رویتِ ہلال ہماری روحانی میراث

سید خالد جامعی
عید کا چاند دیکھنا، ڈھونڈنا، دعا پڑھنا… یہ سب روحانی عمل ہے۔ چاند سے ایک روحانی وابستگی ہوتی ہے۔ عید کا، بقر عید کا، ربیع الاوّل کا چاند ہمارے جذبات، احساسات میں تموج پیدا کرتا ہے۔ ایک تعلق، محبت، وابستگی، عشق سب اس سے وابستہ ہوتے ہیں۔ چاند ہر اسلامی مہینے کی یاد دلاتا ہے۔ اس مہینے سے متعلق روایات، تاریخ، واقعات، اعمال، اذکار کی یاد دہانی کراتا ہے۔ رویتِ قمر کے ذریعے ہماری وابستگی اپنی تاریخ و علمیت سے پیوستہ رہتی ہے۔
اسلام دُنیا کو ایمانی، نورانی، روحانی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ مغرب اسے صرف مادی، افادی اور سائنسی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ رویتِ ہلال اُمت کی روحانی میراث ہے۔ کیلنڈر اور سائنس دان کے آنے کے بعد مسلمانوں کا منہاجِ علمی، ورلڈ ویو اور اس عمل کی روحانیت سب کچھ چھن جائے گا اور ہم ترکی، ملائشیا کی طرح جدیدیت زدہ ہوجائیں گے۔
رویتِ ہلال کی شہادتوں میں اختلاف ہوسکتا ہے، جھوٹی شہادت آسکتی ہے۔ ان سب امکانات کو شریعت نے مسترد نہیں کیا، بلکہ ان کا حل پیش کیا کہ درست اجتہاد پر دو اجر اور غلط اجتہاد پر ایک اجر۔ اس طرح شریعت نے بندوں کو بندوں کے سامنے ذمہ دار اور اللہ کے سامنے جواب دہ بنا کر توبہ، استغفار، مغفرت، رحمت کا راستہ دکھایا کہ رویتِ ہلال میں غلطی ہوجائے تو اگلے ماہ اس کی اصلاح کرو، غلطی کا کفارہ ادا کرو اور اللہ سے مغفرت طلب کرو۔ اللہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے ساتھ وابستہ رہیں، وہ غلطی کریں اور اس کے حضور گڑگڑائیں، توبہ کریں، اس سے رجوع کریں، اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے معاف کردے، ان کو اپنے دامنِ مودت میں سمیٹ لے۔
عید کا چاند دیکھنا، ڈھونڈنا، دعا پڑھنا یہ سب روحانی عمل ہے یا سائنسی عمل ہے؟ رویتِ قمر کے ذریعے ہر فرد ایک روحانی ماحول سے متعلق ہوجاتا ہے۔ چاند سے ایک روحانی وابستگی ہوتی ہے۔ رمضان اور مئی کا مہینہ ایک جیسے نہیں ہوتے، دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کیلنڈر بناکر ہم اس پورے عمل کی روحانیت کا خاتمہ کردیں گے۔ یہ خیال کہ یا تو مفتی منیب غلط ہیں یا مفتی پوپلزئی، ایک احمقانہ خیال ہے۔ اصول استقراء کے تحت یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے، مگر فی الحقیقت صورتِ حال مختلف ہے۔ استقراء یقین کا فائدہ نہیں دیتا۔چاند ہر اسلامی مہینے کی یاد دلاتا ہے۔ اس مہینے سے متعلق روایات، تاریخ، واقعات، اعمال، اذکار کی یاددہانی کراتا ہے۔ رویتِ قمر کے ذریعے ہم اپنی تاریخ سے پیوست ہوجاتے ہیں۔ جو لوگ ریاست کے قمری کیلنڈر کے مقابلے میں اپنا کیلنڈر پیش کررہے ہیں، وہ کوئی کارنامہ انجام نہیں دے رہے، اس طریقے سے وہ ریاست کے سائنسی منہاج کو ہی قبول کررہے ہیں، کیونکہ کیلنڈر صرف امکانی رویت کا بتاتا ہے، لیکن رویت تو انسان کریں گے، انہیں چاند نظر آیا یا نہیں۔ یہ کیلنڈر نہیں فرد اور شاہد بتائے گا۔ شہادت بھی مسلم کی معتبر ہوگی، حالانکہ رویت ایک معروضی عمل ہے، ہر کافر اور مشرک مسلم کی طرح چاند کا مشاہدہ کرسکتا ہے، لیکن کافر و مشرک اسلامی علمیت و روحانیت پر یقین نہیں رکھتے، لہٰذا ان کی رویت شہادت نہیں بن سکتی۔
شریعت نے یہ حکم دیا ہے کہ زمین پر کھڑے ہوکر آسمان کا مشاہدہ کرکے چاند ہونے یا نہ ہونے کی شہادت دو، اگر مطلع پر چاند نظر آگیا تو عید کرو، اگر چاند مطلع پر نظر نہیں آسکا تو مطلب یقینا یہ نہیں ہے کہ چاند وجود ہی نہیں رکھتا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا وجود میرے لیے ثابت نہیں ہے، کیونکہ میں اسے نہیں دیکھ سکا۔ شریعت نے یہ حکم نہیں دیا کہ چاند کو آنکھ کے بجائے کسی آلے سے دیکھ لو۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اللہ کو وہ بندہ پسند ہے جو گناہ کرتا ہے مگر توبہ سے غافل نہیں ہوتا، اللہ چاہتا ہے کہ میرا بندہ غلطی کرے اور پھر مجھ سے رجوع کرے۔ انسان خطا کا پتلا ہے، لہٰذا شریعت میں اختلافی امور کے لیے شہادت، قسم، کفارہ کے دائرے موجود ہیں۔ انسان نسیان کا شکار ہوسکتا ہے، دانستہ نادانستہ غلطی کرسکتا ہے، مگر اس کا علاج توبہ، کفارہ، آنسو ہیں۔ قمری کیلنڈر اگر نافذ کردیا گیا تو امت ان تمام مراحل، مراتب، درجات اور اعمال سے محروم ہوجائے گی۔