سرورؔ اور فسانۂ عجائب

کتاب : سرورؔ اور فسانۂ عجائب
مصنف : ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
rdhashmi@yahoo.com
0321-4503274
صفحات : 200، قیمت:500 روپے
ناشر : سنگِ میل پبلی کیشنز۔25 شاہراہِ پاکستان
(لوئر مال) لاہور، 54000
فون : 92-423-722-0100
92-423-7228143
ای میل : spm@sangemeel.com
ویب گاہ : http://www.sangemeel.com

’’سرورؔ اور فسانہ ٔ عجائب‘‘ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی حفظہ اللہ کی گراں قدر تصنیف ہے جو مرزا رجب علی بیگ سرورؔ (1785ء۔ 1869ء) کی داستان فسانۂ عجائب کا مطالعہ ہے۔ مرزا غالب کا قول ہے ’’داستان طرازی من جملۂ فنونِ سخن ہے، سچ یہ ہے کہ دل بہلانے کے لیے اچھا فن ہے‘‘۔ بقول سید وقار عظیم ’’داستانیں ہماری تہذیبی زندگی اور اس کے بے شمار گوشوں کی مصور و ترجمان ہیں‘‘۔
ڈاکٹر سہیل بخاری تحریر فرماتے ہیں:
’’مرزا رجب علی بیگ سرور کی داستان ’’فسانۂ عجائب‘‘ اردو داستان کی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ یہ داستان میر امن کی ’’باغ و بہار‘‘ کے جواب میں لکھی گئی تھی۔ اس کے جواب میں دہلی کے فخرالدین حسین نے ’’سروشِ سخن‘‘ لکھی، اور پھر اس کے جواب میں منشی جعفر علی شیون کاکوروی نے ’’طلسمِ حیرت‘‘ نامی داستان تحریر کی، جس پر اس داستانی مقابلے کا خاتمہ ہوگیا۔ اب چاہے میر امن نے اپنی کتاب کے دیباچے میں دہلوی اردو کی تعریف ہی کی ہو، سرورؔ نے اسے طعنہ سمجھ کر یا سمجھاکر اپنی کتاب کی وجۂ تصنیف بنالیا۔ اس سے اردو ادب کو یہ فائدہ پہنچا کہ اس میں دو اور داستانوں کا اضافہ ہوگیا۔
یہ داستان ابھی تک اردو والوں کی اس توجہ سے محروم تھی جسے اس کا پیدائشی حق کہا جاسکتا ہے۔ بھارت میں تو خیر اس کتاب پر کچھ نہ کچھ کام ہوچکا ہے، لیکن ہمارے ملک میں اب تک یہ میدان خالی تھا۔ ابھی چند سال ہوئے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی نے اسے ایم اے کے نصاب میں داخل کرکے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے۔ اب اس کا تنقیدی مطالعہ، ہمارے ملک کے بالغ نظر اور جواں سال نقاد جناب رفیع الدین ہاشمی صاحب اپنی موجودہ کتاب ’’سرورؔ اور فسانۂ عجائب‘‘ کے نام سے پیش کررہے ہیں۔
موصوف نے جس محنت اور لگن سے یہ کام کیا ہے، وہ قابلِ داد ہے۔ انہوں نے اردو کی داستانوں میں نہ صرف ’’فسانۂ عجائب‘‘ کا مقام متعین کیا ہے بلکہ مرزا سرورکی محنت کو بھی سراہا ہے، اور اسی کے ساتھ ساتھ تصنیف اور مصنف کے متعلق بعض تحقیق طلب مسائل سے بھی تعرض کیا ہے۔ یہ بات نہایت طمانیت بخش ہے کہ جہاں انہوں نے دوسروں کے خیالات پیش کیے ہیں وہاں آخر میں اپنی بے لاگ رائے بھی دے دی ہے۔ چنانچہ بعض مقامات پر مصنف سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے لیکن ان کے خلوص اور محنت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اس کتاب میں سرور اور ’’فسانۂ عجائب‘‘ کے تقریباً تمام ممکن پہلوئوں پر بحث کی گئی ہے۔
