جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس

کیا ایک اور عدلیہ تحریک بننے جارہی ہے

صدرِ مملکت عارف الرحمن علوی نے سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج ،کے کے آغا کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس دائر کیا ہے۔ اس ریفرنس کی پہلی سماعت کے لیے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس14 جون کو اسلام آباد میں طلب کرلیا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس خود سربراہ ہیں، ان کی معاونت کے لیے سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین جج جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عظمت سعید شیخ، اور ہائی کورٹس کے دو سینئر ترین جج چیف جسٹس سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں شریک ہوں گے۔ اس لحاظ سے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد شیخ سپریم جوڈیشل کونسل میں شامل ہوں گے۔ پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد شمیم اور بلوچستان ہائی کورٹ کی خاتون چیف جسٹس طاہرہ صفدر ان دونوں سے جونیئر ہیں۔ جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عظمت سعید نوازشریف کو نااہل قرار دینے والے بینچ میں بھی شامل تھے، ان کے روبرو بھی یہی مقدمہ تھا کہ نوازشریف نے اثاثے اور معلومات چھپائی ہیں۔ اس ریفرنس پر عدلیہ کا فیصلہ جو بھی ہو، یہ عدلیہ کی تاریخ میں ایک نیا باب ہوگا۔ قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ میں سینیارٹی کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر ہیں، ان کے والد قاضی عیسیٰ مسلم لیگ بلوچستان کے صدر رہے، اس عہدے کے لیے اُن کی نامزدگی قائداعظم محمد علی جناح نے کی تھی۔ جب 3 نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی نافذ ہوئی تو عدلیہ کے فاضل جج صاحبان کی بڑی تعداد فارغ ہوئی اور نئے جج عدلیہ میں آئے۔ سپریم کورٹ نے جب ایمرجنسی کے حکم کو غیر آئینی قرار دیا تو بلوچستان ہائی کورٹ کے تمام جج صاحبان کو استعفیٰ دینا پڑا، جس کے بعد قاضی فائز عیسیٰ براہِ راست بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔ ان کی ریٹائرمنٹ 2024ء میں ہونی ہے، ان کی والدہ جنیفر عیسیٰ غیر ملکی شہریت کی حامل تھیں۔
دوسرا ریفرنس سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کریم خان آغا کے خلاف ہے۔ ان کی اہلیہ غیر ملکی شہریت رکھتی ہیں۔ جسٹس کریم خان آغا سندھ ہائی کورٹ میں سینیارٹی کے اعتبار سے اکیسویں نمبر پر ہیں اور انہیں آصف علی زرداری کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جسٹس (نام لکھنا فی الحال مناسب نہیں) کے خلاف بھی ریفرنس کی اطلاع ہے۔ اگر ریفرنس کی کھلی عدالت میں سماعت ہوئی تو اس سماعت کی کارروائی شائع ہوسکتی ہے، اور سپریم جوڈیشل کونسل میں اس کی سماعت ہونے سے ریفرنس کی کارروائی میڈیا میں شائع نہیں ہوگی۔ ان ریفرنسز پر سینیٹ میں ایک قرارداد منظور کی گئی ہے، یہ قرارداد اپوزیشن نے پیش کی، اسی طرح ریفرنسز پر پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور صوبائی بارز کی جانب سے بھی ردعمل سامنے آیا ہے۔ بلوچستان بار ایسوسی ایشن اور سندھ بار ایسوسی ایشن نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجنے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں قراردادیں منظور کی ہیں۔ قومی اسمبلی میں بھی قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں نون لیگ کی جانب سے قرارداد پیش کی گئی ہے۔
