اس دُنیا میں کوئی مُلحد نہیں؟۔

مذہب پہلے انسان کے ساتھ ہی اِس دنیا میں آگیا تھا۔ مذہبی انسان کی ساری تاریخ کسی نہ کسی شکل میں خدا کے وجود پر بھرپور اعتقاد کی تاریخ ہے

سید عطا اللہ شاہ
گزشتہ سے پیوستہ
یقینی طو ر پر یہاں پر براہِ راست یہ ثابت ہورہا ہے کہ کائنات کی ہر ہر شے اپنی جگہ پر اسی طرح موجود ہے اور کام کررہی ہے۔ اور ان اشیا کے موجود ہونے یا نہ ہونے کا پیمانہ ہماری یہ محدود عقل اور علم نہیں ہے۔ یعنی کسی چیز کو ہماری عقل نے تسلیم کرلیا تو وہ ہے، اور اگر کسی چیز کی تصدیق ہماری عقل نہ کرسکی تو وہ چیز موجود ہی نہیں ہے۔ بلکہ ہماری عقل ان چیزوں کی تصدیق کرنے یا نہ کرنے یا ان کے سمجھنے یا نہ سمجھنے کا ایک محدود ذریعہ ہیں جو کہ جانوروں کے لیے اور بہت زیادہ محدود کردیا گیا ہے۔
اپنی عقل کی محدودیت یا بے بسی کی ایک اور مثال دیکھ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم انسانوں سے فرماتے ہیں:’’اس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ مائوں کے پیٹوں میں کیا پرورش پارہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے، اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کو موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔“(31:32)
یہ آیت ہماری روزمرہ زندگی کی ایک ایسی حقیقت ہے کہ کوئی اللہ پر ایمان رکھے یا نہ رکھے، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی اس آیت پر نہ چاہتے ہوئے بھی ایمان رکھنے پر مجبور ہے۔ ہم اپنی زندگی میں اپنی عقل اور علم کے ذریعے سے یہ جانتے ہیں کہ کل کیا ہوا تھا۔ اور یہ کیسے جان لیتے ہیں؟ یہ ایسے جان لیتے ہیں کہ ہماری آنکھوں نے وہ سب کچھ دیکھ لیا ہوتا ہے۔ ہمارے کانوں نے وہ سب کچھ سن لیا ہوتا ہے، یا ہم نے سونگھ لیا ہوتا ہے، چکھ لیا ہوتا ہے یا چھو کر محسوس کرلیا ہوتا ہے۔ بس ان ذریعوں کے سوا تو کوئی ذریعہ نہیں ہے ناں ہمارے پاس! اور پھر اسی طرح ان ہی تمام ذریعوں سے ہمارے ماضی کے ساتھ ساتھ ہمارا حال بھی ہم پر آشکار ہوتا رہتا ہے۔ اب ہمارے ماضی اور حال کی طرح ہمارا مستقبل ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ اس کے اجزا اور اجزائے ترکیبی بھی ہمارے ماضی اور حال سے ملتے جلتے ہی ہیں۔ جبکہ ہماری عقل اور علم کی صلاحیت بھی عین وہی ہے جو کہ ماضی اور حال کو جاننے اور سمجھنے کے لیے درکار تھی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم صرف ایک لمحے کے فاصلے پر کھڑے ہوئے مستقبل کو وقت سے پہلے دیکھ نہیں سکتے، اور نہ ہی ایک لمحہ پہلے اسے وصول کرسکتے ہیں۔ اس سے کیا ثابت ہورہا ہے؟ یہی کہ مستقبل تو ایک ٹھوس حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے اپنی جگہ موجود ہے۔ اس کو تو آنا ہی آنا ہے خواہ اس میں ہماری موت ہی کیوں نہ شامل ہو۔ لیکن اس سے لاعلم رہنے میں معذوری اور محتاجی تو ہماری عقل میں ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ صرف ایک لمحے کے فاصلے پر مستقبل تو ایک ٹھوس حقیقت کے طور پر موجود ہے لیکن اس کو دیکھنے اور سمجھنے میں ہماری عقل اور علم دونوں مکمل طور پر ناکام ہیں۔
