احساسات کے مسائل عقل سے حل نہیں کیے جاسکتے۔ انہیں احساس ہی سے حل کیا جاسکتا ہے
ناصر فاروق
ایک مرتبہ معروف موسیقار ٹام ویٹس سے اُس کی کثرتِ شراب نوشی پر سوال ہوا، تو وہ بڑبڑایا ’’فرنٹل لوبوٹومی سرجری کروانے سے بہت بہتر ہے کہ میری میز پر بوتل ہی رہے‘‘۔ اس جواب پر خوب تالیاں بجیں۔ وہ سرکاری ٹی وی پر انٹرویو دے رہا تھا۔ فرنٹل لوبوٹومی دماغ کی سرجری کی ایک قسم ہے۔ اس میں ناک کے راستے کھوپڑی میں سوراخ کیا جاتا ہے اور دماغ کا ایک حصہ نرمی سے الگ کردیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ 1935ء میں نیورولوجسٹ Antonio Egas Moniz نے وضع کیا تھا۔ اینتونیو مونیز نے دریافت کیا کہ اگر آپ لوگوں کوشدید ذہنی تناؤ، پریشانی، اور خودکشی کے رجحانات سے بچانا چاہتے ہیں، اور دیگر دماغی امراض (امید کے بحران) سے نجات دلانا چاہتے ہیں، تو دماغ کا وہ حصہ نکال دیں، جو جذبات اور احساسات کے لیے کام کرتا ہے۔ اینتونیو مونیز کو یقین تھا کہ اگر یہ سرجری بھرپور طور پر کامیاب ہوگئی تو تمام دماغی امراض کا خاتمہ ہوجائے گا۔ لہٰذا اس کی بھرپور مارکیٹنگ کی گئی۔ 1940ء کے اواخر میں لوبوٹومی بہت کامیاب ہوئی۔ پوری دنیا کے ہزاروں مریضوں پراس کے تجربے ہوئے(1)۔ اینتونیو مونیز کو اس دریافت پرنوبیل انعام بھی دیا گیا۔
مگر1950ء کی دہائی میں لوگوں نے محسوس کیا کہ لوبوٹومی کے منفی side effects سامنے آرہے تھے۔ مریض عجیب صورت حال کا شکار ہورہے تھے۔ وہ کسی شے پر توجہ نہیں دے پارہے تھے۔ فیصلہ سازی سے محروم ہورہے تھے۔ منصوبہ بندی نہیں کرپا رہے تھے۔ ٹھیک طرح سے سوچ سمجھ نہیں پارہے تھے۔ وہ بالکل زندہ لاشیں بن چکے تھے۔ سب سے پہلے سوویت یونین نے لوبوٹومی سرجری کو غیر قانونی قرار دے کر پابندی لگائی۔ سوویت حکام نے کہا کہ یہ سرجری انسانی اصولوں کے منافی ہے۔ یہ اچھے خاصے آدمی کوضعیف العقل بنادیتی ہے۔ جب جوزف اسٹالن جیسے لیڈر نے اخلاقیات اور انسانیت پر لیکچر دیا، تو باقی دنیا کی آنکھیں کھلیں۔ اس کے بعد، باقی دنیا نے اس پر پابندی کی ابتدا کی۔ ساٹھ کی دہائی تک ہر کوئی لوبوٹومی سے نفرت کررہا تھا۔ 1967ء میں آخری لوبوٹومی امریکہ میں ہوئی، اور مریض مرگیا۔ اس کے دس سال بعد ٹام ویٹس نے ٹی وی پر اپنا معروف جملہ کہا۔ باقی تاریخ ہے۔ ٹام ویٹس نے جو کہا وہ بظاہر ہنسانے والی بات ہے، مگر اس میں پوشیدہ دانش معاملے کا اہم نقطہ ہے۔ وہ اُن چند فنکاروں میں سے تھا جو انسان کے جذباتی پہلوکا بھرپور ادراک رکھتے ہیں۔ ٹام ویٹس کسی بھی قسم کے احساس اور جذبے سے محروم نہیں ہونا چاہتا تھا، چاہے تشنگی کسی بوتل ہی سے دور ہو۔ کسی گھٹیا جگہ پر ’امید‘ کی معمولی سی رمق اُس حالت سے بہتر ہے، جہاں ’اُمید‘ سرے سے موجود ہی نہ ہو۔ (2)