ہاشمی صاحب لائقِ مبارک باد ہیں کہ انہوں نے ہمارے ملک میں پہلی بار ’’فسانۂ عجائب‘‘ کے تنقیدی مطالعے پر ایک مستقل کتاب تصنیف کرکے اردو ادب میں ایک قابلِ قدر اضافہ کیا ہے۔ خدا کرے کہ بقول مصنف یہ کتاب ’’بارش کا پہلا قطرہ‘‘ ثابت ہو، اور جس طرح خود ’’فسانۂ عجائب‘‘ کی بدولت دو اور داستانیں وجود میں آئیں، اسی طرح اس کے تنقیدی مطالعے سے بھی دوسری تنقیدی و تحقیقی کوششوں کو تحریک ملے‘‘۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی تحریر فرماتے ہیں:
’’زیرنظر کتاب مرزا رجب علی بیگ سرور کی شاہ کار تصنیف اور اردو کی معروف داستان ’’فسانۂ عجائب‘‘ کو سمجھنے کی ایک ابتدائی سی کوشش ہے۔
مجھے اعتراف ہے کہ اردو ادب میں بڑے امتیاز کے ساتھ ایم اے کرنے کے باوجود، بوجوہ، میں نے فسانہ عجائب مکمل طور پر نہیں پڑھی تھی۔ چنانچہ میں اس کی فنی قدر و قیمت اور ادبی خوبیوں سے پوری طرح واقف نہ تھا۔ 1971ء میں جب میرا تبادلہ گورنمنٹ کالج مری سے گورنمنٹ کالج سرگودھا ہوا تو یہاں ایم اے اردو کے پہلے پرچے (افسانوی ادب) کی تدریس میرے حصے میں آئی۔ چنانچہ تدریسی ضرورت کے تحت فسانہ عجائب دیکھنی پڑی۔ پوری داستان بالاستیعاب پڑھی تو مجھے محرومی اور بے خبری پر افسوس ہوا، اور ساتھ ہی سرور کے اس شاہ کار کی قدر و قیمت کا احساس بھی۔ زیر نظر کتاب ایک تو، اسی احساس کا نتیجہ ہے۔
افسانوی ادب میں سرور کو جو اہمیت حاصل ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے جب میں نے فسانۂ عجائب پر موجود تحقیقی و تنقیدی کام کا جائزہ لیا تو اردو کے تحقیقی و تنقیدی سرمائے کی کم مائیگی کا احساس ہوا۔ سرور اور فسانۂ عجائب پر خاطر خواہ تحقیق و تنقید نہیں ہوئی۔ حد یہ کہ فسانۂ عجائب کا کوئی مستند اور صحیح ایڈیشن تک پاکستان میں دستیاب نہیں۔ بھارت میں تو پھر کچھ نہ کچھ توجہ دی گئی ہے، مگر پاکستان میں فسانۂ عجائب پر گنتی کے چند مضامین کے سوا، اب تک کوئی مستقل چیز نہیں لکھی گئی۔ یہ دوسرا محرک تھا، سرور اور فسانہ عجائب پر قلم اٹھانے کا۔
زیر نظر کتاب جو پاکستان میں فسانۂ عجائب پر اولین اور مستقل تصنیف ہے، کسی بلند بانگ ادعا کے بغیر محض ایک ناتمام سی کوشش کے طور پر پیش کی جارہی ہے۔ اس موضوع پر یہ ’’حرفِ آخر‘‘ تو نہیں، البتہ ممکن ہے ’’بارش کا پہلا قطرہ‘‘ ثابت ہو۔
فسانۂ عجائب کے نقادوںکو پڑھتے ہوئے یہ انکشاف میرے لیے تعجب انگیز تھا کہ بعض ناقدوں نے دوسروں کی آرا اور تحریروں کو اپنے ’’نتائجِ فکر‘‘ بناکر پیش کیا ہے اور ان کے اقتباسات بلاحوالہ نقل کرکے اپنی ’’تنقیدی صلاحیتوں‘‘ کی دکان چمکائی ہے۔ کسی ایک مسئلے پر غور و فکر کرتے ہوئے ایک جیسے نتائج تک پہنچنا غیر فطری ہے، نہ دوسرے مصنفوں اور ناقدوں کے خیالات و آرا کی تائید اور ان سے اتفاق نامناسب بات ہے، مگر ادبی دیانت اور وسعتِ قلب و نظر کا تقاضا ہے کہ مستعار خیالات و اقتباسات کا حوالہ دیا جائے۔ زیرنظر کتاب میں بعض مقامات پر اقتباسات کی کثرت، اسی نقطہ نظر کا نتیجہ ہے۔ بعض ایسے نکات جو میں بیان کرنا چاہتا تھا، مجھے دوسرے ناقدوں کے ہاں بھی مل گئے، میں نے ان کے بیانات میں ردوبدل یا الفاظ کے حذف و اضافہ اور فقروں کی تقدیم و تاخیر کرکے ان پر اپنا لیبل لگانے کے بجائے انہیں جوں کا توں انہی کے الفاظ میں حوالوں کے ساتھ نقل کردیا ہے‘‘۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی طبع جدید کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’کتاب کا مسودہ 1971ء میں تیار ہوا تھا، مگر اسے اشاعت کا منہ 1975ء میں دیکھنا نصیب ہوا۔ بعدازاں کم از کم چھ سات بار اسی کا عکس شائع کیا جاتا رہا، ناشر نے بارہا نظرثانی اور اضافوں کے لیے توجہ دلائی، مگر راقم کی مصروفیات نے مہلت نہیں دی۔ مصروفیات تو اب بھی کم نہیں ہوئیں بلکہ گزشتہ برسوں کی نسبت کہیں زیادہ ہوگئی ہیں۔ اس کے باوجود، بہ توفیقِ ایزدی کچھ اضافے کیے ہیں اور نظرثانی بھی۔ نظرثانی میں خاصی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ بایں ہمہ یہ ایک طالب علمانہ کاوش ہے اور اسے اسی حیثیت میں دیکھنا چاہیے۔
اس عرصے میں رشید حسن خاں (1925ء۔ 2005ء) کا مرتبہ فسانۂ عجائب، مطالعاتِ سرور کے سلسلے میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔ راقم نے متن کے اقتباسات نسخہ رشید حسن خاں کے مطابق دینے کی کوشش کی ہے (اور حوالے بھی)۔ پہلی اشاعت میں تبصرہ و تنقید کا بڑا ماخذ ڈاکٹر نیر مسعود کا مقالہ (رجب علی بیگ سرور: حیات اور کارنامے) تھا۔ اس اشاعت میں بھی زیادہ تر انحصار اسی مقالے کے نظرثانی شدہ مسودے پر کیا گیا ہے۔ یہ مسودہ راقم کو برادرم ڈاکٹر رفاقت علی شاہد کی عنایت سے میسر آیا۔ بیشتر مقالات پر حوالوں میں اس کا مختصر نام (رجب علی بیگ سرور) لکھا گیا ہے۔
یہ کتاب طلبہ کے لیے لکھی گئی تھی۔ بعض جامعات کے ایم اے اردو کے نصابات میں فسانۂ عجائب کا مطالعہ شامل ہے، اس لیے ضمیمے میں قصے کے دو خلاصے بھی شامل کیے جارہے ہیں۔ امید ہے طلبہ، زیر نظر طبع جدید کو بہتر اور زیادہ مفید پائیں گے‘‘۔
کتاب سات ابواب اور ضمیمے پر مشتمل ہے:
باب اول ’’داستان گوئی‘‘، باب دوم ’’رجب علی بیگ سرور: سوانح اور تصانیف‘‘، باب سوم ’’سرور کا عہد اور فسانۂ عجائب کا پس منظر‘‘، باب چہارم ’’فسانۂ عجائب پر تحقیقی نظر‘‘۔ باب پنجم ’’فسانۂ عجائب تنقیدی مطالعہ… (1)دیباچہ، پلاٹ، اسلوب، مرقع نگاری‘‘، باب ششم ’’فسانۂ عجائب تنقیدی مطالعہ… (2) لکھنوی تہذیب و ثقافت، سرور کی کردار نگاری‘‘، باب ہفتم ’’فسانۂ عجائب کی مجموعی قدر و قیمت۔ ضمیمہ فسانۂ عجائب کی تلخیص۔
کتاب پروفیسر فروغ احمد مرحوم کے نام معنون کی گئی ہے۔ کتاب سفیدکاغذ پر طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے، رنگین سرورق سے مزین ہے۔