نئے صوبوں کی بحث

طرز حکمرانی میں کیا خرابی ہے جس کی وجہ سے عوام میں محرومی اور بے چینی برقرار رہتی ہے

پاکستان میں اس وقت سیاسی محاذ پر نئے صوبوں کے قیام کی بحث بڑی شدت سے جاری ہے۔ اس بحث میں فریقین مختلف دلائل دے کر اپنا اپنا سیاسی اور قانونی مؤقف پیش کرتے رہتے ہیں۔ نئے صوبوں کا قیام ایک سیاسی، انتظامی اور قانونی معاملہ ہے، اور جہاں ضرورت محسوس ہوتی ہو وہاں نئے صوبوں کی تشکیل میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اس انتظامی اور قانونی معاملے میں سیاست کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے۔ ایک بحث تو یہی موجود ہے کہ صوبوں کی تشکیل انتظامی بنیادوں پر ہوگی یا لسانی بنیاد پر؟
اس وقت جنوبی پنجاب صوبے کی بحث موجود ہے۔ حکومت کے بقول وہ صوبہ بنانے میں سنجیدہ ہے۔ پچھلے دنوں اسی دعوے کے پیش نظر قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب صوبے کی حمایت میں قرارداد بھی پیش ہوگئی ہے۔ پنجاب کے حکمران طبقے کے بقول جولائی میں ایک قدم آگے بڑھ کر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ قائم کردیا جائے گا جو نئے صوبے کے قیام کی طرف ایک بڑی پیش رفت ہوگی۔ اسی تناظر میں ایک بحث بہاولپور صوبے کی بھی موجودہے، اور وہاں کے طاقت ور افراد اس صوبے کی تشکیل کے بھی علم بردار۔ حالیہ دنوں میں کراچی کے تناظر میں ایم کیو ایم بھی سندھ کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر ایک نئے صوبے کا مطالبہ کررہی ہے۔ لیکن تحریک انصاف نے اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے فی الحال سندھ میں کسی نئے صوبے کی تشکیل کے امکان کو مسترد کردیا ہے۔ اگر جنوبی پنجاب نیا صوبہ بنتا ہے تو اس کے بعد نئے صوبوں کی بحث کسی ایک صوبے تک محدود نہیں ہوگی، دیگر صوبوں سے بھی یہ بحث سامنے آسکتی ہے۔
پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل کوئی آسان کام نہیں۔ قانون بہت مشکل ہے اور اس پر عمل درآمد کیے بغیر نیا صوبہ نہیں بن سکتا۔ اس کے لیے پہلے صوبائی اور قومی اسمبلی سے قرارداد کی حمایت، اور پھر اسمبلیوں سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس کی منظوری کا معاملہ ظاہر کرتا ہے کہ جان بوجھ کر اس معاملے کو مشکل بنایا گیا تھا تاکہ اگر صوبہ بنانا بھی پڑے تو یہ کام آسان نہیں ہونا چاہیے۔ نئے صوبوں کی بحث میں ایک اہم اور بنیادی نکتہ یہ اٹھایا جاتا ہے کہ دنیا اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی، مرکزیت کے خاتمے اور بنیادی ضروریات تک لوگوں کی رسائی کو ممکن بناکر اپنی حکمرانی کے نظام کو منصفانہ اور شفاف بناتی ہے۔ کیونکہ پاکستان میں دو مسائل سنگین ہیں ) 1)محرومی اور پس ماندگی کی سیاست، جس سے ملک میں امیر اور غریب کا فرق بڑھ رہا ہے، اور (2)پنجاب کا دیگر صوبوں کے مقابلے میں طاقت کا مسئلہ، جو نئے صوبوں کی بحث کو آگے بڑھاتا ہے اور دلیل دی جاتی ہے کہ اتنے بڑے صوبوں کی بنیاد پر حکمرانی کا نظام شفاف نہیں ہوسکتا۔
تین صوبوں بلوچستان، سندھ اور خیبر پختون خوا میں یہ احساس موجود ہے کہ پنجاب کی برتری کے باعث ان کا پنجاب پر انحصار بہت زیادہ ہوتا ہے، اور طاقت کے مرکز میں پنجاب کی برتری نے ان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جنوبی پنجاب صوبے پر پاکستان کی بیشتر جماعتوں سمیت بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں اتفاق ہے، البتہ طریقِ کار پر اختلاف موجود ہے جو مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ بھارت نے اس مسئلے کو کمیشن کی تشکیل کی مدد سے حل کیا ہے۔ کمیشن باریک بینی سے جائزہ لے کر جو بھی حتمی رائے دے گا اسی کو بنیاد بنایا جائے گا۔ لیکن کیونکہ پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل کا آئینی طریقِ کار موجود ہے اور اس پر اگر کسی کو اختلاف ہے تو اس میں ترمیم کرکے ہی مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے۔
