عید روزوں کاانعام

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

شوال کے چھ روزے رکھنا:
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے رمضان کے بعد والے مہینہ یعنی شوال میں چھ نفلی روزے رکھے، تاکہ رمضان کے جاتے ہی عبادات و اذکار کا سلسلہ ختم نہ ہوجائے، اور ان کا ثواب ایک سال کے روزے کے برابر رکھا کہ انسان اس کی طرف مائل ہو۔ احادیث میں اس کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہیں۔ حضرت ابوایوبؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ماہِ رمضان کے روزے رکھے، اس کے بعد شوال میں چھ روزے رکھے تو اس کو عمر بھر روزے رکھنے کا ثواب مل جائے گا۔ (مسلم:1165)

عبدالرشیدعثمانی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جب عیدالفطر کا دن آتا ہے تو فرشتے راستوں کے نکڑ پر کھڑے ہوکر اعلان کرتے ہیں: اے مسلمانو! اپنے رب کریم کی طرف چلو جو بھلائی کی باتیں بتاتا اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دیتا ہے، پھر اس پر بڑا انعام دیتا ہے۔ تمہیں قیامِ لیل (رات میں کھڑے ہونے) کا حکم دیا گیا تو تم نے رات میں نمازیں پڑھیں، اور دن میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے دن میں روزے رکھے اور تم نے اپنے رب کی اطاعت کی۔ پس تم اپنے رب سے اپنا انعام حاصل کرلو۔
جب مسلمان عید کی نماز ادا کرلیتے ہیں تو ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے:
بے شک تمہارے رب نے تمہاری مغفرت فرمائی۔ پس تم کامیابی کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹو۔ یہ انعام کا دن ہے اور آسمان میں اس دن کو یوم الجائزہ (انعام کا دن) کہا جاتا ہے‘‘۔ (طبرانی)
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے رکھنے والے اہلِ ایمان کو خوش خبری دی ہے کہ وہ ماہِ شوال کے پہلے ہی دن صبح صادق کے بعد رمضان کے روزوں کا اجرو انعام حاصل کرلیتے ہیں۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ روزے دار جنہوں نے ایک ماہ مکمل طور سے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر بھوک پیاس کی تکلیف برداشت کی اور اپنی نفسانی خواہشات کو قابو میں رکھا، اور اس طرح ایک ماہ کی تربیت حاصل کی۔ یہ روزے دراصل مسلمانوں کے لیے سال میں ایک بار تجدیدِ ایمان کے ریفریشنگ کورس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سال کے گیارہ مہینوں میں نہ جانے کتنی خامیاں اور کوتاہیاں کردار کو آلودہ کردیتی ہیں، اور کتنی اخلاقی و روحانی کمزوریاں آدمی میں آجاتی ہیں گو کہ انہیں دور کرنے کے لیے مراسمِ عبودیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ نماز، زکوٰۃ وغیرہ اس کام کو انجام دیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اخلاقی کمزوریوں کا صدور ہوتا رہتا ہے، انہیں دور کرنے کے لیے مسلسل ایک مہینے تک ایک منصوبہ بند پروگرام سے گزارا جاتا ہے۔ پورا مسلم معاشرہ ایک تربیت گاہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ چھوٹے بڑے، امیر غریب، مرد و خواتین سب مل کر اس کو اجتماعی شکل دیتے ہیں۔ پورے مسلم معاشرے میں نیکیوں کی بہار آجاتی ہے۔ اس ماہ میں ایک معمولی نیک کام ایک فرض کی حیثیت حاصل کرلیتا ہے، اور ایک فرض کا بدلہ 70 فرائض کے برابر ہوجاتا ہے۔ نیکیاں پھلتی پھولتی ہیں اور روزہ دار کے اجر و ثواب میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، سماج پر ہمدردی اور غم خواری کا ماحول طاری ہوتا ہے۔ سماج کے کمزور اور پچھڑے ہوئے لوگوں کو اس کے نتیجے میں فریضہ صوم کی ادائیگی کے اسباب فراہم ہوجاتے ہیں۔ اس کے ساتھ انہیں دیگر ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کا سامان بھی میسر آجاتا ہے۔ اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس مہینے میں روزے دار جو کچھ کھاپی لیتے ہیں، رمضان کے بعد اتنی فراوانی برقرار نہیں رہتی۔ مسلم معاشرے کا ہر گھر بالعموم اپنے لوازمات کی تکمیل کرلیتا ہے۔ زکوٰۃ اور صدقہ و خیرات کی ادائیگی کی ایک فضا بن جاتی ہے۔