ایک اور تمثیل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ خدا کی گواہی ہمارے اندر موجود ہے یا نہیں۔ جس طرح کسی بلب کی شعاعیں مسلسل بلب سے نکلتی رہتی ہیں، اسی طرح ہماری سوچ کے ذریعے ہماری خواہشات اور ہماری آرزوئیں مستقل طور پر ہمارے دماغ میں جنم لیتی اور نکلتی رہتی ہیں۔ کبھی شعوری طور پر تو کبھی لاشعوری طور پر یہ کسی نادیدہ قوت سے ان کے پورا ہونے کی التجا کرتی رہتی ہیں۔ اگر ہم اپنی التجائوں کے لیے کوئی بھی الفاظ ادا نہ کریں لیکن ہماری سوچ کے ہزارویں حصے سے بھی وہ قوت منسلک ہے جسے ہم خدا سمجھتے ہیں۔ جس کو ہم اپنی فطرت کے مطابق اختیاری اور غیر اختیاری طور پر کام تفویض کرتے رہتے ہیں۔ اللہ کرے ایسا ہوجائے، اللہ کرے ویسا ہوجائے۔ اور وہ لوگ جو ڈھٹائی سے اللہ کا انکار کرتے ہیں وہ بھی بالکل اسی طرح اللہ کے محتاج ہیں، وہ بھی عین اسی فطرت اور اسی سوچ کے گھیرے میں ہیں۔ وہ بھی ہماری طرح ہی اپنی خواہشات کسی کو تفویض کرتے رہتے ہیں۔ بے شک وہ اللہ کا نام نہ لیں، لیکن ہر ہر کام کے سلسلے میں ان کے دل سے یہ آوازیں اٹھتی رہتی ہیں کہ کاش ایسا ہوجائے، کاش ویسا ہوجائے۔ یہ چپکے چپکے کس سے باتیں کرتے ہیں؟ کس کے سامنے اپنے دل کی باتیں کرتے ہیں؟ یہ کاش کیا ہے؟ یہ ایک ایسی نادیدہ قوت ہے جس سے ہم بہت سی توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی امتحان دیا ہے تو کاش اتنے نمبر آجائیں۔ کسی سے کام ہے تو خواہش ہوتی ہے کہ کاش وہاں سے کام بن جائے۔ جس سے کام ہوتا ہے اُس سے تو کہہ ہی رہے ہوتے ہیں، لیکن ہم کسی نادیدہ قوت سے بھی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ کاش یہ مان جائے۔ یہ کاش کون ہے؟ یہ ہم کس سے اپنی آرزوئوں کی تکمیل چاہ رہے ہیں؟ ہماری فطرت میں، ہمارے لاشعور میں کس نے ڈالا کہ ہم خود بہ خود اس نادیدہ قوت کی طرف دیکھنے لگتے ہیں! اگر فرض کریں کہ کسی کاروبار میں آپ کو کچھ منافع کی توقع ہے، لیکن آپ کی خواہش ہوتی ہے کہ کاش اگر ایسا ہوجائے یا ویسا ہوجائے اور کسی طرح تھوڑا منافع اور بڑھ جائے۔ آپ کی خواہش کس سے ہے؟ یہی وہ نادیدہ قوت ہے جو کہ آپ کی سوچوں کے ہزارویں حصے سے جڑی ہوئی ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو کہ آپ کی شہہ رگ سے بھی قریب ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں پر ہمیں اپنی عقلِ سلیم سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس عظیم کائنات کے خالق و مالک کی ذات موجود بھی ہے اور وقت اور مستقبل جن کو سمجھنے سے ہماری عقل قاصر ہے، ان سمیت کائنات کی تمام چیزوں سے بہت بالاتر بھی ہے، جس کو سمجھنے سے بہت پہلے ہی انسانی عقل کی حدود ختم ہوجاتی ہیں۔ جانوروں کے مقابلے میں ایک بہت بڑے اضافے کے بعد بھی انسانی عقل اس عظیم ترین خالق و مالک کی عقل کے مقابلے میں ایک لامحدود لق و دق صحرا کے محض ایک ذرے کے برابر ہے۔
