ہمارے زمانے تک آتے آتے عید بھی طبقاتی محسوس ہونے لگی ہے اور اس کا اثر بچوں کے مزاجوں تک پر پڑا ہے۔ چنانچہ لاکھوں والدین کے لیے عید ایک اندیشہ بن جاتی ہے
اسلام اتنا ’’حقیقی‘‘ ہے کہ وہ مسلمانوں کو غم کیا، خوشی میں بھی ’’وقار‘‘ سے محروم نہیں ہونے دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں تہواروں کی بہتات ہے نہ میلوں ٹھیلوں کا کلچر۔ اسلام کے اصل تہوار صرف دو ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحی۔ ان تہواروں کی ’’مسرت‘‘ اپنی اصل میں روحانی بھی ہے اور نفسیاتی اور جذباتی بھی۔ ان تہواروں کا ایک مرکز خدا ہے، اور دوسرا مرکز انسان اور ان کے باہمی تعلقات۔ ان تہواروں کا خدا مرکز ہونا شعورِ بندگی کی علامت ہے، اور انسان مرکز ہونا فروغِ انسانیت اور فروغِ محبت کا استعارہ ہے۔ اس لیے کہ ان تہواروں سے مسلمانوں کی وحدت اور شوکت ظاہر ہوتی ہے۔ ان باتوں کو آسان پیرائے میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ مسلمانوں کی مسرت کا مرکز یا تو خدا ہے، یا اس کے انسانی رشتے اور تعلقات۔ خدا کا شکر ہے کہ مسلمانوں کا شعورِ بندگی تو عیدین پر نماز دوگانہ کے ذریعے آشکار ہوجاتا ہے اور مسلمان اپنی نفسی حالت کے مطابق ان نمازوں کی ادائیگی سے روحانی مسرت کشیدکرلیتے ہیں۔ لیکن انسانی تعلقات سے حاصل ہونے والی خوشی مدتوں سے کمیاب ہے۔
اس کمیابی کا بنیادی سبب انسانی تعلقات کا بحران ہے۔ اس بحران کی ہولناکی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ خاندان، خاندان نہیں رہے… والدین، والدین نہیں رہے… اولاد، اولاد نہیں رہی… شوہر، شوہر نہیں رہے… بیویاں، بیویاںنہیں رہیں… عزیز، عزیز نہیں رہے… رشتے دار، رشتے دار نہیں رہے… دوست، دوست نہیں رہے… پڑوسی، پڑوسی نہیں رہے… بزرگ، بزرگ نہیں رہے… خورد، خورد نہیں رہے۔ نتیجہ یہ کہ انسان، انسان نہیں رہے… زندگی، زندگی نہیں رہی۔ چنانچہ زندگی سے حقیقی خوشی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوچکی ہے۔ شاعر نے کہا ہے ؎
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں، کوئی کہیں رہتا ہے
اسلام کے دائرے میں خاندان کا ادارہ اصولِ توحید کے سماجی مظہر کی حیثیت رکھتا ہے۔ خاندان پورا معاشرہ بلکہ پوری تہذیب ہے۔ جب معاشرے اور تہذیب میں کوئی بڑا عدم توازن پیدا ہو تو جان لینا چاہیے کہ خاندان کے ادارے میں کوئی بڑی خرابی پیدا ہوگئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ مسلم معاشرت میں خاندان کا ادارہ بڑا مضبوط تھا اور بڑا خوبصورت بھی، مگر ہمارے روحانی، اخلاقی اور علمی زوال نے اس ادارے کو بنیادوں سے ہلا دیا۔ اسلام خاندان کے کسی ایک تصور یا کسی خاص قسم پر اصرار نہیںکرتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک طویل مدت تک مشترکہ خاندانی نظام ہماری تہذیب کا مرکز تھا۔ ہمیں مشترکہ خاندانی نظام میں پروان چڑھنے اور رہنے کا تجربہ ہے۔ بلاشبہ اس نظام میں کچھ خامیاں بھی تھیں، مگر اس کی خوبیاں خامیوں سے زیادہ تھیں۔ ہمیں یاد ہے کہ اس خاندانی نظام میں رمضان اور عید بہت بڑے تجربے یا بہت بڑی روحانی مسرت سے بھری ہوئی واردات کی حیثیت سے وارد ہوتے تھے۔ رمضان اور عیدین کا چاند دیکھنا ایک پُرمسرت مہم ہوا کرتا تھا۔ رمضان کے دوران گھر میں اجتماعی قرآن خوانی کی صورت پیدا ہوجاتی تھی۔ دو جائے نمازیں اٹھ رہی ہوتی تھیں، دو بچھ رہی ہوتی تھیں۔ اب ہم گھروں میں بہنوں کو اس بات پر لڑتے دیکھتے ہیں کہ فلاں نے برتن دھو دیے ہیں تو اب وہ ہرگز جھاڑو نہیں لگائے گی۔ ہم نے مشترکہ خاندانی نظام میں عم زادوں یعنی کزنز کو اس بات پر لڑتے ہوئے دیکھا ہے کہ برتن دھونے والی کو جھاڑو لگانے سے زبردستی روکا جارہا ہے۔ جب محبت ہوتی ہے تو یہی ہوتا ہے، خاندان کا ہر فرد دوسرے سے زیادہ بوجھ اٹھانے کا متمنی ہوتا ہے۔ آج شہری تمدن میں یہ شکایت عام ہے کہ عید کے دن بوریت بہت ہوتی ہے، چنانچہ اکثر لوگ عیدکا دن سوکر گزارتے ہیں۔ مگر ہمیں مشترکہ خاندانی نظام کے طویل تجربے کی ایک عید بھی ایسی یاد نہیں جب ہم نے عید کے حوالے سے بوریت کا ذکر سنا ہو۔ اس کے برعکس عید کے دن ایسا لگتا تھا کہ عید کے دن کے بارہ چودہ گھنٹے چار پانچ گھنٹوں میں گزر گئے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ عید کے دن تمام عزیزوں اور محلے داروں میں شیر بانٹا جاتا تھا اور عزیز ہی نہیں پڑوسی تک عیدی دے دیا کرتے تھے۔ مگر مشترکہ خاندانی نظام کا تجربہ ختم ہوگیا، اس کی جگہ Single Unit Family نے لے لی۔ یہ بنیادی انسانی تعلقات کے سمٹنے کا عمل تھا۔ مگر اس عمل میں صرف خاندان چھوٹا نہیں ہوا، دل بھی چھوٹے ہوگئے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم رشتوں اور تعلق کو بسر کرتے تھے۔ اب ہم بہت تیر مارتے ہیں تو رشتوں اور تعلق کو ’’نبھاتے‘‘ ہیں۔ اس سے نچلی سطح یہ ہے کہ ہم اپنے اپنے سماجی کردار یا Social Role کی “Acting” کرتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اداکاری صرف فلموں اور ڈراموں میں ہوتی ہے، مگر ایسا نہیں ہے، ہم ایسے سیکڑوں لوگوں کو جانتے ہیں جو صرف اپنے رشتے یا تعلق کی ’’اداکاری‘‘ کرتے ہیں۔ اس دائرے کے ’’اداکاروں‘‘ کے سامنے ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے اداکار کچھ نہیں بیچتے۔ اس منظرنامے میں عید کی حقیقی خوشی کہاں موجود ہوسکتی ہے!
