بحرین کانفرنس، فلسطین کے لیے نیا امریکی جَال

امریکہ کو معلوم نہیں یہ غلط فہمی کیوں ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ایک ثالث کا کردار ادا کرسکتا ہے! حالانکہ تنازعے کے ایک فریق یعنی اسرائیل کی غیر مشروط حمایت امریکہ کی بنیادی اقدار کا حصہ ہے، اوراشاروں کنایوں میں بھی اسرائیل کی مخالفت یہاں ایک بدترین اخلاقی جرم سمجھا جاتا ہے، اور جو شخص بھی اس باب میں جرأتِ رندانہ کا مرتکب ہو، اُس کا سیاسی مستقبل تاریک بلکہ ختم ہوگیا۔
امریکیوں کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے ایک بڑی کوشش 1992ء میں نظر آئی جب سابق صدر کلنٹن نے حکومت سنبھالتے ہی فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مصالحتی مشن کا آغاز کیا۔ ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں فلسطین کے مذاکرات کار احمد قریع اور اسرائیلی وزیرخارجہ شمعون پیریز کے درمیان بات چیت ہفتوں جاری رہی، اور اس تمام عرصے میں ناروے کے وزیرخارجہ جان یورگن ہوائسٹ(Johan Jorgen Hoist) ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے ہر اجلاس میں شروع سے آخر تک موجود رہے۔ اسی دوران امریکی وزیرخارجہ وارن کرسٹوفر بھی اوسلو آتے جاتے رہے، بلکہ کئی بار فون کے ذریعے صدر کلنٹن بھی شریکِ مشورہ رہے، اور آخرِکار اسرائیل اور PLO نے ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہوئے Letter of Mutual Recognition یا LMR پردستخط کردیے۔ LMRکو امریکہ نے عظیم الشان سفارتی کامیابی قرار دیا۔
امریکہ کی ’کوششوں‘ سے اوسلو مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا اور پی ایل او نے مسلح جدوجہد ختم کرنے کا اعلان کردیا، جواب میں اسرائیل نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلیا۔ یہ سیاسی فلسفہ دو ریاستی نظریہ یا Two State Agreementکہلایا۔ مصر میں خلیج عقبہ کے ساحلی شہر طابا میں 24 ستمبر 1995ء کو اسرائیلی وزیراعظم اسحق رابن اور پی ایل او کے سربراہ یاسرعرفات مرحوم نے اس تاریخی امن معاہدے پر دستخظ کیے۔ اس مناسبت سے اسے اوسلو دوم کے ساتھ طابا معاہدہ بھی کہتے ہیں۔ اس کے چوتھے روز اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن طلب کیا گیا جہاں صدر کلنٹن کی موجودگی میں یاسرعرفات اور اسحق رابن نے معاہدے پر دوبارہ دستخط کیے۔ اس موقع پر روس، مصر، اردن، ناروے اور یورپی یونین کے نمائندے بھی بطور گواہ موجود تھے۔
حسبِ توقع اس معاہدے کی بڑے پیمانے پر تشہیر ہوئی اور جناب یاسرعرفات کی جرأت پر تعریف اور مبارک باد کے ڈونگرے برسائے گئے، ساتھ ہی انھیں نوبیل امن انعام سے نواز کر ان کا وہ ارمان پورا کردیا گیا جو ہر مسلمان رہنما کی سب سے بڑی خواہش بلکہ آرزو ہے۔
اوسلو مذاکرات میں پی ایل او کا مطالبہ تھا کہ بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے جو اسرائیلیوں کے لیے قابلِ قبول نہ تھا، اور طویل بحث مباحثے کے بعد یہ طے پایا کہ بیت المقدس کی موجودہ متنازع حیثیت برقرار رہے گی اور امن کے قیام کے بعد باہمی گفتگو کے ذریعے اس مسئلے کا ایک متفقہ حل تلاش کرلیا جائے گا، اور یہی بات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اپنی قراردادوں 238 اور 242 میں ثبت کردی کہ بیت المقدس ایک مقبوضہ علاقہ ہے جس کی حیثیت کے تعین کے لیے اسرائیل، اردن اور مقتدرہ فلسطین (PA)کے درمیان بات چیت کی حوصلہ افزائی جاری رہے گی۔
