بھارت کے انتخابات، ہندوقیادت کا حقیقی چہرہ

بی جے پی کی فتح رام کے ملک میں راون کی فتح ہے

بھارت کے انتخابی نتائج کو ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ ان انتخابات میں بی جے پی نمبر ایک جیت گئی اور بی جے پی نمبر دو یعنی کانگریس کو شکست ہوگئی۔ بھارت کے معاشرے پر بی جے پی کا اثر یہ ہے کہ پورا بھارت بی جے پی کا بھارت ہے۔ اس بھارت میں مسلمانوں اور پاکستان کے حوالے سے فرق یہ ہے کہ بھارت کی ایک جماعت بی جے پی نمبر ایک ہے۔ بھارت کی دوسری جماعت بی جے پی نمبر دو ہے۔ اور بھارت کی کچھ اور جماعتیں بی جے پی نمبر تین ہیں۔ لیکن یہ بھارت کا محض ایک چہرہ ہے۔
بھارت کا دوسرا چہرہ یہ ہے کہ انتخابات میں بی جے پی کی فتح رام کے ملک میں راون کی فتح ہے۔ بھارت کا ذکر ہو اور رام کا ذکر نہ ہو، یہ کیسے ہوسکتا ہے! شری رام کو ہندو وشنو کا ساتواں اوتار یا پیغمبر مانتے ہیں۔ رام کی اہمیت یہ ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری میں رام کو ’’امامِ ہند‘‘ کہا ہے۔ خود بی جے پی نمبر ایک کی سیاست ’’رام مرکز‘‘ ہے۔ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ ایودھیا کی بابری مسجد رام کی جنم بھومی پر مندر گرا کر بنائی گئی ہے۔ اس امرکی ایک بھی ٹھوس شہادت موجود نہیں، مگر بھارت میں مدتوں سے جمہوریت کے نام پر ہجوم کی سیاست ہورہی ہے، اور ہجوم بہرحال بی جے پی کے ساتھ ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے 542نشستوں میں سے 350 پر کامیابی حاصل کرلی ہے۔ بی جے پی نے انفرادی حیثیت میں 301 نشستیں جیتی ہیں اور وہ کسی جماعت کی مدد کے بغیر تنہا حکومت بنا سکتی ہے، اس لیے کہ حکومت سازی کے لیے صرف 272 نشستوں کی ضرورت ہے۔ بی جے پی کی یہ کامیابی صرف یوپی اور گجرات مرکز نہیں، بلکہ اس نے بھارت کی تمام ریاستوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ یوپی کی 80 نشستوں میں سے 60 پر بی جے پی کامیاب ہوئی ہے۔ مہاراشٹر میں 48 میں سے 40نشستوں پر بی جے پی نے حریفوں کو شکست دی ہے۔ بہار میں 40 میں سے 38 نشستیں بی جے پی کو ملی ہیں۔ مغربی بنگال میں 42 میں سے 18نشستوں پر بی جے پی نے معرکہ سر کیا ہے۔ مدھیہ پردیش میں اس نے 29 میں سے 28 نشستیں جیت لی ہیں۔ راجستھان میں اس نے 25 میں سے 25 نشستوں پر فتح کا پرچم لہرایا ہے۔ کرناٹک میں اس نے 28 میں سے 25نشستوں پر فتح حاصل کی ہے۔ جھاڑکھنڈ میں اس نے 14 میں سے 12 نشستیں ہتھیا لی ہیں۔ آسام میں اس نے 14 میں سے 10 نشستیں اپنے نام کی ہیں۔ صرف تامل ناڈو میں اسے 39 میں سے 3 نشستیں حاصل ہوئی ہیں اور یہاں کانگریس اور اس کے اتحادی کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کے معنی عیاں ہیں۔ صرف نریندر مودی اور ان کی بی جے پی ہی انتہا پسند نہیں، پورا بھارت انتہا پسند ہے۔ مگر ذکر ہورہا تھا شری رام کا۔
ہندو دیومالا میں رام تقویٰ، علم اور انصاف کی علامت ہیں۔ جس طرح مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافتِ راشدہ کو بہترین زمانہ تصورکرتے ہیں، اسی طرح ہندوئوں کے لیے رام کا زمانہ بہترین ہے۔ رام کے والد دشرتھ کی تین بیویاں تھیں: کوشلیا، کیکئی اور سمترا۔ رام کوشلیا کے بطن سے تھے، اور ان کے دو سوتیلے بھائی بھرت اور شتروگھن کیکئی کے بطن سے تھے۔ رام کے ایک اور بھائی لکشمن تھے جو سمترا کے بطن سے تھے۔ رام سب سے بڑے شہزادے تھے۔ وہ اپنے والد ہی کو عزیز نہیں تھے بلکہ عوام میں بھی اپنے تقویٰ، علم اور حلم کی وجہ سے مقبول تھے۔ ان کی سوتیلی ماں کیکئی رام کو بادشاہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی، چنانچہ اس نے ایک کمزور لمحے میں رام کے والد سے یہ وعدہ لے لیا کہ وہ اپنے بعد رام کے بجائے اس کے بیٹے بھرت کو بادشاہ بنائیں گے اور رام کو چودہ سال کے لیے جنگل میں جلاوطن کردیں گے۔ جلاوطنی کا وعدہ رام کے والد کا تھا اور رام اس وعدے کی پاسداری کے پابند نہ تھے، مگر رام نے اپنے والد کے انتقال کے بعد اپنے والد کے اپنی سوتیلی ماں سے وعدے کو سینے سے لگا لیا۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر چودہ برس کا بن باس اختیار کرلیا۔ یعنی چودہ سال کے لیے جنگل میں زندگی اختیار کرنا قبول کرلیا۔ رام نے والد کے وعدے کو وفا کرکے اور خود بے پناہ مشقت کی زندگی اختیار کرکے اپنی دین داری اور اقتدار سے بے نیازی کا ثبوت دیا۔ مگر اس سلسلے میں ان کے سوتیلے بھائی بھی کچھ کم نہ تھے۔ رام کے سوتیلے بھائی لکشمن کو رام سے اتنی محبت تھی کہ انہوں نے محل میں رہنے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ رام کے ساتھ بن باس اختیار کریں گے۔ اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جس بھائی کو اقتدار کی کرسی پر بٹھانے کی سازش کی گئی تھی اُس نے بادشاہ بننے سے انکار کردیا اور رام کے ساتھ جنگل جانے کی ضد کی، مگر رام نے کہا کہ تمہیں والد کے وعدے کا پاس کرنا چاہیے۔ چنانچہ بھرت محل میں ٹھیر گیا، مگر اس نے رام سے کہا کہ آپ اپنے جوتے مجھے دے دیں۔ بھرت نے رام کے جوتے لیے اور مسندِ اقتدار پر لا کر رکھ دیے۔ یہ جوتے رام کی واپسی یعنی چودہ سال تک مسندِ اقتدار پر رکھے رہے اور بھرت دوسری کرسی پر بیٹھ کر نظامِ حکومت چلاتا رہا۔ رام نے بن باس اختیار کیا تو ایک روز سری لنکا کے بادشاہ راون نے رام کی شریکِ حیات سیتا کو دیکھ لیا اور ان پر فریفتہ ہوگیا، اور رام اور لکشمن کی عدم موجودگی میں ایک دن سیتا کو اغوا کرکے سری لنکا لے گیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو رام بھارت کے ’’ہیرو‘‘ہیں اور راون بھارت کا ’’ولن‘‘ ہے۔ رام تقوی، علم اور انصاف کی علامت ہیں تو راون بدی، جہل اور ظلم کی علامت ہے۔ اب مودی اور بی جے پی کی حقیقت یہ ہے کہ وہ رام، رام تو بہت کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ مودی اور ان کی جماعت میں نہ تقویٰ ہے، نہ علم ہے، نہ حلم ہے، نہ انصاف ہے۔ اس کے برعکس مودی اور بی جے پی بدی، جہل اور ظلم کی علامت ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بی جے پی نے 25 کروڑ مسلمانوں اور 2 کروڑ عیسائیوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے 6 ہزار سال سے کروڑوں شودروں اور دلتوں کی زندگی کو جہنم بنایا ہوا ہے۔ بھارت نے پاکستان سمیت خطے کے تمام ملکوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ چنانچہ مودی اور بے جے پی رام کی علامت نہیں، راون کی علامت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی حکومت رام کے ملک پر راون کی حکومت بن گئی ہے۔ راون نے سیتا کو اغوا کیا تھا، بی جے پی نے بھارت کی اُس روح کو اغوا کرلیا ہے جس کی علامت رام اور کرشن ہیں۔ چنانچہ بی جے پی اصل بھارت کی سب سے بڑی دشمن جماعت ہے، مگر کتنی عجیب بات ہے کہ وہ اصل بھارت کا استعارہ بنی ہوئی ہے۔ لیکن جدید بھارت کا المیہ صرف یہی نہیں ہے۔ جدید بھارت کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بی جے پی کو ووٹ دینے والے کروڑوں ہندو چھوٹے چھوٹے راونوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔ آج سے کچھ سال پہلے کہا جاتا تھا کہ بی جے پی کی سیاسی طاقت ’’عارضی‘‘ ہے۔ وہ اصل بھارت کی ترجمان نہیں۔ اس کا ’’سیاسی ظہور‘‘ ایک ’’حادثاتی شے‘‘ ہے۔ مگر بھارت کے کروڑوں رائے دہندگان نے مودی اور بی جے پی کو دوسری بار کامیاب کرکے ثابت کردیا کہ مودی اور بی جے پی ہی اب اصل بھارت ہیں۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ مودی اور بی جے پی ہندو عوام کا آئینہ ہیں، اور ہندو عوام کی عظیم اکثریت مودی اور بی جے پی کا آئینہ ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو آدھے سے زیادہ بھارت نے اصل بھارت کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ ایک بار کسی بھی انسان سے غلطی ہوسکتی ہے، چنانچہ ایک بارکی غلطی سے انسان مرتبۂ انسانیت سے معزول نہیں ہوتا۔ مگر غلطی کو دہرانا اور اس پر اصرار اور فخر کرنا انسان کو مرتبۂ انسانیت سے گرا دیتا ہے۔ کروڑوں ہندوئوں نے بی جے پی کو دوبارہ اقتدار سونپ کر بلاشبہ خود کو مرتبۂ انسانیت سے گرا لیا ہے۔ ہر انسان اپنی پسند سے پہچانا جاتا ہے۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو پسند کرنے والے عملاً دہشت گرد نہ بھی ہوں تو وہ ذہنی اور نفسیاتی اعتبار سے دہشت گرد ضرور ہوتے ہیں۔ نوازشریف اور آصف زرداری کو ووٹ دینے والے عملاً کرپٹ نہ بھی ہوں تو وہ ذہنی اور نفسیاتی اعتبار سے کرپٹ ضرور ہوتے ہیں۔ یہی معاملہ بی جے پی کو ووٹ دینے والوں کا ہے۔ وہ عملاً مسلم خور، عیسائی خور، پاکستان دشمن اور راون نہ بھی ہوں تو وہ ذہنی اور نفسیاتی اعتبار سے مسلم خور، عیسائی خور، پاکستان دشمن اور راون پرست ضرور ہوتے ہیں۔ ویسے تو ہندوستان کے طول و عرض میں رام اور کرشن کی پوجا کی جاتی ہےلیکن ہندو اگر اپنی عبادت گزاری میں سچے ہوتے تو وہ بی جے پی کو دوبارہ اقتدار میں لا کر اپنے مندروں میں ’’انقلاب‘‘ برپا کردیتے۔ وہ اپنے مندروں سے رام اور کرشن کی مورتیاں ہٹاکر ان کی جگہ راون کی مورتیاں رکھ دیتے۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ امریکہ، یورپ اور بھارت مسلمانوں کو انتہا پسند کہتے ہیں، مگر کسی مسلم ملک میں امریکہ، یورپ اور بھارت کی نفرت فروخت نہیں ہوتی، اور کسی مسلم ریاست کے انتخابات میں عیسائیوں اور ہندوئوں سے نفرت کی بنیاد پر انتخابی مہم چلائی جاتی ہے نہ ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں۔ مگر امریکہ، یورپ اور بھارت میں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت ’’ہاٹ کیک‘‘ کی طرح بکتی ہے۔ چنانچہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اسی نفرت کی وجہ سے صدرِ امریکہ بن گئے۔ اسی نفرت نے پورے یورپ میں دائیں بازو کی جماعتوں کو طاقت ور بنایا، اور اسی نفرت نے بھارت میں مودی اور بی جے پی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کی۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ پاکستان میں کبھی بھارت مخالف جذبات کی بنیاد پر مہم چلی ہو، مگر مودی نے پاکستان سے دشمنی کو انتخابی مہم کا مرکزی حوالہ بنایا۔ بدقسمتی سے یہ حوالہ نقصان کا نہیں، فائدے کا سودا ثابت ہوا۔ مگر اس سودے بازی سے ثابت ہواکہ نفرت اور دشمنی کی دکان سجانے والے ہی نہیں، نفرت اور دشمنی خریدنے والے ’’گاہک‘‘ بھی خاصے پست مزاج ہیں، اور وہ رام کی علامت نہیں ہوسکتے، بلکہ وہ بھارت میں صرف راون کی علامت ہوسکتے ہیں۔ اس تناظر میں مودی اور بی جے پی کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ اگلے دسہرے پر وہ راون کے بجائے رام کے پتلے جلانے کا اہتمام کریں۔ آخر مودی اور بی جے پی رام کے ورثے کو مدتوں سے مٹی میں ملانے کا کام کررہی ہے۔
دہری شخصیت کا مرض افراد ہی نہیں، اقوام میں بھی پایا جاتا ہے، اور یہ مرض کافی عام ہے، مگر جدید بھارت کی سیاسی قیادت میں یہ مرض انتہا پر پہنچا ہوا ہے۔ ہندوگاندھی کو مہاتما یا عظیم روح کہتے ہیں اور ان کو ’’روحانی شخصیت‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ خودگاندھی بھی اپنے آپ کو روحانی شخصیت ہی سمجھتے تھے۔ مگر روحانی شخصیات کی تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی بھی روحانی شخصیت ’’پُرخور‘‘ یا زیادہ کھانا کھانے والی نہیں تھی، مگر گاندھی بلا کے پُرخور تھے۔ ان کے ایک قریبی ساتھی اندولال کنہیا لال یاجنک نے اپنی کتاب Gandhi as i know him میں لکھا ہے:
’’مجھے ان کے جیل میں رہنے سے پہلے ہی گاندھی جی کے کھانے کی مقدار پر بڑی حیرت ہوا کرتی تھی۔ مثلاً مجھے یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کرتا تھا کہ جس زمانے میں وہ محض پھل پر زندگی گزارتے تھے، اُس وقت بے شمار کیلے اور کثیر مقدار میں مونگ پھلی کھا ڈالتے تھے۔ ’’ندیاد‘‘ میں ستیہ گرہ کے موقع پر میں انہیں اتنی روٹیاں کھاتے دیکھتا تھا کہ مجھے حیرت ہوجاتی تھی، اور اس کا تو انہوں نے اپنی آپ بیتی میں بھی اعتراف کیا ہے کہ بہت مقدار میں گیہوں کا دلیہ کھا لینے کی وجہ سے انہیں ایسی پیچش ہوگئی تھی کہ اس نے گاندھی جی کو تقریباً موت کے دروازے ہی پر پہنچا دیا تھا‘‘ (Gandhi as i know him، اندولال کنہیا لال یاجنک، ترجمہ پیرسابرمتی۔ مترجم محمد ظفر احمد انصاری۔ صفحہ 420)
گاندھی جی پُرخوری کے حوالے سے ایک ایسے برہمن کا بھی ذکر کرتے تھے جو کسی دعوت میں جانے سے دو دن پہلے کھانا پینا چھوڑ دیتا تھا، چنانچہ وہ دعوت میں بہت زیادہ لڈو گھی ہضم کرجاتا تھا۔ اس برہمن کے ذکر کے بعد ایک دن گاندھی نے کہا:
’’لیکن مجھے اس بے چارے برہمن پر ہنسنے کا کیا حق ہے۔ کیا میں خود کھانے کے معاملے میں بے اعتدالی کا مجرم نہیں ہوں! میں خود اتوار کے برت (روزے) کی کسر پوری کرنے کے لیے صبح دگنی مقدار میں کھانا نہیں کھا لیتا!‘‘ (پیر سابرمتی۔ صفحہ421)
گاندھی جی کی شخصیت سے متعلق بعض واقعات اتنے ہولناک اور شرمناک ہیں کہ ہم کوشش کے باوجود ان کا ترجمہ نہیں کرسکے۔ چنانچہ یہاں اشارتاً صرف اتنا بتانا کافی ہے کہ گاندھی اپنے نفس کو ’’آزمانے‘‘ کے لیے نوجوان لڑکیوں کے ساتھ تنہا اور عریاں حالت میں سوتے تھے۔ ان کے ٹائپسٹ اور شارٹ ہینڈ سیکریٹری پرشورام کو ان باتوںکا علم ہوا تو اس نے 1947ء میں استعفیٰ دے دیا۔ گاندھی نے پرشورام سے کہاکہ تم جانا چاہو تو جائو، مگر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ لڑکیاں میری ’’ماں‘‘ کی طرح ہیں۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ کیجیے:
Gandhi`s Passion The life and Legacy of Mahatma gandhi by stanley wolpert-page 226-227- Oxford University Press-2001.
