بلوچستان کی تاریخ کا بڑا فراڈ، ہزاروں افراد تھری الائنس کمپنی کے ہاتھوں برباد
کو ئٹہ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بہروپیوں، چالباز و شاطرکاروباریوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ اگرچہ سادہ لوح لوگ فریب میں آجاتے ہیں، لیکن تعلیم یافتہ اور سمجھدار لوگوں کا دامِ فریب میں آجانا یقینا اُن کے آسان ذرائع اور گھر بیٹھے منافع کمانے کے لالچ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شہر کوئٹہ اور صوبے کے مختلف علاقوں کے ہزاروں لوگوں کے ساتھ چند افراد نے ہاتھ کردیا۔ قصہ یوں ہے کہ کوئٹہ کے اندر چار افراد نے ’’تھری اے الائنس‘‘ کے نام سے کمپنی قائم کرلی۔ بظاہر کاروبار موٹر سائیکلوں کا تھا۔ لوگ سرمایہ لگاتے جنہیں پینتیس دن بعد جمع کی گئی رقم کے تناسب سے منافع دیا جاتا۔ تھوڑے ہی دنوں میں ’’تھری اے الائنس‘‘ کمپنی کی شہرت پورے صوبے میں پھیل گئی۔ کسی نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی لگادی، کسی نے پنشن کی پوری رقم اٹھا کر حوالے کردی، کسی نے جائداد فروخت کی، کسی نے ادھار لے کر رقم لگائی۔ ڈاکٹروں، وکلا، صحافیوں، پولیس، آرمی افسران، تاجروں، ملازمت پیشہ افراد، خواتین، بیوائوں… گویا ہر حیثیت و مرتبے کے افراد نے رقوم اس کمپنی کی تجوریوں میں ڈال دیں۔ کمپنی برابر منافع دیتی رہی۔ لوگوں نے سوچا کہ اس سے آسان اور بہتر کاروبار کیا ہوسکتا ہے کہ ہر پینتیس دن بعد جاکر منافع کی رقم حاصل کرلی جائے۔ بیشتر لوگ تو منافع کی مد میں ملنے والی رقم بھی وصول نہ کرتے اور واپس کمپنی کو مزید منافع کی غرض سے دے دیتے۔ یہ کھیل اس وقت ختم ہوا جب اتوار 19 مئی کی رات پیسے لگانے والے سیکڑوں شہریوں کو خبر ملی کہ کمپنی کا مالک کاشف قمر رقم لے کر بھاگ گیا ہے۔ متاثرین کوئٹہ کے پوش علاقے جناح ٹائون میں قائم کمپنی کے مرکزی اور شہر میں پھیلے اس کے ذیلی دفاتر پہنچے تو سب پر تالے پڑے تھے۔ یوں لوگوں کے اربوں روپے ڈوب گئے۔ ان افراد نے سراسیمگی کے عالم میں مظاہرے شروع کیے، تھانوں میں مقدمات درج کرائے، سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان کو درخواستیں دیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اس پورے عرصے میں پولیس، ایف آئی اے، سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن سمیت کسی ادارے نے اس کا کھوج لگانے کی زحمت نہیں کی کہ آخر ماجرا کیا ہے کہ لوگوں کو اس قدر آسانی سے منافع کی رقم دی جاتی ہے، جو بہت جلد کنگال بھی ہوگئے۔ سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)کے کوئٹہ میں موجود حکام نے بتایا کہ ان کے پاس ہزاروں شہریوں نے درخواستیں جمع کرائی ہیں کہ تھری اے الائنس نام کی ایک نجی کمپنی نے دھوکا دہی اور جعل سازی سے ان سے بھاری رقوم لوٹ لی ہیں۔