یہ عام مانا ہوا مفروضہ ہے کہ جذبات مسائل کی جڑ ہیں، اور ہماری عقل ہے جو انہیں جڑ سے اکھاڑ دیتی ہے۔ فکر کی یہ روش سقراط سے چلی آرہی ہے، جس نے اعلان کیا تھا کہ ہر خوبی کی جڑ عقل ومنطق میںہے(3)۔ دورِ تنویر کے آغاز میں ڈیکارٹ نے کہا تھا کہ ہماری عقل ہماری حیوانی جبلتوں سے جدا ہے، عقل کو چاہیے کہ حیوانی جبلتوں پر قابو پائے۔ کانٹ اور فرائڈ نے بھی ملی جلی بات کی۔ اور جب اینتونیو مونیز نے یہ علاج دریافت کیا تھا، تو یہی سوچا ہوگا کہ دوہزار سالہ معما حل ہوگیا، فلسفی جو کرنا چاہتے تھے وہ انجام پاگیا، عقل کو بے قابو جذبات پر اختیار حاصل ہوگیا، اور یہ کہ انسانوں کو بالآخر خود پراقتدار مل گیا تھا۔
یہ مفروضہ صدیوں سے ہماری سماجی نفسیات کی نمائندگی کررہا ہے کہ ’ہمیں اپنی عقل کے ذریعے جذبات پرقابو رکھنا چاہیے‘۔ ہم یہاں اسے ’کلاسیکی مفروضہ‘ کا عنوان دیتے ہیں۔ یہ مفروضہ کہتا ہے کہ اگر ایک شخص بے اصول اور خبیث ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے جذبات اور احساسات پر اختیار کا اہل نہیں ہے، یا ارادے کا کمزور ہے۔ یہ مفروضہ احساسات اور جذبات کوانسانی خامیاں قرار دیتا ہے، اور انہیں انسانی نفسیات کے وہ نقائص سمجھتا ہے جنہیں دور کیا جانا چاہیے۔(4)
آج ہم عموماً اسی ’کلاسیکی مفروضہ‘ کی بنیاد پر لوگوں کے بارے میں فیصلے سناتے ہیں۔ موٹے لوگوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ وہ موٹاپے پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کا جسم سڈول یا ورزشی ہونا چاہیے مگر وہ پھر بھی بسیار خوری کرتے ہیں۔ کیوں؟ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے! یہی کچھ تمباکو نوشی کرنے والوںکے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
عموما افسردہ اور خودکشی کا رجحان رکھنے والے افراد کلاسیکی مفروضہ کی زد میں آتے ہیں، یہ خطرناک ہے۔ اُنہیں بتایا جاتا ہے کہ زندگی سے مایوسی اور بیزاری ذاتی کمزوری اور نااہلی کی وجہ سے ہے۔ اگر وہ ذرا سی کوشش کریں، تو پھندے پر لٹکنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ جذباتی ہونا اخلاقی ناکامی سمجھا جاتا ہے۔ اسے کردار کی کمزور ی قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ اُن لوگوں کی بڑی پذیرائی کی جاتی ہے جو اپنے احساسات کچل دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا واسطہ ایسے کاروباری حضرات اورکھلاڑیوں سے پڑتا ہے، جن کی روبوٹک تیزی اور پھرتی متاثرکن لگتی ہے۔ اگرایک سی ای او 6 ہفتے تک دفتر کی میز پر سوتا ہے، اور اپنے بچوں پرنگاہ تک نہیں ڈالتا! اسے پُرعزم اورمستقل مزاج سمجھا جاتا ہے!(5)
واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ کلاسیکی مفروضہ کس طرح دیگر ضرر رساں مفروضوں تک لے جاسکتا ہے۔ اپنے احساسات اور جذبات کو کچلنا شخصیت کو اندر سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ خاص طور پر ہم خود کو پوری طرح سے بدلنے پر تُل جاتے ہیں۔ یوں ’امید‘ کی تلاش میں دوڑ زیاں لگ جاتی ہے۔
انسانی دماغ کا نظام کسی بھی ’راز‘ سے گہرا اور پیچیدہ رازہے۔ اور تم اپنے آپ کو بدل نہیں سکتے، اورنہ میں تمہیں اس بات پر مائل کروں گا کہ تم ایسا محسوس کرو۔ ہم عقل کُل کے اس گمان سے چمٹے ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ ہمیں ’اُمید‘ کا واحد ذریعہ لگتی ہے۔ ہم یہ یقین کرنا چاہتے ہیں کہ خود کو بدلنا بہت ہی سادہ معاملہ ہے۔ ہم یہ یقین کرنا چاہتے ہیں کہ کچھ کرنے کی اہلیت اور اُسے انجام دینا ایک سا معاملہ ہے۔ ہم یہ یقین کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اپنی تقدیرکے مالک ہیں، ہراُس کام کے اہل ہیں جس کا خواب دیکھتے ہیں۔ لوبوٹومی سرجری کی مثال سے ظاہر ہوچکا ہے کہ یہ کلاسیکی مفروضہ غلط ہے۔ اگر یہ مفروضہ سچا ہوتا، اگر جذبات اور احساسات پر قابو پانا اتنا ہی سادہ معاملہ ہوتا، توہم سب لوبوٹومی سرجریاں کروا رہے ہوتے۔ لوگ جمع پونجی تک اس سرجری پرلگارہے ہوتے۔ مگر لوبوٹومی نے کام نہ دکھایا، اورلوگوں کی زندگیاں تباہ ہوئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ’عقل کُل‘ کے حصول کے لیے قوتِ ارادی سے بڑھ کرکچھ چاہیے(6)۔ سو، یہ حقیقت کھلی کہ ہمارے جذبات ہمارے فیصلوں میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، اور ہمارے اعمال کا تعین کرتے ہیں۔ ہم ہمیشہ اس کا ادراک نہیں کرپاتے۔
تمہارے دو دماغ ہیں، اور یہ ایک دوسرے کی نہیں سنتے(7)
فرض کرتے ہیں کہ تمہارا دماغ ایک گاڑی ہے۔ اس کا نام ’شعورکی سواری‘ رکھ لیتے ہیں۔ یہ شعور کی سواری زندگی کے سفر پر رواں دواں ہے، راستے میں اتار چڑھاؤ ہیں، دوراہے ہیں۔ ان دو راہوں میں تمہیں درست راستے کا انتخاب کرنا ہے۔ یہ فیصلے ہی تمہاری منزل کا تعین کریں گے۔ اب تمہارے شعور کی اس گاڑی میں دو مسافر سوار ہوتے ہیں: حسی دماغ اور حساس دماغ۔ محسوسات تمہارے خیالات کو ظاہر کرتے ہیں، حساب کتاب کی اہلیت کو ظاہر کرتے ہیں، نظریہ سازی کی زبان اور اظہار سامنے لاتے ہیں۔ جبکہ حساس دماغ تمہارے جذبات، محرکات، وجدان، اور فطری رجحانات کی ترجمانی کرتا ہے۔ جب تمہارا ’حسی دماغ‘ ادائیگیوں کے شیڈول کا حساب کتاب لگا رہا ہوتا ہے، تمہارا ’حساس دماغ‘ چاہتا ہے کہ سب کچھ بیچ کر کہیں گوشۂ عافیت میں چلا جائے۔
