طاہر مسعود
سال 1980ء میں اس خاکسار نے روزنامہ ’’جسارت‘‘ میں بہ حیثیت رپورٹر کام شروع کیا تو ایڈیٹر محمد صلاح الدین شہید تھے۔ ان کے دست و بازو پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ جو اداریہ لکھتے تھے، کشش صدیقی جو بعد میں نیوزایڈیٹر ہوئے، فیض الرحمن سٹی ایڈیٹر تھے… یہ سبھی صلاح الدین صاحب کے اعتمادکے لوگ تھے۔ ان کے مقابلے پہ نوجوان رپورٹروں کا ایک گروپ تھا جس کے سرخیل چیف رپورٹر ظہور نیازی صاحب تھے۔ ادریس بختیار کا جھکائو بھی اسی گروپ کی طرف تھا۔ ادریس مرحوم سے میری اوّلین ملاقات ان ہی دنوں ہوئی۔ وہ اپنی بعض خوبیوں کی وجہ سے دوسروں سے بہت ہی مختلف و منفرد تھے۔ ان میں نمایاں وصف شوقِ مطالعہ تھا جو ان کے دوسرے رفقائے کار میں ناپید تھا۔ دوسری خوبی یا خرابی جو کہیے وہ فقرے بازی کی عادت تھی۔ جملے چست کرنے میں ان کا جواب نہ تھا۔ وہ اس کے قائل بھی تھے اور عامل بھی کہ بندہ بے شک ضائع ہوجائے لیکن فقرہ ضائع نہ ہو۔ اور سچ تو یہ ہے کہ فقرہ ان کا کمال کا ہوتا تھا، جس پر چست کرتے تھے وہ پانی مانگنے کے قابل نہ رہتا تھا۔ تو ادریس مرحوم غیاب میں اپنے بڑوں کو بھی معاف نہ کرتے تھے اور ایسے مزے کے فقرے لگاتے تھے کہ آدمی لطف اٹھائے بغیر نہ رہتا تھا۔ ظہور نیازی صاحب اور صلاح الدین صاحب میں نامعلوم وجوہ کی بنا پر ایک سرد سی جنگ چلتی رہتی تھی۔ چونکہ ان کا اثر و نفوذ رپورٹروں میں خاصا تھا لہٰذا انھیں رپورٹنگ سے ڈیسک پر ٹرانسفر کردیا گیا اور وہ نیوزایڈیٹر بنادیے گئے۔ یہیں سے ایک واقعے کے نتیجے میں وہ جسارت سے علیحدہ کردیے گئے۔ الزام ان پر یہ تھا کہ ایک اشتہار چھاپنے کے معاملے میں انھوں نے ایڈیٹر کی حکم عدولی کی۔ صلاح الدین صاحب بھلے مانس تھے۔ ظہور نیازی کی علیحدگی کا انھیں قلق بھی ہوا ہوگا، لہٰذا جلد ہی انھوں نے اپنے رسوخ و اثرات کو استعمال کرتے ہوئے ظہور نیازی کو لندن میں ملازمت دلا دی جہاں وہ آج تک مقیم ہیں۔ ادارے سے ان کی رخصتی کے بعد ادریس بختیار بھی زیادہ عرصے جسارت میں نہ ٹھیرے، اور ڈان کے شام کے اخبار ’’ایوننگ اسٹار‘‘ میں چیف رپورٹر مقرر ہوئے۔ انگریزی ان کی اچھی تھی اور ایک عرصے تک ’’عرب نیوز‘‘ میں وہاں رہ کر ملازمت کرچکے تھے۔ ’اسٹار‘ کو شام کا مقبول اخبار بنانے کے لیے حمید ہارون نے اپنے قلم اور اپنی صلاحیتوں کا سارا وزن اس اخبار کے پلڑے میں ڈال رکھا تھا۔ ادریس منجھے ہوئے رپورٹر تھے۔ نت نئی خبروں کو کھود کر، سراغ لگا کر ڈھونڈ نکالنا انھیں خوب آتا تھا، لہٰذا وہ جلد ہی حمید ہارون کی آنکھ کا تارا ہوگئے۔ ’ڈان‘ کے موجودہ ایڈیٹر ظفر عباس بھی اُن دنوں ’اسٹار‘ ہی سے وابستہ تھے۔ ادریس سے ان کی گاڑھی چھنتی تھی۔ میںجب بھی ادریس سے ملنے اُن کے دفتر گیا، ادریس کے پاس ہی ظفر عباس کو پایا۔ ہر دو حضرات میں نظریاتی بُعد موجود تھا۔ وہ جو اُس زمانے میں دائیں بازو اور بائیں بازو کا فرق تھا تو ادریس واضح طورپر بلکہ اعلانیہ دائیں بازو کے تھے، جب کہ ظفر عباس جو ایکٹی وسٹ تو کبھی نہیں رہے لیکن ان کی ہمدردیاں بہرحال بائیں بازو کے ساتھ تھیں۔ ادریس کے ادب، تاریخ اور فلسفہ وغیرہ کے آزادانہ مطالعے نے ان کے اندر ایک ذہنی کشادگی پیدا کردی تھی اور وہ نظریاتی بنیادوں پر مراسم و تعلقات رکھنے کے قائل نہ تھے۔ یہی وجہ ہوئی کہ انھیں بعد میں ایسے اداروں میں بھی ملازمت ملتی رہی جہاں دائیں بازو والوں کا گزر مشکل ہی سے ہوتا تھا۔ چاہے وہ ہیرلڈ ہو، یا بی بی سی ہو، یا جیو کا ادارہ ہو… ادریس نے ان تمام اداروں میں کام کیا اور پیشہ ورانہ آداب و اخلاق کے ساتھ کیا۔ انھیں ’’جماعتی‘‘ سمجھنے کے باوجود یہ الزام اُن پر کبھی نہ آیاکہ انھوں نے رپورٹنگ میں اس حیثیت میں اپنے تعصبات کو کبھی جگہ دی ہو۔ اپنی رپورٹوں اور تحریروں میں معروضیت، غیرجانب داری اور انصاف پسندی کے اس اہتمام ہی کے سبب انھیں صحافتی اور سیاسی حلقوں میں ہمیشہ احترام کی نظروں سے دیکھا گیا اور انھیں وہی وقار اور قدرومنزلت ملی جو ایسے صحافی کو ملنی چاہیے۔ ’ہیرلڈ‘ میں ان کی بعض تفتیشی رپورٹوں نے سیاسی اور صحافتی دنیا میں بہت تہلکہ مچایا۔ انھوں نے سچائی اور جرأت مندی سے ایسے بہت سے طاقت وروں سے ٹکر لی جن سے ٹکرانے میں مہلک خطرات کا اندیشہ تھا، لیکن ادریس اہم رازوں کے افشا میں کہ جس میں ملک و معاشرے کی بہتری تھی،کبھی گھبرائے اور نہ کبھی خوف کھایا۔ چوں کہ ان کے پیش نظر اظہارِ سچائی میں قومی مفادات مضمر تھے اس لیے خداوند تعالیٰ نے بھی ان کی حفاظت کی، اور جن مافیائوں کے رازوں کو طشت ازبام وہ کرتے رہے، اور جواب میں انھیں دھمکیاں ملتی رہیں، ان کا کبھی بال بھی بیکا نہ ہوا۔
ادریس بختیار کامیابی کے عروج تک پہنچے، انھیں شہرت بھی ملی، ان کے مراسم و تعلقات سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں سے بھی رہے، لیکن انھوں نے ان تعلقات و مراسم کو اور اپنے اثرونفوذ کو کبھی اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لیے استعمال نہیں کیا۔ یہ ان کی دیانت کا کمال تھا۔ وہ صحافیوں کی ٹریڈ یونین سیاست میں بھی پوری طرح ملوث رہے اور بائیں بازو کے مقابلے میں پی ایف یو جے دستوری گروپ کے قائدین میں شامل رہے، ایک عرصے تک عہدے دار بھی رہے، لیکن ایک طرف واضح جھکائو کے باوجود حلقۂ مخالفین میں بھی وہ بریشم کی طرح نرم رہے، اور تعلقات و معاملات میں کبھی اپنے نظریے اور جملہ پسندیدگی و ناپسندیدگی کو آڑے نہ آنے دیا۔ یہ ایک ایسی خوبی ان میں تھی جس کی گہرائی کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں جو صحافیوں کی ٹریڈ یونین ازم کی حدت و شدت سے واقف ہوں۔ ہرچند کہ وہ پی ایف یو جے کی اس تقسیم کے نقصانات سے بھی بخوبی آگاہ تھے اور خوب اچھی طرح سمجھتے تھے کہ یہ تقسیم حکمرانوں اور مالکانِ اخبارات کے لیے کتنی مفید ہے، اور ان کے حسبِ منشا ہے، اس لیے انھوں نے دونوں گروپوں میں مصالحت کی کوششوں کا دروازہ کبھی بند نہیںکیا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ اختلافات کی نوعیت ہی ایسی رہی کہ مصلحتاً بھی مصالحت تک نوبت نہ آسکی۔
