دنیا کے چالیس بڑے نومسلموں میں سے ایک نومسلم ہندوستان آئے، دہلی میں انہوں نے پلاؤ کھایا اور وہ پلاؤ کھاکر مسلمان ہوگئے۔ انہوں نے لکھا کہ جس قوم کا کھانا اتنا متوازن ہو وہ قوم خود اور اس کا مذہب کتنا متوازن ہوگا۔ انھوں نے ہمارے متعلق جو رائے قائم کی کاش ہم…
مشرقی کھانوں اور ان میں ڈالے جانے والے مسالے کا ہمارے مزاج، ماحول اور آب و ہوا کو دیکھتے ہوئے انتخاب کیا گیا ہے۔گرمی اور سردی کے کھانوں میں بہت فرق ہے۔ ہمارے کھانوں میں جو مسالے ڈالے جاتے ہیں ان کی بھی طبی افادیت اور مصلحت ہے۔ آئیے آج ہم مشرقی کھانوں میں ڈالے جانے والے مسالوں پر بات کرتے ہیں۔
مسالے غذائی اجزا سے بھرپور ہونے کی وجہ سے ہمارے نظامِ ہضم کو فعال اور متحرک بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ غذا ہضم ہونے کے عمل کے فعال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے زیادہ سے زیادہ غذائیت اور توانائی ہمیں ملتی ہے، اور فاضل چربی جسم پر نہیں چڑھتی۔ غذائیت پوری کرنے کا بہتر اور آسان طریقہ یہ ہے کہ کھانوں میں دیسی اور خالص مسالہ جات استعمال کیے جائیں۔ ہمارے گھروں میں استعمال ہونے والے تقریباً تمام ہی مسالہ جات کا استعمال دواؤں میں بھی ہوتا ہے۔ اگر ہمیں ان کی طبی افادیت اور خصوصیت کا بھی پتا ہو تو ہم ان کا زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کرسکیں گے۔
1) دارچینی: یہ ایک درخت کی خوشبودار چھال ہے جو ایک دوسرے پر لپٹی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کا رنگ سرخی مائل اور اکثر جگہ باریک باریک نقطے اور لہردار لکیریں ہوتی ہیں۔ اندر سے رنگ بھورا سیاہی مائل ہوتا ہے۔ اس کا مزا تیز، شیریں اور خوشبودار ہوتا ہے۔ قلب و دماغ کو فرحت اور معدے اور جگر کو قوت بخشتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ محرک باہ اور مدربول و حیض ہے۔ تعفن کو دور کرتی ہے اور منہ کو خوشبودار اور دانتوں کو مضبوط بناتی ہے۔ کھانسی اور دمے میں شہد کے ساتھ ملا کر چٹانا یا اس کا جوشاندہ پلانا فائدہ مند ہے۔
روغنِ دارچینی بیرونی طور پر مخدر اثر رکھتا ہے۔ یہ مسکن درد بھی ہے۔ چنانچہ شہد کی مکھی اور بچھو کے کاٹے پر درد اور سوزش میں آرام دیتا ہے۔ سردی کی وجہ سے ہونے والے سرکا درد رفع کرنے کے لیے پانی میں پیس کر پیشانی پر لگاتے ہیں۔ اگر رعشہ کا مرض ہو تو دارچینی کے روغن کی مالش کی جاتی ہے۔ نزلہ کھانسی وغیرہ میں اس کا جوشاندہ بنا کر پلاتے ہیں۔ دارچینی سدے کھولتی اور ریاح کو خارج کرتی ہے۔ سردی میں بار بار پیشاب آتا ہو تو اس کا 2 گرام سفوف دودھ میں ڈال کر پلائیں۔
2) الائچی: الائچی کی دو اقسام ہیں: چھوٹی الائچی اور بڑی الائچی۔ گرم مسالے میں بڑی الائچی استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ایک درخت کا پھل ہے، جس کا بیرونی چھلکا سرخ سیاہی مائل ہوتا ہے اور اس کے اندر سیاہ دانے بھرے ہوتے ہیں جن کا مزا کسی قدر تلخ و تیز اور خوشبودار ہوتا ہے۔
بڑی الائچی ہاضم، مقوی معدہ، مفرح اور کاسر ریاح ہے۔ متلی کو رفع کرتی ہے اور بھوک لگاتی ہے۔ بہ طور دوا اسے ضعفِ معدہ، ضعفِ ہضم، نفخ اور دردِ شکم میں استعمال کیا جاتا ہے اور مقوی معدہ معاجین اور سفوفات میں شامل کیا جاتا ہے۔