تمہاری ان دونوں کیفیات کی اپنی قوتیں اور کمزوریاں ہیں۔ حسی دماغ بااصول، صحیح، اور غیر جانب دار نظر آتا ہے۔ یہ ایک عقلی طریقہ کار کا پابند ہے، مگر سست رفتار ہے۔ یہ بہت توانائی طلب ہے۔ نشوونما میں وقت لیتا ہے اور زیادہ مشقت پر تھک ہار بھی جاتا ہے۔ تاہم ’حساس دماغ‘ بغیر کسی مشقت تیزی سے نتیجے پر پہنچ جاتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ کبھی کبھی غلط، اور عقلی طریقہ کار کا پابند نظر نہیں آتا۔ یہ ڈرامے کی ملکہ کا کردار ادا کرتا ہے، اور بڑھ چڑھ کر ردعمل دینے کا عادی ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے بارے میں سوچتے ہیں اور اپنی فیصلہ سازی پرغور کرتے ہیں تو ہم عموماً یہ گمان کرتے ہیں کہ ہماری حسیات ڈرائیونگ نشست پر ہیں جبکہ ہمارے احساسات پچھلی نشست پر براجمان ہیں، اور چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ کہاں جانا ہے۔ شعور کی سواری کا یہ سفر راستوں کا تعین کرتا ہے کہ آیا گھر کس طرح پہنچنا ہے۔ اس دوران ہمارے احساسات کسی پُرکشش شے کو دیکھتے ہی سواری کا رخ ایک جھٹکے سے بدل دیتے ہیں، اور بھاری ٹریفک میں جا پھنستے ہیں، اس طرح دوسروں کی ’شعور کی سواریوں‘کو نقصان پہنچاتے ہیں، اور اپنی سواری کو حادثے سے دوچارکرتے ہیں۔ یہ کہلاتا ہے کلاسیکی مفروضہ۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے شعور کی سواری اس طرح نہیں چلتی۔ جب لوبو ٹومی کے مریضوں کی سرجری ہوئی، تو ’احساسات‘ سواری کی ڈگی میں ڈال دیے گئے۔ اس صورتِ حال نے انہیں بالکل مفلوج اور بے کار بنادیا، ایسے جیسے زندہ لاشیں ہوں۔ وہ اپنے بستر تک نہیں جاسکتے تھے، یہاں تک کہ کپڑے بدلنے کی صلاحیت باقی نہ رہی تھی۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے دماغ کی ڈرائیونگ نشست پر ’احساسات‘ براجمان ہوتے ہیں۔ احساسات ہی ہمارے شعور کی سواری چلاتے ہیں، کیونکہ ہمارے ہر عمل کا محرک یہی احساس ہے۔ ہمارا ہر عمل ہمارا جذبہ ہے۔ یہ جذبہ ہمارا آبی حیاتیاتی نظام ہے، جو ہمارے جسم کی حرکات وسکنات ممکن بناتا ہے۔ خوف کوئی ایسا معجزہ نہیں کہ جسے دماغ وضع کرتا ہو۔ یہ محض ہمارے جسم میں واقع ہوتا ہے۔ ہمارے پیٹ میں اینٹھن پڑجاتی ہے، پٹھے کھنچ جاتے ہیں، خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے، اور ہم چاہتے ہیں کہ اردگرد کی جگہ کھلی کھلی اور کشادہ ہو۔ جبکہ ’حسی دماغ‘ صرف کھوپڑی کے اندر کا synaptic انتظام دیکھتا ہے۔ پورے جسم کی دانش اور حماقت دونوں ’حساس دماغ‘ کی گرفت میں ہیں۔ غصہ جسم کو حرکت میں لاتا ہے۔ پریشانی مایوسی میں سمیٹتی ہے۔ مسرت چہرہ روشن کردیتی ہے۔ اداسی سے شخصیت مرجھا جاتی ہے۔ جذبات حرکت پر آمادہ کرتے ہیں، اور حرکت احساسات جھنجھوڑ دیتی ہے۔ انہیں علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہمیں اس سوال کے سادہ سے جواب کی جانب لے جاتی ہے کہ آخر ہم وہ کام کیوں نہیں کرتے جو ہمیں کرنے چاہئیں؟ کیونکہ ہمارے جذبات اور احساسات اس کام میں ہمارا ساتھ نہیں دیتے!