ستم ظریفی کہ 28 اکتوبر 1995ء کو پی ایل او اور اسرائیل نے صدر بل کلنٹن کی نگرانی میں امن معاہدے پر دستخط کیے جس میں اسرائیل کے اس دعوے کو مسترد کردیا گیا کہ بیت المقدس صہیونی ریاست کا دارالحکومت ہے، لیکن اس کے صرف دوماہ بعد امریکی مقننہ نے بھاری اکثریت سے یروشلم ایمبیسی ایکٹ (Jerusalem Embassy Act) منظور کرلیا۔ اس قرارداد کے مطابق بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے صدر کلنٹن کو ہدایت کی گئی کہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کردیا جائے۔کانگریس کے دونوں ایوانوں نے معمول کی کارروائی کو معطل کرکے اس قرارداد کو منظور کیا۔ ایوانِ نمائندگان نے 37 کے مقابلے میں 374، اور سینیٹ نے اس قرارداد کو 5 کے مقابلے میں 93 ووٹوں سے منظور کیا۔ صدر کلنٹن نے آنکھ کا لحاظ کرتے ہوئے اس مسودۂ قانون پر دستخط نہیں کیے، لیکن وہ اسے ویٹو کرنے کی ہمت بھی نہ کرسکے، چنانچہ مقررہ مدت گزرجانے کے بعد 8 نومبر 1995ء کو یہ قرارداد ایک متفقہ قانون کی شکل اختیار کرگئی۔ پی ایل او کے شکوے پر امریکی وزیرخارجہ نے کہا کہ صدر کلنٹن کو یقین تھا کہ اگر انھوں نے اسے مسترد کیا تو کانگریس دوتہائی اکثریت سے صدارتی ویٹو کو غیر مؤثر کردے گی جس سے امریکی صدر کو مزید سبکی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔
اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے دبائو پر صدر کلنٹن نے سفارت خانہ بیت المقدس منتقل نہیں کیا اور صدارتی اختیارات کے تحت انھوں نے قانون پر عمل درآمد سے 6 مہینے کا استثنیٰ حاصل کرلیا، جس کے بعد سے یہ استثنیٰ ایک روایت بن گیا۔ صدر کلنٹن کے بعد صدر بش، اور اُن کے بعد صدر اوباما بھی ہر6 مہینے پر استثنیٰ حاصل کرکے معاملے کو ٹالتے رہے لیکن کسی میں یہ ہمت نہ تھی کہ وہ ایمبیسی ایکٹ کو ناقابلِ عمل قرار دے کر منسوخ کرنے کی کوشش کرتا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کی بنیاد ہی مسلم وعرب مخالفت پر رکھی۔ انھوں نے صاف صاف کہا کہ وہ حماس کو بزور طاقت کچلنے کی اسرائیلی پالیسی کے دل سے حامی ہیں اور اسرائیل کو اپنے تحفظ کے لیے فلسطینی علاقوں میں بستیاں قائم کرنے کا اخلاقی حق حاصل ہے۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ جیسے ہی ان کی حکومت قائم ہوئی وہ صدارتی فرمان کے ذریعے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کردیں گے۔ انھوں نے انتہائی متعصب عرب و اسلام مخالف یہودی وکیل ڈیوڈ فریڈمین (David Friedman)کو مشرق وسطیٰ کے امور پر اپنا مشیر مقررکیا اور حکومت سنبھالتے ہی جناب ڈیوڈ فریڈمین کو اسرائیل میں امریکہ کا سفیر مقرر کردیا گیا۔ فریڈمین سے صدر ٹرمپ کے مراسم بہت پرانے ہیں اور یہ صاحب صدر ٹرمپ کی تجارتی کمپنی ٹرمپ آرگنائزیشن کے وکیل بھی رہ چکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے امور پر پالیسی مرتب کرنے والی کمیٹی میں فریڈمین کے ساتھ دامادِ اول جناب جیررڈکشنر بھی شامل ہیں۔ جیررڈ کشنر کو رئیل اسٹیٹ کا کاروبار اپنے والد سے ورثے میں ملا ہے اور مشرق وسطیٰ سمیت ساری دنیا میں ان کا کاروبار پھیلا ہوا ہے۔ 38 سالہ جیررڈ ایک راسخ العقیدہ یہودی ہیں اور ان کی کوششوں سے دختراوّل ایوانکا ٹرمپ مسیحیت چھوڑ کر یہودی ہوگئیں جن سے جیررڈ نے 2009ء میں شادی کی۔