ادریس بختیار کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ آزادی سے ایک سال قبل انھوں نے راجستھان میں آنکھ کھولی جہاں سے ان کا خاندان ہجرت کر کے حیدرآباد میں پناہ گزیں ہوا۔ ادریس کی تعلیم و تربیت یہیں مکمل ہوئی۔
انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز بہت نچلے درجے سے کیا، ایک پروف ریڈر کے طور پر۔ لیکن جلد ہی اپنی محنت و صلاحیت کے بل پر انھوں نے ترقی کی اور رپورٹر ہو گئے۔ حیدرآباد ان کی صلاحیتوں کے ابھرنے اور منوانے کے لحاظ سے ایک محدود میدان تھا، لہٰذا وہ کراچی آگئے، اور یہاں غالباً انھوں نے پی پی آئی نیوز ایجنسی میں رپورٹنگ کا فریضہ سنبھالا۔ جلد ہی انھیں ’’عرب نیوز‘‘ سے آفر آئی اور وہ مشرقِ وسطیٰ کو پیارے ہوئے۔ کئی برس گزارکر وہ وطن واپس آئے تو ’’جسارت‘‘ سے منسلک ہوگئے۔ انھوں نے ذرائع ابلاغ کے تمام شعبوں میں کام کیا۔ یہ بھی ان کا نمایاں اختصاص تھا کہ اخبار، رسالہ، ریڈیو اور ٹیلی وژن سبھی اداروں میں انھیں کام کرنے کا تجربہ حاصل ہوا۔ ایسا ذرا کم کم ہی ہوتا ہے، اور وہ بھی صفِ اوّل کے اداروں میں۔ صبح کے اخباروں میں جسارت، اُس زمانے کے اپوزیشن کے اخباروں میں صفِ اوّل کا اخبار تھا۔ ایوننگ اسٹار، شام کا سب سے بڑا اخبار سمجھا جاتا تھا۔ ہیرلڈ، انگریزی کا سب سے معتبر ماہنامہ تھا۔ بی بی سی کے اعتبار و وقار کی بابت کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ’’ہم‘‘ ٹی وی میں انھوں نے اینکرنگ بھی کی، وہ بھی پرائیویٹ چینلوں میں ممتاز مقام کا حامل تھا اور ہے۔ پھر جیو کے ادارتی مواد کی نگرانی پہ مامور ہوئے، ساتھ ہی جنگ میں کالم نگاری بھی کرتے رہے۔ یوں ادریس بختیار کی پیشہ ورانہ زندگی متنوع، ہنگامہ آرا اور گہما گہمی سے بھرپور رہی۔ یہ الگ بات کہ ان کی صحافتی زندگی کا اختتام نہایت حسرت ناک اور الم انگیز ثابت ہوا۔ اسے ادریس بختیار نہیں اس پیشے کا المیہ کہا جائے گا جہاں ایک دیانت دار اورجید صحافی کو وجہ بتائے بغیر چشم زدن میں فارغ کیا جا سکتا ہے اور جس کی داد رسی کسی عدالت میں بھی نہیں کی جا سکتی۔ ان سے میری آخری ملاقات برادرِ بزرگ نصیر احمد سلیمی کی رہائش گاہ پر ایک دعوت میں ہوئی۔ میں نے انھیں کچھ سنجیدہ اور بجھا بجھا پایا۔ مجھے معلوم ہوچکا تھا کہ انھیں جیو سے فارغ کردیا گیا ہے۔ میں سمجھ گیاکہ اس توہین آمیز برطرفی کا ان کی طبیعت پر اثر ہے۔ وہ ’ہیرلڈ‘ میں بہت اچھی تنخواہ پر کام کررہے تھے جہاں سے خوشنما اور سنہرے وعدے وعید کرکے جیو والے انھیں اپنے ہاں لے گئے، اور سارے وعدوں کو بھول بھلاکر دوسروں کے ساتھ ان کی بھی چھٹی کردی۔ اس کا ان کے ذہن و ضمیر پر بڑا بوجھ تھا۔ میرے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ اور توکوئی پریشانی نہیں لیکن میری بیوی کی دوائوں پر ماہانہ ایک ڈیڑھ لاکھ روپے کے اخراجات اٹھتے ہیں، سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ کہاں سے پورے ہوں گے۔ انھوں نے تو نہیں بتایا لیکن مجھے معلوم تھا کہ ابھی بچیوں کی ذمہ داریاں بھی ان کے کندھوں پر ہیں۔ ایک بیٹا ان ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صحافی ہوچکا ہے لیکن اس کی آمدنی سے سارے گھر کا خرچہ بھلا کیسے چل سکتا تھا، جب کہ افرادِ خانہ کی تعداد بھی کم نہ تھی۔
بہت دنوں سے ان کا کالم بھی جنگ میں نہیں چھپا تھا۔ اس بارے میں پوچھا تو بولے ’’سمجھ میں نہیں آتا کہ لکھوں تو کیا‘‘۔ کہنے کو میں کہہ سکتا تھا کہ موضوعات کی کون سی کمی ہے! لکھنے والوں کے لیے تو یہ مملکتِ عزیز ایک جنت ہے جہاں ایک پتھر بھی ہٹائو تو نیچے سے پچاس ایشوز بلبلاتے ہوئے نکل آتے ہیں۔ لیکن میںنے جواب میں خاموشی اختیار کی، اس لیے کہ سمجھ گیا کہ طبیعت میں انتشار ہو تو لکھنے کے لیے موڈ کیسے حاضر ہوسکتا ہے! میں نے ان سے وعدہ کیا کہ کسی روز ان کے پاس آئوں گا۔ لیکن اُس وقت کے آنے سے پہلے ہی انھوں نے دنیا سے اپنا منہ موڑ لیا… اس دنیا سے جہاں زندگی بھر کی محنت و مشقت کا صلہ انجامِ کار بے روزگاری اور بے التفاتی کی صورت میں ملتا ہے۔ ایک سینئر دوست نے ان کے انتقال پر مجھے جنگ کے دیرینہ رپورٹر عارف الحق عارف کا مضمون اس نوٹ کے ساتھ واٹس ایپ کیا کہ یہ عام سی رحلت کا واقعہ نہیں، یہ قتل ہے جس کا ذمہ دار وہ ادارہ ہے جس نے ظالمانہ طریقے سے انھیں برطرف کیا۔ عارف صاحب نے اپنے مضمون میں ادریس بختیار کے اس ارادے کا انکشاف کیا کہ وہ اپنی بے روزگاری کے خلاف پریس کلب کے سامنے تادم مرگ بھوک ہڑتال کرنا چاہتے تھے۔ میرا ردعمل یہ تھا اور اب بھی ہے کہ اس بھوک ہڑتال کا بھی کیا نتیجہ نکلنا تھا۔ روپیہ، پیسہ، مال و دولت اور پھر دنیاوی مفادات انسان کے قلب کو پتھر کی طرح سخت اور بے حس کردیتے ہیں، اور جب دل کی یہ کیفیت ہوجاتی ہے تو اس پر کسی کی مظلومیت اور کسی کے آہ و بکا کا کوئی اثر ہوتا ہی نہیں۔ دنیا پرستی کی یہ وہ بدترین صورت ہے جس پر خدا سے پناہ مانگنی چاہیے۔
ادریس بختیار اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اپنی زندگی کی آخری شام انھوں نے کے یو جے کی افطار پارٹی میں گزاری جہاں وہ اپنے صحافی دوستوں سے گپ شپ کرتے رہے۔ کون جان سکتا تھا کہ اب دوبارہ وہ اپنے ان صحافی دوستوں کے درمیان کبھی نہ آسکیںگے، نہ ان سے گھل مل سکیں گے اور نہ صحافت کی موجودہ الم انگیز صورت حال پر دیگر عندلیبوں کے ساتھ مل کر آہ و زاری کرسکیں گے۔ وہ شب ان کی زندگی کی آخری شب تھی۔ ادریس بختیار رخصت ہوئے۔ بہت سے ادریس بختیار آج بھی اس پیشے میں ہیں، اپنے اپنے انجام کے منتظر!