خود پر قابو پانے یا نہ پانے کا مسئلہ معلومات، اصول، یا معقولیت کا نہیں بلکہ احساس کا ہے۔ ضبطِ نفس احساس کا معاملہ ہے، سستی احساس کا مسئلہ ہے، لیت و لعل احساس کا مسئلہ ہے، غور وفکر نہ کرنا احساس کا مسئلہ ہے۔ احساسات کے مسائل سے نمٹنا قدرے مشکل کام ہے۔ جبکہ منطقی کام آسانی سے انجام پاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ماہانہ بلوں کی ادائیگی کے لیے سادہ سا حساب کتاب درکار ہے، جبکہ بُرے تعلقات سنوارنے کے لیے کوئی حساب کام نہیں آتا۔ محض یہ سمجھنا کہ تمہیں اپنا رویہ بہتر کرنا چاہیے کافی نہیں، جب تک کہ تمہارا احساس عملاً اس پر مائل نہ کردے۔ ہم جانتے ہیں کہ سگریٹ نوشی ترک کردینی چاہیے، زیادہ میٹھا نہیں کھانا چاہیے، اورغیبت سے بچنا چاہیے، مگر ہم عملاً ایسا نہیں کرتے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم احساس نہیں کرتے۔ احساسات کے مسائل عقل سے حل نہیں کیے جاسکتے۔ انہیں احساس ہی سے حل کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ ’شعور کی سواری‘ احساسات سے چلتی ہے، اور حسیات کی مدد سے راستے کا تعین کرتی ہے۔ یہاں احساسات کا کردار حسیات پر حاوی ہے۔ ماہر نفسیات Jonathan Haidt ہاتھی اور اس کے سوار کی مثال دیتا ہے کہ چاہے سوار کتنی ہی مہارت سے ہاتھی کو چلائے، ہاتھی کو آخر وہیں جانا ہے جہاں جانا چاہتا ہے۔ دونوں دماغوں کی ایک دوسرے سے نہیں بنتی۔ زندگی کے حادثات کا سبب یہی ناموافقت ہے۔ اگر ان دونوں میں مطابقت اور توازن پیدا ہوجائے، تو کامیابی قدم چومے(8)۔ احساسات کا یہی ادراک تھا جس نے قدیم فلسفیوں کو لذت و عیش پسندی سے خبردار کیا، جس نے عیسائی چرچ کو رہبانیت کی جانب دھکیلا۔ لہٰذا دونوں نے خواہشاتِ نفس پر قابو پانے کی اپنی سی کوشش کی۔
گزشتہ دو صدیوں سے احساسات اور حسیات میں توازن کی بڑی کاوشیں کی گئی ہیں۔ دونوں انتہاؤں یعنی عیش پسندی اور رہبانیت نے بڑی اذیت پہنچائی۔ عیش پسندی کی انتہا ’امید‘ کے بحران میں مبتلا کرتی ہے، اور جذبات پر جبر بھی اسی صورت حال سے دوچار کرتا ہے۔
’عقلِ کُل‘ کے لیے کھلا خط
ہائے! معاملات کیسے جارہے ہیں؟ ٹیکس وغیرہ کی ادائیگیاں ٹھیک ہورہی ہیں؟ اوہ معاف کرنا، میں بھول گیا تھا! میری بلا سے! دیکھو، میں جانتا ہوں احساسات گڑبڑ کررہے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ خاص تعلق ہو۔ میں جانتا ہوں تم بہت سی باتوں پر قابو پانا چاہتے ہو مگر ایسا نہیں کرسکتے۔ میں سوچ سکتا ہوں کہ یہ صورت حال تمہیں ’ناامیدی‘ کی طرف لے جاتی ہے۔ لیکن سنو میرے حسی دماغ! تمہیں اپنے احساسات (روح) سے دوستی کرنی ہوگی۔ ہم آہنگی کے سوا تمہارے پاس کوئی رستہ نہیں (9)۔ احساسات (روح) ایک ’حساس مخلوق‘ ہے۔ کاش کہ تم اسے حساب کتاب سے سمجھ سکتے! مگر یہ ممکن نہیں۔ حقائق اور ’عقلِ کُل‘ کے ذریعے ’احساسات‘ (روح) پر بمباری سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ احساسات کو سمجھنا ہوگا۔ ہرمعاملے میں احساسات کی رائے کا احترام کرنا ہوگا۔ یہ الفاظ میں جواب نہیں دیں گے، الفاظ ان کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ جواب احساسات ہی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ انہیں آزاد فضا میں سانس لینے دو۔ جتنی آزادی سے یہ سانس لیں گے، شعور کی سواری کا سفر اتنا ہی آسان ہوگا۔ جب تمہارے معاملات احساسات سے ہم آہنگ ہوجائیں، توسمجھو بہترین اقدار کی پیش رفت آسان ہوگئی۔
یاد رکھو! یہ احساسات عقل کے دائرے میں نہیں آتے۔ اگر وہ تم سے الجھیں تو انہیں مزید سمجھوتوں کی جانب لے جاؤ۔ اگر وہ مان جائیں تو ٹھیک، ورنہ ہم آہنگی کی کوشش جاری رکھو۔ بس لڑائی نہ کرنا، ورنہ شکست تمہارا مقدر ہوگی۔ کیونکہ ڈرائیونگ نشست پر ہمیشہ احساسات (روح) ہی رہیں گے۔ احساسات (روح) و جذبات سے ہم آہنگی کی زیادہ سے زیادہ مشق ہی بہتری لائے گی۔
عقلِ کُل کا گمان محض فریب ہے۔ یہ آخرکار ’مایوسی‘ سے دوچار کردیتا ہے (جس سے آج مغرب گزررہا ہے، مترجم)۔ اگر احساسات (روح) سے ہم آہنگی پیدا ہوجائے، توخود پر معنوی اقتدار (ضبطِ نفس) حاصل ہوجائے۔ یہیں سے ’امید‘ پیدا ہوتی ہے۔ یہیں سے یہ احساس جاگزیں ہوتا ہے کہ مستقبل کتنا روشن اور اطمینان بخش ہے۔ احساسات کی غلامی اختیارکرنے کے بجائے انہیں قابو میں لاؤ اور ان کا تجزیہ کرو، ان کی کردار سازی کرو، ان کی صورت بدلو۔ ماہرین نفسیات ACT اور CBT سمیت کئی ایسی تھراپیاں کررہے ہیں، جن سے (عقل اور روح) میں ہم آہنگی زیادہ سے زیادہ ممکن بنائی جاسکے(10)۔
حواشی
1) یہ عالمی جنگوں کا دور تھا۔ یورپ میں نازیوں اور صہیونیوں کی جنگی پالیسیوں نے کروڑوں انسانوں کو موت کے منہ میں پہنچا دیا تھا۔ معاشی ڈپریشن نے سماجی صورت حال خراب کردی تھی۔ مایوسی کی وبا عام تھی۔ لوگوں کی نفسیات تباہ ہوچکی تھی۔ ماہرینِ نفسیات بہت مصروف ہوچکے تھے۔ خودکشی کے رجحانات اور پوسٹ ٹراما اسٹریس سے نجات کے لیے طرح طرح کے علاج وضع کیے جارہے تھے۔
2) یعنی مغرب کا ایک کامیاب فنکار بھی ’امید‘ سے محروم ہے۔ مغرب کا ہرسنجیدہ دانشور ’مغربی زندگی‘ کی بے معنویت سے بخوبی آگاہ ہے۔ وہ مایوسی کے عذاب سے بچنے کے لیے نشے میں ڈوب جانا چاہتا ہے۔ ٹام ویٹس بھی اعصابی تناؤ سے بچنے کے لیے کثرت سے مے نوشی کرتا رہا۔ اس کے جملے پر ’تالیاں‘ اس بات کی شاہد ہیں کہ ٹام ویٹس کی کیفیت عام معلوم حقیقت ہے، جس سے مغرب ہرلمحے گزررہا ہے۔