قریب و دور کے رشتے داروں اور ضرورت مندوں کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ قرآن مجید پڑھنے اور تراویح میں اسے سننے کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ قرآن مجید سمجھ کر پڑھنے کی توفیق دیتا ہے، اُن کے اجرو ثواب کا کیا کہنا۔ افسوس کہ آج کل ہمارے معاشرے میں قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے کی کم ہی لوگوں کو سعادت نصیب ہوتی ہے۔ ترجمے کے ساتھ تفسیر سے پڑھنے کے غیر معمولی فوائد ہیں۔ اس طرف توجہ دینے کی بڑی ضرورت ہے۔ ہر فکرمند مسلمان اس مہینے میں ایک بار قرآن مجید ضرور پڑھ لیتا ہے یا سن لیتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو ایمان و احتساب کے ساتھ رکھنے کی ترغیب دی۔ آپؐ نے فرمایا:
’’جو رمضان کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھتا ہے، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں، اور جو رمضان میں اجر و ثواب کی امید کے ساتھ قیامِ لیل کرتا ہے، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں، اور جو شب قدر میں ایمان و احتساب سے قیام کرتا ہے اللہ اس کے بھی پچھلے تمام گناہ معاف کردیتا ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم)
جو روزہ دار اپنے روزے ایمان کے تقاضوں کے مطابق اور اللہ کی رضا کی طلب کے ساتھ رکھے اُس کے اجر و ثواب کی اتنی اہمیت ہے کہ اُس کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اور یہی معاملہ قیام لیل کے ساتھ ہے کہ اگر کوئی مسلمان خوشنودیٔ رب کے جذبے سے دن بھر کے روزے کی تکان کے باوجود رات میں خدا کے حضور طویل قیام کرے تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ایمان کے مطابق روزہ رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ روزے کے دوران ایمان کے تقاضوں کا پاس و لحاظ رکھے، اپنے اخلاق، معاملات اور تعلقات میں اسلام کی تعلیمات کو ملحوظ رکھے۔عقیدے میں پختگی اور عمل میں اخلاص و للہیت کے بعد وہ اللہ کی رضا کا طالب ہو۔ اپنے خیالات و احساسات کی بھی نگرانی کرے، انہیں بھی حدود اللہ سے آشنا اور شرعِ خداوندی کا پابند بنائے، سابقہ اعمال پر غور کرے اور اس سے جو غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں، انہیں یاد کرکے شرمسار ہو اور روئے۔ یہ کیفیت ایک بندۂ مومن پر طاری ہو تو اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور وہ بندہ گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔
جس روزے دار نے محض اللہ کی رضا کے لیے کھانا پینا چھوڑا اور اپنی نفسانی خواہشات پر قابو رکھا، جھوٹ، مکرو فریب اور غیبت سے مجتنب رہا ایسے شخص کی کامیابی میں کیا شک ہے۔ یہ رمضان کے روزوں ہی کا فیضان ہے۔
مسلسل ایک ماہ کے روزے کے نتیجے میں روزہ دار میں صبر و ضبط کا مادہ اور مشقت برداشت کرنے کی طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔ رمضان کے معمولات پر ایک نظر ڈالیے۔ صبحِ صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوک پیاس اور تکان لیے ہوئے وہ افطار کرتا ہے۔ افطار کے بعد تھوڑا ہی وقت گزرتا ہے کہ عشاکی اذان ہوجاتی ہے۔ عشا کی نماز کے ساتھ تراویح میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے۔ تراویح کے بعد چند گھنٹے ہی آرام کرتا ہے کہ سحری کے لیے اٹھ جاتاہے۔ ماہِ رمضان کی یہ مسلسل تربیت اس کے کردار میں پختگی پیدا کرتی ہے، اور یہی پختگی زندگی میں نکھار لاتی ہے اور بندے کو اپنے رب کے ہر چھوٹے بڑے، آسان اور مشکل حکم کو خندہ پیشانی کے ساتھ بجالانے پر آمادہ کرتی ہے۔