خیبر پختون خوا:۔ سیاحت کا فروغ، امکانات اور مشکلات

سیاحوں کے تحفظ کے لیے ٹورارزم پولیس متعارف کرانے کا فیصلہ

خیبرپختون خوا کے وزیرسیاحت محمد عاطف خان نے کہا ہے کہ حکومت نے صوبے میں سیاحت کے فروغ کے لیے 15 سیاحتی مقامات کی نشاندہی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق صوبائی وزیر نے کہا ہے کہ یہ مقامات مالاکنڈ، ہزارہ اور مردان ڈویژن میں واقع ہیں۔ عاطف خان نے کہا کہ سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے موجودہ سیاحتی مقامات پر بھی سہولتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سال 10 لاکھ سیاحوں نے ان سیاحتی مقامات کا دورہ کیا، جبکہ رواں سال ان علاقوں میں 30 لاکھ سیاحوں کی آمد متوقع ہے۔
یاد رہے کہ پچھلے دنوں دریائے سندھ صوابی ہنڈ کے مقام پر ٹورازم کارپوریشن خیبرپختون خوا کے تعاون سے منعقد ہونے والی انڈس واٹر کراس جیپ ریلی کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے صوبے میں سیاحت کے مواقع کے بارے میں کہا تھا کہ صوبہ خیبرپختون خوا سیاحتی لحاظ سے حسین صوبہ ہے اور باقی صوبوں سے یہاں سیاحتی مقامات زیادہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صوابی ہنڈ کے مقام کو سیاحت کے لیے آباد کریں گے، یہ تاریخی مقام ہے، یہاں سیاح کثیر تعداد میں رخ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان بھی پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے کوششیں کررہے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ صوابی ہنڈ کے مقام پرفور بائی فور جیپ ریس کے انعقاد سے دنیا کو امن کا پیغام جائے گا اور اس مقام پر سیاحت کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ تاریخی ہنڈ میوزیم اور صوابی ہنڈ کو سیاحت کے لیے مزید آباد کریں گے۔
خیبرپختون خوا میں سیاحت کے امکانات کو فروغ دینے کی غرض سے سیاحوں کے سب سے اہم مسئلے یعنی ان کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر نعیم خان نے صوبے میں تھائی لینڈ کی طرز پر ٹورازم پولیس متعارف کرانے کا عندیہ دیا ہے۔ گزشتہ دنوں ہزارہ ڈویژن کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر نعیم خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی خصوصی ہدایت پر خیبرپختون خوا میں سیاحت کے فروغ پر توجہ دی جارہی ہے اور موٹروے پولیس اور تھائی لینڈ پولیس کے خصوصی ٹرینر کے تعاون سے ٹورازم پولیس کو تربیت دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختون خوا کے وزیراعلیٰ اور وزیر سیاحت و کھیل ہزارہ کے سیاحتی علاقے گلیات اور ناران، کاغان میں مختلف اقدامات اٹھارہے ہیں۔آئی جی پی خیبرپختون خوا نے کہا کہ ٹورازم پولیس کو نئے رنگ کی دیدہ زیب وردیاں فراہم کی جائیں گی، جب کہ اس نئی پولیس فورس کومقامی ثقافت سے متعلق آگاہی اور سیاحتی مقامات کے بارے میں معلومات سمیت خصوصی ٹریننگ بھی دی جائے گی۔