انتخابی مہم کے دوران ہی ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ سے متعلق دوٹوک پالیسی بنالی تھی، جس کا بنیادی جزو حماس اور فلسطینی مزاحمت کا مکمل قلع قمع تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ڈیوڈ فریڈمین سے بہت قریبی تعلقات ہیں، تو خلیج کے دونوں مؤثر رہنمائوں یعنی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان المعروف MBS اور ان کے اماراتی ہم منصب محمد بن زید المعروف MBZ جیررڈ کشنر کے قریبی دوستوں میں ہیں۔ غیر جانب دار مبصرین اور مراکزِ دانش کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ سے متعلق نئی امریکی پالیسی کے معمار جیررڈ کشنر ہیں، جنھوں نے ڈیوڈ فریڈمین اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے مشورے سے نئی حکمت عملی ترتیب دی ہے، اور دونوں عرب شہزادے اس نئی پالیسی کے دل وجان سے حامی اور اس پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کے لیے انتہائی اخلاص کے ساتھ پُرعز م ہیں۔
نئی امریکی پالیسی کے لیے MBS اور MBZکی حمایت کی بنیادی وجہ 2010ء کے آخر میں تیونس سے جنم لینے والی عوامی تحریک کی وہ ’ہولناک‘ یاد ہے جو ایک بھیانک خواب کی صورت عرب دنیا کے مردانِ آہن اور شیوخ و ملوک کو اب تک بے چین کیے ہوئے ہے۔ عوامی بیداری کی اس تحریک نے جسے الربیع العربی یا Arab Spring کانام دیا گیا، تقریباً ساری عرب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ بدقسمتی سے عرب اسپرنگ بہارِ جانفزا کے بجائے خزاں کا عنوان بن گئی اور جمہور کے لیے حیاتِ نوکی نوید لے کر آنے والی ربیع العربی نے شام، مصر اور یمن میں قبرستانوں کو آباد کردیا۔ خلیجی حکمرانوں کے دل میں اس تحریک کا ڈر اب تک بیٹھا ہوا ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں خوف زدہ عرب حکمرانوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئی ہیں کہ 2010ء کی عوامی بیداری کے پیچھے اخوان المسلمون اور اس کی فکر سے وابستہ تنظیمیں یعنی تیونس کی النہضہ، یمن کی الاصلاح، فلسطین کی حماس وغیرہ تھیں۔ مغرب کے مراکزِ دانش کے ساتھ مصر کے السیسی اپنے عرب دوستوں کو نہ صرف اخوان سے ڈرارہے ہیں بلکہ اس خطرے کا سر کچلنے کے لیے MBS اور MBZکو اسی درندگی کی دعوت دے رہے ہیں جو انھوں نے اپنے ملک میں کئی سال سے برپا کررکھی ہے۔
جیررڈ کشنر کا خیال ہے کہ مسئلہ فلسطین مشرق وسطیٰ بلکہ سارے عالمِ اسلام میں پھیلی بے چینی اور ہیجان کی ایک بڑی وجہ ہے، اور اس مسئلے کو حل کیے بغیر مشرق وسطیٰ میں استحکام ممکن نہیں۔ ان کے Middle East Doctrineکے مطابق سلگتا فلسطین مستقبل میں کسی نئے عرب اسپرنگ کو جنم دے سکتا ہے۔
مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے جیررڈ کشنر اور ڈیوڈ فریڈمین عسکری قوت کے ساتھ حریت پسندوں کے خلاف سونے کی گولیاں استعمال کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ان حضرات کا خیال ہے کہ فلسطین خاص طور سے غزہ میں پھیلی بدترین غربت نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو سخت مشتعل کررکھا ہے، اور اگر روایتی امن مذاکرات کے بجائے غزہ اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ کردیا جائے تو بھوک کے ستائے لوگ نوکری اور تجارت کی طرف مائل ہوں گے اور رفتہ رفتہ آزادی کا بھوت ان کے سروں سے اترجائے گا، اور یہی دراصل مشرق وسطیٰ کا نیا امن منصوبہ ہے۔
