الحمدللہ، نیکیوں کا موسم بہار، رحمتوں، برکتوں اور سعادتوں کا ماہِ مبارک… رمضان المبارک اپنی بے پایاں عنایات کی بارش کرکے رخصت ہوا، اور اب ’’عید مبارک‘‘ کا مرحلہ ہے۔ رمضان کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جن امتیوں نے اپنے رب کی رضا کے حصول کے لیے شب و روز محنت و مشقت کی، اپنے خالق کے کلام قرآن حکیم سے اپنے تعلق کو مضبوط و مستحکم کیا، اور روزے کے حقیقی مقصد ’’تقویٰ‘‘ کے حصول کے لیے پورا مہینہ کمربستہ رہے، ’’عید‘‘ یقینا ان کے لیے سجدۂ شکر کی ادائیگی کا دن اور اپنے مالک سے انعام و اکرام کی وصولی کا روزِ سعید ہے… مفکرِ اسلام، مفسرِ قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے الفاظ میں:’’عید کی مبارک باد کے حقیقی مستحق وہ لوگ ہیں جنہوں نے رمضان المبارک میں روزے رکھے، قرآن مجید کی ہدایت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی فکر کی، اس کو پڑھا، سمجھا، اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی، اور تقویٰ کی اس تربیت کا فائدہ اٹھایا جو رمضان المبارک ایک مومن کو دیتا ہے…‘‘
رمضان المبارک کی حیثیت مسلمانوں کے لیے ایک ریفریشر کورس کی ہے۔ ذرا غور کیجیے… ترقی یافتہ ہونے کی دعویدار جدید دنیا ’ریفریشر کورس‘ کے جس تصور کو بہت شدو مد سے تعمیر و ترقی کے ایک اہم عنصر کے طور پر آج اپنا رہی ہے اور متعارف کرا رہی ہے دینِ فطرت ’اسلام‘ نے ڈیڑھ ہزار برس قبل، اپنے آغاز ہی میں اپنے پیروکاروں کے لیے اسے لازم قرار دے دیا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانانِ عالم رمضان المبارک کی اس حقیقی روح کو نہ صرف سمجھیں بلکہ اسے اپنے قلب و ذہن میں جاگزیں کریں، اپنے کردار کو اس کی روشنی میں استوار کریں… اور رمضان المبارک نے اگر واقعی ہماری شخصیت میں ایثار، شکر اور تقویٰ کی صفات اجاگر کی ہیں تو رمضان کے بعد بھی انہیں مدھم نہ پڑنے دیا جائے، بلکہ رمضان اور قرآن سے حاصل شدہ اس ہدایت اور روشنی سے اپنی ذات، معاشرے اور ماحول کو استفادے کے مزید مواقع فراہم کریں…!!!
’’عید‘‘ کے معنی خوشی کے ہیں، اور مسلمانوں کے لیے سال میں عید کے دو دن مقرر کرنے کا مطلب گویا یہ ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو خوشی منانے اور اس کے اظہار سے روکتا نہیں بلکہ ازخود انہیں اس کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ تاہم اسلام میں دیگر بہت سے تصورات کی طرح خوشی کا تصور بھی باقی دنیا سے مختلف ہے۔ اس تصور پر عمل پیرا ہوکر انسان اپنے قلب و روح میں حقیقی خوشی و مسرت کے جذبات سے سرشار ہوتا ہے۔ اسلام میں عیدین کے موقع پر اظہارِ مسرت کا جو طریقہ مسلمانوں کو سکھایا گیا ہے اُس کا اوّلین مقصد اظہارِ تشکر ہے۔ چنانچہ مسلمان اپنی عید کے دن کا آغاز اپنے رب کے حضور، بندہ اور بندہ نواز کے فرق و امتیاز سے بالاتر ہوکر کرتے ہیں اور محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر سجدۂ شکر بجا لاتے ہیں، اور دونوں عیدوں پر صدقۂ فطر اور جانوروں کی قربانی کی شکل میں اپنے معاشرے کے کمزور طبقات کی عملاً دست گیری کے ذریعے جو روحانی سکون اور قلبی مسرت ایک بندۂ مومن کو حاصل ہوتی ہے اس کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں، اور نہ ہی اس کا کوئی تقابل ہنگامہ ہائے ہائو ہو کے ذریعے حصولِ مسرت کی کوششوں سے کیا جا سکتا ہے… کاش امتِ مسلمہ ایک بار پھر مسرت کے اس حقیقی تصور سے آشنا ہوسکے…!!!
حکیم الامت، شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ نے عید سے متعلق ارشاد فرمایا ہے ؎
عیدِ آزاداں، شکوہِ ملک و دیں
عیدِ محکوماں، ہجومِ مومنین
اس وقت دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو نصف صد سے زائد آزاد مسلمان ریاستیں اس نقشے کا حصہ ہیں۔ دنیا کی ایک چوتھائی سے زائد آبادی فرزندانِ توحید کہلانے والوں کی ہے۔ اس کے باوجود عید پر کہیں شکوہِ ملک و دیں کا منظر دکھائی نہیں دیتا، بلکہ کشمیر، فلسطین، برما، شام، عراق اور افغانستان سمیت دنیا کے ہر گوشے میں مسلمان ظلم و ستم کے شکار، مظلومیت و بے بسی اور بے کسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں… مسلمان باہم علاقائی، نسلی، طبقاتی، لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم سے دوچار ہیں، امت کا تصور تار تار ہے، ریاستی سطح پر بھی وہ باہم دست و گریباں اور گھر پھونک تماشا دیکھ کی کیفیت کے شکار ہیں۔ غالب غیر مسلم قوتیں مسلمانوں کے اس باہمی انتشار و افتراق سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہی ہیں اور بھڑکتے الائو پر ڈالنے کے لیے جو تیل جدید اسلحہ کی صورت فراہم کیا جا رہا ہے، اس کے بھی منہ مانگے دام وصول کررہی ہیں۔ ان حالات میں عید ہجوم مومنین سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی… بقول شاعر ؎