لیکن پہلے ہمیں نئے صوبوں کی تشکیل کی سیاست کو سمجھنا ہوگا کہ یہ سب کیوں ہورہا ہے۔ دو اہم کام پاکستان میں دو دہائیوں میں ہوئے۔ اوّل، جنرل پرویزمشرف کے دور میں خودمختار مقامی حکومت کا تصور، اور دوئم 18ویں ترمیم کے تحت وفاق نے صوبوں کو زیادہ بااختیار کردیا۔ 18ویں ترمیم کی رو سے اب صوبوں کی محرومی کو ختم کرنا اور ترقی کو ممکن بنانا وفاق سے زیادہ صوبوں کی ذمہ داری ہوگی۔ جس انداز سے وفاق نے صوبوں کو اختیارات دیے اسی طرح سے صوبوں کی بھی سیاسی، انتظامی اور قانونی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ اب ایک قدم آگے بڑھ کر ضلعی سطح کے نظام یعنی مقامی حکومت کے نظام کو آئین کی شق140-A کے تحت سیاسی، انتظامی اور مالی خودمختاری دے کر حکمرانی کے نظام کو زیادہ فعا ل کریں لیکن ہماری سیاسی قیادت نے بالخصوص صوبائی سطح پر مرکزیت کو مضبوط کیا اور مقامی نظام کو سیاسی، انتظامی اور مالی طور پر مفلوج صوبہ کا محتاج بناکر رکھ دیا۔ پہلے صوبے روتے تھے کہ مرکز ہمیں اختیار نہیں دے رہا، اور اب اضلاع رو رہے ہیں کہ ہمیںصوبہ خودمختاری دینے کے لیے تیار نہیں۔ صوبائی خودمختاری کا عمل اسی صورت میں ممکن ہوگا جب صوبے ضلع کی سطح پر مقامی نظام حکومت کو مضبوط کریں گے، وگرنہ صوبائی خودمختاری مکمل نہیں ہوگی۔ آپ صوبائی حکومتوں کی نیت کا اندازہ موجودہ مقامی نظام حکومت سے اختیار کیے جانے والے طرزعمل سے بخوبی کرسکتے ہیں، کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں اور کیوں وہ مقامی نظام حکومت سے انحراف کرتی ہیں۔ اس میں عملی طور پر قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان خود ہی بڑی رکاوٹ ہیں جو مقامی نظام حکومت کو کمزور رکھنا چاہتے ہیں۔
جہاں ایک مضبوط مقامی نظام حکومت خودمختاری کی بنیاد پر ہو اور لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہورہے ہوں وہاں نئے صوبوں کی بحث کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ لیکن جب لوگوں کے مقامی بنیادی مسائل حل نہ ہوں تو ان کو لگتا ہے کہ ان کے بھی مسئلے کا حل نیا صوبہ ہے۔ نئے صوبے بنالیں لیکن اگر وہ مقامی نظام حکومت سے انحراف کریں تو پھر نئے صوبوں کی تشکیل بھی کچھ نہیں دے سکے گی۔اس وقت پنجاب میں لوگ تختِ لاہور پر تنقید کرتے ہیں، پھر بعد میں جہاں نئے صوبے بنیں گے وہاں کے لوگ بھی اپنے اپنے دارالحکومت پر تنقید کریں گے کہ انہوں نے ہمارے حق پر ڈاکا ڈالا ہوا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی سابقہ ناکامیوں اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں؟ اورکیوں ہم ان تجربات پر عمل درآمد نہیں کرنا چاہتے جو دنیا میں کامیاب رہے ہیں؟ وزیر اعظم عمران خان نے درست کہا کہ اگر مقامی نظام مضبوط ہوگا تو نئے صوبو ں کی اتنی بڑی تعداد میں ضرورت نہیں رہے گی۔لیکن وزیر اعظم یہ تو سوچیں کہ جو نظام مقامی نظام حکومت کے نام پر چل رہے ہیں وہ کس حد تک ہماری ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔
اصل مسئلہ حکمرانی کے نظام میں ہمارے سیاسی، سماجی اور انتظامی رویوں کا ہے۔ آپ جتنے مرضی قانون بنالیں، پالیسی تشکیل دے دیں، نئے صوبے بنالیں، لیکن اگر طرز حکمرانی غیر منصفانہ اور غیر شفاف ہوگا تو یہ سب بہتر اقدامات بھی ہمیں مطلوبہ نتائج نہیں دے سکیں گے۔ ہمیں اپنے پورے نظام حکمرانی کو دیکھنا ہے جو اپنے اندر بڑی اصلاحات چاہتا ہے۔ اصلاحات بھی اسی صورت میں کامیاب ہوتی ہیں جب ہم اپنے رویوں، طرزعمل اور طرزِ حکمرانی میں عام آدمی کو بنیاد بناکر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کام محض قانون سازی سے ممکن نہیں ہوتا، کیونکہ ماضی میں بھی بہت سے قوانین کی موجودگی کے باوجود کچھ نہیں ہوسکا۔ ہمیں اس کے لیے ایک سیاسی تحریک کی ضرورت ہے، اور جولوگوں کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنائے۔ اس کا نکتۂ آغاز مقامی حکومت کے نظام سے جڑا ہے۔ اگر وسائل مقامی بنیاد پر تقسیم ہوں گے اور ہر مقامی حکومت کی ترجیح اس کے مقامی مسائل ہوںٖ گے تو ہم ایک بہتر طرزِ حکمرانی کی بنیاد پر منصفانہ اور مہذب معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