شمالی وزیرستان : پی ٹی ایم، سیکورٹی فورسز تصادم

احتجاجی مظاہرین پر فائرنگ یا چیک پوسٹ پر حملہ

اتوارکے روز شمالی وزیرستان کے سرحدی علاقے خڑکمر میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے تین کارکنوں کی ہلاکت کی تصدیق کے بعد سیکورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ انہیں علاقے سے پانچ مزید لاشیں بھی ملی ہیں جس سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد آٹھ ہوگئی ہے۔ اس کے نتیجے میں شمالی کے ساتھ ساتھ جنوبی وزیرستان میں بھی صورت حال انتہائی دھماکا خیز ہوگئی ہے۔ پی ٹی ایم نے اپنے کارکنوں کی ہلاکت کے خلاف پشاور اور بلوچستان کے کچھ شہروں میں مظاہروں کے علاوہ سوشل میڈیا پر اس اندوہناک واقعے پر زبردست احتجاج ریکارڈ کرانے کا اعلان کیا ہے، جس سے حالات کنٹرول ہونے کے بجائے مزید کشیدگی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن نے اپنے ایک بیان میں شمالی وزیرستان میں پی ٹی ایم کے تین کارکنوں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے تنظیم اور سیکورٹی اداروں کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس صورت حال سے ریاست اور قبائل کے درمیان مستقل بنیادوں پر کشیدگی جنم لے سکتی ہے۔ ایچ آر سی پی نے ایم این اے علی وزیر کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوری طور پر ایک پارلیمانی کمیشن قائم کیا جائے جو معاملے کی تحقیقات کرکے حقائق سامنے لائے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کا شمالی وزیرستان واقعے کے متعلق کہنا ہے کہ ان کے پانچ کارکن اتوار کے واقعے میں ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ پینتالیس زخمیوں میں سے آٹھ کی حالت نازک ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان ہلاکتوں کے خلاف ملک بھر میں سوشل میڈیا پر احتجاج کرے گی جس میں رکن قومی اسمبلی اور تنظیم کے رہنما علی وزیر کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا جائے گا۔ دوسری طرف خیبر پختون خوا کی وکلا تنظیموں کی جانب سے وزیرستان میں پی ٹی ایم کے کارکنوں کی ہلاکت کے خلاف صوبے بھر میں عدالتوں کا بائیکاٹ کیا گیا۔ خیبر پختون خوا بار کونسل کی کال پر صوبے کے مختلف اضلاع میں وکلا تنظیموں کے احتجاج میں مطالبہ کیا گیا کہ وزیرستان واقعے کی جوڈیشل انکوائری کی جائے اور اس میں ملوث افراد کو بے نقاب کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔
اسلام آباد سے موصولہ اطلاعات کے مطابق پاک فوج کے خلاف مبینہ طور پر ہرزہ سرائی کرنے پر پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی لگانے سے متعلق ایک درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ہے۔ یہ پٹیشن فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل جاوید اقبال کی طرف سے دائر کی گئی ہے جس میں پی ٹی ایم کی قیادت منظور پشتین، محسن داوڑ اور علی وزیر کے علاوہ وفاق، سیکریٹری دفاع، سیکریٹری داخلہ اور وزارتِ قانون کو فریق بنایا گیا ہے۔ اس درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ریاست کے مفاد اور پاک فوج کے وقار کو برقرار رکھنے، نیز پی ٹی ایم چونکہ سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ نہیں ہے اس لیے اس تنظیم پر پابندی لگائی جائے۔ درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ عدالتِ عالیہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کو حکم دے کہ وہ پی ٹی ایم کے تمام منفی پروپیگنڈے کو سوشل میڈیا سے ہٹائے۔ جبکہ درخواست میں محسن داوڑ، علی وزیر اور منظور پشتین کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کرنے کی استدعا بھی کی گئی ہے۔ جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے پیر کے روز اس درخواست کی سماعت کی، اور منظور پشتین، علی وزیر اور محسن داوڑ کے علاوہ اس درخواست میں فریق بنائے گئے دیگر افراد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 3 جون تک جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ اس رٹ پٹیشن کے حوالے سے فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ پٹیشن مذکورہ کرنل صاحب نے ازخود جذبہ حب الوطنی کے تحت دائر کی ہے، یا پھر اس کے پیچھے کسی اور کا ذہنِ رسا کام کررہا ہے، اور یہ سب کچھ ایک طے شدہ اسکرپٹ کے تحت ہورہا ہے۔ اسی دوران پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ پی ٹی ایم کے حامیوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ صرف گنتی کے چند لوگ انھیں ریاستی اداروں کے خلاف اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ جنرل آصف غفور نے بعد میں اپنے ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پشتو زبان میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ وہ پی ٹی ایم کے حامیوں کے ساتھ ہیں اور انھیں مشورہ دیں گے کہ وہ پی ٹی ایم کے مٹھی بھر عناصر کے بہکاوے میں نہ آئیں۔واضح رہے کہ اتوار کو پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ پی ٹی ایم کے کارکنان نے ارکانِ قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کی قیادت میں شمالی وزیرستان میں فوج کی خڑکمر چیک پوسٹ پر ایک دن قبل گرفتار کیے گئے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو چھڑوانے کے لیے حملہ کیا تھا جس پر تصادم کے نتیجے میں تین افراد ہلاک جبکہ 15 زخمی ہوئے جن میں پانچ فوجی بھی شامل ہیں۔ بیان کے مطابق سیکورٹی فورسز نے باوجود براہِ راست اشتعال انگیزی اور فائرنگ کے صبر سے کام لیا، تاہم اس دوران چیک پوسٹ پر فائرنگ کی گئی جس میں پانچ سپاہی زخمی ہوئے جس کے ردعمل میں فوج کی طرف سے بھی جوابی کارروائی کی گئی، جس میں حملہ کرنے والے تین افراد ہلاک اور دس زخمی ہوئے۔
دوسری جانب پی ٹی ایم نے الزام لگایا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے ان کے پُرامن دھرنے پر حملہ کیا۔ پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ نے کہا ہے کہ جب وہ دھرنے والی جگہ پر پہنچے تو سیکورٹی فورسز کی طرف سے مظاہرین پر فائرنگ کی گئی جس میں 30 کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ سیکورٹی فورسز کی طرف سے پہلے مظاہرین کو ڈرانے دھمکانے کے لیے ہوائی فائرنگ کی گئی تاہم بعد میں براہِ راست فائر کھول دیا گیا جس سے ان کے کئی افراد زخمی ہوئے۔ محسن داوڑ کے مطابق فائرنگ سے انھیں بھی ہاتھ پر معمولی زخم آیا ہے لیکن وہ محفوظ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد علاقے میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ادھر پی ٹی ایم کے مرکزی رہنما منظور پشتین کا کہنا ہے کہ اتوار کو پیش آنے والا واقعہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے دی جانے والی دھمکی ’’آپ کا وقت ختم ہوچکا ہے‘‘ کا تسلسل ہے۔ ان کے مطابق گزشتہ کئی دنوں سے آئی ایس پی آر کی سوشل میڈیا ٹیمیں آج پیش آنے والے حملے کی راہ ہموار کررہی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس بزدلانہ حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ پی ٹی ایم اپنی پُرامن اور آئینی جدوجہد جاری رکھے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے شمالی وزیرستان واقعے پر ردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ محسن داوڑ سیکورٹی چیک پوسٹ پر حملہ کرسکتے ہیں۔ اگر کہیں پُرتشدد واقعہ ہوا ہے تو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں لیکن احتجاج کرنا سیاسی لوگوں کا حق ہے، ان پر بھی تشدد نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ہم اپنے حق، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بات کرنے والے سیاست دانوں کو غدار قرار دیں گے تو یہ راستہ خطرناک ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر کشیدگی کا متحمل نہیں ہوسکتا، ہر پاکستانی کی جان قیمتی اور اس کا خون مقدس ہے،خون بہے تو حقائق قوم کے سامنے آنے چاہئیں۔ ٹویٹر پر اپنے بیان میں مریم نواز نے کہاکہ محبت، امن اور مفاہمت ہتھیاروں سے کہیں زیادہ طاقت ور ہیں، کیا ہم احتجاج کچلنے اور آوازیں دبانے کی بہت بھاری قیمت ادا نہیں کر چکے؟ اللہ پاکستان پر رحم کرے۔ دونوں طرف اگر پاکستان کے بیٹے ہیں تو سیاسی، صحافتی حلقوں سمیت ریاست کے تمام اداروں کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا، ورنہ ایک بار پھر پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور تمام زخمیوں کو صحتِ کاملہ سے نوازے۔ قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپائو نے شمالی وزیرستان میں فائرنگ کے واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صورتِ حال کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پختونوں نے قیام امن کے لیے بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور وہ مزید ایسے حالات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں پختون قیادت کو اعتماد میں لینے کی اشد ضرورت ہے، ان کی محرومیوں کا ازالہ کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے شمالی وزیرستان میں چیک پوسٹ پر پیش آنے والے واقعے پر افسوس اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمہوری دنیا میں لوگوں کو احتجاج کا حق حاصل ہے، انھیں اس سے روکنا اشتعال اور شدت کو جنم دیتا ہے، حکومت اور ریاستی قوت آئین اور قانون سے بالاتر نہیں، عوام سے صبر و تحمل اور پُرامن رہنے کی اپیل کرتے ہیں۔ دریں اثناء شمالی وزیرستان واقعے کے خلاف قومی اسمبلی میں بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خوب گرماگرمی دیکھنے کو ملی۔ اپوزیشن نے حکومت کی ناقص پالیسیوں اور قبائل کے احساسِ محرومی کے خاتمے میں کوتاہی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے قبائل کو تحفظ فراہم کرنے اور خڑ کمر واقعے کی جوڈیشل انکوائری اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی اور متاثرین کو معاوضہ دینے کا مطالبہ بھی کیاہے۔
شمالی وزیرستان کے حالیہ واقعے سے قطع نظر ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ پی ٹی ایم سے سواختلافات کے باوجود اس حقیقت سے ہرکوئی واقف ہے کہ پی ٹی ایم پچھلے ڈیڑھ برس سے قبائلی اضلاع کے مسائل کواپنے پُر امن احتجاج کے ذریعے نہ صرف ایسے وقت میں اجاگر کرتی آئی ہے جب اس حوالے سے تمام قابلِ ذکر سیاسی ومذہبی جماعتوں نے چپ کاروزہ رکھا ہواتھا، بلکہ اسے اور اس کی قیادت کو مختصر عرصے میں قبائلی نوجوانوں میں بالخصوص اور عام پختون نوجوانوں میں بالعموم جو پذیرائی ملی ہے وہ بھی دراصل پختونوں کی اسی دلیرانہ اور واضح وکالت کا نتیجہ ہے۔یہاں ہمارے لیے ان دلائل کو تسلیم کرنے میں بھی کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے کہ پی ٹی ایم کی قیادت میں عام لوگوں کے لیے کوئی خاص جاذبیت نہیں ہے اوریہ تحریک ایک وقتی عمل کے ردعمل میں وجود میں آئی ہے، لیکن اگر اس محدود اور وقتی تحریک کے حقیقی اور جائز مطالبات کو بروقت اہمیت نہ دی گئی تو پھر پاکستان کے خلاف برسرپیکار قوتوں کے لیے اس پُرامن جمہوری تحریک کو مشتعل کرناکوئی مشکل امر نہ ہوگا۔ لہٰذا اس کے خدشات دور کرنے اور مطالبات پورے کرنے کے لیے نہ صرف سنجیدہ کوششیں ہونی چاہئیں بلکہ خڑ کمر واقعے کی فی الفور جوڈیشل انکوائری کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کو قبائلی اضلاع تک آزادانہ رسائی بھی ملنی چاہیے۔