3)کالی مرچ:یہ ایک بیل دار پودے کے گول جھری دار پھل ہیں جن کا ذائقہ اور خوشبو بھی تیز چبھنے والی ہوتی ہے۔ اس کی یہ تیز خوشبو اس میں موجود ایک کیمیائی مرکب پائپرین (PIPERINE) کی وجہ سے ہوتی ہے۔
کالی مرچ مقوی اعصاب، مقوی معدہ، مقوی جگر، مقوی حافظہ، مقوی باہ، مصلح بلغم، دافع ریاح اور مدرِ بول و حیض ہے۔ یہ ہاضمے کو قوت دیتی ہے اور بھوک بڑھاتی ہے۔ ورمِ حلق اور دانتوں کے درد میں اس کے جوشاندے سے غرغرے کرنا فائدہ مند ہوتا ہے۔ اسے تنہا یا شہد کے ساتھ بلغمی کھانسی اور دمے میں چٹانے سے آرام ملتا ہے۔ تقریباً تمام بادی کھانوں، چاٹوں،کچی سبزیوں،ککڑی، کھیرا وغیرہ میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔
4) زیرہ سفید:زیرے کی بھی دو اقسام ہیں: سیاہ زیرہ اور سفید زیرہ۔ گرم مسالے میں سفید زیرہ استعمال کیا جاتا ہے جو خوشبودار ہوتا ہے اور اس کا مزا تیز ہوتا ہے۔ ہاضم، مقوی معدہ، کاسرریاح، مدرحیض و بول اور دافع تعفن (اینٹی سیپٹک) ہے۔ اسے ضعفِ ہضم، نفخ شکم، دردِ شکم، سوے ہضم، اسہال معدہ، احتباس بول (پیشاب کی بندش) اور احتباس حیض میں استعمال کیا جاتا ہے۔ زیرے میں خوشبو اس میں پائے جانے والے فرازی روغن کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس تیل کو عطریات،آرائشِ حسن کی مصنوعات کے علاوہ مختلف کھانوں اور مشروبات میں استعمال کیا جاتا ہے۔
5) لونگ : یہ دراصل ایک پودے کی خشک شدہ کلیاں ہیں جن میں اوپر کی طرف چار دندانے سے ہوتے ہیں اور ان کے درمیان ایک گول ابھار ہوتا ہے جو درحقیقت پھول کی پنکھڑیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے پر لپٹی ہوتی ہیں۔ نیچے کی طرف قدرے نوک دار ڈنڈی ہوتی ہے۔ لونگ کا مزا تلخ و تیز اور بو تیز خوش گوار ہوتی ہے۔
لونگ مفرح، مقوی قلب ودماغ، مقوی باہ اور ممسک ہے۔ معدہ، جگر اور آنتوں کو تقویت بخشتی ہے۔ ریاح کو تحلیل کرتی ہے۔ ہاضمے میں مدد دیتی ہے اور نفاخ غذائوں کی اصلاح کرتی ہے۔ لونگ چبانے سے منہ کی بدبو زائل ہوجاتی ہے۔ لونگ مسوڑھوں کو تقویت بخشتی ہے۔
6) اجوائن: اجوائن کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ پیٹ کی بہت سی بیماریوں میں مفید ہے۔ اس کے کھانے سے جگر کی کمزوری دور ہوتی ہے اور آنتوں کو قوت حاصل ہوتی ہے۔ جس شخص کو بھوک کم لگتی ہو، وہ اجوائن کھائے تو اسے کھل کر بھوک لگتی ہے۔ خراب اور ناقص غذا کے استعمال سے کبھی کبھی پیٹ میں ہوا بھر جاتی ہے اور وہ ڈھول کی طرح پھول جاتا ہے۔ اجوائن کھانے سے ریاح کا اخراج ہوتا ہے اور طبیعت بحال ہوجا تی ہے۔ اجوائن پیٹ کے کیڑوں کو مارتی اور گردوں، مثانہ اور دل کو قوت دیتی ہے۔
7) تیز پات:یہ ایک خوشبودار پتّا ہے۔ اس کی اپنی مخصوص مہک ہوتی ہے، جو پکوان کی تیاری کے لیے بڑی مناسب سمجھی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے اس کے پتے شوربوں کو خوشبودار بنانے کے لیے گچھے کی شکل میں پکنے کے دوران ڈال دئیے جاتے ہیں اور پیش کرنے سے پہلے نکال دئیے جاتے ہیں۔ اسے بھنے گوشت اور یخنیوں کی تیاری میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ بھوک بڑھانے کے لیے اسے گرم پانی میں بھگو اور چھان کر پینا چاہیے۔ سر کی خشکی دور کرنے کے لیے یہی پانی بالوں کی جڑوں میں لگانے سے فائدہ ہوتا ہے۔ تیزپات کا فرازی تیل موچ اور گٹھیا والے حصوں پر مالش کے لیے اچھا اور مفید ثابت ہوتا ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ اس میں تھوڑا سا عام تیل بھی ملا لیا جائے، مثلاً بادام، ناریل یا تل کا تیل، ورنہ خالص تیل سے شدید جلن ہوسکتی ہے۔