مشترکہ خاندانی نظام میں تایا، چاچا اور عم زاد بوجھ بنے تو والدین اور بچوں پر مشتمل خاندانی نظام کا تجربہ سامنے آیا، مگر اب مدتوں سے اس دائرے میں بھائی بہن ایک دوسرے کے لیے بوجھ بن رہے ہیں۔ ہم ایسے کئی خاندانوں کو جانتے ہیں جہاں دو یا تین بھائی اس لیے مل کر نہیں رہ سکے کہ ان کی بیویاں اپنے شوہروںکی تنخواہ میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ اور بیویوں کو موردِالزام ٹھیرانا بھی غلط ہے، اس لیے کہ ان کے شوہر بھی اصل میں یہی چاہتے تھے۔ مغرب میں Single Unit Family کے نظام کو ناکام ہوئے عرصہ ہوگیا۔ اس کی وجہ مغرب کی فرد پرستی یا Individualism ہے۔ ہم نے مغرب کو پڑھا ہو یا نہ پڑھا ہو، مگر ہمارے یہاں مغربیت ایک طوفان بنی ہوئی ہے اور مسلم معاشروں میں کسی درسی علم کے بغیر فرد پرستی کا طاعون تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ اس طاعون نے والدین اور بچوں اور شوہر اور بیوی کو بھی ایک دوسرے کا ’’حریف‘‘ بنادیا ہے۔ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ خاندان، معاشرے اور تہذیب سے کٹا ہوا ’’فرد‘‘ نہ خود خوش ہوسکتا ہے، نہ وہ ’’دوسرے‘‘ کو ’’خوش‘‘ کرسکتا ہے، اس لیے کہ فرد پرست انسان اپنی اصل میںایک خودپرست اور خودغرض انسان ہوجاتاہے۔ بدقسمتی سے مسلم معاشرے خودپرست اور خودغرض انسانوں سے بھر گئے ہیں۔ آپ غور کریں گے تو خاندانی نظام کی تباہی کے اس تجربے کی پشت پر آپ کو مادیت پرستی کا عفریت کھڑا نظر آئے گا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شہروں کو ایک حد سے بڑھنے نہ دو، اور آبادی زیادہ ہوجائے تو شہر کو بڑھانے کے بجائے ایک نیا شہر آباد کرلو۔ بدقسمتی سے اس غیر معمولی پیغمبرانہ بصیرت کا اثر مغرب کیا، خود مسلمانوں نے قبول نہیں کیا۔ ہمیں اندازہ تک نہیں کہ شہریانے یا Urbanization کے عمل نے انسانی تعلقات کو جہنم بنانے اور انہیں بنیادی مسرتوں سے محروم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہم نے یونیورسٹی کے زمانے میں ایک شعرکہا تھا ؎
کسی کاوش کی ضرورت ہی نہیں ہے تم کو
شہر بیگانہ بنانے کے لیے کافی ہے
بڑے شہر کی زندگی اجنبیت اور بیگانگی کی زندگی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بڑے شہر کی زندگی بنیادی طور پر ’’تعلق کی زندگی‘‘ نہیں ہے۔ قربت کی زندگی نہیں ہے۔ چنانچہ رشتوں اور تعلقات سے فراہم ہونے والی مسرت کی زندگی بھی نہیں ہے۔ مغرب میں شہری زندگی کے تجربے پر بے پناہ علمی کام ہوا ہے، اس لیے کہ مغرب کم و بیش سو سال سے بڑے شہروں کی زندگی کا حامل ہے۔ مغرب کے ایک دانش ور نے شہری زندگی کے تجربے کو سمیٹنے کے لیے ایک کتاب لکھی تو اس کتاب کو اُس نے The Lonely Crowd یعنی ’’تنہا بھیڑ‘‘ کا نام دیا۔ بڑے شہروں کے انسانوں کو اس سے بہتر انداز میں بیان کرنا مشکل ہے۔ قصبوں اور چھوٹے شہروں کے لوگوں کی زندگی ’’شناسائی‘‘ کی زندگی ہوتی ہے۔ ان مقامات پر تعلقات فطری، برجستہ اور گرم جوشی سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن شہری تمدن میں انسانی تعلق ثانوی، مصنوعی، مشینی اور سرد ہوجاتا ہے۔