3) سقراط پر عقل پرستی کا الزام درست نہیں۔ اگر سقراط عقل پرست ہوتا تو زہر کا پیالہ کبھی نہ پیتا۔ اُس کے شاگرد نے جب گہرے رنج سے کہا تھا کہ ’’اُستاد آپ بے قصور مارے جارہے ہیں!‘‘ تو جواب یہ آیا تھا کہ ’’تُو کیا چاہتا ہے قصور وار مارا جاؤں؟‘‘ سقراط کے شخصی خاکے میں افلاطون نے کافی زیادہ رنگ آمیزی کی ہے۔
4) مغربی فکر کی اس روش کا یہ نتیجہ نکلا کہ عقل کُل (Reason) کو ایمان (Faith) پر فوقیت دی گئی، یہاں تک کہ ’ایمان‘ استہزاء کی نذر ہوگیا، یوں تہذیبِ مغرب سے احساسات وجذبات رخصت ہوئے اور محسوسات وحسیات نے جسموں پرقبضے جمالیے۔ زیر نظرمضمون جدید تحقیق میں عقل کُل کے گمان کی اصل حیثیت واضح کررہا ہے، اور احساسات و جذبات کی اہمیت پرزوردے رہا ہے۔
5) تہذیبِ مغرب انسان کی ’روح‘ کچل دینا چاہتی ہے۔ خاندانی اور معاشرتی زندگی کا ’احساس‘ مٹادینا چاہتی ہے۔ حیوانی حسیات کا ڈھچر ہی یہاں سب کچھ ہے۔ یہ تہذیب انسان کی زندگی کا ’انسانی‘ پہلو ختم کرنا چاہتی ہے۔ یہی وہ غیر ’انسانی‘ زندگی ہے، جہاں انسانی رشتوں کی کوئی قدر نہیں، ساری قدرمالی ومادی ہے۔ عقلِ کُل کے گمان نے انہیں ’ابلیسیت‘ میں مبتلا کردیا ہے۔
6) یقینا سوائے رب العالمین کے کہیں ’عقلِ کُل‘ کا کوئی امکان نہیں۔ ’ایمان‘ ہی واحد شے ہے جو’قوتِ ارادی‘ کی تسکین کرسکتی ہے۔
7) مشرقی اور مذہبی دانش اور ادب میں ان ’دو دماغوں‘ کی کشمکش کے لیے ’عقل اور دل‘ یا ’عقل اور روح‘ کی تمثیل استعمال کی جاتی ہے۔ اس مضمون کا ’حساس دماغ‘ دراصل دین کی وہ روح ہے جو انسانی اعمال کا عظیم محرک ہے۔ یہی ایمان کا اصل مرکز ہے۔ یہاں مارک مینسن لاشعوری طور پر ’عقل اور روح‘ کی کشمکش بیان کررہے ہیں۔
8) مذہب میں ضبطِ نفس اور تزکیہ نفس کی تربیت اور تصور اسی سبب سے ہے کہ انسان عقل اور روح یا حسیات اور احساسات میں توازن پیدا کرے۔ پہلے رب کائنات پر ایمان لائے، پھر عقل کے تقاضوں کی طرف رجوع کرے، پہلے عاجزی اپنائے پھر رہنمائی حاصل کرے، روح کے تقاضوں کواولین ترجیح دے اور حسیات کی ضروریات کم تر درجے پر رکھے، روح کی رہنمائی میں زندگی چلائے اور حسیات کی مدد سے اس میں حُسن پیدا کرے۔
9) یعنی مغرب کے لیے ’امید‘ کی واحد صورت عقل اور روح میں ہم آہنگی ہے، لیکن یہ محض مولانا روم کی مثنوی، یوگا، اور ہیپی بن جانے سے ممکن نہ ہوگی۔ اس کے لیے ’دینِ فطرت‘ اختیار کرنا ہوگا۔ دینِ اسلام ہی وہ واحد راہِ عمل ہے، جو روح اور جسم میں کامل ہم آہنگی ممکن بناتا ہے۔
10) یہ ہم آہنگی نفسیاتی حل سے ممکن نہیں۔ اس کے لیے روحانی تسکین چاہیے جو سوائے دینِ فطرت ’اسلام‘ کہیں موجود نہیں۔