نو مسلم انگریز مترجم قرآن،محمد مارماڈیوک پکھتال

پروفیسر جمیل چوہدری
آج ایک ایسی شخصیت کا ذکر کرتے ہیں جو مترجم قرآن، مفکرِ اسلام، محقق اور مبلغ بھی تھے۔ وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل نابغہ انسان تھے۔ ان پر قدرتِ خداوندی کا سب سے بڑا کرم یہ تھا کہ وہ گھٹاٹوپ اندھیروں میں پیدا ہوئے، مگر ان کی عقلِ سلیم انہیں اسلام کی سیدھی اور روشن شاہراہ پر لے آئی۔ بہت سی تصانیف کے علاوہ انہوں نے ترجمہ قرآن کی صورت میں انگریزی خواں طبقے کو ایک ایسا انمول تحفہ دیا جو تاقیامت راہ روانِ شوق کی راہنمائی کرتا رہے گا۔
مارماڈیوک پکھتال 7 اپریل 1875ء کو لندن کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ یہ گھرانہ پادریوں کا گھرانہ تھا۔ جب پکھتال کے والد کا انتقال ہوگیا تو اس خاندان نے لندن میں رہائش اختیار کرلی۔ زمانۂ طالب علمی سے ان کی دوستی ونسٹن چرچل سے ہوگئی تھی، جو آخر تک چلتی رہی۔ ثانوی تعلیم کے بعد انہوں نے یورپ کی تمام معروف زبانیں سیکھ لی تھیں۔ اس کام سے ان کو مطالعہ کرنا آسان ہوگیا تھا۔ انہیں مشرق دیکھنے کا شروع ہی سے شوق تھا۔ پکھتال کی خواہش پر والدہ نے مصر جانے کی اجازت دے دی۔ مصر پہنچ کر انہوں نے وہاں کی تہذیب وثقافت کا مطالعہ شروع کیا۔ یہاں سے پھر وہ شام و فلسطین چلے گئے۔ یہیں پر انہوں نے عربی زبان سیکھنی شروع کی اور اس میں مہارت حاصل کرلی۔ مارما ڈیوک پکھتال مشرق وسطیٰ کی سیاحت کے بعد لندن واپس آگئے۔ کچھ عرصے بعد مصر کے برطانوی سفیر نے پھر انہیں قاہرہ بلایا۔ اس دفعہ انہوں نے مصرکو چل پھر کر دیکھا۔ اداروں اور خاص طور پر تعلیمی اداروں میں گئے، جس سے اُن پر مصر کی معاشرت کے کئی گوشے وا ہوئے۔ اس سیاحت کی تفصیل انہوں نے اپنی اُسی دور کی شائع شدہ کتابوں میں بیان کی ہے۔ یہاں سے وہ دوبارہ شام اور فلسطین کی سیاحت پر نکل گئے۔ بیت المقدس کے دوسرے قیام میں انہوں نے عربی زبان اور دینِ اسلام کا گہرا مطالعہ کیا۔ مسجد اقصیٰ کے شیخ الجامعہ سے انہوں نے اسلام قبول کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ شیخ نے انہیں اپنے والدین سے مشورہ کرنے اور اسلام کا مزید مطالعہ کرنے کو کہا۔ ان باتوں کا پکھتال پر بڑا مثبت اثر ہوا، اور انہیں معلوم ہوگیا کہ مسلمان کسی غیر مسلم کو بہت جلد اپنے دائرے میں داخل نہیں کرتے، بلکہ مزید مطالعے کا مشورہ دیتے ہیں۔ لندن آکر یہاں خلافتِ عثمانیہ بچاؤ تحریک میں کام کرتے رہے۔ برصغیر کے کئی معروف مسلمان تب برطانیہ میں مقیم تھے۔ امیر علی اور خواجہ کمال الدین بھی تب لندن میں ہی رہائش پذیر تھے۔ ان سے وہ ملتے رہتے تھے ۔ بعد میں پکھتال ترکوں سے ملنے استنبول چلے آئے۔ پکھتال ترکوں سے پہلے ہی متاثر تھے، ترکوں کی سماجی خوبیوں اور طبعی خصوصیات نے انہیں مکمل طور پر اپنا اسیر بنالیا۔ پکھتال ترک رہنماؤں غازی انور پاشا، شوکت پاشا، اور رؤف پاشا کا ذکر بڑی عقیدت سے کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک دن غازی طلعت بے سے کہا’’میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں‘‘۔ مشورہ یہ دیاگیا کہ آپ قبولِ اسلام کا اعلان استنبول کے بجائے لندن سے کریں۔ دسمبر1914ء میں پکھتال نے قبولِ اسلام کا اعلان لندن سے ہی کیا۔ اس اعلان سے برطانیہ کی علمی اور سیاسی دنیا میں ہل چل مچ گئی۔ لوگ یہ باتیں کرنے لگے کہ اگر اسلام پکھتال جیسے ذہین انگریز کو متاثر کرسکتا ہے تو باقی لوگوں پر بھی اس کے اثرات ہوسکتے ہیں۔ پکھتال نے قبولِ اسلام کے اعلان کے بعدکہا ’’میں اپنے زورِ مطالعہ سے مسلمان ہوا ہوں، اس لیے میرے دل میں اسلام کی بڑی قدر ہے۔ مسلمانوں کو اسلام ورثے میں ملا ہے، اس لیے مسلمان اس کی زیادہ قدر نہیں کرتے‘‘۔ لندن کے قیام میں ان کا لکھنے پڑھنے کا کام جاری رہا۔ پھر وہ اپنے ایک دوست عمر سبحانی کی دعوت پر بمبئی آگئے، اور یہاں انہوں نے انگریزی روزنامہ ’’بمبئی کرانیکل‘‘ کی ادارت سنبھالی۔کچھ عرصہ انہوں نے یہ ذمہ داری اچھے انداز سے نبھائی۔ اسی عرصے میں انہیں نواب آف حیدرآباد دکن نے اپنے پاس بلایا۔ کئی ذمہ داریاں ان کے سپرد رہیں۔ وہ اس مسلم ریاست کی بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ یہیں سے انہوں نے سہ ماہی’’اسلامی کلچر‘‘ بزبانِ انگریزی شروع کیا۔ چند ہی برس میں یہ رسالہ پوری دنیا میں معروف ہوگیا۔ دنیا کی70 یونیورسٹیاں اس کی خریدار بن گئیں۔ اسی عرصے میں ان کے ذہن میں ترجمۂ قرآن مجید کا خیال پیدا ہوا۔ نظام حیدرآباد نے جونہی یہ بات سنی تو پکھتال کو مع تنخواہ 2 سال کی چھٹی دے دی گئی تاکہ وہ سکون سے یہ اہم ذمہ داری نبھا سکیں۔ دوستوں کے مشورے پر وہ ترجمہ قرآن کا مسودہ لے کر الازہر یونیورسٹی قاہرہ پہنچے۔ جب وہاں کے علماء نے ترجمے پر اطمینان کا اظہار کیا، تب یہ ترجمہ نیویارک اور لندن سے شائع ہوا۔ بعد میں حیدرآباد دکن سے بھی مع عربی متن شائع کیا گیا۔ یہ کسی مسلم انگریز کا پہلا ترجمہ قرآن تھا۔ مصر اور فلسطین کی سیاحت کے عرصے میں انہوں نے عربی زبان پر گہرا عبور حاصل کرلیا تھا۔ اس سے پہلے جو انگریزی تراجم موجود تھے، وہ انگریزوں کے تھے لیکن مسلم انگریزوں کے نہ تھے۔ اس ترجمے سے مغرب میں اسلام کی آواز موثر انداز سے پہنچنے لگی اور بہت عرصے بعد جب مریم جمیلہ نومسلمہ کو ترجمے کی ضرورت پڑی تو انہوں نے اس سے استفادے کے بعد لکھا ’’مجھے اس کے مقابلے کا کوئی انگریزی ترجمہ نہیں مل سکا، کسی ترجمے میں وہ فصاحت وبلاغت اور دل نشین اندازِ بیان نہیں ہے جو اِس میں موجود ہے۔ دوسرے تراجم میں اﷲ کے لیے گاڈ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو ایک غلطی ہے۔ پکھتال نے ہر جگہ اﷲ کا لفظ ہی استعمال کیا ہے۔ اس سے اسلام کے پیغام میں مغرب کے قاری کے لیے بڑی تاثیر پیدا ہوگئی ہے‘‘۔ پکھتال قرآن کے ترجمے کی اشاعت کے بعد لندن چلے گئے اور19 مئی1936ء کو حرکتِ قلب بند ہونے سے فوت ہوگئے۔ انہیں لندن کے مسلم قبرستان میں دفن کیا گیا۔ پکھتال یورپی ہونے کے باوجود مکمل طور پر اسلامی اخلاق سے آراستہ تھے۔ پنجگانہ نمازوں اور رمضان کے روزوں میں کبھی ناغہ نہیں ہونے دیتے تھے۔ ان کا اﷲ پر ایمان بڑا ہی مستحکم تھا۔ ہرکام اﷲ کی رضا کے مطابق سرانجام دیتے تھے۔ وہ وراثتی مسلمانوں سے بڑھ کر مسلمان تھے۔ حیدرآباد دکن کے قیام کے دوران غریب اور نادار طلبہ کی دل کھول کر امداد کرتے تھے۔ مشہور مصنف شیخ عطاء اﷲ ان کے بارے میں لکھتے ہیں ’’مجھے علی گڑھ میں ان کے چند شاگردوں سے ملاقات کا موقع میسر آیا۔ ان میں مسلمان بھی تھے اور ہندو بھی۔ لیکن ہر ایک ان کی پدرانہ شفقت کا مداح نظر آیا‘‘۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کی توجہ زیادہ تر ناول نویسی کی طرف تھی۔ بعد میں ان کے قلم نے راستہ بدل لیا۔ اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے انہوں نے اپنی باقی تمام زندگی وقف کردی۔ ترجمۂ قرآن جس کا اوپر تفصیلی ذکر ہوچکا ہے، ایک بڑا اور ضروری کام تھا۔ ان کے ترجمۂ قرآن کا نامThe meaning of the Glorius Quranہے۔ ترجمے کے ساتھ ساتھ ان کے مختصر حواشی بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی 6کتابیں خاصی معروف ہوئیں۔ ان کی کتاب The Cultural side of Islamکو بڑی شہرت ملی۔ ہم اس کتاب کے چند پیراگراف درج کرنے کے بعد بات ختم کردیں گے:
’’اسلام کا مقصد اعلیٰ انسانی ترقی ہے۔ اسلام ترقی کے حصول کی راہیں اپنے ایسے اوامر و نواہی سے، جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو معاشرتی و سیاسی اور اس کے دل ودماغ اور اس کی روح کے ہر جذبے پر غالب ہیں، واضح اور معین کردیتا ہے۔ یہ احکامات ایک مکمل ضابطۂ معاشرت اور نظامِ سیاست میں منسلک ہیں۔ اسلام کا نظام ایک عملی نظام ہے اور ایسی حیران کن کامیابی کے ساتھ چلا آرہا ہے جس نے مؤرخ کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔‘‘
آگے جاکر وہ لکھتے ہیں:
’’اسلام کے زمانۂ عروج میں دینی اور دنیوی تعلیمات میں کوئی امتیاز نہ تھا۔ زمانۂ حال کا ایک مغربی مصنف لکھتا ہے’’یہ اسلام ہی کا کارنامہ تھا کہ اس نے دوسرے علوم کو بھی وہی مرتبہ عطا کیا جو مساجد میں قرآن وسنت اور فقہ کی تعلیم کو حاصل تھا‘‘۔ مساجد میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ کیمیا، طبیعات، نباتات، فلکیات اور طب کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ مسجد ہی دورِاول میں ان کی یونیورسٹی تھی، اور ہر لحاظ سے اس لقب کی حق دار تھی۔ مسجد کی حدود کے اندر علم پر کوئی پابندی نہ تھی۔ مساجد کے دروازے اور مسلمانوں کے دل علم کے حصول کے لیے کھلے ہوتے تھے۔‘‘
جن غیر مسلم تعلیم یافتہ لوگوں نے اسلام کا مطالعہ کرکے اسلام قبول کیا ہے،ان کی کیفیت وراثتی مسلمانوں سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔یہ لوگ اپنی زندگیوں کو پیغام ِاسلام کے لیے وقف کردیتے ہیں۔یہ بات پکھتال سے لے کر محمد اسد اور مریم جمیلہ تمام پر صادق آتی ہے۔انگریزی خواں نوجوانوں کو ان کی تحریروں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