وکلا کے اس ردعمل پر ہی یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا ملک میں عدلیہ کی حمایت میں ایک اور وکلا تحریک چلنے والی ہے؟ یہ سوال جتنا اہم ہے اس کا جواب اس سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ وکلا کے ردعمل کے باوجود وکلا کی تحریک کی کوئی لہر اٹھتی ہوئی نظر نہیں آرہی، اس کے برعکس وکلا کی تقسیم سامنے آسکتی ہے۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کا معاملہ مختلف ہے۔ اُن کے لیے وکلا کو ہدف ملا تھا تو باہر نکلے تھے۔ بہرحال ججوں کے خلاف ریفرنس بہت حساس معاملہ ہے، اس پر تجزیہ اور تبصرہ کرنے کے بجائے عدلیہ کی کارروائی دیکھنی چاہیے۔ ماضی میں بھی عدلیہ کے جن ججوں کے خلاف ریفرنس آئے، یہ تمام جج اپنے عہدوں سے الگ ہوئے۔ ان میں معروف ٹی وی تجزیہ کار نسیم زہرا کے والد جسٹس اخلاق احمد تھے، ان پر بندوق کے لائسنس کی تجدید کرائے بغیر اسے استعمال کرنے کا ریفرنس بنایا گیا تھا، ریفرنس بنائے جانے پر وہ مستعفی ہوگئے تھے۔ اسی طرح جسٹس شوکت عزیز صدیقی مستعفی نہیں ہوئے بلکہ برطرف کیے گئے۔ ان کی حمایت میںوکلا پُرجوش تھے، مگر ان کی برطرفی کے بعد خاموشی چھاگئی۔ لیکن جسٹس افتخار محمد چودھری کا کیس مختلف رہا، اس کی وجہ عام نہیں بلکہ کچھ خاص تھی۔ ان کے خلاف ریفرنس کا اصل ہدف صدر پرویزمشرف تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ پہلے جج ہیں جنہوں نے اپنے خلاف ریفرنس کی تصدیق کے لیے صدرِ مملکت کو خط لکھا ہے۔ انہوں نے خط میں استفسار کیا کہ میرے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے یا نہیں؟ سپریم کورٹ کے جج نے صدر مملکت کو اس حوالے سے تصدیق یا تردید کرنے کا کہا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ اگر میرے خلاف ریفرنس داخل کیا گیا ہے تو اس کی نقل فراہم کی جائے۔ انہوں نے خط میں یہ بھی لکھا کہ مخصوص لیکس سے میرا قانونی حق مجروح کیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج نے صدرِ مملکت کو لکھے گئے خط کی کاپی وزیراعظم عمران خان اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھی بھجوائی ہے۔ یہ خط 18 مئی کو لکھا گیا اور ریفرنس مئی کے پہلے ہفتے میں دائر ہوئے، یہ خط منظرعام پر آیا تو اگلے ہی روز سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بھی طلب کرلیا گیا جس کی پہلی سماعت14 جون کو ہوگی۔ اس ریفرنس کی تیاری متحدہ کے رکن سینیٹ وزیر قانون فروغ نسیم کی نگرانی میں ہوئی، اور وزارتِ قانون کو انکم ٹیکس اور ایف بی آر نے معلومات فراہم کی ہیں۔ وزارتِ قانون کے بارے میں کہا گیا کہ اس نے ریفرنس میں سخت زبان استعمال کی، لیکن وزارت نے اس کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ریفرنس دستیاب اور فراہم کیے جانے والے حقائق کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ وزارتِ قانون حکومت کا حصہ ہے۔
حکومت ریفرنس کی خبر باہر آنے پر پریشان ہے کیونکہ ججو ں کیخلاف ریفرنس کا وزارت قانون اور اس سے متعلقہ فورمز کے علاوہ کسی کو نہیں پتا تھا، اس بارے میںوزارت قانون، وزیر اعظم اورصدر مملکت ہی کو علم تھا حکومت اب یہ مؤقف لے رہی ہے ججوں پر الزام درست یا غلط ہونے کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کرے گی معزز جج صاحبان سے متعلق رائے قابل اعتمادمعلومات کی بنیاد پر ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھیجے گئے ہیں۔اعلیٰ عدلیہ میں شمولیت اختیار کرنے کے 10برس بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دوسری مرتبہ مشکلات کا سامنا ہے۔ایک برس قبل ان کی 2009میں بلوچستان ہائی کورٹ میں شمولیت پر جس کے بعد وہ 2014میں وہ سپریم کورٹ کے جج بنے تھے۔ان کے خلاف ایک وکیل نے درخواست دی تھی،جسے دائر کیے جانے کے دو برس بعد مسترد کردیا گیا تھااس سے قبل درخواست دہندہ ایک عام شہری اور وکیل تھا اور اب صدر عارف علوی یعنی وفاقی حکومت ہے، جس نے ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرایا حکومت نے سپریم جوڈیشل کونسل میں اعلیٰ عدلیہ کے دو ججوں کے خلاف بہ یک وقت ریفرنسز دائر کیے ہیںسپریم کورٹ کے 17ججوں میں سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے یہ واحد جج ہیں3نومبر،2007کو پرویز مشرف کی جانب سے لگائی گئی ایمرجنسی کے بعد قاضی فائز عیسیٰ نے سینئر وکیل کی حیثیت سے فیصلہ کیا تھا کہ وہ ایسے ججوں کے سامنے پیش نہیں ہوں گے جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی تھی۔