اسلامی اقتدار کے لیے جدوجہد

اسلام اور دوسرے مذاہب کا بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلام اجتماعیت کا داعی ہے اور صحت مند اجتماعیت کے قیام کی جدوجہد کو مسلمانوں کا فریضہ قرار دیتا ہے، جبکہ دوسرے مذاہب میں جماعت اور جماعتی جدوجہد ضروری نہیں ہے، فرد اپنے طور پر گناہوں سے بچا رہے، چند نیک اعمال اور کچھ رسومات کا پابند ہو، تو یہ اس کی اخروی نجات کے لیے کافی ہے، بلکہ اسلام کے سوا جو مذاہب ہیں اُن میں زیاہ زور انفرادیت پر ہی ہے، اور جو شخص خلقِ خدا سے دور رہ کر عبادات و ریاضتوں میں مصروف رہے وہ ولی اللہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اسلام معاشرے سے فرار کا مذہب نہیں ہے۔ وہ معاشرے میں رہنا، بسنا سکھاتا ہے اور معاشرے کی تبدیلی کے لیے جدوجہد کا حکم دیتا ہے۔ یہی جدوجہد ’’جہاد‘‘ ہے اور دینِ اسلام کی بنیاد ہے۔
عصرِ حاضر میں مولانا مودودیؒ کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے دین کو انفرادی مذہب کے ساتھ ایک اجتماعی نظام کا داعی بھی قرار دیا، اور اس اجتماعی نظام کو بروئے کار لانے کے لیے جماعتی سطح پر جدوجہد کو بھی ضروری بتایا، اور اس غرض کے لیے خود بھی ایک جماعت قائم کی اور اس جماعت کے اثرات سارے عالمِ اسلام پر ہوئے۔ مولانا نے کوئی نئی بات نہیں کہی تھی، لیکن چونکہ مسلمان ایک عرصے سے اسلام کو محض پوجا پاٹ یا اذکار و وظائف کا مذہب سمجھ رہے تھے اور ان کے خیال میں اجتماعی جدوجہد شرطِ دین نہیں تھی، اس لیے مولانا کی بات بہت سے لوگوں کو عجیب لگی اور ان میں ہمارے کچھ علما بھی شامل تھے، انہوں نے کہا کہ اسلام کہیں بھی مسلمانوں سے نہیں کہتا کہ تم ایک حکومت یا اجتماعی نظام قائم کرو، حکومت و سیاست کے بکھیڑوں سے اسلام کا تعلق ہی نہیں ہے، اگر فرنگی کی حکومت ہے تو کہا ہے تم اپنے گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرو۔ مسلمان کو جہاں سجدے کی اجازت ہے وہ جگہ ’’دارالامان‘‘ ہے، اور امن و عافیت کو غنیمت جان کر نماز، روزہ کرتے رہو۔ اجتماعی جدوجہد کا موقع ہے نہ ضرورت۔ یہ خیال عرصے تک مسلمانوں کے ذہن پر حاوی رہا کہ دین ان سے کسی اجتماعیت کو قائم کرنے یا اجتماعی جدوجہد کا تقاضا نہیں کرتا اور ملکہ وکٹوریہ یا ملکہ معظمہ کی حکومت نے جو مذہبی آزادیاں دے رکھی ہیں ان پر ان کے شکر گزار رہو اور حکومتِ وقت کی بے چوں و چرا اطاعت کرو۔ لیکن مسلمانوں کو اس طرح بے عمل کب تک رکھا جاسکتا تھا! اس لیے مسلمانوں نے بھی تعلیمی اور معاشرتی انجمنوں کے بعد سیاسی جماعت سازی پر توجہ دی اور اس طرح مسلم سیاسیات کا دور شروع ہوا۔ لیکن اب بھی خیال یہی تھا کہ اس جماعت سازی اور اس کے تحت جدوجہد کا ’’دین‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں کے دنیوی مفاد کے لیے ہے اور اس کے پلیٹ فارم پر ہر طرح کے لوگ نہ صرف جمع ہوسکتے ہیں بلکہ مسلم قوم کے رہنما بھی بنائے جاسکتے ہیں۔ کچھ لوگ اس سے بھی آگے گئے اور کہا کہ وطنی مفادات کے لیے ہندوئوں کے ساتھ مل کر بھی ایک سیکولر حکومت قائم کرنے کی جدوجہد ہوسکتی ہے، اس میں ”دین“ کہیں بھی حارج نہیں۔ البتہ مولانا ابوالکلام آزاد نے اس دور میں مسلمانوں کو اپنا فریضہِ دعوت یاد دلایا، لیکن وہ بھی اپنے اس مشن سے جلد دست بردار ہوکر نہرو و گاندھی کے ساتھ ہوگئے۔ اب ایک طرف یہ ہندو مسلم مشترکہ جدوجہد کے حامی مسلمان رہنما تھے، دوسری طرف مسلمانوں کے دنیوی مفادات و حقوق کے لیے ہندوئوں سے الگ رہ کر بلکہ ان کے علی الرغم جدوجہد کرنے والے لوگ تھے۔ مسلمانوں کو اپنی ملّی حیثیت کا کچھ احساس ترکِ خلافت کی وجہ سے تھا، لیکن اس کو جب مصطفیٰ کمال نے ختم کیا تو خلافت سے متعلقہ سارے تصورات بھی ختم ہوگئے۔ اب اُمہ کے بجائے مسلم قوم کی حیثیت میں سوچ مزید پروان چڑھی۔ یہ حالات تھے جب مولانا مودودیؒ نے کہاکہ مسلمان کا مشن خدا کی سرزمین پر خدا کے دین کو غالب کرنا اور حکومتِ الٰہیہ قائم کرنا ہے۔ نہ آزاد وطن میں سیکولر حکومت منشائے اسلام ہے اور نہ مسلمانوں کا قومی وطن دینی تقاضے پورا کرسکتا ہے، مسلمانوں کی ذمہ داری شہادتِ حق کے فریضے کی ادائیگی ہے،ان کا دینی فریضہ یہ ہے کہ وہ ایسی حکومت اور ایسا نظام قائم کرنے کی کوشش کریں جو اسلام کے اصولِ صلاح و فلاح پر مبنی ہو۔ مسلمانوں کی وطنی یا قومی حیثیت ثانوی ہے، بنیادی حیثیت دعوتی گروہ کی ہے، اور جب اہلِ دعوت شہادتِ حق اور تبلیغ کا فریضہ اس طرح ادا کرلیتے ہیں کہ اتمام حجت ہوجاتی ہے تو پھر وہ جہاد کا علَم بلند کرکے بھی میدان میں نکلتے ہیں۔ لیکن جب مولانا نے فریضۂِ دعوت کے لیے جماعت بنائی اور حکومتِ الٰہیہ کو اپنا نصب العین قرار دیا تو اعتراضات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی کہ اسلام میں یہ کمبخت حکومت کہاں سے آگئی ’’مسلمان اور اقتدار کا طالب ہو‘‘ لاحول ولا۔ اس طرح کے اعتراضات کے فتنے کو رفع کرنے کے لیے مولانا نے جماعت کے دستور سے حکومتِ الٰہیہ کی اصطلاح نکال کر فریضہِ اقامتِ دین کے الفاظ رکھ دیئے، لیکن اب بھی لوگوں کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا اور کہا گیا کہ یہ سب مولانا کے ذہن کی اختراع ہے، اسلام کہیں بھی مسلمانوں کے لیے یہ لازم نہیں قرار دیتا کہ وہ ایک جماعت قائم کریں اور اسلام کے غلبے کی جدوجہد کریں۔ اس اعتراض میں نیا مفہوم داخل کرکے یہ بھی کہا گیا کہ جماعتِ اسلامی والے اپنے آپ کو مسلمان اور باقی سب مسلمانوں کو غیر مسلم سمجھتے ہیں کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت تو دینِ حق کے غلبے کے لیے کسی جماعت میں شامل نہیں ہے، اس لیے وہ جماعت اسلامی کے فلسفے کے تحت مسلمان نہیں ہے، اور مولانا مودودیؒ نے ’’نسلی مسلمان‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنی جماعت سے باہر کے مسلمانوں کو غیر مسلم سمجھتے ہیں۔
اس طرح کی ظالمانہ الزام تراشی پر مولانا اور جماعت نے بڑے صبر کا مظاہرہ کیا اور بار بار کہا کہ ہم دوسرے علما کی طرح کارخانہ تکفیر نہیں چلا رہے ہیں، ہمارا مطلب تو صرف یہ ہے کہ مسلمان اپنے اصلی مشن پر متوجہ ہوں اور اپنی دعوتی حیثیت کو سمجھ کر دعوت و اصلاح کے کام پر توجہ مرکوز کریں کہ اگر وہ جماعت سازی کررہے ہیں تو صرف دنیوی مقاصد کے لیے نہ کریں، فریضہ اقامتِ دین کو بھی پیش نظر رکھیں۔ اس کے جواب میں اوّل تو یہ کہا گیا کہ دین کا اقتدار قائم کرنا اسلام میں کہیں بھی مطلوب و مقصود نہیں ہے، اور اگر ہے بھی تو اپنی موجودہ کمزور اور خراب و خستہ حالت کے پیش نظر ہم اس کے مکلف نہیں رہے، اب ہمیں آپ اپنی ’’دنیا‘‘ بنانے کے لیے کام کرنے دیں اور خوامخواہ کا انتشار نہ پھیلائیں۔ حالانکہ جماعت کے مٹھی بھر لوگ کس گنتی میں تھے کہ وہ مزاحم ہوسکتے، اور نہ ان کی نیت کسی کے کام میں مزاحم ہونے کی تھی، وہ تو مسلمانوں کو ان کا وہ بھولا ہوا سبق یاد دلانا چاہتے تھے جو ابوالکلام آزاد نے بھی یاد دلانے کی کوشش کی تھی اور کہا تھا کہ مسلمانوں میں یہ بڑی غلط فہمی ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کا عام مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو امتِ مسلمہ کا بنیادی نصب العین ہے اور اس کے لیے اجتماعی جدوجہد مسلمان پر فرض ہے۔ مگر جو بات مولانا ابوالکلام نے کہی تھی وہ مولانا مودودیؒ نے جب تک جماعت بنائے بغیر کہی اس کی تعریف ہوتی رہی، لیکن جب مولانا نے اپنے کہے کے مطابق جدوجہد کے لیے جماعت تشکیل دی تو توپوں کا منہ کھل گیا، مگر اب تو یہ حقیقت سب ہی تسلیم کرچکے ہیں کہ جب تک اقتدار غلط ہاتھوں میں ہوگا انفرادی نیکی یا وعظ ونصیحت کے ذریعے معاشرے کے بگاڑ کو روکا نہیں جاسکتا، اور اب یہ کہنے کی گنجائش نہیں رہ گئی کہ اسلام کا اقتدار سے کیا تعلق؟ اقتدار اسلام کا نہ ہو تب بھی ہمارا اسلام چلتا رہے گا۔ اسلامی نقطہ نظر تو خیر یہی ہے کہ اقتدار صحیح ہاتھوں میں ہونا چاہیے، لیکن اب تمام غیر اسلامی مکاتبِ فکر بھی یہ کہتے ہیں کہ ریاست و حکومت نے جو وسعت اختیار کی ہے اس کے بعد اقتدار کو غلط ہاتھوں میں رکھ کر کوئی اصلاح نہیں ہوسکتی، اور غلط اقتدار سے معاشرہ اور غلط ہوتا چلا جائے گا۔