انگلینڈ بمقابلہ پاکستان فائنل، ورلڈ کپ 1992ء۔

یہ پاکستان کی ورلڈ کپ میں پہلی فتح تھی۔ عمران خان نے اس ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم کو ’دیوار سے لگے ہوئے چیتوں‘ کی طرح لڑنے کی تربیت دی تھی اور اس فائنل میچ میں وسیم اکرم نے اسی بات سے متاثر ہو کر انگلینڈ پر کاری ضرب لگائی۔پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے انگلینڈ کو جیت کے لیے 249 رنز کا ہدف دیا۔ یہ مجموعی ہدف عمران خان، جاوید میانداد کی نصف سنچریوں اور انضمام الحق کی جارحانہ بیٹنگ کے باعث بنا۔انگلینڈ نے اپنی اننگز شروع کی تو ان کا آغاز اچھا نہیں تھا اور 69 رنز پر ان کے چار کھلاڑی پولین لوٹ چکے تھے۔ پھر ایلن لیمب اور نیل فیئربردر کی 72 رن کی شراکت کی بدولت انگلینڈ ایک مستحکم پوزیشن میں آ گیا لیکن وسیم اکرم کی تباہ کن بولنگ کے نتیجے میں ایلن لیمب اور کرس لیوس آؤٹ ہو گئے اور انگلینڈ کو تیسری دفعہ ورلڈ کپ کے فائنل میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس شاندار جیت کو یاد کرتے ہوئے وسیم اکرم نے کہا ’جب ہم لاہور پہنچے تو جہاں عام طور پر آپ 20 منٹ میں پہنچتے ہیں وہاں ہماری بس کو سات گھنٹے لگے۔‘’گلیاں شائقین سے بھری ہوئی تھیں، یہ ایک خواب کی طرح تھا۔ میں نے اس سے پہلے کبھی کچھ ایسا نہیں دیکھا اور شاید آئندہ بھی کبھی نہ دیکھوں۔‘

آئی سی سی نے کرکٹ ورلڈکپ کی مختصر تاریخ جاری کی ہے، جو کچھ یوں ہے

یہ واقعہ جنوری 1971ء کا ہے جب انگلینڈ اور آسٹریلیا کے مابین ایشز سیریز جاری تھی۔ اس سیریز کے پہلے دو ٹیسٹ میچ دونوں ٹیموں کے کپتانوں کی دفاعی حکمتِ عملی کے باعث بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوچکے تھے اور دی گارڈین اخبار کے صحافی برائن چیپمئن نے اُس وقت لکھا تھا کہ ’خطرہ ہے کہ اگر تیسرے ٹیسٹ کا نتیجہ بھی ایسا ہی رہا تو کر کٹ کے کھیل پر سوالیہ نشان اٹھ جائیں گے‘۔ اس پسِ منظر میں اس میچ کی اہمیت بڑھ گئی تھی، لیکن شومئی قسمت کہ پہلے تین دن بارش کی نذر ہو گئے جس کے باعث یہ میچ بھی بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا۔
خدشہ تھا کہ ٹیسٹ میچ کی منسوخی سے دونوں ملکوں کے کرکٹ بورڈز کو تقریباً 80ہزار پاؤنڈز نقصان اٹھانا پڑے گا جس کے پیشِ نظر میچ کے پانچویں روز ایک 40 اوورز کا میچ منعقد کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس میچ کے لیے بڑی مشکل سے آخری وقت میں تمباکو بنانے والی ایک کمپنی نے تعاون کیا، جس کے بعد میچ کے بہترین کھلاڑی کے لیے 90 پاؤنڈز کی رقم مختص کی گئی۔ آسٹریلیا نے یہ میچ 5 وکٹوں سے بآسانی جیت لیا۔ انگلینڈ کے جان ایڈرچ کو میچ میں سب سے زیادہ 82 رنز بنانے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ یہ ایک روزہ میچوں کی پہلی نصف سینچری ثابت ہوئی۔ اس میچ کی خاص بات یہ تھی کہ اسے 46 ہزار سے زائد شائقین دیکھنے آئے جو منتظمین کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث بنا۔ کرکٹ کے عالمی مقابلے کرانے کی یہ پہلی کوشش نہیں تھی۔ 60ء کی دہائی میں انگلش کاؤنٹی مقابلوں میں کامیابی سے ایک روزہ میچوں کے ٹورنامنٹس کا انعقاد ہورہا تھا۔ میلبورن میں ہونے والے اس تاریخی میچ کے باوجود عالمی سطح پر ایک روزہ میچوں کی شہرت میں اتنا اضافہ نہیں ہوا تھا لیکن ڈومیسٹک کرکٹ میں یہ مقبول ہوچکے تھے۔ میلبورن میں ہونے والے میچ کے چار سال بعد تک عالمی سطح پر صرف 18 ایک روزہ میچ کھیلے گئے۔ ان میچوں میں کھلاڑی سفید رنگ کا یونیفارم ہی پہنتے تھے اور یہ ٹیسٹ میچوں میں استعمال ہونے والی سرخ گیند سے کھیلے جاتے تھے۔ حادثاتی طور پر منعقد ہونے والے ایک روزہ میچ کے لیے ٹھیک چار سال بعد آٹھ ٹیموں پر محیط کرکٹ کا پہلا ورلڈکپ 1975ء میں انگلینڈ میں کھیلا گیا۔

