تحریک اسلامی کا گمنام سپاہی طارق محمود

ہفت روزہ ایشیا کے ایک گزشتہ شمارے میں اچانک عمران ظہور غازی کے ایک مضمون پر نظر پڑی۔ چونکہ غازی صاحب سے ایک تعلقِ دیرینہ ہے اس لیے فوراً مضمون پڑھنا شروع کردیا۔ لیکن چند سطور پڑھنے کے بعد ہی ایک بڑے صدمے کا احساس اور نقصان کا اندازہ ہوا۔ انہوں نے تحریک اسلامی کے ایک گمنام سپاہی بلکہ بے نام مجاہد کا تذکرہ کیا تھا۔ اسی مضمون سے معلوم ہوا کہ محترم طارق محمود اب ہم میں نہیں رہے۔ دل کے حملے میں دو ایک دن اسپتال میں رہنے کے بعد وہ اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔
میری دانست میں طارق محمود ایک مثالی اور آئیڈیل سیاسی کارکن تھے، تحریکِ اسلامی کو انہوں نے مطالعہ کرکے قبول کیا اور پھر باقی زندگی مطالعہ اور تحریکِ اسلامی کے لیے وقف کردی۔ ایسے بے لوث کارکن اب نہیں رہے۔ زمانے کی ستم ظریفی سیاسی کارکن چھین لیا جو قومی شناخت تھا۔ جسے دیکھ کر، جس سے مل کر اندازہ ہوتا تھا کہ حرص و ہوس کی اس دنیا اور نمود و نمائش کے اس معاشرے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کی شناخت اپنی ذات کی نفی ہے۔ جو معمولی معمولی کام کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ جو نہ کسی عہدے کے طلب گار ہیں اور نہ کسی صلہ و ستائش کے متمنی۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست میں جب سے پیسے کی ریل پیل ہوئی ہے یہ سیاسی کارکن ازخود منظر سے ہٹ گیا ہے، کہ اب جو کچھ ہورہا ہے اسی کے خاتمے کے لیے تو وہ اپنی ذات کی نفی کرکے میدان میں اُترا تھا۔ طارق محمود بھی ایک ایسے ہی مجاہد قسم کے بے لوث سیاسی کارکن تھے۔ میری اُن سے زیادہ تر ملاقاتیں منصورہ مسجد کے سامنے ہوئیں۔ ایک آدھ بار ایشیا کے دفتر میں بھی ملاقات کا موقع ملا۔ وہ پڑھے لکھے انسان اور خوشحال خاندان کے سربراہ تھے۔ پیشے کے اعتبار سے انجینئر تھے۔ اُن کے تمام بیٹے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں، لیکن طارق محمود نے اُن کی مخالفت کے باوجود ایک نیا راستہ اپنایا۔ وہ سید مودودیؒ کا لٹریچر اور جماعت کی دیگر کتب اصل قیمت پر خریدتے اور انہیں کم قیمت پر منصورہ مسجد کے سامنے آواز لگا کر فروخت کرتے۔ گویا اپنا وقت اور قوت بھی صرف کرتے اور ہر بار منافع کے بجائے خسارہ اُٹھاتے۔ فرائیڈے اسپیشل کے تو وہ گرویدہ تھے، ہر ہفتہ سو دو سو پرچے خریدتے اور قیمتِ خرید سے بھی کم قیمت پر فروخت کردیتے۔ وہ نماز کے بعد ’’تازہ فرائیڈے اسپیشل آگیا‘‘ کی آواز لگاتے اور اس میں کوئی ہتک محسوس نہ کرتے۔ کسی کے پاس پیسے نہ ہوتے تو اُسے پرچہ مفت ہی دے دیتے۔ شاید وہ لوگوں میں مطالعہ کی عادت ڈالنا چاہتے تھے اور تحریک اسلامی کے لوگوں کو اُن کے لٹریچر سے جوڑ کر رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی یہ خواہش اور اس کے لیے درویشانہ کاوش دونوں قابلِ ستائش ہیں۔ اکابرین جماعت کو اُن کی اس خواہش کی تکمیل کے لیے کوئی منصوبہ بندی کرنی چاہیے تاکہ کارکنانِ جماعت مطالعے خصوصاً تحریک اسلامی کے لٹریچر کے مطالعے کی طرف واپس آجائیں جس سے وہ آہستہ آہستہ دور ہوتے جارہے ہیں۔ طارق محمود مرحوم کی تحریک اسلامی کے دیگر جرائد کے ساتھ بھی دلی محبت تھی۔ ایشیا اور دیگر جرائد کے فروغ کے لیے بھی وہ خاصے فکرمند رہتے تھے۔
طارق محمود سادہ اور دیہاتی سے آدمی تھے، لیکن ان کے اندر خلوص کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ میں نے جب پہلی بار اُن سے فرائیڈے اسپیشل خریدا تو منصورہ مسجد کے سامنے کھڑے کھڑے انہوں نے بتایا کہ وہ میری تحریروں کے قاری ہیں۔ شاہنواز فاروقی کی تحریروں کے تو وہ دیوانے تھے۔ اُن کی اکثر تحریریں فوٹو کاپی کراکے مفت تقسیم کرتے۔ بدقسمتی سے اب ایسے لوگ ہمارے معاشرے سے اُٹھتے جارہے ہیں۔ وہ تحریک اسلامی ہی نہیں، فرائیڈے اسپیشل اور ایشیا کے بھی بے نام مجاہد تھے۔ فرائیڈے اسپیشل کو اُن پر کچھ کام کرنا چاہیے۔ تحریک اسلامی اُن کے اخلاص کو لوگوں کے سامنے لائے کہ اب ایسے لوگ اٹھتے جارہے ہیں۔

کوئی روکے کہیں دستِ اجل کو
ہمارے لوگ مرتے جارہے ہیں

اللہ تعالیٰ طارق محمود مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ اُن کی بے لوث کاوشوں کو اُن کی مغفرت کا ذریعہ بنادے اور ہمیں توفیق دے کہ جہاں کہیں ایسے بے لوث کارکن موجود ہیں اُن کی قدر کریں، اس سے پہلے کہ قدر کرنے کا وقت گزر جائے۔