محترم جناب ادریس بختیار بھی رخصت ہوئے، یوں صحافت کا ایک روشن باب مکمل ہوا۔ ادریس بختیار سے تعلق بہت بعد میں پیدا ہوا، ان سے غائبانہ تعارف بہت پہلے سے تھا۔ بر کت دارا پوری فیصل آباد میں جسارت کے نمائندہ ہوا کرتے تھے، ادریس بختیار کے ساتھ پہلی ملاقات اُن کے ساتھ ہوئی، یہ اُس زمانے کی بات ہے جب اخبارات میں کمپیوٹر کا استعمال شروع نہیں ہوا تھا، خبریں ڈاک کے ذریعے یا پھر بہت اہم خبر ٹیلی فون پر لکھوائی جاتی تھی۔ برکت دارا پوری قاری عبدالخالق کے امریکہ جانے کے بعد دوبارہ جسارت سے وابستہ ہوئے تو ان کے ساتھ جسارت میں کام کرنے کا موقع ملا۔ میں اُس وقت وائس آف امریکہ سے منسلک ہوچکا تھا اور ملکی میڈیا میں جسارت ہی پہلا پڑائو تھا۔ اب موقع تو یاد نہیں البتہ ادریس بختیار سے پہلی ملاقات انہی دنوں ہوئی۔ ان کے انتقال کے بعد کسی نے لکھا کہ ”رپورٹنگ کو اعتبار کا درجہ دینے والے ادریس بختیار رخصت ہوئے“۔ ان کی شخصیت سے متعلق یہ کمنٹ ایک مکمل سچ ہے۔ پیشہ ورانہ زندگی میں انہیں طرح طرح کے مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ بھٹو کے زمانے میں انہوں نے متعدد مصائب جھیلے، صحافتی ٹریڈ یونیز کی مشکلات کو ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا، ان کے انتقال سے دنیائے صحافت میں جو خلاء پیدا ہوا وہ پُر ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ان کی ناگہانی موت پر پی ایف یو جے(دستور) اور تمام عامل کارکن افسردہ ہیں۔ پی ایف یو جے دستور کے کارکنوں کو ان کے قیمتی مشورے اور رہنمائی ہمیشہ حاصل رہی۔ وہ پاکستان کے اخبار نویسوں میں ایک ممتاز حیثیت کے مالک تھے، پاکستان کی تاریخ میں ان کی صحافتی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ وہ بہت خوبیوں کے مالک تھے، ہمیشہ رہنمائی کرتے تھے، بلکہ اچھا کام کرنے پر خوش بھی ہوتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔ ادریس بختیار نے ایک موقع پر سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیس میں نوازشریف کے وکیل ایس ایم ظفر اور اُس وقت کے سیکرٹری قانون جسٹس ثاقب نثار کو میری جانب متوجہ کرکے ایک خبر پر شاباش دی۔ یہ شاباش آج تک میرا سرمایہ ہے۔ نوازشریف اور صدر فاروق احمد خان لغاری کے مابین عدلیہ کے معاملے پر ایک چپقلش چل رہی تھی، سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے، اس روز ملک کے تمام اخبارات میں خبر تھی کہ وزیراعظم، صدر اور چیف جسٹس کے مابین صلح ہوگئی اور معاملات طے پا گئے، جسارت میں میری فائل کی ہوئی خبر لیڈ اسٹوری تھی کہ مسلم لیگ عدالت پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے اور تینوں بڑوں کے مابین تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے ہیں۔ غالباً 1998ء کے آغاز میں فرائیڈے اسپیشل میں نوازشریف خاندان کے ملک بھر میں اثاثوں کی اسٹوری لکھی تھی۔ شریف خاندان کے یہ اثاثے پہلی بار منظرعام پر آئے تھے، جسے ادریس بختیار صاحب نے بہت پسند کیا تھا۔ جس زمانے میں اُن سے پہلی ملاقات ہوئی وہ وقت واقعی اُن کا تھا اور صحافت میں اُن کا سکہ رواں تھا۔ کراچی کی صحافتی روایت میں ادریس بختیار کا مقام بہت ممتاز ہے اور رہے گا۔ ادریس بختیار پاکستان کے حق میں مکمل جانب دار صحافت کے ایک بہادر سپاہی تھے۔ محمد صلاح الدین بھی جبر کی آندھی میں کھڑے رہے اور ادریس بختیار جیسے احباب ان کے میسرہ اور میمنہ تھے۔ وہ بہت ہی جی دار اخبار نویس تھے، کراچی کے سینے پر لگنے والے زخموں کی کہانی انہوں نے جرأت کے ساتھ بیان کی، لکھی اور سنائی۔ جرأت کا مظاہرہ کیا جائے اور پولیس گھروں پر چھاپہ نہ مارے، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ ضیاء الحق کا دور ہو یا بھٹو اور ایوب خان کا، سب کی سرشت ایک جیسی ہی رہی۔ ایسی افتاد کا کئی بار سامنا کیا لیکن جرأت کے ساتھ اپنی جانب دار صحافت کو بچایا اور قائم رکھا۔ انہوں نے عالمی میڈیا اداروں میں بھی کام کیا مگر جہاں بھی رہے ایک مکمل پاکستانی بن کر رہے۔ بلاشبہ انہوں نے لوگوں کو قلم پکڑنا اور جرأت کے ساتھ کام کرنا سکھایا، مگر وہ خود کو ایک المیے سے نہ بچا سکے۔ یہ المیہ آخری عمر میں ڈائون سائزنگ کی صورت میں انہیں پیش آیا جب میر صاحب نے ان سے معذرت کرلی اور ملازمت سے فارغ کردیا۔ ابھی مئی میں جب اسلام آباد میں ان سے ملاقات ہوئی تو گپ شپ میں ان سے دریافت کیا کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان میں سونے کے کاروبار کو دستاویزی بنانے کا کیوں کہا ہے؟ کہنے لگے میرے پاس کوئی واضح معلومات تو نہیں تاہم انڈونیشیا میں ایک جزیرہ ہے جہاں تیل کی تلاش کے لیے امریکی کمپنیاں کام کررہی ہیں، اس جزیرے کے لوگ کاغذ کے نوٹ یا سکے استعمال نہیں کرتے بلکہ لین دین کے لیے سونا استعمال کرتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف اس وجہ سے کہتا ہو کہ سونا کسی ایسے کاروبار میں لگ رہا ہے جو اس کے نزدیک مناسب نہیں۔ چونکہ ”جنگ“ سے فارغ ہوچکے تھے اور کچھ سوچ رہے تھے لیکن یہ بھی بتایا کہ میر صاحب نے دوبارہ رابطہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم سے غلطی ہوگئی ہے، جلد ہی آپ سے دوبارہ رابطہ کرنا ہے اور آپ کی واپسی ہوگی۔ ادارے میں واپسی کی راہ تکتے تکتے ادریس بختیار چل بسے۔ صحافت کا ایک پُرشکوہ عہد تمام ہوا۔ مدتوں ان کی آواز بی بی سی اردو سروس کے ذریعے جنوبی ایشیا کے طول و عرض میں گونجتی رہی۔ اللہ کے فیصلے دیکھیں، جلا وطن الطاف حسین نے ان کے قتل کا حکم دیا جس پر انہیں عارضی طور پر کراچی سے منتقل ہونا پڑا، اور جب غدار الطاف پر دورِ ابتلا آیا تو اس کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے یہی ادریس بختیار کھڑے ہوگئے۔
ادریس بختیار روشن خیال بھی تھے اور جانب دار سچے پاکستانی بھی۔ وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب بوری بند لاشوں کے دور میں کراچی پریس کلب کے بورڈ پر روزانہ مرنے والوں کا اسکور لکھا جاتا تھا۔ ادریس بختیار دائیں بازو کے صحافیوں کے نمایاں رہنما تھے۔ پی ایف یو جے دستور کے سربراہ بھی رہے، لیکن وہ ان دنوں صحافیوں کی مختلف یونینز میں تقسیم اور حد بندیوں کے حصار اور آکاس بیل سے باہر نکل چکے تھے۔ بہرحال نظریاتی صحافت کے وہ قائل رہے۔ عامل اخبار نویسوں کے تمام گروپ ان کا یکساں احترام کرتے تھے۔ وہ جب بھی اسلام آباد آئے جناب شاہد شمسی کی میزبانی میں احباب کے ہمراہ ان کے ساتھ کم از کم ایک نشست ضرور ہوئی۔اب صحافت میں ان کی وارثت ارسلان بختیار ٹیپو کے حصے میں آئی ہے۔ ادریس بختیار الوداع ہوئے،وہ صحافت میں دیانت داری، اصول پسندی اور وضع داری کی شاندار علامت تھے۔