نہرو غیر وابستہ تحریک یاNon-Aligned Movement کے بانی اور اس کے اہم رہنما تھے، اور انہیں اس بات پر فخر تھا کہ بھارت دو بڑی طاقتوں یعنی امریکہ اور سوویت یونین میں سے کسی کے ساتھ منسلک نہیں ہے۔ مگر جب 1962ء میں چین بھارت جنگ ہوئی اور چین نے بھارت کا بھرکس نکالنا شروع کیا تو اچانک نہرو نے امریکہ سے خفیہ اور ہنگامی رابطہ کیا اور امریکہ سے مدد کی درخواست کرڈالی۔ اُس وقت جان ایف کینیڈی امریکہ کے صدر تھے۔ انہوں نے فوری طور پر بھارت کو امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ غالباً اس فیصلے کی اطلاع چین کو ہوگئی، اس لیے چین نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کرکے جنگ ختم کردی۔ مگر اس بحران سے نہرو کی دہری شخصیت سامنے آگئی، اور معلوم ہوگیا کہ جس طرح گاندھی کی روحانیت نقلی، جعلی اور مصنوعی تھی، اسی طرح نہرو کی غیر وابستگی بھی نقلی، جعلی اور مصنوعی تھی۔
چین بھارت جنگ کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی سن لیجیے کہ بھارت نے اس جنگ میں فتح مند ہونے کا تاثر دیا، مگر اس تاثر کی حقیقت کا اندازہ اس بات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ چین نے سرحد پر 80 ہزار فوجی تعینات کیے ہوئے تھے، اور بھارت کے فوجیوں کی تعداد 12 ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ کیا 12 ہزار فوجی 80 ہزار فوجیوں کا مقابلہ کرسکتے تھے؟ اعداد و شمار کے مطابق اس جنگ میں بھارت کے 1383 سے 3250 کے درمیان فوجی ہلاک ہوئے، جبکہ چین کے صرف 548 فوجی مارے گئے۔ بھارت کے لاپتا فوجیوں کی تعداد 1696 اور پکڑے گئے فوجیوں کی تعداد 3968 تھی۔ اس کے برعکس چین کا نہ کوئی فوجی لاپتا ہوا، نہ پکڑا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہاں بھی بھارت کی قیادت دہری شخصیت کے مسئلے سے دوچار تھی۔ اصل حقیقت یہ تھی کہ بھارت چین سے جنگ ہار گیا تھا، مگر بھارت تاثر دے رہا تھا کہ وہ جنگ جیت گیا ہے۔
بھارت آئینی اعتبار سے ایک سیکولر ملک ہے، مگر ’’عملی صورتِ حال‘‘ یہ ہے کہ بھارت ایک ’’ہندو ریاست‘‘ ہے، بلکہ ہندو ریاست بھی نہیں، صرف اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی ریاست۔ یہاں بھی بھارت کی شخصیت دہرے پن کا شکار ہے۔ بھارت خود کو جمہوری کہتا ہے اور جمہوریت کا ایک بنیادی تصور ’’آزادی‘‘ ہے اور دوسرا تصور ’’مساوات‘‘۔ مگر بھارت میں آزادیٔ اظہار نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ جو صحافی، جو اخبار اور جو ٹیلی ویژن آزادیٔ اظہار کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے بی جے پی ڈرا دیتی ہے۔ رہی سہی کسر بی جے پی کے زیر اثر کارپوریٹ سیکٹر پوری کردیتا ہے۔ وہ آزادیٔ اظہار کا مظاہرہ کرنے والے ادارے کو اشتہارات دینا بند کردیتا ہے۔ چنانچہ بھارت نہ جمہوری ہے، نہ آزادیٔ اظہار کا حامل۔ جہاں تک مساوات کا تعلق ہے تو مساوات بھارت کے معاشرے میں گزشتہ چھ ہزار سال سے موجود نہیں۔ ہوتی تو 20 کروڑ شودر جانوروں سے بدتر زندگی نہ بسر کررہے ہوتے۔ 25 کروڑ مسلمان معاشی، سماجی اور تعلیمی اعتبار سے دیوار سے لگے نہ کھڑے ہوتے۔
بھارت کے رہنما خود کو اور اپنے ہندو عوام کو ’’بہادر‘‘ اور ’’عظیم‘‘ کہتے ہیں۔ ان کی بہادری اور عظمت یہ ہے کہ وہ 80 فیصد ہونے کی وجہ سے جب چاہتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں مساجد کو شہید کردیتے ہیں، گرجوں کو آگ لگادیتے ہیں، مسلمانوں اور عیسائیوں کو قتل کردیتے ہیں، مسلمان اور عیسائی خواتین کی عصمت تار تار کردیتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا کرنے والے ’’بزدل‘‘ اور ’’حقیر‘‘ ہیں، اس لیے کہ وہ طاقت کے ہولناک عدم توازن کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہندو اگر ’’بہادر‘‘ اور ’’عظیم‘‘ ہوتے تو مسلمان ایک ہزار سال تک اور انگریز ڈیڑھ سو سال تک ان پر حکومت تھوڑی کرسکتے تھے۔ آخر ان ساڑھے گیارہ سو برسوں میں ہندوئوں کی ’’بہادری‘‘ اور ’’عظمت‘‘ کہاں چلی گئی تھی؟ بہادری اور عظمت یہ ہوتی ہے کہ مسلمانوں نے ایک اقلیت ہونے کے باوجود 1857ء کی جنگِ آزادی برپا کی اور انگریزوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ اس جنگِ آزادی میں ’’ہندو اکثریت‘‘ کی شرکت آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ عظمت یہ ہوتی ہے کہ التمش کے بیٹے نے ایک روز ہاتھی پر بیٹھ کر ایک ہندو کے گھر میں جھانک لیا اور صحن میں نہاتی ہوئی ہندو لڑکی پر بری نظر ڈالی۔ لڑکی کے باپ نے شکایت کی تو التمش نے شہزادے کو سرِ عام کوڑے لگوائے، مگر بی جے پی کا ایک رہنما یوپی کے وزیراعلیٰ ادتیہ ناتھ کے ساتھ بیٹھ کر کہتا ہے کہ مسلمان عورتوں کو قبروں سے نکال کر Rape کرنا پڑے تو کرنا چاہیے۔ واقعتاً ’’بہادری‘‘ اور ’’عظمت‘‘ اسی کو کہتے ہیں۔
ہندو رہنما اس بات سے سخت پریشان ہیں کہ ہندو لڑکیاں مسلمان لڑکوں سے شادی کرکے مسلمان ہوجاتی ہیں۔ بی جے پی اسے مسلمانوں کے Love Jihad کا نام دیتی ہے، حالانکہ ایسا کوئی جہاد سرے سے موجود ہی نہیں۔ یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ ہندو رہنمائوں کو ہندو خواتین کے مسلمانوں سے شادی کرنے پر اتنا ہی اعتراض ہے اور وہ اسے طاقت سے روک رہے ہیں تو اُس وقت ان کی طاقت کہاں تھی جب اکبر جودھا بائی سے شادی کررہا تھا۔ جودھا بائی راجپوت تھی اور راجپوت ہندوئوں کی Warrior Class ہیں۔ چنانچہ راجپوتوں کو اکبر سے جودھا کی شادی پر طوفان اٹھا دینا چاہیے تھا۔ مگر اُس وقت ’’بہادر‘‘ اور ’’عظیم‘‘ ہندو طاقت کے سامنے سر جھکائے کھڑے رہے، اور اکبر سے جودھا کی شادی کے ’’ثمرات‘‘ سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہندو قیادت کی بہادری اور عظمت کے دعوے بھی جھوٹے ہیں۔
امریکہ کے ایک شیطانی ریاست ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں۔ جو شخص اس بات کو نہیں مانتا وہ یا تو جاہل ہے یا خود اس میں کسی نہ کسی سطح کی ابلیسیت پائی جاتی ہے۔ امریکہ کی ابلیسیت کا ایک چھوٹا سا ثبوت یہ ہے کہ اس نے گوانتاناموبے اور ابوغریب کے عقوبت خانوں میں مسلمان قیدیوں کو روحانی، ذہنی اور نفسیاتی اذیت دینے کے لیے قرآن پاک کے صفحات فلش میں بہائے، ان پر جنسی حملے کرائے، ان پر کتے چھوڑے، انہیں انتہائی سرد ماحول میں ننگا رکھ کر کئی کئی دنوں تک سونے سے محروم رکھا، انہیں پانی میں ڈبویا گیا۔ امریکہ نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ وہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ اب آپ بھارت کے حوالے سے ایک مستند رپورٹ ملاحظہ کیجیے۔
’’مقبوضہ کشمیر میں لاپتا ہونے والے نوجوانوں کے والدین کی تنظیم اور جموں و کشمیر کی سول سوسائٹی کے اتحاد نے ایک ہوشربا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج تشدد و عقوبت رسانی کے وہ تمام حربے استعمال کررہی ہے جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر انسانی اور غیر قانونی قرار دیئے جاتے ہیں۔ خلیج گوانتانامو اور عراق کی ابوغریب جیل میں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات کے منظرعام پر آنے کے بعد بین الاقوامی سطح پر ایسے واقعات کی پُرزور مذمت اور توجہ کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے قائم ایسے ہی عقوبت خانے بین الاقوامی نظروں سے اوجھل ہیں اور انسانی حقوق کی صورت حال پر کوئی بات نہیںکی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشدد کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں باقاعدہ ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت منظم حربے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ سیکورٹی فورسز گزشتہ 30 سال سے آزادی کی تحریک کو دبانے کے لیے ہزاروں کشمیریوں کو جسمانی اور ذہنی اذیت پہنچانے کے تمام حربے استعمال کررہی ہیں جن میں ’’واٹر بورڈنگ‘‘ اور جسم کے نازک اعضا پر کرنٹ لگانا شامل ہے۔ رپورٹ میں 432 قیدیوں پر مبینہ تشدد کے واقعات پر تحقیق کی گئی اور کہا گیا ہے کہ ان میں سے ایسے 40 کیس سامنے آئے جن میں قیدی انتہائی جسمانی تشدد کے باعث شہید ہوگئے، جبکہ 190 قیدی ایسے تھے جن کو برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 326 افراد کو تشدد کے دوران ڈنڈوں، لوہے کی راڈوں، سریوں اور چمڑے کے ہنٹروں اور بیلٹوں سے مارا پیٹا گیا۔ سروں کو پانی میں ڈبو کر تشدد کرنے کے 101 واقعات سامنے آئے، جسم کے نازک اعضا پر بجلی کا کرنٹ لگاکر 231 پر تشدد کیا گیا، اور 121 قیدیوں کو سرکے بل چھت سے لٹکایا گیا، 21 قیدیوں کو سونے نہیں دیا گیا، اور 238 کو ریپ اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ حراستی مراکز میں تشدد کا نشانہ بننے والے لوگوں کی اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ 432 قیدی جن کا رپورٹ میں تفصیل سے ذکر ہے، ان میں 301 خواتین، طلبہ، کم عمر بچے، سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکن اور صحافی شامل تھے۔ اسی طرح شہریوں کو اجتماعی طور پر سزا دینے کے بھی طریقے بنالیے گئے، جن میں پوری آبادیوں کا محاصرہ کرکے وہاں تلاشی کے بہانے گھروں میں گھس کر لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور خواتین کا ریپ کیا جاتا ہے۔ تشدد اور سفاکی کا یہ سلسلہ وسیع پیمانے پر اب بھی جاری ہے۔ رپورٹ میں ایک واقعہ بھی درج کیا گیا ہے جس میں اس سال مارچ کی 19تاریخ کو مبینہ طور پر ایک مقامی اسکول کے 29 سالہ پرنسپل رضوان پنڈت کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیے جانے کے بعد کشمیر پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ کے کارگو کیمپ میں تشدد کرکے ہلاک کردیا گیا تھا۔ اسی طرح فوج اور سیکورٹی فورسز کے علاوہ اخوان اور ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں کو بھی وقتاً فوقتاً انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شامل کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم خطے میں فوج اور سیکورٹی فورسز کو خصوصی قوانین کے تحت قانونی تحفظ حاصل ہونے کی وجہ سے انسانی حقوق کی پامالی کے ایک بھی واقعہ میں ملوث کسی فوجی اور سرکاری اہلکار کو سزا نہیں دی جاسکی۔ رپورٹ میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ کشمیر میں پیش آنے والے ظلم و سفاکی اور ہلاکتوں کے واقعات پر بین الاقوامی سطح پر تحقیقات کرائی جائیں، اور ایک کمیشن قائم کیا جائے۔ ادھر بھارتی حکومت نے رپورٹ پر فوری تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ رپورٹ کا مکمل جائزہ لے کر ردعمل ظاہر کیا جائے گا۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے بھارتی حکومت کو ایک خط لکھ کر پوچھا ہے کہ شہریوں پر تشدد اور ماورائے قانون ہلاک کیے جانے کے 76 واقعات کی تحقیقات اور متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے‘‘۔
(روزنامہ دنیا کراچی، 21 مئی 2019ء)