اور یہیں سے خدا ہمیں بتاتا ہے کہ اس کائنات میں بکھرے مظاہر سے مجھ پہچانو۔
’’وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا‘‘۔ (2:22)
یہاں پر یہی بات سمجھنے کی ہے کہ ہمیں اپنے دائرہ عقل میں خدا کی ہستی کو لانے کی کوشش کرنے کے بجائے اس کے مظاہر پر غور کرنا چاہیے۔ کیونکہ خدا کے مظاہر اور اس کی کائنات کے ایک بہت بڑے حصے کو انسانی عقل اور صلاحیتوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اور اس کی مخلوقات اور مظاہر کے ذریعے خالق کو سمجھا اور اس تک پہنچا جاسکتا ہے۔
اس عظیم حقیقت اور مشاہدات کے پیش نظر برملا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس دنیا کے نام نہاد ملحدین اور منکرینِ خدا اپنی اصل میں Agnostics تو ہوسکتے ہیں، لیکن ان میں سے کسی ایک کے لیے بھی مکمل ملحد بن جانا ممکن نہیں ہے۔ یعنی خدا کے انکار کے لیے ان میں کسی بھی طرح کا اعتماد پیدا نہیں ہوپاتا ہے، بلکہ وہ ہمیشہ شک کی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے اندر خدا کی گواہی ڈھونڈنے کی کوشش نہ کرنے کی وجہ سے اس کو پانے میں ناکام رہے ہیں اور اپنی اس ناکامی کا اقرار اور اعلان کرنے کے بجائے اپنی فطرت کے خلاف بضد ہوکر وہ اپنی زبان سے خدا کا انکار کیے جارہے ہیں۔
قرآن کی جامع الکلام اور حکیمانہ آیت کے مطابق: ’’اے محمدؐ! ان سے پوچھو: صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے؟ کون ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گڑگڑا گڑگڑا کر چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے تُو نے ہم کو بچالیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے؟‘‘ (6:63)
یہ معاملہ محض ایمان کا نہیں ہے، بلکہ یہ عین ہماری فطرت اور ہماری عقل کا بھی معاملہ ہے۔ جب ہم کسی مشکل میں ہوتے ہیں تو ہماری فطرت اور عقل صرف اور صرف اسی مدد کا تقاضا کرتی ہے جو کہ ہم کو اس مشکل سے نکال سکے۔ کسی بھی مشکل وقت میں صرف دو چیزیں اہم ہوتی ہیں، ایک یہ کہ اس مدد میں اتنی قدرت ہو کہ وہ آپ کو مشکل سے نکال سکے، اور دوسرے یہ کہ وہ بروقت پہنچ سکے۔ قرآن کے مطابق جب کوئی کسی صحرا یا سمندر کی تاریکی میں خطرات میں پھنس جاتا ہے تو وہ اپنی عقل کے عین مطابق اپنے کسی لیڈر کو آواز نہیں دیتا۔ نہ ہی وہ اپنے کسی رشتے دار کو آواز دیتا ہے، کیونکہ اسے پتا ہے کہ وہ اس تک بروقت نہیں پہنچ سکتا، اور اگر پہنچ بھی گیا تو وہ اسے صحرا یا سمندر کے تاریک طوفانوں سے نہیں بچا سکتا۔ پھر اس کی فطرت اور عقل ہی اسے سمجھاتی ہے کہ اس کی وہاں کون مدد کرسکتا ہے۔ جس طرح پیدائش کے بعد جب انسان بہت چھوٹا ہوتا ہے اور اس کے پاس عقل نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے تو اس کی فطرت اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ اس کی فطرت ہر موقع پر ہر چیز کے لیے اس کو اس کی ماں کی طرف موڑتی ہے۔ دنیا کا ہر فرد اور ہر تہذیب اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بچے کی فطرت کا یہ فیصلہ بالکل درست ہے۔ اس وقت اس بچے پر کسی بیرونی تعلیم یا تربیت کے اثرات مرتب نہیں ہوئے ہوتے، اس کی فطرت کا یہ فیصلہ خالص ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جب کسی کی کشتی طوفان میں پھنس کر ڈوبنے لگتی ہے تو ڈوبنے والے کی فطرت اتنی ہی خالص ہوجاتی ہے جتنی کہ اس کی پیدائش کے بعد تھی، اور مدد کے لیے اس کا خدا کو پکارنے کا فیصلہ اتنا ہی خالص اور صحیح ہوتا ہے جتنا کہ اس کا بچپن میں اپنی ماں کو پکارنے کا تھا۔
قرآن کی یہ چند تمثیلیں دراصل ایک عالمگیر حقیقت کی چند علامتیں ہیں جو کہ ہماری دنیا میں جابجا بکھری ہوئی ہمیں نظر آتی ہیں۔ معاملہ نہ صرف مسلمانوں کا ہے اور نہ صرف صحرا اور سمندر کا ہے بلکہ یہ آیتیں تو اس پوری انسانیت کی ہر مصیبت کے موقع کی عکاس ہیں۔
مثال کے طور پر آج کل مغرب کی ماڈرن دنیا میں جہاں خدا کا انکار کرنا فیشن بنتا جارہا ہے، وہیں اسی فیشن زدہ مغرب میں خدا کے انکار کے عین درمیان یہ سچ کا نعرہ There are no atheists in foxholes یعنی ’’فوکس ہول میں کوئی ملحد نہیں ہوتا ہے‘‘ بھی ان کا پیچھا کررہا ہے۔ یعنی جو بھی فوکس ہول میں جاتا ہے پھر وہ ملحد نہیں رہتا ہے۔ فوکس ہول سے مراد وہ مورچہ ہوتا ہے جو کہ جنگ کے دوران لڑنے والے سپاہی استعمال کرتے ہیں۔ یہ خندق کے مقابلے میں ایک کم گہرا گڑھا ہوتا ہے جس میں سپاہی اپنے جنگی سازو سامان کے ساتھ لیٹا ہوا دشمن سے مقابلہ کررہا ہوتا ہے۔ اُس وقت اس کے پاس کسی کی مدد کا کوئی آسرا نہیں ہوتا۔ وہ کسی لمحہ بھی کسی گولی یا گولے کا شکار ہوکر موت سے ہم کنار ہوسکتا ہے۔ خوف اور مایوسی کے ان لمحات میں اس کا آخری سہارا صرف اس کا خدا ہی ہوتا ہے۔
ایک عام زندگی اور فوکس ہول کی کسوٹی میں صرف ایک ہی فرق ہوتا ہے کہ عام زندگی میں انسان اختیاری طور پر اپنی مرضی کی بات اور خواہش کرسکتا ہے لیکن فوکس ہول میں صرف اور صرف اس کی فطرت اور اس کے باطن میں چھپی حقیقت اور خدا کے سامنے دی گئی گواہی ہی اس کے دل و زبان پر آتی ہے جس کے سامنے وہ بے بس ہوتا ہے۔
ان دونوں مشاہدات اور تجربات کو سامنے رکھ کر دیکھا جاسکتا ہے کہ کون سی بات کھری اور سچی ہے اور کس بات پر جھوٹ کا ملمع چڑھا ہوا ہے۔ یہ بات ہر ملحد اچھی طرح جانتا ہے۔ لیکن شاید یہ لوگ فرداً فرداً اپنے لیے بھی کسی حادثے یا فوکس ہول کے منتظر ہیں۔
جو بھی اپنے ملحد ہونے کا دعوے دار ہے وہ صحرا اور سمندر کے اندھے طوفانوں سے، یا کسی فوکس ہول سے، یا ایسی ہی کسی بھٹی کی کسوٹی سے گزر کر آئے، اور پھر بھی اپنے الحاد اور انکارِ خدا کا دعویٰ کرے تو ہم مان لیں گے کہ یہ حقیقی ملحد ہے۔