8) جاوتری: جاوتری، جائفل کے اوپر کے چھلکے کو کہتے ہیں۔ مسالے کا ایک جزو ہے۔ اسے زیادہ تر قورمے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جاوتری فرحت لاتی ہے، معدے اور جگر کو طاقت دیتی ہے، رطوبت کو خشک کرتی ہے۔ جاوتری قابض ہے، اس لیے پرانے اسہال کے لیے مفید ہے۔دوا کے طور پر اس کا استعمال زیادہ تر مسالے کے طور پر ہوتا ہے۔
9) جائفل: یہ ایک درخت کا پھل ہے جس کی بو خوش گوار ہوتی ہے۔ اس کے چھلکے کو جاوتری کہتے ہیں۔ یہ دونوں زیادہ تر مسالے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ جائفل فرحت لاتا ہے۔ ریاح کو خارج کرتا ہے۔ قدرے قابض ہے۔ زیادہ مقدار میں غنودگی پیدا کرتا ہے۔ جائفل غذا کو ہضم کرتا ہے، اس لیے مسالوں میں استعمال ہوتا ہے۔ سردی کے ورم، جوڑوں کے درد اور سردی کے فالج میں مفید ہے۔
10) رائی: یہ اچار کے مسالے کا جزو ہے۔ غذا کو ہضم کرتی ہے، درد کو تسکین دیتی ہے، بڑھی ہوئی تلی میں مفید ہے۔ معدے کے بلغم کو خارج کرنے کے لیے 10گرام رائی پیس کر گرم پانی میں ملا کر پلائیں۔ خود بہ خود قے نہ ہو تو حلق میں انگلی ڈال کر قے کی جائے۔ بلغم خارج ہوجائے گا۔ اگر بھوک اچھی طرح نہ لگتی ہو اور غذا بھی ہضم نہ ہوتی ہو تو کھانا کھاتے وقت ایک چٹکی پسی ہوئی رائی سالن میں ڈال کر کھائیں۔
11) سونٹھ: ادرک کو ایک خاص طریقے سے سُکھاکر بنائی جاتی ہے۔ یہ کھانے کو گلاتی ہے، پیٹ کی ہوا کو نکالتی ہے اور بھوک لگاتی ہے۔ ذہن اور حافظے کو بڑھاتی ہے۔ گٹھیا اور کمر کے درد کو دور کرتی ہے۔ یادداشت بہتر بنانے کے لیے سونٹھ 50 گرام کو پیس کر شہد خالص 100 گرام میں ملائیں اور تین تین گرام صبح و شام کھائیں۔ بیرونی طور پر سونٹھ کو پیس کر تلوں کے تیل میں ملا کر مالش کرنے سے درد دور ہوجاتا ہے۔
12) ہلدی:یہ ایک مشہور اور عام چیز ہے۔ ہر گھر میں ہر وقت موجود رہتی ہے، کیوں کہ دال، گوشت اور ترکاریوںکے مسالے کا ایک جز یہ بھی ہے۔ اسے شامل کرنے سے سالن کی رنگت خوش نما ہوجاتی ہے اور یہ غذائیں بادی نہیں کرتی۔ اس عام فائدے کے علاوہ ہلدی اور بھی بہت سے فائدے رکھتی ہے۔ یہ چوٹ کے درد اور سوجن کو دور کرتی ہے۔ چوٹ اندرونی ہو یا بیرونی، ہلدی کو پیس کر ایک گرام دودھ کے ساتھ کھلائیں اور ہلدی اور چونا برابر وزن پیس کر چوٹ کی جگہ پر لگائیں۔ بڑی مفید دوا ہے۔ درد اور سوجن کو دور کردیتی ہے۔ ہلدی پیٹ کے کیڑوں کو مارتی ہے۔
13) ہینگ: اس کی بو لہسن کی طرح تیز ہوتی ہے۔ مسالے کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ ہینگ بلغم کو خارج کرتی ہے، پیشاب لاتی ہے، حیض کو جاری کرتی ہے، ریاح کو دور کرتی ہے، اینٹھن میں مفید ہے، طعام کو ہضم کرتی ہے اور بھوک خوب لگاتی ہے۔ ہینگ گھر میں رکھنا وبائی امراض سے بچاتا ہے۔ ہینگ دماغی اور اعصابی بیماریوں، مرگی، فالج، لقوہ، رعشہ وغیرہ کے لیے دوا کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔
ہمارے یہاں غیر معیاری اور دو نمبر مسالے ملتے ہیں، نہ جانے کیا کیا چیزیں ملا دی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے۔ مسالے خریدتے وقت اس بات کا اطمینان کرلیں کہ مسالہ خالص ہے۔