کارروائیوں، اپنی فوقیت کے لیے کاوشوں، جنسی جذبات کے بے لاگ مظاہرے اور دوسروں کی تحقیر وغیرہ کی راہ پر گامزن کرتے ہیں۔ اس طرح یہ طاقتور منفی احساسات اور منفی نوعیت کی سرگرمیاں لاشعور میں ایسا تہلکہ برپا کردیتی ہیں، جس سے شعور غیر معمولی تنائو اور حالتِ دبائو کا شکار ہوجاتا ہے اور فرد و افراد مریض ہوجاتے ہیں۔
مسلم نفسیات کا کہنا ہے کہ اگر فرد و افراد کو بچپن سے لاشعور میں موجود طاقتور مثبت میلانات و رجحانات کی فروغ پذیری کا موقع ملتا رہے اور شخصیت کی تربیت اور تعمیر میں ان مثبت میلانات سے کام لے کر، ان کو طاقتور بنایا جائے تو لاشعور یعنی باطن کی دنیا ایسی روشن ہوجاتی ہے، جس سے نہ صرف باطن میں موجود منفی قوتوں پر غلبہ پاکر شخصیت کے توازن کو قائم و برقرار رکھا جاسکتا ہے، بلکہ اس سے فرد و افراد روشن کردار کے حامل بھی بن جاتے ہیں۔ ایسا روشن کردار، جس سے انسانی معاشرہ پاکیزگی سے معمور ہوجاتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں نفسیاتی مریضوں کی پیدائش و نشوونما کا عمل ازخود رک جاتا ہے۔
لاشعور یعنی باطن میں موجود پاکیزہ محبت کے جذبات (جو انسان کو دوسری مخلوق سے ممتاز بناتے ہیں) کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے کہ جدید نفسیات غلط رخ پر چلی گئی ہے، نفسیاتی ماہروں کی اس غلط تحقیق نے ہی تعلیمی و تربیتی اداروں اور میڈیا کے ذریعے انسانی شخصیت کی صحیح نوعیت اور اس کے حقیقی تقاضوں کو سمجھنے اور اس کی تسکین کی راہ میں غیر معمولی رکاوٹیں پیدا کردی ہیں۔ اس طرح انسانی معاشرہ نفسیاتی مریضوں کے معاشرے میں تبدیل ہوگیا ہے۔
مسلم نفسیات کے ماہروں کا کہنا ہے کہ انسان کی تخلیق کچھ اس طرح ہوئی ہے کہ اس میں محبوبِ حقیقی سے محبت کے لازوال جذبات کو بھردیاگیا ہے۔ انسان کے دوسرے سارے جذبات اسی ایک جذبے کے تابع کردیئے گئے ہیں۔ اگر پاکیزہ محبت کے جذبات کی تشفی و تسکین کا اہتمام کیا گیا اور ان جذبات کو نشوونما دے کر ارتقا کے آخری مقام تک پہنچایا گیا تو گویا انسان کے سارے جذبات کی تسکین کی صورت پیدا ہوگئی۔ اس کے بعد لاشعور سے منفی جذبات و احساسات یا اس کی پرانی یادیں اٹھ کر فرد کے شعور کو تہ و بالا کریں، یہ ممکن ہی نہیں، اس لیے کہ جب لاشعور یعنی باطن درندوں سے خالی ہوگیا، وہ پاک و صاف اور مہذب ہوگیا تو اس طرف سے دبائو کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس طرح لاشعور یعنی باطن کی تہذیب کے عمل سے بڑھتے ہوئے ڈپریشن کے مرض سے ازخود نجات کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔
افسوس کہ انسانی لاشعور کی صحیح نوعیت کو نہ سمجھنے والوں کا تعلیم، تربیت اور میڈیا پر اتنا غلبہ ہوگیا ہے کہ مسلم نفسیات کے ماہروں کے اس نقطہ نگاہ کو میڈیا سے شرح و بسط سے پیش کرنے کی صورتیں ہی مسدود ہوگئی ہیں، اسی کی یہ سزا ہے جو انسانیت بھگت رہی ہے کہ بڑھتی ہوئی نفسیاتی بیماریوں سے بچائو اور ان کے علاج کی صورتیں ناپید ہوگئی ہیں، اور انسانی نفسیات میں پیدا کردہ ایک آگ ہے، جس میں آج انسانیت جل رہی ہے۔