تاہم سونے کی گولیوں کے استعمال پر مکمل یکسوئی نہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا خیال ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کا حوصلہ جواب دینے کو ہے، کئی برسوں کی مکمل ناکہ بندی نے غزہ کو قحط میں مبتلا کردیا ہے، غذائی قلت کی بنا پر فلسطینی بچوں کی ذہنی نشوونما بری طرح متاثر ہے، بلیک آئوٹ اور پانی کی عدم دستیابی کی حد تک قلت سے پورا غزہ غلاظت کا ڈھیر بنتا جارہا ہے، بھوک اور بیماری نے ہر جگہ ڈیرے ڈال رکھے ہیں، اور اگر یہ سلسلہ دو ایک برس اور جاری رہا تو غزہ خود ہی ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ جائے گا۔ صدر ٹرمپ کے مشیر سلامتی جان بولٹن اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی اسرائیلی وزیراعظم کے مؤقف کے حامی ہیں کہ بات چیت و مراعات کے تکلف کے بجائے غزہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے شہر کی ناکہ بندی مزید سخت کردینے کی ضرورت ہے۔ نیتن یاہو کی طرح جان بولٹن بھی پُراعتماد ہیں کہ اہلِ غزہ کی مزاحمت دم توڑنے کو ہے۔ انھوں نے تجویز دی ہے کہ غزہ کو مصر، اور غرب اردن میں واقع فلسطینی بستیوں کو اردن کے حوالے کردیا جائے۔ جان بولٹن کا خیال ہے کہ سنگ دل السیسی کے لیے جاں بلب اہلِ غزہ کوکچلنا کچھ مشکل نہیں، اور’دہشت گردوں‘ کے خلاف مصری فوج کی کارروائی کو مذہبی تشدد کا تاثر دینا بھی ممکن نہ ہوگا۔
جیررڈ کشنر اور ڈیوڈ فریڈمین نیتن یاہو سے متفق نہیں، ان کا خیال ہے کہ بمباری اور ناکہ بندی کے باوجود اہلِ غزہ ایک لمبے عرصے تک مؤثر مزاحمت کرسکتے ہیں۔ فلسطینیوں کی اسلحہ سازی اور عسکری استعداد قابلِ رشک ہے۔ حماس نے امدادِ باہمی کی بنیاد پر سماجی بہبود کا ایک جامع نیٹ ورک ترتیب دے رکھا ہے، جس کی وجہ سے اب تک غزہ پر بھوک و فاقے کی کیفیت طاری نہیں ہوئی۔ سوشل میڈیا کے مؤثر استعمال کے ذریعے وہ اپنا پیغام ساری دنیا میں کامیابی سے پھیلا رہے ہیں، جس سے حکومتوں کی جانب سے مخالفت کے باوجود عام عربوں میں اہلِ غزہ کی حمایت بڑھتی جارہی ہے۔
کئی ماہ کے سوچ بچار کے بعد صدر ٹرمپ نے اپنے داماد کی تجویزکردہ حکمت عملی کی منظوری دے دی، چنانچہ 25 اور 26 جون کو بحرین کے دارالحکومت منامہ میں فلسطین امن منصوبے کے سب سے اہم پہلو کی رونمائی کے لیے مشرق وسطیٰ، ایشیا، یورپ اور امریکہ کے سرمایہ کاروں کا اجلاس طلب کیا گیاہے۔ امن منصوبے کا افتتاحی مرحلہ فلسطین کے لیے عظیم الشان اقتصادی پیکیج پر مشتمل ہوگا۔ اس اجلاس میں سرمایہ کاروں کے ساتھ علاقے کے وزرائے خزانہ اور اسرائیل و فلسطین کے نمائندوں کو بھی طلب کیا جارہا ہے۔ اب تک اس منصوبے کی تفصیلات کا اعلان نہیں کیا گیا، لیکن امریکی رہنمائوں کی بات چیت سے لگ رہا ہے کہ یہ اسی قسم کا منصوبہ ہے جیسا جناب نوازشریف اور پرویز مشرف کشمیر کے لیے تجویز کررہے تھے۔ یعنی آزادی و خودمختاری کو بھول کر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مشترکہ اقتصادی سرگرمیوں کے ذریعے علاقے کی اقتصادیات کو بہتر بنایا جائے۔ جب لوگ خوشحال ہوں گے تو باہمی نفرت ختم ہوجائے گی، اور پھر سرحد کے دونوں طرف کے لوگ مل بیٹھ کر اس مسئلے کا خود ہی ایک پُرامن حل نکال لیں گے۔
