۔’’کیا ’’مقتدر حلقے‘‘ حکومت کا گھیرا تنگ کرنے کا طے کرچکے ہیں؟‘‘۔

معروف کالم نگار قاسم سوڈھر نے بروز منگل 28 مئی 2019ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر محولہ بالا عنوان سے جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا اردو ترجمہ قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔

سندھی تحریر: قاسم سوڈھر
’’میں نے اپنے گزشتہ مضمون میں یہ واضح طور پر لکھا تھا کہ جب تک ’’مقتدر حلقے‘‘ عمران خان پر مہربان ہیں اُس وقت تک ان کی حکومت کو کوئی بھی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میری حزبِ اختلاف کے حوالے سے بھی یہ رائے رہی ہے کہ حزبِ مخالف کی دو اہم سیاسی جماعتیں یعنی مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی اس وقت کرپشن اور منی لانڈرنگ کے کیسوں کا سامنا کررہی ہیں، اور اس لیے وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کس کی آشیرواد سے تشکیل پائی ہے، لہٰذا وہ مہنگائی کے اس سونامی اور ملک کی روزبروز بدتر ہوتی ہوئی معیشت کے باوجود حکومت مخالف کسی ہمہ جہت تحریک چلانے سے احتراز کرتی رہی ہیں۔ کیوں کہ عمران خان اپنی ہر تقریر میں حزبِ مخالف کو یہ کہتے رہتے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت میں این آر او نہیں دیں گے۔ (یہ الگ بات ہے کہ وہ کتنے بااختیار ہیںکہ وہ کسی کو این آر او دے سکتے ہیں)۔ اس لیے حزبِ مخالف کے لیے جو مبینہ طور پر کرپشن اور ملک کے خزانے کی لوٹ مار میں ملوث رہی ہے، حکومت مخالف تحریک چلانا بے حد گمبھیر معاملہ رہا ہے۔ اپوزیشن عوام کو دکھانے کے لیے بیان بازی ضرور کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر اس کا اپوزیشن کا قابلِ ذکر کردار دیکھنے کو نہیں مل سکا ہے، لیکن حال ہی میں 19 مئی کو بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے حزبِ مخالف کی جماعتوں کو جو دعوتِ افطار دی گئی، اس میں یہ طے کیا گیا کہ عید کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے ایک اے پی سی منعقد کی جائے گی، اور اس کے ساتھ ساتھ بعداز عید اسمبلی کے اندر اور باہر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا بھی اعلان کیا گیا۔ اس کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ آخر اس کے پسِ پردہ کون سے مقاصد کارفرما ہوسکتے ہیں؟
19 مئی 2019ء کے انگریزی اخبار ’’دی اکنامک ٹائمز‘‘ کی ایک خبر میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور عسکری قیادت کے درمیان اختلافات نے سر اٹھالیا ہے۔ کیا اس اخبار کے مذکورہ دعوے میں واقعی کوئی صداقت ہے؟ کیوں کہ جس طرح سے گزشتہ ہفتے پاکستانی سیاست ایک اہم موڑ کی طرف مڑتی دکھائی دی، اس سے تو یہ صاف دکھائی پڑتا ہے کہ پسِ پردہ یقینا کچھ ہورہا ہے۔ ایک طرف اپوزیشن جماعتیں ہیں جو پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے مسلسل بیان بازی کی حد تک حکومت کو ناکام قرار دیتی رہی ہیں، لیکن بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے افطار ڈنر کے بہانے جس طرح سے حزبِ مخالف کی جماعتوں کو اکٹھا کیا گیا ہے اور جس طرح سے مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کی سینئر قیادت کو اسپیس دینے کے بجائے پیپلزپارٹی کی طرف سے آصف علی زرداری کے بجائے بلاول بھٹو کو آگے لایا گیا اور نواز لیگ کی طرف سے مریم نواز کو سامنے لایا گیا ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے تیاری کررہی ہیں۔ اس منظرکا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت کی طرف سے تنقید کے تیر پی پی پی اور پی ایم ایل این کی قیات پر برسائے جاتے رہے ہیں اور اس دوران بلاول اور مریم پر بھی تنقید ہوتی رہی ہے، لیکن یہ بہ نسبت نواز، شہباز اور زرداری پر کی جانے والی تنقید کے مقابلے میں کم رہی ہے۔ کیونکہ بلاول اور مریم کبھی حکومت کا حصہ نہیں رہے ہیں، اس لیے ان پر براہِ راست تنقید کرنے کا معیار یقینا مختلف ہوتا ہے۔