مسلم نفسیات میں ڈپریشن کے بڑے سے بڑے مریضوں کا ایسا تسلی بخش انتظام موجود ہے کہ جدید نفسیات کے ماہروں کے ہاں اس کا تصور بھی دشوار ہے۔ مسلم نفسیات میں ڈپریشن کے مریض کو کہا جاتا ہے کہ وہ مسلم ماہر نفسیات (جسے روحانی استاد اور مربی کہا جاتا ہے) کی صحبت میں مسلسل آتا رہے، روزانہ نہیں تو کم از کم ہفتے میں ایک بار ضرور آتا رہے، اور اپنے آپ کو مریض سمجھ کر آتا رہے اور اپنی شخصیت کو مکمل طور پر روحانی استاد کے حوالے کردے۔ صحبت کے اس عمل سے روحانی استاد کے لاشعور یعنی باطن سے طاقتور مثبت شعاعیں اٹھ کر، مریض کے لاشعور کو بدل کر، اسے مثبت بنانے اور اس کے شعور اور اس کے رخ کو بدلنے میں کردار ادا کرتی رہیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ مریض کو اسم ذات کا ذکر بھی دیا جاتا ہے، اس ذکر کے اہتمام سے اس کے قلب میں لازوال ہستی کے انوار حسن کا ورود ہونے لگتا ہے، جس سے لاشعور میں موجود منفی قوتوں کے خلاف جنگ کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
صحبت اور ذکر کے عمل سے ڈپریشن میں محسوس شدہ کمی آنا شروع ہوجاتی ہے اور نئی زندگی کا احساس مریض کو خوشیوں سے سرشار کرنے لگتا ہے۔
مسلم نفسیات کے ماہروں یعنی روحانی استادوں کا کہنا ہے کہ پاکیزہ صحبت اور ذکر کے عمل میں اصل نیت تہذیبِ نفس اور محبوبِ حقیقی کی رضامندی کی ہونی چاہیے، فرد اس نیت سے صحبت اختیار کرے گا تو اسے حیات طیبہ یعنی پاکیزہ زندگی اور لذیذ ترین زندگی کی نعمتِ عظمیٰ حاصل ہوگی، اور آج انسانیت کا جو جوہر رخصت ہوگیا ہے، اس جوہر سے بہرہ وری کی صورت پیدا ہوگی۔
( ”جدید انسان کا داخلی بحران اور اس سے نکلنے کی صورت“۔محمد موسیٰ بھٹو)
بیادِ مجلس اقبال
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر!
مردِ ناداں پہ کلامِ نرم و نازک ہے بے اثر!
(بھرتری ہری)
اقبال نے خود فرمایا ہے کہ یہ شعر بھرتری ہری کے کلام سے ماخوذ ہے۔ بھرتری ہری زمانہ قدیم میں مالوہ کا حکمران تھا، ابتدائی زندگی عیش و عشرت میں بسر کی، پھر ایک دم طبیعت بادشاہی اور دنیاداری سے بیزار ہوگئی اور سب کچھ چھوڑ کر درویش بن گیا۔ غالباً اسی زمانے میں اس نے بعض کتابیں لکھیں۔ زیر غور شعر بھرتری کے مندرجہ ذیل حکیمانہ قول سے ماخوذ ہے:
’’عقل کے زور سے کسی شخص کا کسی مورکھ کو راہِ راست پر لانے کے لیے کوشش کرنا ایسا ہی بے سود ہے، جیسا کسی شخص کا مست ہاتھوں کو کنول کے ڈنٹھل سے روکنا، یا سرس کے نازک ریشوں سے ہیرے میں چھید کرنا‘‘۔
اقبال کہتے ہیں کہ پھول کی پتّی ہیرے کا جگر کاٹ سکتی ہے اور یہ ناممکن ممکن بن سکتا ہے، لیکن بے سمجھ آدمی پر نرم و نازک کلام کا کچھ اثر نہیں ہوسکتا۔