دلچسپ بات کہ جیسے مقبوضہ کشمیر کی قیادت نے آزادی و استقلال کی فاقہ کشی کو غلامی کی شکم پروری پر ترجیح دیتے ہوئے اس منصوبے کو یکسر مسترد کردیا تھا، کچھ ایسا ہی رویہ اب فلسطینیوں کا بھی ہے۔ رام اللہ میں مقتدرہ فلسطین نے امریکی منصوبے پر غور کرنے سے بھی انکار کردیا ہے۔ فلسطین کے وزیراعظم محمد شطیہ نے کہا کہ یہ فلسطینیوں کے گلے میں ڈالروں کا طوق ڈالنے کی ایک کوشش ہے، اور فلسطینی ایسے کسی منصوبے پر گفتگو کے لیے تیار نہیں جو ان کی مشاورت کے بغیر بنایا گیا ہو۔ انھوں نے کہا کہ ایسا کوئی منصوبہ جس میں بیت المقدس سمیت فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کی واپسی، فلسطینیوں سے چھینی ہوئی زمین پر تعمیر غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کے انہدام، اور خودمختار فلسطین کے قیام کی ضمانت شامل نہ ہو اس کی حیثیت ردی کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں۔ بعد میں فلسطین کے وزیر سماجی بہبود نے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کردیا۔ اب تک حماس کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن امریکہ حماس کو دہشت گرد تنظیم تصور کرتا ہے، لہٰذا حماس کو اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی جارہی ہے۔
ٹرمپ منصوبے کوکثیرالبنیاد بنانے کے لیے فلسطین کے ساتھ مصر، لبنان اور اردن کو بھی پُرکشش اقتصادی مراعات پیش کی جارہی ہیں، لیکن فلسطین کے اہم پڑوسی شام کو اس معاملے سے الگ رکھا گیا ہے۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ منہ میں پانی بھر آنے والی شاندار پیشکش کا مقصد لبنان کے عیسائی صدر اور وزیراعظم الحریری کو حزب اللہ سے ناتا توڑنے پر آمادہ کرنا ہے۔ حزب اللہ نے جو وزیراعظم الحریری کی مخلوط حکومت کی اہم اتحادی ہے، اس فارمولے کو مسترد کرتے ہوئے اسے فلسطینیوں کے خلاف نئی صہیونی سازش قرار دیا ہے۔
اب تک امریکہ کے خلیجی اتحادیوں نے بھی اس منصوبے کی کھل کر حمایت کا اعلان نہیں کیا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بحرین کانفرنس میں شرکت کا عندیہ تو دیا ہے لیکن منصوبے کے حق میں اب تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ مصر کے السیسی بھی اب تک خاموش ہیں، جبکہ قطر نے امن منصوبے کو مبہم و مشکوک قراردیا ہے۔ دوحہ میں قطری وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست، گولان سے اسرائیلی قبضے کا خاتمہ، بیت المقدس کی عرب حیثیت اور مقبوضہ عرب علاقوں پر قائم ناجائز اسرائیلی بستیوں کے انہدام کی واضح ضمانت کے بغیر کسی بھی قسم کا امن منصوبہ وقت کا زیاں شمار ہوگا۔
امریکی بحرین کانفرنس کے حوالے سے بے حد پُرامید ہیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکی امن منصوبہ فلسطین اور عرب علاقوں کے لیے خوشحالی کا پیغام ہے جس سے سارا علاقہ سرمایہ کاروں کے لیے جنت بن جائے گا اور اہلِ غزہ پر آگ و بارود کے بجائے ترقی و خوشحالی کی بارش ہوگی۔ جیررڈ کشنر کو بھی یقین ہے کہ منصوبے کی تفصیلات دیکھنے کے بعد فلسطینی بھی اس کے قائل ہوجائیں گے۔ لیکن فلسطینی آزادی و خودمختاری سے کم کسی چیز پر راضی نظر نہیں آرہے۔ مقتدرہ فلسطین نے کانفرنس میں شرکت سے معذرت کردی ہے۔ حماس کو اس سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ امریکہ کے لیے حماس قابلِ قبول۔کانفرنس سے فلسطینی نمائندوں کی غیر حاضری یقینی ہوجانے کے بعد اب اجلاس اور طلائی امن منصوبے کی حیثیت ہی کیا ہے؟

…………
اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں