عیدالفطر کے سلسلے میں کافی عید کارڈ موصول ہوئے ہیں، ان میں سے ایک عید کارڈ پر چھپا ہوا مضمون اس لائق ہے کہ اپنے قارئین کو انہی الفاظ میں عید مبارک پیش کی جائے، یہ عید کارڈ البدر کیڈٹ اسکول کی طرف سے ہے کہ:
’’طلبِ جسمانی اور نفس ابلیس کی چیرہ دستیوں کے خلاف آلۂ عمل سے لیس میدان کارزار میں قدم رنجہ ہونے کا نام صوم، اور اس معرکے میں فتح و کامرانی کے بعد تحسین و تبریک کے اظہار کا نام عید ہے‘‘۔
رمضان المبارک میں جو لوگ صرف بھوک پیاس حاصل نہیں کرتے بلکہ روزے کے اصل مقصد یعنی اپنی نفسانیت پر قابو پانے کی جدوجہد کے لیے نئی تحریک حاصل کرتے ہیں وہ واقعی قابلِ مبارک باد ہیں، مگر یہ ماہِ مبارک اُن لوگوں کے لیے بھی عید کی مبارک باد لے کر آتا ہے جو بیماری یا ناتوانی کے سبب روزے نہیں رکھ سکتے لیکن اس کے باوجود رمضان کے فضائل و برکات حاصل کرتے ہیں، اور وہ لوگ بھی عید مبارک کے مستحق ہیں جو اپنی ایمانی کمزوری کے سبب روزے نہیں رکھتے کہ عیدکی خوشی میں متقیوں اور گناہ گاروں سب کی شرکت ضروری ہے، اس موقع پر کسی کو خوشی سے محروم نہیں ہونا چاہیے۔
رمضان کا بڑا جہاد تو نفس کشی کے لیے روزے ہیں، لیکن عید کا پیغام یہی ہے کہ اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کرنے کے لیے اپنی گرہ کا مال بھی خرچ کیا جائے اور عید مناتے ہوئے آپ یہ دیکھیں کہ آپ کے عزیزوں، احباب اور محلے میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو عید کی خوشیاں خریدنے کے لیے اپنی جیب میں دام نہیں رکھتے، ان کے گھر جو کچھ رقم آپ دے سکتے ہیں وہ پہنچنی چاہیے۔ زکوٰۃ تو فرض ہے مگر اس پر سلسلہ ختم نہیں، اس سے آگے بڑھ کر بھی خوشیاں بانٹنے کے سلسلے میں جو خرچ ہوسکتا ہے وہ کرنا چاہیے۔ دراصل عید کے موقع پر نہ صرف خود خوشی حاصل کرنا بلکہ دوسروں کو بھی خوشیوں سے ہم کنار کرنا ایک فریضۂ دین ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ کسی کے لیے کسی بڑی خوشی کا سامان کردیں۔ اگر لوگ چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی معاشرے میں تقسیم کریں تو ایک مسرت اور شادمانی کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔ عید کے موقع پر خاص طور سے غریب لوگوں کے بچے آپ کی توجہ کے مستحق ہونے چاہئیں کہ عید اصل میں بچوں کی ہی ہوتی ہے اور اس کا حق صرف آپ کے یا خوشحال گھرانے کے بچوں کو ہی نہیں، سب بچوں کے لیے ہے، اور یہ حق دوسرے مستحق گھرانوں کے بچوں تک پہنچانے کے لیے آپ کو خاص طور پر فکرمند ہونا چاہیے۔ دراصل یہ تہوار ہی ہیں جو غریب گھروں میں بھی خوشی لے کر آتے ہیں، ورنہ ان گھرانوں میں دکھوں کے سوا کیا ہے! اس کے باوجود یہ دکھی لوگ ہمت کرتے ہیں اور جو خوشی اپنے گھر والوں کو دے سکتے ہیں اس کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں آپ بھی اُن کے مددگار بن جائیں تو عید کی مادی خوشیوں کے علاوہ اس کی وہ روحانی خوشی بھی حاصل کرسکیں گے جو کہ اصل خوشی ہے، اور اگر آپ یہ خوشی حاصل کریں تو عام عید مبارک کے علاوہ ایک خصوصی عید مبارک بھی آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
یہ پاکستانی مسلمانوں کی خوش قسمتی ہے کہ وہ ایک آزاد قوم کی حیثیت سے عید منارہے ہیں۔
عیدِ آزاداں واقعی شوکتِ دین و ملت ہے، لیکن اس موقع پر ہمیں اپنے ان مسلمان بھائیوں کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے جو آزادی کی جدوجہد میں اپنا خون بہا رہے ہیں اور اس جدوجہد کے نتیجے میں شدید مظالم کا شکار ہیں، ہمیں اس موقع پر ان مظلومین کی امداد کے لیے بھی کچھ کرنا چاہیے۔ اور چیچنیا کی جنگِ آزادی صرف ان مسلمانوں کی جنگِ آزادی نہیں ہے، یہ سارے عالم اسلام کے لیے اہمیت رکھتی ہے، اور جب یہ جدوجہد کامیاب ہوگی تو عالم اسلام ایک فاتح طاقت کی حیثیت سے ابھرے گا۔ اس لیے کشمیر اور چیچنیا کے مظلومین کی امداد خاص توجہ کی مستحق ہے۔
(7جنوری 2000ء(