خیبرپختون خوا میں سیاحت کے امکانات کے تناظر میں یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان کے مختلف خطوں میں جہاں ماضی میں بدھ مت دور کے آثار قدیمہ دریافت ہوتے آئے ہیں اب پہلی مرتبہ پشاور میں انڈو گریک یعنی یونانی دور کے آثار دریافت ہوئے ہیں۔ ان آثار میں لوہے کی ورکشاپس یا لوہاروں کی بھٹیاں شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ آثار قدیمہ کوئی 2200 سال قدیم ہیں جو چار سو سال پر محیط تین بڑے ادوار سے ہیں۔ حیران کن طور پر یہ دریافت خیبر پختون خوا کے دارالحکومت پشاور کے انتہائی جدید اور بڑے رہائشی علاقے حیات آباد میں ہوئی ہے۔ ماضی میں ہندوستان سے پاکستان کے راستے افغانستان اور وسط ایشیا تک تجارت کا ایک بڑا راستہ پشاور سے طورخم کا راستہ تھا اور یہ ورکشاپس اسی راستے کے قریب دریافت ہوئی ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی کے پروفیسر گل رحیم کا ان آثار کے بارے میں کہنا ہے کہ حیات آباد کی جدید آبادی کے بیچوں بیچ یہ بہت بڑی دریافت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں انھیں ایسا لگا کہ یہ بھی بدھ مت کے ہی کوئی آثار قدیمہ ہیں، لیکن کھدائی کے دوران انھیں جو سکے اور برتن ملے، ان پر کندہ کیے گئے نشانات سے معلوم ہوا کہ یہ یونانی دور کے آثار ہیں۔ پروفیسر گل رحیم نے بتایا کہ یہاں لوہا پگھلانے والی بھٹیاں اور پھر لوہے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جگہیں بھی دریافت ہوئی ہیں۔ اس مقام پر ایک نہیں بلکہ کئی چھوٹی چھوٹی ورکشاپس دریافت ہوئی ہیں جو ساتھ ساتھ ہی واقع ہیں۔ ان ورکشاپس کے ساتھ کچن اور کچھ برتن بھی ملے ہیں جن پر تحقیق کی جارہی ہے۔ یہ دریافت انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور ماہرین کے مطابق یہاں سے ملنے والی اشیا سے لگتا ہے کہ چونکہ اسی راستے سے افغانستان، وسط ایشیا، ایران اور یونان سے قافلے آتے تھے اور یہاں جنگیں لڑی گئیں اور یہاں انھوں نے حکومتیں بھی کی ہیں، اس لیے اس جگہ سے تین مختلف ادوار کے آثار ملے ہیں۔ ان میں وسط ایشیائی، یونانی اور کوشان دور کے آثار پائے جاتے ہیں اور یہ انتہائی نادر آثار ہیں جن پر مزید تحقیق کی جارہی ہے۔ پروفیسر گل رحیم نے بتایا کہ کوشان وہ لوگ تھے جو ایران کے راستے ہندوستان اور اس علاقے میں آئے تھے۔ پروفیسر گل رحیم کے مطابق اگرچہ اس علاقے میں 2007ء میں بھی کھدائی کی گئی تھی جب نکاسی آب کے لیے یہاں نالہ بنایا جا رہا تھا۔اس کے بعد 2017ء میں کچھ لوگ یونیورسٹی میں ان کے دفتر آئے اور کچھ سکے اور برتن دکھائے کہ یہ انھیں حیات آباد میں کھدائی کے دوران ملے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس پر کام شروع کردیا گیا تھا اور ابتدا میں تو ایسا لگا جیسے صوبے کے دیگر علاقوں میں بدھ مت کے آثار قدیمہ دریافت ہوئے ہیں یہ بھی ویسے ہی ہیں، لیکن کھدائی کے دوران ایسے آثار دریافت ہوئے ہیں جو کوئی 2200 سال قدیم ہیں اور اس دور کے ہیں جب یونان سے حملہ آور یہاں آئے تھے۔پروفیسر گل رحیم کے مطابق جس مقام سے یہ آثار دریافت ہوئے ہیں ادھر سے دائیں جانب کچھہ گڑھی کی جانب مزید آثار ہوسکتے ہیں، جبکہ بیشتر آثارکے جدید عمارات اور آبادیوں کی تعمیر کی وجہ سے ختم ہو نے کے امکانات کوبھی رد نہیں کیا جا سکتا ۔
سوات جسے عرفِ عام میں پاکستان کا سوئٹزرلینڈکہا جاتا ہے اور جو اپنے قدرتی حسن اور یہاں دستیاب قدرتی جڑی بوٹیوں، ندی نالوں اور سرسبز وشاداب پہاڑوں کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت رکھتا ہے، یہ علاقہ پھلوں اور قدرتی شہد کی پیداوار کے حوالے سے بھی اپنی مثال آپ ہے۔ رپورٹس کے مطابق ان دنوں سوات کے بالائی علاقوں میں مگس بانی کا کاروبار عروج پر ہے۔ ہر سال یہاں سے ٹنوں کے حساب سے دیسی شہد حاصل کیا جاتا ہے اور کاروبار کرنے والوں کو کروڑوں روپے کی آمدن ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ سوات کے بیشتر علاقوں میں مگس بانی کا کاروبار بطور گھریلو صنعت بہت عرصے سے فروغ پذیر ہے اور یہاں پیدا ہونے والا اعلیٰ معیار کا شہد بیرون ملک بھی برآمد کیا جاتا ہے۔ خاص کر تحصیل مٹہ کی یونین کونسل گوالیرئی میں اب یہ کاروبار صنعت کا درجہ اختیار کرچکا ہے۔ اس یونین کونسل کے مختلف علاقوں میں لوگوں نے اپنے گھروں، حجروں اور طبیلوں کی دیواروں میں لکڑی یا مٹی سے ان مکھیوں کے لیے چھتے بنائے ہوئے ہیں جن میں جنگلی مکھیاں آکر قیام کرتی ہیں۔ مقامی زمینداروں اور اس کاروبار سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف ان کے علاقوں میں سالانہ 20 سے 25 ٹن تک دیسی شہد حاصل کیا جاتا ہے جس سے ان کو لاکھوں روپے کی آمدن ہوتی ہے۔ مگس بانی کا کاروبار کرنے والوں کے مطابق ہر شخص نے اپنے گھروں کی دیواروں میں چھتّوں کے لیے ایک سے زیادہ جگہیں بنائی ہیں۔ ایک بکس میں نو کلو تک شہد بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک بکس میں مکھیاں ایک سے زیادہ چھتے بناتی ہیں۔ ایک بکس میں25 سے 35 ہزار مکھیاں قیام کرتی ہیں اور شہد بناتی ہیں۔ اس صنعت سے وابستہ لوگوں کے مطابق یہ شہد فارمی شہد سے بہت بہتر ہوتا ہے۔ زیادہ تر لوگ اس دیسی شہد کو دوا کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ مگس بانی کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کے مطابق موسمِ بہار کے آغاز پر مکھیاں ان دیواروں میں بنائے گئے بکسوں میں آتی ہیں۔ ملکہ کے آنے کے بعد وہ بکس کے اندر چھتّا بنانے اور پھر شہد بنانے کا کام شروع کرتی ہیں۔ یہ عمل موسمِ بہار سے موسمِ گرما تک جاری رہتا ہے۔ پھر نومبر کے مہینے میں ان بکسوں کو کھول کر چھتّوں کو الگ کرکے اس سے شہد حاصل کیا جاتا ہے۔ مگس بانی کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کا علاقہ مگس بانی کے لیے موزوں ہے۔ اگر ان کو حکومت اور متعلقہ محکمہ کی سرپرستی مل جائے اور ان کو مگس بانی کے جدید طریقوں سے آگاہ کیا جائے، تو ان علاقوں میں یہ کاروبار باقاعدہ صنعت کی شکل اختیار کرسکتا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی معیشت میں خاصی بہتری آسکتی ہے،اگر حکومت شہد کے مقامی پیداکنندگان کو ضروری سہولیات اور رہنمائی فراہم کرے تو پھر یہاں پیدا ہونے والا دیسی شہد برآمد بھی کیا جاسکتا ہے جس سے ملکی معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔ یہاں کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مگس بانی ان کے آباو اجداد کم از کم چار سو سال سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ علاقے کے بزرگ میاں سید جلال کا کہنا ہے کہ ان کے دادا، پردادا کے وقت سے وہ اپنے گھروں میں مگس بانی سے وابستہ ہیں۔ اب ان کی آنے والی نسل بھی اس کام سے بخوبی واقف ہے۔ نئی نسل اس کام میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کاروبار پر خرچہ کم آتا ہے اور اس کی آمدن زیادہ ہے۔ نلکوٹ میں مگس بانی کا کام کرنے والے محمد علی شاہ نے بتایا کہ ان کی مکھیوں کے بکس میں صرف جنگلی مکھیاں آتی ہیں، فارمی مکھیاں نہیں آتیں۔ ان کے مطابق ان چھتوں کے اندر ایک مکھی ہوتی ہے جس کو ملکہ کہا جاتا ہے۔ ملکہ چھتے کے اندر ہی رہتی ہے اور بچوں کو جنم دیتی ہے۔ باقی مکھیوں میں کچھ بکس کے اس سوراخ کی نگرانی کرتی ہیں، جس سے مکھیاں اندر چھتوں میں داخل ہوتی ہیں۔ ان مکھیوں کو ”چوکیدار“ کہا جاتا ہے۔ باقی مکھیوں کو ”کارکن“ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو بکس سے نکل کر کھیتوں میں جاتی ہیں اور پھولوں سے رس حاصل کرکے واپس بکس میں آکر چھتوں میں شہد بناتی ہیں۔ گوالیرئی کے ایک مگس بان رحمان شاہ نے بتایا کہ دیسی شہد کھانے کے شوقین لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ لوگ نومبر کے مہینے سے پہلے ان سے شہد کے لیے ایڈوانس بکنگ کرتے ہیں۔ ان کے علاقے کے زیادہ تر لوگ جو امریکہ، برطانیہ اور یورپ یا خلیجی ممالک میں ہیں ان کے لیے یہاں کے لوگ دیسی شہد بطورِ تحفہ ان ممالک میں بھیجتے ہیں۔ اس وقت اس دیسی شہد کی فی کلو قیمت 26 سو روپے سے3 ہزار روپے درمیان ہے۔
دریں اثناء وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا محمود خان جن کا اپنا تعلق بھی سوات سے ہے، کی درخواست اور وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اس سال اکتوبر سے سوات ایئرپورٹ بیس سال کے تعطل کے بعد ایک بار پھر ڈومیسٹک فلائٹس کے لیے کھولنے کا اعلان کیا ہے، جس کے لیے ضروری انتظامات شروع کردیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ سات ایئرپورٹ کو بیس سال قبل اُس وقت فلائٹس کے لیے بند کردیا گیا تھا جب یہاں امن و امان کی صورت حال انتہائی بگڑ کر حکومتی کنٹرول سے باہر ہو گئی تھی، لیکن اب گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ کے احکامات کے بعد ڈپٹی کمشنر سوات سلیم رضا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سوات ائیرپورٹ کی توسیع کے لیے دو ارب روپے سے بارہ ایکڑ اضافی زمین خرید لی گئی ہے جس سے ایئرپورٹ کے رن وے اور دیگر سہولیات کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے میں مدد ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سوات ایئرپورٹ کی توسیع اور دوبارہ فعال ہونے میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں اور انہوں نے یہ مسئلہ وزیراعظم کے ساتھ بھی اٹھایا ہے، جن کے احکامات پر متعلقہ اداروں نے یہاں کام کا آغاز کردیا ہے۔ سوات ایئرپورٹ کی دوبارہ فعالیت کی اطلاعات کی خوش خبری کے ساتھ ساتھ یہاں اس امر کی نشاندہی افسوس کے ساتھ کرنا پڑتی ہے کہ سوات ایئرپورٹ ملاکنڈ ڈویژن جو ملک بھر میں سیاحت کے امکانات کے حوالے سے اپنی نظیر آپ ہے، کا واحد ایئرپورٹ ہونے کے باوجود پچھلے بیس سال سے بند پڑا ہے، حالانکہ سوات آپریشن اور اب یہاں فوجی چھاؤنی کے قیام کے بعد عام تاثر یہ تھا کہ یہاں کا ایئرپورٹ توسیع کے ساتھ جلد ہی دوبارہ فنکشنل ہوجائے گا، لیکن تاحال ایسا نہیں ہوسکا ہے، اور جب یہ ایئرپورٹ فعال ہونے کا سندیسہ سنایا گیا ہے تو وہ بھی سیاحت کے موجودہ سیزن کے خاتمے کے بعد اس سال اکتوبر نومبر کے لیے سنایا گیا ہے۔ حرفِ آخر یہ کہ موجودہ حکومت سے جو ملک بھر میں بالعموم اور خیبرپختون خوا میں بالخصوص سیاحت کے فروغ کی دعوے دار ہے، بجا طور پریہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ صوبے میں سیاحت کے فروغ اور ترقی کو محض دعووں اور نعروں تک محدود نہیں رکھے گی بلکہ اس ضمن میں حقیقی سنجیدہ اقدامات اٹھاکر اس اہم سیکٹر کو معیشت کی بہتری اور یہاں کے لوگوں کے حالات کی بہتری کے لیے بروئے کار لانے میں کسی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دے گی۔