کتاب : نئے پاکستان کی تعمیر (بزبان انگریزی)
(Building New Pakistan)
مصنف : ڈاکٹر طارق ریاض
صفحات : 168 ،قیمت:350 روپے
ناشر : تعمیر پاکستان پبلی کیشنز
کمرہ نمبر 16۔ دوسری منزل ڈیوس ہائٹس
38۔ ڈیوس روڈ۔ لاہور
فون : 03006310044
برقی پتا : tameerepakistan publication@gmail.com
ملنے کاپتا : علم و عرفان پبلشرز۔ اردو بازار لاہور
ڈاکٹر طارق ریاض معروف ماہر معاشیات ہیں۔ ’’قومی اقتصادی منصوبہ بندی‘‘ میں ایم اے کرنے کے بعد انہوں نے برمنگھم یونیورسٹی برطانیہ سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ برطانیہ اور امریکہ کی مختلف جامعات میں پڑھانے کے علاوہ مختلف بین الاقوامی اداروں میں مشیر معاشیات کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ آج کل فارغ البال یعنی ریٹائر ہوچکے ہیں اور اپنا زیادہ وقت نارتھمبر لینڈ برطانیہ، اور پاکستان میں لاہور میں گزارتے ہیں۔ زیر نظر کتاب سے پہلے 1984ء میں ’’پاکستان کا شعبۂ توانائی‘‘ اور 2017ء میں پاکستان کے خصوصی حوالے سے ’’اقوام عالم میں غربت کی نوعیت اور اسباب‘‘ کے موضوعات پر ان کی دو کتب انگریزی زبان ہی میں شائع ہوچکی ہیں۔ ڈاکٹر طارق ریاض ملک کے موجودہ وزیراعظم عمران خان سے بہت سی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں کیونکہ ان کی رائے میں عمران خان ایک سچے اور مخلص پاکستانی ہیں اور انہوں نے پاکستانی قوم میں ’’اسلامی فلاحی ریاست‘‘ کی امید ازسرنو پیدا کی ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں مصنف رقم طراز ہیں: ’’پاکستان نے ملک کی خدمت کے لیے 2018ء کے عام انتخابات میں عمران خان کی شکل میں نئی قیادت کا انتخاب کیا ہے، جنہوں نے 21 برس قبل اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تھا اور آخرکار ملکی سیاست پر مافیا کا تسلط توڑنے میں کامیاب رہے ہیں، تاہم انہیں طبقاتی، علاقائی اور تعلیم و صحت کے لحاظ سے گہری تقسیم اور مذہبی عدم برداشت کی شکار قوم ورثے میں ملی ہے، ملکی ادارے ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے گزر رہے ہیں، بھاری بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبی معیشت دیوالیہ ہونے کو ہے، جب کہ ملک کو بین الاقوامی سطح پر امریکی اشاروں کے تابع مخالفانہ ماحول کا سامنا ہے، بدعنوانی معاشرے کی رگوں میں سرایت کرچکی ہے، ان حالات میں عمران کو ملک کے آئین کی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا ہے، ایک ایسا آئین جس میں سابق بدعنوان حکمران طبقوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر کئی ترامیم کردی ہیں، ملک میں رائج سامراجی دور کا عدالتی نظام بھی انصاف کے بجائے تاخیری حربوں کے ذریعے فیصلے تک پہنچنے میں برسوں لگا دیتا ہے، اور یوں ناانصافی اور غیر شفافیت کے فروغ کا سبب بنتا ہے۔ عمران خان نے ان حالات میں پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست میں بدلنے، کرپشن کے خاتمے اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ کوئی آسان ہدف نہیں، خصوصاً جب آپ کے پاس پارلیمنٹ میں واضح اکثریت بھی موجود نہیں، اور خود آپ کی جماعت کے ارکان بھی بدعنوانی اور غلط کاریوں میں ملوث ہیں۔ مصنف کی رائے ہے کہ زراعت پر استوار معیشت جس میں مادی اور انسانی صلاحیتوں کا بھی فقدان ہو، کی اساس پر اسلامی فلاحی ریاست تعمیر نہیں کی جاسکتی، چنانچہ عمران خان اگر اپنے وعدوں کی تکمیل میں واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں معیشت کا ڈھانچہ پیداواری صلاحیتوں اور صنعت پر ازسرنو استوار کرنا ہوگا، اور یہی درحقیقت کتاب کا موضوع ہے۔
کتاب گیارہ ابواب پر مشتمل ہے جن میں ملک کی موجودہ اور مطلوبہ صورتِ حال کا تجزیہ، تعلیم، صحت، توانائی، معیشت اور دیگر شعبوں میں تعمیرنو کے لیے درکار ضروری اقدامات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ مصنف کی رائے میں پاکستانی قوم اپنے اہداف حاصل کرسکتی ہے لیکن اس کے لیے ہر ہر شعبۂ حیات کے ہر ہر فرد کو متحرک ہوکر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ کتاب اعلیٰ معیار کے سفید کاغذ پر معیاری طباعت سے آراستہ ہے۔ موضوع سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے کتاب میں خاصا لوازمہ موجود ہے، ضرورت ہے کہ کتاب کا اردو ترجمہ بھی شائع کیا جائے تاکہ معاشرے کے عام افراد بھی اس سے استفادہ کرسکیں۔ آخری بات یہ کہ وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم کو کتاب کے مندرجات کا جائزہ لینا چاہیے اور قابلِ عمل پہلوئوں کو روبہ عمل لاکر ملکی حالات سنوارنے میں مدد لینی چاہیے، اور اگر ملک و ملت کی ضرورت ہو تو ڈاکٹر طارق ریاض کو ملک کی معاشی ٹیم کا حصہ بناکر ان کی ماہرانہ خدمات سے استفادہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