یہ رپورٹ بتارہی ہے کہ بھارت کی ہندو قیادت ایک اور مقام پر دہری شخصیت کے ’’کردار‘‘ یا ’’بدکرداری‘‘ کا مظاہرہ کررہی ہے۔ بھارت امریکہ کی گود میں بیٹھ کر خود کو امریکہ کی طرح سپر پاور سمجھ رہا ہے، لیکن بھارت امریکہ کیا چین تک نہیں ہے۔ اسے ابھی چین بننے کے لیے 30 سال درکار ہیں، اور جب 30 سال بعد وہ چین بنے گا تو چین اُس وقت امریکہ سے بھی بڑی طاقت ہوگا۔ بھارت کے سپرپاور ہونے کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ بھارت کے 60 کروڑ لوگوں کے پاس رفع حاجت کے لیے بیت الخلا تک نہیں ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ جن میں 30کروڑ خواتین بھی شامل ہیں، رفع حاجت کے لیے کھیتوں، کھلیانوں یا باغات وغیرہ کا رخ کرتے ہیں۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو سڑک کے کنارے رفع حاجت کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ بھارت کی 60 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے کھڑی ہے، غربت اور عسرت کی وجہ سے 15 ہزار چھوٹے کسان ہر سال خودکشی کرلیتے ہیں۔ بھارت دنیا میں خواتین کے لیے سب سے خطرناک ملک ہے۔ چنانچہ بھارت سپر پاور کی ’’ایکٹنگ‘‘ تو کرسکتا ہے، مگر یہ ایکٹنگ ایسی ہی ہوگی جیسے ایک لنگڑا، لولا، کانا اور نکٹا شخص صحت مند اور خوب صورت نوجوان کی ایکٹنگ کرتا نظر آئے۔
بلاشبہ نریندر مودی اور بی جے پی کا اقتدار میں آنا پاکستان اور بھارت کے 25 کروڑ مسلمانوں کے لیے بہت بری خبر ہے، مگر بھارت کی تنگ نظر ہندو قیادت دونوں حوالوں سے آگ کا کھیل کھیل رہی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جبر ایک حد سے بڑھ جاتا ہے تو بغاوت جنم لیتی ہے۔ آج بھارت کے مسلمانوں کی تعداد 25 کروڑ ہے، کل یہی تعداد چالیس اور پچاس کروڑ ہوگی، اتنی بڑی تعداد کو اگر مستقلاً دیوار سے لگایا جائے گا تو کوئی چاہے نہ چاہے، بہت بڑا سماجی، نفسیاتی اور جذباتی دھماکا ہوکر رہے گا۔ یہی قصہ پاکستان کا ہے۔ بھارت پاکستان توڑ چکا ہے، اور بچے کھچے پاکستان کو ختم کرنا اس کا خواب ہے۔ مگر پاکستان پر دبائو بڑھایا جائے گا تو جنوبی ایشیا ایٹمی جنگ کا میدان بن جائے گا۔ پاکستان کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ بھارت کے تناظر میں پاکستان کی ’’کمزوری‘‘ نہیں، پاکستان کی ’’طاقت‘‘ ہے۔ اس وقت امریکہ کو افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی ضرورت ہے، اس لیے امریکہ پاک بھارت تعلقات کو دھماکا خیز نہیں ہونے دے گا۔ چنانچہ پاک بھارت تعلقات میں کچھ بہتری آسکتی ہے، مگر مودی نے انتخابات جیتے ہی پاکستان دشمنی اور بھارت کے مسلمانوں کی نفرت پر ہیں، اس لیے وہ پاکستان کے ساتھ ایک حد تک ہی تعلقات بہتر بنائیں گے۔ بھارت کے انتخابات کے نتائج کا بڑا حصہ سامنے آتے ہی عمران خان نے نریندر مودی کو کامیابی کی مبارکباد دے دی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان نے ڈیڑھ ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائل شاہین 2 کا تجربہ بھی کیا۔ یہ دونوں چیزیں ہی ضروری تھیں۔ جدید بھارت کا نہ کوئی مذہب ہے، نہ کوئی تہذیب ہے، نہ کوئی اخلاقیات ہے۔ وہ صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے، چنانچہ پاکستان نے مودی کو کامیابی پر مبارکباد دے کر اپنی تہذیب بھی ظاہر کردی اور میزائل کا تجربہ کرکے بھارت کو یہ بھی بتادیا کہ ہم تمہاری زبان میں بات کرنا جانتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کا حکمران طبقہ یہ توازن برقرار نہیں رکھ پاتا، چنانچہ امریکہ کی شہ پاکر بھارت پاکستان پر چڑھ دوڑنے کے لیے پر تولنے لگتا ہے۔