کس طرح غریب لوگ بھی ان کے جال میں پھنسے، ایسی کئی کہانیاں موجود ہیں۔ محض نمونے کے لیے پیش خدمت ہے مستونگ کے پسماندہ دیہی علاقے مرئو اسپلنجی کے رہائشی نوجوان سعداللہ کی کہانی، جس کا پیشہ گلہ بانی ہے۔ اس نے پچاس بکریاں تین لاکھ آٹھ ہزار روپے میں فروخت کیں اور رقم منافع کے لیے تھری اے الائنس نامی نجی کمپنی کو دے دی۔ سعد اللہ کو اُس کے رشتے دار نے ترغیب دی تھی کہ یہ کمپنی ہر ماہ ان تین لاکھ روپے کے بدلے اسے تقریباً پینتالیس ہزار روپے منافع دے گی۔ خود اس کا رشتے دار محمد عارف بھی غریب شخص ہے۔ متاثرین نے مل کر ایف آئی اے کے دفتر اور پریس کلب کے سامنے بھی احتجاج کیا۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ احتجاج کی کوریج کرنے والے میڈیا کے نمائندوں کی ایک کثیر تعداد خود بھی متاثرین بلکہ احتجاج میں شامل تھی۔ اخبار کے مالکان، ٹی وی چینل کے بیورو چیف، رپورٹر، کیمرہ مین اور ڈرائیور سمیت دس کے قریب میڈیا ہائوسز کے دو درجن سے زائد افراد کے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔ متاثرین میں ایک، نجی ٹی وی کے کیمرہ مین شہیر خان کے مطابق انہوں نے 46 لاکھ روپے کی رقم اس کمپنی کو سرمایہ کاری کے لیے دی۔ بینک سے 22 لاکھ روپے کی گاڑی 34 لاکھ روپے اقساط میں خریدی اور پھر 17لاکھ روپے نقد میں فروخت کردی۔ باقی رقم انہوں نے چھوٹے بھائی، دوستوں اور رشتے داروں سے لی۔ اس طرح یہ رقم کمپنی میں جمع کرادی۔ 46 لاکھ روپے کے بدلے ہر 35 دن بعد تقریباً 5 لاکھ روپے منافع ملتا تھا۔ چند ماہ تک اس کا منافع ملا جس سے بینک سے اقساط پر خریدی گئی گاڑی کا تقریباً بارہ لاکھ روپے سود ادا کردیا، مگر باقی تمام سرمایہ ڈوب گیا۔ محمد شہیر منافع کمانے کے بجائے الٹا22لاکھ روپے کے مقروض ہوگئے۔ متاثرین کہتے ہیں کہ کمپنی تمام رقم نقد ہی وصول کرتی تھی اور انہیں سادہ کاغذ کی اسٹیمپ لگی رسید دی جاتی تھی۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے مطابق امیگریشن ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ ملزم کاشف قمر 20 مئی کی شام کو کراچی سے ترکش ایئرلائن کی پرواز پی کے709 سے بیرونِ ملک فرار ہوا ہے۔ پولیس نے کمپنی کے مالک کاشف قمر کے خلاف متاثرین کی مدعیت میں دھوکا دہی کے الزام میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ420کے تحت تھانہ جناح ٹائون میں مقدمہ درج کرلیا ہے۔ پولیس نے کمپنی کے دفتر کو سیل کرکے اس کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر علی مقبول کو گرفتارکرلیا ہے، جس سے مزید تفتیش کی جارہی ہے۔ مگر گرفتار ڈپٹی ڈائریکٹر علی مقبول کا بھی یہی بیان ہے کہ اس کے ساتھ بھی کمپنی کے مالک نے دھوکا کیا ہے۔ ایس ایچ او کے مطابق ہم نے ابتدائی طور پر پندرہ افراد کی درخواستیں وصول کیں لیکن متاثرین کی تعداد ہزاروں میں ہے، اس لیے انہیں سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ویسے ہزاروں لوگ سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان میں تھری اے الائنس کمپنی کے خلاف دھوکا دہی کی شکایات جمع کرا چکے ہیں۔ ایس ای سی پی کوئٹہ کے ڈپٹی رجسٹرار عبدالرحمان ترین کے مطابق متاثرہ افراد اب بھی آرہے ہیں۔ ایس ای سی پی کے دفتر کے قریب ہی واقع فوٹو اسٹیٹ کی دکانوں سے ہزاروں شکایتی فارم فروخت کرچکے ہیں۔ فارم حاصل کرنے والے افراد میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ ایف آئی اے کوئٹہ کے حکام کہتے ہیں کہ یہ بلوچستان کی تاریخ کے بڑے مالیاتی فراڈ میں سے ایک ہے۔ وکلا، ڈاکٹر، اعلیٰ حکومتی اور پولیس افسران سمیت تقریباً ہر طبقے کے افراد اس جعل سازی کا شکار ہوئے ہیں۔ بہت سے متاثرہ افراد اس لیے بھی سامنے نہیں آرہے کہ انہوں نے اپنا کالا دھن یہاں لگا رکھا تھا۔ یا پھر اس لیے بھی چھپ رہے ہیں کہ سامنے آنے پر ان سے انکم ٹیکس اور دیگر معاملات کی پوچھ گچھ ہوسکتی ہے۔
کمپنی کے ڈائریکٹر کاشف قمر نے بیرون ملک سے سوشل میڈیا پر جاری اپنے ایک ویڈیو بیان میں کم از کم ایک ارب روپے کے فراڈ کا اعتراف کیا ہے اور بتایا کہ یہ فراڈ اس نے نہیں بلکہ کمپنی کے ملازمین اور فرنچائز حاصل کرنے والے افراد نے کیا ہے۔ اس نے تیس سے زائد ایسے افراد کی فہرست بھی جاری کی ہے۔ سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن کے اسلام آباد میں موجود ترجمان کے مطابق’’تھری اے الائنس نام کی نجی کمپنی 14فروری 2018ء کو رجسٹرڈ کرائی گئی تھی، اور اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر محمد فیصل خان، جبکہ چار ڈائریکٹرز میں کاشف قمر بھی شامل ہے۔ جس قانون کے تحت تھری اے الائنس کی رجسٹریشن کرائی گئی اُس کے تحت یہ کمپنی لوگوں سے سرمایہ کاری کی مد میں رقم وصول نہیں کرسکتی تھی۔ جب ہمیں رواں سال کے شروع میں شکایات موصول ہونا شروع ہوگئیں کہ کمپنی لوگوں سے رقم وصول کررہی ہے تو ہم نے عوام کو دھوکا دہی سے بچانے کے لیے اخبارات میں اشتہارات دیئے۔ مارچ2019ء میں تھری اے الائنس کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی گئی۔ شکایات بڑھنے پر ایک ماہ قبل کمپنی کے خلاف کیس قومی احتساب بیورو (نیب )کو بھیج دیا تھا۔ اور ہماری اطلاع کے مطابق نیب نے یہ کیس ایف آئی اے کو بھیج دیا ہے۔ ایسا ہی ایک فراڈ فیصل آباد میں بھی ایم این اے موٹر سائیکل کمپنی کے نام سے ہوا، پتا چلا ہے کہ جس شخص نے کوئٹہ میں دھوکا کیا وہ فیصل آباد والی کمپنی میں ملازم تھا۔‘‘ شہری و متاثرین کہتے ہیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر دھوکا دہی انتظامیہ کی ناک کے نیچے ہوئی مگر کوئی بروقت کارروائی نہیں کی گئی۔ ایک کمپنی ڈیڑھ سال تک لوگوں سے رقوم جمع کرتی رہی مگر متعلقہ ادارے سوئے رہے۔ بروقت کوئی قدم اٹھایا جاتا تو لوگوں کے اربوں روپے نہ ڈوبتے۔ سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن کے ترجمان کے مطابق سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن کے پاس قانون میں کمپنیوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کا اختیار نہیں۔ ہمارے پاس تفتیش کے اختیارات نہیں ہوتے اور نہ ہی ہم گلی محلوں میں جاکردیکھ سکتے ہیں کہ کون سی کمپنی کیا کررہی ہیں۔ ایس ای سی پی کے پاس ایک لاکھ سے زائد کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں، سب پر نظر رکھنا ممکن نہیں۔ البتہ جب شکایت آتی ہے تو کارروائی کی جاتی ہے۔ کسی کمپنی کو بند کرنے کا عمل بھی قانون میں بہت پیچیدہ ہے، نہ ہی ایس ای سی پی اپنی مرضی سے کمپنی بند کرسکتا ہے، بلکہ یہ عمل عدالت کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے جس میں بھی لمبا عرصہ لگ جاتا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ فراڈ کرنے والی کمپنی نے شہر میں سیکڑوں ایجنٹ پھیلا رکھے تھے جو لوگوں کو سرمایہ لگانے کی ترغیب دیتے اور قائل کرتے۔ کمپنی کے دفتر میں عوام کو گھیرنے کے لیے قانونی دستاویزات، رجسٹریشن، یہاں تک کہ فتویٰ بھی رکھا تھا کہ یہ کاروبار قانونی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر سودی بھی ہے۔ سرمایہ لگانے والوں کو کہا جاتا تھا کہ چین سے پرزہ جات منگوائے جاتے ہیں اور ہم بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں قائم پلانٹ میں موٹرسائیکل بناتے ہیں، جنہیں فروخت کرکے کمپنی منافع میں ساٹھ فیصد حصہ خود رکھتی ہے اور چالیس فیصد انویسٹرز کو دیتی ہے۔ ہر موٹر سائیکل کی انہوں نے تقریباً39 ہزار500روپے قیمت مقرر کی تھی جس میں سے 60 فیصد رقم یعنی 23700روپے لوگوں سے لیے جاتے تھے۔ اس طرح ہر موٹر سائیکل کے بدلے انویسٹر کو ہر35 دن بعد 3500 روپے منافع دیا جاتا تھا۔ لوگ منافع کی رقم بھی نہیں نکالتے تھے اور اسے بھی سرمایہ کی اصل رقم کے ساتھ شامل کرکے زیادہ سے زیادہ کمانا چاہتے تھے۔ کسی نے پانچ موٹر سائیکل، تو کسی نے بیس موٹر سائیکلوں کی رقم جمع کرائی۔ بعد میں کمپنی نے لورالائی اور سبی میں ڈپارٹمنٹل اسٹور بھی کھول دیئے جہاں موٹر سائیکل کے علاوہ فریج اور دیگر سامان پر بھی اسی طرح کے منافع کی پیشکش کی جاتی تھی۔کمپنی نے شہر اور صوبے کے مختلف علاقوں میں فرنچائز بھی قائم کرلیے تاکہ لوگوں سے زیادہ سے زیادہ رقم اینٹھی جاسکے۔ سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن کی جانب سے مارچ میں اخبارات میں کمپنی سے متعلق آگاہی دی گئی تو لوگوں کو عقل آئی جنہوں نے پھر اپنی رقم نکالنا شروع کردی۔ لیکن کمپنی نے پیسے کی ادائیگی روک دی۔ کمپنی کی جانب سے بتایا جاتا تھا کہ سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن کی جانب سے کارروائی ہونے کے بعد ان کے اکائونٹ بند ہوگئے ہیں۔ سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن کی جانب سے کارروائی شروع کرنے کے باوجود تھری اے الائنس کمپنی نے کام بند کرنے کے بجائے دوسرے نام سے کام شروع کردیا۔ یعنی بولان موٹرز کے عنوان سے لوگوں سے رقم کی وصولی کا کام جاری رکھا۔ سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن اس تناظر میں خود کو معصوم اور بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش تو کررہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تھری اے الائنس کا مرکزی دفتر عین اس کے دفتر کے عقب میں واقع تھا، اور ایسا ہو نہیں سکتا کہ ایس ای سی پی کو ان کے کالے کرتوت کی خبر نہ ہو۔ اطلاعات ہیں کہ کو ئٹہ میں عوام کو لوٹنے کے لیے مختلف ناموں سے دوسری کمپنیاں اب بھی سرگرم ہیں جن پر کوئی نظر اور گرفت نہیں۔ ضروری ہے کہ تحقیقات کی جائیں اور اس دھوکا دہی اور جعل سازی کی پشت پر موجود دوسرے طاقت ور لوگوں کے چہرے بے نقاب کیے جائیں۔