یکم جنوری، 2016کو ریاض حنیف راہی نامی وکیل نے سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184(1)کے تحت درخواست دائر کی، جس میں کہا گیا کہ جسٹس عیسیٰ کی بلوچستان ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کی حیثیت سے تقرری اور اعلیٰ عدالت میں ترقی طریقہ کار پر عمل کیے بغیر کی گئی اور یہ کئی لحاظ سے غیر قانونی ہے جسٹس عیسیٰ کی تقرری کا نوٹیفکیشن جلد بازی میں جاری کیا گیا 14مارچ، 2016کو رجسٹرار نے پٹیشن کو فضول ٹھہرایا سابق چیف جسٹس نے وکیل کو اپنے چیمبر میں سنے کے بعد اعتراضات کو ختم کردیا اپریل،2018میں بینچ نے غیر متعلقہ ہونے کے باعث درخواست مسترد کردی اور فیصلہ دیا کہ جسٹس عیسیٰ اب سپریم کورٹ کے جج ہیںجسٹس عیسیٰ نے سبی میں بلوچستان ہائی کورٹ دوبارہ کھلوائی جو کئی سالوں سے بند تھی۔انہوں نے تربت میں بلوچستان ہائی کورٹ کی تعمیر کے لیے زمین حاصل کی اور اس کی عمارت کے ڈیزائن کی منظوری دی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو 16اگست، 2023میں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنناہے اور وہ 25اکتوبر،2024تک اس عہدے پر رہیں گے۔ان سے پہلے جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عمر عطا بندیال چیف جسٹس بنیں گے۔ اس وقت 7 ایسے جج ہیں جو آنے والے سالوں میں چیف جسٹس بنیں گے جسٹس گلزار سب سے اوپر ہیں۔ وہ دسمبر 2019 میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جگہ لیں گے اور 2 فروری 2022 تک چیف جسٹس رہیں گے جسٹس عمر عطا ء بندیال ان کی جگہ لیں گے اور 19 ماہ خدمات انجام دے کر 16 اگست 2023 کو عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گے اگلے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہوں گے۔ وہ اپنا عہدہ 2023 کے عام انتخابات کے وقت ہی اٹھائیں گے جسٹس اعجاز الحسن ان کے بعد یہ عہدہ سنبھالیں گے وہ جسٹس عیسیٰ کی جگہ لیں گے اور 10 ماہ کے لیے چیف جسٹس کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں گے۔ اس کے بعد جسٹس سجاد علی شاہ سینئر ترین جج ہوں گے جو یہ عہدہ سنبھالیں گے۔ وہ دو سال سے زائد اس عہدے پر رہیں گے اور 26 نومبر 2027 کو ریٹائر ہوں گے۔ جسٹس منیب اختر ان کے بعد چیف جسٹس ہوں گے جو ایک سال سے زائد تک اس عہدے پر رہ کر 13 دسمبر 2028 کو یٹائر ہوں گے 7 ججوں میں سے ساتویں اور آخری جج جسٹس یحییٰ آفریدی ہوں گے جو ایک سال سے زائد کے لیے سپریم کورٹ کی صدارت کریں گے اور 22 جنوری 2030 کو ریٹائر ہوں گے

حکومتی صفوں میں اضطراب

پارلیمنٹ میں حکومت کی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے کہ اتحادیوں کی جانب سے عدم تعاون کی تلوار بھی سوا نیزے پر نظر آرہی ہے۔ یہ صورت حال حکومت کے لیے آئندہ دنوں میں بڑا بحران لارہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں میں اتنی جان نہیں کہ وہ حکومت کو چیلنج کرسکیں، لیکن یہ کام حکومت کے اندر سے ہی ہورہا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اتحادی بے چین ہیں اور پارلیمنٹ سے باہر بھی وہ مشکل میں آئے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی اتحادی اور عمران خان کے سیاسی کزن طاہرالقادری کی جماعت عوامی تحریک کے107کارکنان کو دہشت گردی کے تحت 7 سال تک کی سزا ہوگئی ہے جس سے عوامی تحریک میں بے چینی پھیل گئی ہے۔ عید کے بعد حکومت کی کیا صورت حال ہوگی، ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ عددی اکثریت کے لحاظ سے پی ٹی آئی کے پاس صرف چھے ووٹوں کی اکثریت ہے، ان میں 4 ووٹ اخترمینگل کی جماعت کے ہیں۔ اختر مینگل نے توکہہ دیا کہ میں بجٹ میں اپوزیشن کے ساتھ ہوں۔ اس کا مطلب ہے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے صرف 2 ووٹ چاہئیں۔ فواد چودھری ناراض بیٹھے ہیں، اسد عمر ناخوش اور مایوس ہیں۔ پی ٹی آئی میں ایک گروپ بہت تگڑا ہے جو کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتا ہے، اسی گروپ کی وجہ سے اسد عمر کی چھٹی ہوئی۔ انہیں آخری لمحے تک علم نہیں ہوسکا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوچکا ہے۔ اب حکومت کے پاس دو آپشن ہیں، مسلم لیگ(ق) کے ساتھ ہاتھ ملائے اور انہیں وزارتیں دے، تاکہ اسمبلی میں بجٹ منظور ہوسکے۔ اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے پانچ ووٹ ہیں، اور اسمبلی میں آزاد ارکان کی تعداد چار ہے۔ یہ 9 ارکان اپنے ساتھ ملانے کے لیے وزارتوں کے علاوہ حکومت کو کیا کچھ کرنا ہوگا؟ اگر واقعی اتحادی ناراض رہے اور حکومت بجٹ منظور نہ کراسکی تو کیا عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ جون میں ختم ہوجائے گی…؟

حکومت کا پہلا بجٹ

قومی اسمبلی میں حکومت اپنا پہلا بجٹ 11 جون کو پیش کرنے جچارہی ہےمشیر خزانہ حفیظ شیخ نے بجٹ نکات پر کابینہ کو اعتماد میں لے لیا ہے۔ آئندہ مالی سال کے لیے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5550 ارب روپے رکھا جائے گا۔ آئندہ بجٹ میں انکم ٹیکس قانون میں تبدیلی بھی متوقع ہے۔ حکومت بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں نئے ٹیکس لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایک ٹریلین روپے کی اضافی مالی وصولیوں کے لیے ایف بی آر نے ان اداروں کی رجسٹریشن لازمی قرار دینے کی تجویز دی ہے جہاں وصولیوں کے لیے کریڈٹ کارڈ مشین نصب ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کا حصے دینے کے بعد سود ادائیگی کی ضرورت میں اضافہ بڑے محصولات کو کھا جائے گا، ضروری اخراجات پورے کرنے کے لیے مرکز کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ آنے والے مالی سال میں تقریباً 2.7 تا 2.8 ٹریلین روپے کے بجٹ خسارے کے کامل اعداد و شمار میں کوئی بھی بڑا فرق نہیں ہوگا اگر اس کا موازنہ اسی سطح کے جانے والے مالی سال 2018-19ء سے کیا جائے۔ نئے مالی سال کے لیے جی ڈی پی کے 7.3 فیصد مجوزہ خسارے کے مقابلے میں بجٹ خسارہ 2019-20ء میں جی ڈی پی کے تقریباً 6.3 فیصد تک نیچے لایا جاسکتا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت اگلے بجٹ میں پرائمری بیلنس میں مزید کمی ہوگی، کیونکہ ڈسکائونٹ ریٹس میں اضافہ سود ادائیگی کی ضرورت میں اضافے کے نتیجے کی صورت سامنے آیا جس سے جی ڈی پی کے ایک فیصد سے زائد مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی۔ 5550 ارب روپے مالی وصولیوںکا ہدف پورا کرنے کے لیے حکومت نے آئندہ بجٹ میں سخت اقدامات تجویز کیے ہیں۔ ایف بی آر نے فولادکے شعبے کو 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس [جی ایس ٹی) کے ساتھ معمول کی ٹیکس وصولیوں میں لانے کی تجویز دی ہے۔ شکر پر بھی جی ایس ٹی 17 فیصد کردیا جائے گا۔ مشروبات پر ایف ای ڈی کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ ایک ٹریلین روپے کی اضافی مالی وصولیوں کے لیے ایف بی آر نے ان اداروں کی رجسٹریشن لازمی قرار دینے کی تجویز دی ہے، تاہم ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کے معاملے پر دو مشیر آمنے سامنے آگئے ہیں۔ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور مشیر تجارت عبدالرزاق دائود میں برآمدی شعبوں پر اختلافات ہیں۔ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ 5 برآمدی شعبوں کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کے حامی ہیں، جبکہ مشیر تجارت عبدالرزاق دائود زیرو ریٹنگ کی سہولت برقرار رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ مشیر خزانہ عبدالحفیظ زیرو ریٹنگ کے باوجود برآمدات میں اضافہ نہ ہونے پر پریشان ہیں۔ مشیر تجارت عبدالرزاق دائود اس کے باوجود رعایت چاہتے ہیں۔ ایف بی آر بھی مشیر خزانہ کی تجویز کا حامی ہے۔ اس نے بھی ٹیکس چھوٹ جاری رکھنے کی مخالفت کی ہے۔