شمالی وزیرستان کے علاقہ خاڑکمر میں قائم فوجی چیک پوسٹ پر پشتون تحفظ موومنٹ اور سیکورٹی فورسز کے مابین تصادم کے نتیجے میں تین مظاہرین جاں بحق اور پندرہ زخمی ہوگئے، جب کہ پانچ فوجی اہلکار بھی زخمی ہوئے جن میں سے ایک جوان بعد ازاں شہید ہوگیا۔ معاملے کا آغاز تین روز قبل ڈوگا گائوں میں ایک فوجی آپریشن سے ہوا جس کے دوران پاک فوج پر گولیاں برسائی گئیں جن میں سے بعض ایک جوان کے پیٹ میں بھی لگیں۔ فوج نے گائوں سے دو مشتبہ نوجوانوں کو حراست میں لے لیا۔ ارکانِ قومی اسمبلی محسن جاوید داوڑ اور علی وزیر کی قیادت میں اس کے خلاف ایک احتجاج منظم کیا گیا۔ پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ علاقے سے گرفتار کیے گئے مشتبہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو رہا کیا جائے۔ سیکورٹی فورسز نے براہِ راست اشتعال انگیزی اور فائرنگ کے باوجود صبر سے کام لیا، تاہم اس دوران چیک پوسٹ پر فائرنگ کی گئی جس پر فوج کی طرف سے بھی جوابی کارروائی کی گئی، جس پر حملہ کرنے والے تین افراد جان کی بازی ہار گئے جب کہ دس مظاہرین زخمی ہوئے۔ زخمیوں کو فوجی اسپتالوں میں منتقل کردیا گیا۔ مظاہرین کو مشتعل کرکے محسن جاوید داوڑ تو موقع سے غائب ہوگئے، جب کہ علی وزیر کو آٹھ ساتھیوں سمیت حراست میں لے لیا گیا۔ دوسری جانب پشتون تحفظ موومنٹ نے الزام لگایا ہے کہ ان کے پُرامن مظاہرین پر فائرنگ کی گئی۔ رکن قومی اسمبلی محسن جاوید داوڑ نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ جب وہ دھرنے کے مقام پر پہنچے تو پہلے مظاہرین کو ڈرانے دھمکانے کے لیے ہوائی فائرنگ کی گئی، تاہم بعد ازاں براہِ راست فائر کھول دیا گیا جس سے ان کے کئی افراد زخمی ہوگئے، خود انہیں بھی فائرنگ سے ہاتھ پر زخم آیا لیکن وہ محفوظ رہے، اس واقعے کے بعد علاقے میں کرفیو نافذ کردیا گیا جس کی وجہ سے زخمیوں کو اسپتال پہنچانے میں بھی مشکلات پیش آئیں۔ محسن جاوید داوڑ نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ رکن اسمبلی علی وزیر اور وزیر قبائل کے سربراہ ڈاکٹر گل عالم کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین نے کہا ہے کہ یہ واقعہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی اس دھمکی کہ ’’آپ کا وقت ختم ہوچکا ہے‘‘ کا تسلسل ہے۔ انہوں نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اپنی پُرامن اور آئینی جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا۔
اس وقت پورا خطہ نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ ایک جانب اگر امریکہ نے ایران کو جنگ کی دھمکیوں کے ساتھ اپنا جنگی بحری بیڑا بحیرۂ عرب میں اتار دیا ہے، امریکی صدر نے خلیج میں اپنی مزید فوج بھیجنے کا عندیہ دینے کے ساتھ ساتھ عرب ریاستوں کو مزید جدید ترین اسلحہ فروخت کرنے کا اعلان بھی کیا ہے، گویا امریکہ خطے پر جنگ مسلط کرنے کے کھلم کھلا اعلانات کررہا ہے اور اسے روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں، اس فضا میں ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان کا چند روز قبل دورہ کیا ہے، اور ظاہر ہے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے یہ کسی بھی طور پر پسندیدہ نہیں ہوسکتا، دوسری جانب ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار کی ایک ویڈیو بھی سامنے لائی گئی ہے جس میں وہ کوئی لاگ لپیٹ رکھے بغیر اپنی اس سازش کا اعتراف کررہے ہیں کہ امریکہ اسرائیل، بھارت اور افغانستان کے تعاون سے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان کو مزید تقسیم کرکے پاکستان کو تقسیم در تقسیم سے دوچار کرنے کے عزائم رکھتا ہے اور اس مقصد کے لیے ایٹمی پاکستان سے جنگی چھیڑ چھاڑ کے بجائے یہاں انتشار اور خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنا اس کی ترجیحات میں شامل ہے، جب کہ اقتصادی لحاظ سے پہلے ہی پاکستان کو زبردست دھچکا پہنچایا جا چکا ہے۔ ان نازک حالات میں خطے میں پاکستان کے دشمنوں سے کسی بھی کارروائی کی توقع بعید از قیاس نہیں ہونی چاہیے۔ دشمن بہرحال دشمن ہوتا ہے، اس سے خیر کی توقع نہیں رکھنا چاہیے، البتہ خود ہمیں اندرون ملک حالات کی نزاکت کا خیال رکھتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے، اور دشمن کی کوششوں کے باوجود اس طرح کے حالات پیدا نہیں ہونے دینے چاہئیں کہ محب وطن قوتوں کے لیے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہو۔
وزیراعظم عمران خان ابھی پچھلے دنوں یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ قبائلی عوام کے مطالبات جائز ہیں البتہ ان کا اسلوبِ بیان درست نہیں۔ ہمارے اربابِ اختیار کو یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پشتون قبائلی عوام فوجی آپریشن کے دوران آئی ڈی پیز کی صورت میں گھر سے بے گھر ہونے کے تکلیف دہ مراحل سے گزر چکے ہیں۔ اب جب کہ قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر کا آئینی و قانونی حصہ قرار دیا جاچکا ہے تو ضرورت ہے کہ ان علاقوں کی معاشی، جمہوری اور قانونی محرومیاں ختم کرنے پر توجہ دی جائے۔ ابھی چند روز قبل قومی اسمبلی محسن جاوید داوڑ کا قبائلی علاقوں کی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں میں اضافے کا بل منظور کرکے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کرچکی ہے۔ خیر سگالی کی اس فضا کو آگے بڑھانے کے لیے حکومت کو مزید ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں، اور جیسا کہ جماعت اسلامی پاکستان کے قائم مقام امیر لیاقت بلوچ نے اس واقعے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تجویز پیش کی ہے کہ علاقے کے عمائدین پر مشتمل مشران جرگہ بلا کر حالات کو سدھارنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں، خطہ اور خصوصاً پاکستان جس قسم کے خطرات میں گھرا ہوا ہے ان کا تقاضا ہے کہ اتوار کے روز رونما ہونے والے خوفناک رد؎عمل کو ہر صورت روکا جائے، عوام اور ریاست کا ٹکرائو کسی صورت ملک و قوم کے مفاد میں نہیں جس کا ایک خوفناک نتیجہ ہم پہلے ہی 1971ء میں ملک کے دو لخت ہونے کی صورت میں بھگت چکے ہیں جس سے بہرحال سبق حاصل کیا جانا چاہیے…!!!