کرکٹ کے پہلے ورلڈکپ کی روداد

اس ورلڈکپ میں ہر اننگز میں 60 اوورز ہوتے تھے۔ ان آٹھ ٹیموں میں سے چھ وہ تھیں جنھیں ٹیسٹ میچ اسٹیٹس مل چکا تھا جیسے انگلینڈ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، انڈیا، ویسٹ انڈیز اور پاکستان۔ جبکہ بقیہ دو ٹیموں میں سری لنکا اور جنوبی افریقہ شامل تھیں۔ یہ آٹھ ٹیمیں چار چار ٹیموں کے دو گروپس میں تقسیم کی گئی تھیں۔ ٹورنامنٹ کے ابتدائی میچ میں انگلینڈ نے انڈیا کو 202 رنز سے پچھاڑا تھا۔ یہ ایک انوکھا میچ تھا جسے مؤرخین کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس کی وجہ انڈین بلے باز سنیل گواسکر کا انتہائی سست روی سے کھیلنا تھا۔ انگلینڈ کے 334 رنز کے پہاڑ جیسے ٹوٹل کے تعاقب میں انڈیا نے 60 اوورز میں تین کھلاڑیوں کے نقصان پر صرف 132 رنز بنائے۔ گواسکر نے 174 گیندوں پر صرف 36 رنز بنائے جو آج تک ایک معما ہے۔لیکن اس میچ کے بعد سے اس ٹورنامنٹ میں دلچسپ میچز ہونا شروع ہوئے اور ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے مابین کھیلا جانے والا فائنل ایک یادگار میچ ثابت ہوا۔ اس میچ میں 291 رنز کے ہدف کے تعاقب میں آسٹریلیا کو ایک اچھا آغاز ملا لیکن پھر ویوین رچرڈز کے تین رن آؤٹ کی بدولت ویسٹ انڈیز یہ معرکہ 17 رنز سے جیت گیا۔

کرکٹ کے کھیل میں تبدیلیاں

آنے والے برسوں میں ورلڈکپ میں بہت ساری تبدیلیاں آئیں اور 1987ء کے ورلڈکپ میں مختلف جدتیں دیکھنے کو ملیں۔ سب سے اہم بات اس ٹورنامنٹ کی یہ تھی کہ یہ پہلی بار انگلینڈ سے باہر منعقد ہورہا تھا۔ اس ورلڈکپ کی میزبانی انڈیا اور پاکستان مشترکہ طور پر کررہے تھے۔ ماضی کے ٹورنامنٹ کے مقابلے میں اس ورلڈکپ میں ایک اننگز میں اوورز کی تعداد 60 سے کم کرکے 50 کردی گئی تھی۔ کرکٹ ورلڈکپ کی تاریخ کا سب سے سنسنی خیز فائنل 1987ء میں کھیلا گیا۔ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے مابین کھیلے جانے والے اس میچ میں آسڑیلیا کو صرف سات رنز سے فتح نصیب ہوئی۔ پانچ سال بعد 1992ء میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلا جانے والا ورلڈکپ کرکٹ کی دنیا میں انقلابی حیثیت رکھتا ہے۔ اس عالمی مقابلے میں پہلی دفعہ سفید گیند کا استعمال، رنگین یونیفارم، فیلڈنگ سے متعلق پابندیاں اور مصنوعی روشنی میں کھیلنا متعارف کروایا گیا۔ اس کے بعد سے کرکٹ میں مزید تبدیلیاں لائی گئیں جن میں ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ بھی شامل ہے۔
2011ء کا ورلڈ کپ تیسری بار برصغیر میں کھیلا گیا جہاں میزبان انڈیا نے عالمی کپ دوسری بار جیتا۔ 2015ء کا ورلڈ کپ آسٹریلیا میں کھیلا گیا جہاں اس بار بھی فتح کا تاج میزبان آسٹریلیا کو نصیب ہوا۔
ورلڈکپ کب اور کس نے جیتا؟
1992ء سے 2007ء تک کرکٹ ورلڈکپ 5 مختلف برِاعظموں میں کھیلا گیا۔ پہلے تین ورلڈکپ انگلینڈ میں کھیلے گئے لیکن انگلینڈ تین بار فائنل میں پہنچنے کے باوجود اب تک کوئی بھی ورلڈکپ نہیں جیت سکا۔
عمران خان کی قیادت میں 1992ء کا ورلڈکپ پاکستان نے اپنے نام کیا۔ انگلینڈ کے علاوہ نیوزی لینڈ وہ واحد ملک ہے جس نے تمام ورلڈکپ کھیلنے کے باوجود اب تک کوئی ورلڈکپ نہیں جیتا۔ اس دوڑ میں آسڑیلیا سب سے آگے ہے جس نے ریکارڈ پانچ دفعہ کامیابی حاصل کی۔ انڈیا اور ویسٹ انڈیز کے حصے میں یہ اعزاز دو بار آیا، جبکہ پاکستان اور سری لنکا نے ایک ایک بار ورلڈکپ جیتا۔ اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو 1975ء میں کھیلے جانے والے پہلے ورلڈکپ اور انگلینڈ میں ہونے والے پانچویں ورلڈکپ میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔
1971ء میں اس دن میلبورن میں شائقین کو بارش کی وجہ سے مایوسی تو ہوئی ہوگی لیکن آج 48 سال بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس بارش کے باعث ہونے والے کرکٹ میچ کی اہمیت کتنی زیادہ تھی۔
(بشکریہ بی بی سی)