اس سارے عرصے میں نیب کے چیئرمین کی طرف سے ملک کے سینئر صحافی جاوید چودھری سے 14 مئی کے روز ہونے والی ملاقات اور اس کے بعد جاوید چودھری کی طرف سے دو کالموں کی صورت میں لکھی گئی اس ملاقات کی تفصیل، جس کے بعد چیئرمین نیب کی جانب سے اس دن یعنی 19 مئی کو کی گئی پریس کانفرنس، جب حزبِ اختلاف کی جماعتیں افطار ڈنر پر جمع ہوئیں… یہ سارے معاملات اس امر کی طرف براہِ راست اشارہ کرتے ہیں کہ حکومت کے خلاف گھیرا تنگ ہوتا نظر آرہا ہے۔ اگرچہ جاوید چودھری کے کالموں میں جو چیئرمین نیب کی طرف سے کرپشن اور دیگر کیسوں کے ذکر پر مشتمل ہے، اس میں ساتھ ساتھ حکومت کے چند اہم رہنمائوں کو مستقل قریب میں گرفتار کرنے کا اشارہ بھی دیا گیا ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ’’مقتدر حلقوں‘‘ کی منشا کے تحت ہی عمران خان کی حکومت کی ناک میں نکیل ڈالنے کی کوشش کے تحت نیب اور حزبِ مخالف کی جماعتوں کو حکومت کے خلاف ایکشن لینے کے لیے نہ صرف اکسایا گیا بلکہ انہیں آزاد کرنے کا بھی اشارہ دیا جارہا ہے (لیکن اس دوران نیب چیئرمین کے حوالے سے جو آڈیو اور ویڈیو منظرعام پرآئی ہیں، اس سے لگتا ہے کہ اس سارے کھیل کی بڑی ہوشیاری کے ساتھ تیاری کی گئی ہے)۔
اہلِ وطن کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کچھ عرصے قبل تک پی ایم ایل این، تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف سب سے زیادہ تنقیدی مؤقف اختیار کیے ہوئے تھی، لیکن بعد میں جب شہبازشریف لندن روانہ ہوئے اور چھ ہفتوں کے لیے میاں نوازشریف بھی جیل سے باہر آئے تو اُس وقت تک میاں نوازشریف نے بہت حد تک خاموشی اختیار کرلی تھی، لیکن میاں نوازشریف کو دوبارہ جیل بھیجنے کی صورت میں جب انہیں خود کو ریلیف ملتا ہوا دکھائی نہ دیا تو نواز لیگ نے ایک مرتبہ پھر سے حکومت کی بھرپور مخالفت کرنا شروع کردی۔ مسلم لیگ نواز کے اندر بھی دھڑے بندی واضح طور پر نظر آتی رہتی ہے، جن میں ایک طرف نوازشریف والا دھڑا جس کی نمائندگی آج کل مریم کررہی ہیں، کا بیانیہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ پر مبنی ہے اور اس طرف سے دکھائی یہ دیتا ہے کہ سیاسی سفر کے مشکل مرحلے سے سبق سیکھنے کے بعد اتنی آسانی سے ان کے لیے اب پیچھے ہٹنا قابلِ قبول نہیں رہا ہے۔ دوسری جانب شہبازشریف ہیں جن کی قیادت بظاہر اس وقت اُن کے فرزند حمزہ شہباز کررہے ہیں، جو حمزہ کو پنجاب کی وزارتِ علیا ملنے کی صورت میں مفاہمت کرنے کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں۔ لیکن اس وقت مسلم لیگ نواز کی قیادت کی باگ ڈور مریم نواز کو سونپی جارہی ہے۔ اسی طرح سے آصف زرداری نے بھی پسپائی اختیار کرتے ہوئے اپنی پارٹی کی قیادت بلاول کے سپرد کرڈالی ہے۔ اس کے دو اہم اسباب ہیں، ایک تو یہ کہ دونوں پارٹیوں کی نوجوان قیادت کے خلاف منی لانڈرنگ اور کرپشن کے ایسے کیس نہیں ہیں جس طرح کے کیس دونوں پارٹیوں کی سینئر قیادت اس وقت بھگت رہی ہے، اور دوسری بات یہ کہ پاکستان جس کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور جس کے لیے یہ اعتراف کیا جاتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی حمایتی ہے، اسے پی ٹی آئی سے کاٹ کر بلاول اور مریم کے ذریعے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز اپنی جانب متوجہ کرسکتے ہیں۔ یہ نوجوان طبقہ ہی ہے جو ریلیوں اور احتجاج سمیت عملی سیاست میں پارٹیوں کا ایک اہم جزو ہوتا ہے، اور جن کی طاقت ہر پارٹی کو درکار ہے۔
اس وقت ملک مشکل دور سے گزر رہا ہے، ایک جانب معیشت بالکل تباہ حال ہے اور مہنگائی کا سونامی ہر روز مزید شدت اختیار کرتا جارہا ہے، دوسری طرف ڈالر کی قیمت میں بھی آئے دن اضافہ ہوتا جارہا ہے، اور اس کے ساتھ ہی ملک پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے۔ مزید برآں عمران خان کی مقبولیت کا گراف بھی گرتا چلا جارہا ہے، اور یہ صورت حال بھی عمران خان کے لیے دردِ سر کا باعث بن چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدے کیے گئے ہیں، جن کے لیے حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے کیے گئے ہیں، لیکن درحقیقت انہی معاہدوں کی بدولت فی الحال تو ملک کی معیشت کا بیڑہ ڈوبتا ہوا دکھائی پڑتا ہے، اسی آئی ایم ایف کے ذریعے امریکہ کا دبائو بھی پاکستان پر بالواسطہ طور پر موجود ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے تعلقات آج کل چین کے ساتھ بھی پہلے کی طرح بہتر دکھائی نہیں دیتے۔ ایسی دلدل میں دھنسنے کے باوجود بھی ’’مقتدر حلقوں‘‘ کی جانب سے حکومت کے خلاف براہِ راست ایکشن نہ لینے کا اہم سبب ملک کو انارکی سے بچانے کی کوشش ہے۔ نیز اس طرح سے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی سعی کرنا بھی ہے۔ اسی طرح سے یہ مقتدر حلقے یہ بھی نہیں چاہیں گے کہ کپتان صاحب کو مکمل طور پر آزادی دے دی جائے۔ اس لیے نیب ہو یا حزبِ مخالف کی جماعتیں، ان دونوں حلقوں کے ذریعے البتہ حکومت پر دبائو ضرور جاری رکھا جائے گا۔ جہاں تک حزبِ مخالف کو کرپشن اور منی لانڈرنگ کے کیسوں کے ذریعے سے کنٹرول میں رکھنے کا معاملہ ہے تو فی الحال تو نوازشریف کا وہ دھڑا جو آج کسی نہ کسی حوالے سے ’’خلائی مخلوق‘‘ کو آنکھیں دکھاتا ہے، اسے بھی اپنی حد میں محصور کیا جارہا ہے (تاکہ وہ مزید ایک حد سے آگے نہ بڑھ سکے)۔ التبہ شہبازشریف کو ایک حد تک ریلیف ملا ہوا ہے۔ دوسری طرف آصف علی زرداری اور فریال تالپور ہیں، ان کے کیسز کو بھی طول دینے کے ذریعے فی الحال ان دونوں کو ڈھیل دی جارہی ہے اور اس طرح سے انہیں ریلیف حاصل ہورہا ہے، اور اس کے توسط سے حکومت کو بھی یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ اگر مذکورہ مقتدر حلقے کپتان کی حکومت کے خلاف ایکشن لینا چاہیں گے تو ان کے لیے بھی سیج کو آراستہ کیا جاسکتا ہے۔
بلاول کی دعوتِ افطار میں جو عید کے بعد اے پی سی بلوانے کی بات کی گئی ہے یہ بھی حکومت کے لیے ایک اشارہ ہے کہ اگر حکومت ایک طرف مذکورہ حلقوں سے ’’یس باس‘‘ کے فارمولے پر عمل کرتی رہی تو پھر اس اے پی سی کے ذریعے عید کے بعد حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے بجائے معاملے کو بعض دیگر ذرائع سے حل کیا جاسکتا ہے۔ اس سے حکومت مخالف تحریک بھی رک سکتی ہے، جس کے بدلے میں اپوزیشن جماعتیں کیسوں کی لٹکتی ہوئی تلواروں سے اگر مکمل آزادی نہیں تو کم از کم کچھ ریلیف دینے کے لیے مقتدر حلقوں پر زور ضرور ڈال سکتی ہیں۔ اے پی سی مولانا فضل الرحمن کی زیر قیادت بلوانے کے اعلان کے پس پردہ حکومت کے لیے خاص پیغام یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن ہی تھے، جنہوں نے حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی اس کے خلاف مہم چلانے اور حکومت گرانے کے لیے زور دیا تھا، جنہیں پی پی اور نواز شریف کی قیادت نے ٹھنڈا کیا، لیکن اب اگر اپوزیشن کی ساری جماعتوں نے حکومت کے خلاف عملی طور پر میدان میں آنے کا فیصلہ کرلیا تو یقینا یہ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔ لہٰذا یہ سب معاملات اس امر کا کھلا اظہار ہیں کہ حکومت کا گھیرا تنگ کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے جس میں اپوزیشن جماعتوں کی حکومت کے ساتھ کوئی بھی ہمدردی نہیں ہے، بلکہ یہ سب کچھ کرنے کے پیچھے اہم فیکٹر ’’مقتدر قوتوں‘‘ کی حکومت سے ناراضی اور دوسرا یہ کہ پی پی اور نواز لیگ کی قیادت کو خود پر دائر کیسز سے ریلیف ملنے کی امید ہے۔ یہ واقعتا حد درجہ قابلِ افسوس امر ہے کہ اس سارے سیاسی منظرنامے میں عوام کے درد کا مداوا کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ ایک طرف حکومت ہے جو آئی ایم ایف کے اشاروں پر چلتے ہوئے اور ایک مکمل طور پر ناکارہ حکومتی ٹیم کی نااہلی کے باعث ملک کا پوری طرح سے بیڑہ غرق کررہی ہے، دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں ہیں جنہیں سوائے اپنے خلاف چلائے جانے والے کیسز میں ریلیف ملنے کی امید کے بقیہ دوسرے اس طرح کے امور سے کوئی واسطہ نہیں ہے کہ ملک کی معیشت کا کس بری طرح سے دیوالیہ نکل رہا ہے اور مہنگائی کے سونامی میں کیسے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں!!!‘‘