ہم نے قصبات اور چھوٹے شہروں میں عید کے تجربے اور اس کی مسرت کا مشاہدہ کیا ہے۔ قصبات اور چھوٹے شہروں سے لوگ معاش کمانے کے لیے بڑے شہروں کی طرف گئے ہوئے ہوتے ہیں۔عید قریب آتی ہے تو یہ لوگ اپنے آبائی قصبات اور شہروں کی جانب لوٹتے ہیں۔ چنانچہ ان کے والدین، عزیزوں اور دوستوں کے لیے عید سے پہلے ہی خوشیوں کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔ قصبات اور چھوٹے شہروں میں لوگ عید پر اس طرح گلے ملتے ہیں جیسے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے گلے ملتے ہیں۔ اس کے برعکس بڑے شہروں میں گلے ملنے کا عمل محض ایک رسم محسوس ہوتا ہے۔ قصبات اور چھوٹے شہروں میںعید ایک کلچرل تجربہ محسوس ہوتی ہے۔ ہر طرف ایک جشن کا سماں ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ خوشی دلوں میں بھی ہے اور چہروں پر بھی۔ یہاں تک کہ ہوا اور فضا میںبھی خوشی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ناصر کاظمی کا شعر ہے ؎
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
ظاہر ہے کہ ایک اداس آدمی کو شہر سائیں سائیںکرتا ہوا ہی محسوس ہو گا۔ آدمی خوش ہو تو اسے پوری کائنات جھومتی ہوئی نظر آتی ہے۔
ہم نے 1988 ء یا 1989ء میں بچوں کے رسالے ’’آنکھ مچولی‘‘ کے لیے ایک چھوٹی سی نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا ’’ابو سات سمندر پار‘‘۔ نظم یہ تھی:
ابّو سات سمندر پار
میری عید کہاں کی یار
یہ مہنگے جوتے کپڑے
بِن ابّو کے ہیں بیکار
جیب بھری ہے عیدی سے
لیکن دل ہے خالی یار
میٹھا شِیر دلاتا ہے
یاد مجھے ابّو کا پیار
امّی، باجی ہیں مصروف
آئے ہوئے ہیں رشتے دار
ہمسائے کے لڑکے سے
بھّیا سیکھ رہے ہیں کار
دادا جی بھی بیٹھ گئے
لے کر بستر پر اخبار
ابّو ہوتے تو مجھ کو
خود ہی لے جاتے بازار
بہتر ہے سو جائوں میں
خوابوں میں کھو جائوں میں
اس نظم میں ’’تعلق کی اہمیت‘‘ بھی موجود ہے اور شہری تمدن کی کچھ جھلکیاں بھی عیاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسرت کے لیے خواب بچے کا آخری سہارا بن گیا ہے۔
ہم 1983ء میں کراچی کے علاقے ناظم آباد سے نارتھ ناظم آباد منتقل ہوئے۔ اُس وقت ہمارے اپارٹمنٹس کے بیشتر فلیٹس میں ان کے اصل مالکان رہائش پذیر تھے۔ چنانچہ دو تین برسوں میں اپارٹمنٹس کے رہائشی ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔ عید کے موقع پر یہ صورت ہوتی تھی کہ لوگ اپارٹمنٹس کے دروازے پر جمع ہوجاتے اور ایک دوسرے کے ساتھ گرمجوشی کے ساتھ گلے ملتے۔ اور یہ سلسلہ بہت عرصے تک چلتا رہا۔ مگر پھر لوگوں کے معاشی حالات بہتر ہوتے گئے اور وہ اپارٹمنٹس کو چھوڑ کر گھروں میں یا دوسرے علاقوں میں منتقل ہونے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپارٹمنٹس میں کرایہ داروں کی اکثریت ہوگئی۔ کرایہ دار تیزی سے بدلتے ہیں، چنانچہ اب مدتوں سے اپارٹمنٹس کا کوئی ’’کلچر‘‘ ہے، نہ اپارٹمنٹس کے لوگوں میں حقیقی شناسائی ہے۔ عید پر اب بھی لوگ اپارٹمنٹس کے دروازے پر جمع ہوکر عید ملتے ہیں، مگر یہ عمل محض ایک رسم ہوتا ہے، اس میںکوئی تعلق یا معنویت نہیں ہوتی۔ شہری تمدن کی یہ اجنبیت دنیا میں اربوں انسانوں کو ایک دوسرے کا ’’غیر‘‘ بنائے ہوئے ہے۔ ظاہر ہے کہ غیروں کے ساتھ تعلق میںکوئی خوشی نہیں ہوسکتی۔
ایک زمانہ تھا کہ عید کی خوشی ایک غیر طبقاتی تجربہ تھی۔ منشی پریم چند کے افسانے ’’عیدگاہ‘‘ کی عمر تقریباً سو سال ہوگئی ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار ایک یتیم اور غریب بچہ ہے۔ اس بچے کو اپنی غریب نانی سے تین پیسے عیدی ملی، مگر اس کے باوجود یہ بچہ جوش و جذبے کی سطح پر عید کی خوشی میں پوری طرح شریک ہے۔ مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے عید بھی طبقاتی محسوس ہونے لگی ہے اور اس کا اثر بچوں کے مزاجوں تک پر پڑا ہے۔ چنانچہ لاکھوں والدین کے لیے عید ایک اندیشہ بن جاتی ہے۔ لاکھوں والدین کے لیے تہوار اندیشہ بننے لگے تو سوچنا چاہیے کہ معاشرے میں کوئی بڑی گڑبڑ ہوگئی ہے۔