قرضوں کی معیشت سے انھی ملکوں اور قوموں نے ترقی کے ثمرات سمیٹے ہیں جنہوں نے مستحکم سیاسی نظام کے ذریعے ’’اچھی حکمرانی‘‘ قائم کی، اور خلقِ خدا کی مشکلات و مصائب میں کمی کو اپنا مطمح نظر بنایا۔ تازہ مثال ترکی ہے جس نے اپنے جمہوری سیاسی نظام کو مستحکم کرکے قرضوں سے ملک کو خوش حال بنایا۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد دنیا کے کئی ملکوں نے قرضوں اور امدادی رقوم کے ذریعے ہی ترقی کی تھی۔ جن ملکوں میں سیاسی استحکام نہیں ہوتا، وہاں عالمی ساہوکار قرضوں کے ساتھ اپنے ریکوری منیجرز بھی بھیج دیتے ہیں، جس کا مشاہدہ ہم 1958ء کے بعد سے پاکستان میں بار بار کررہے ہیں، جہاں وزیر خزانہ محمد شعیب اور حفیظ شیخ سے لے کر گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر یعقوب، ڈاکٹر عشرت حسین، محترمہ شمشاد اختر اور اب باقر رضا آگئے۔ اسی طرح کبھی نگراں وزیراعظم معین قریشی کی شکل میں اور کبھی شوکت عزیز کی شکل میں مستقل وزیراعظم امریکہ سے آتے ہیں اور اقتدار کے مزے لے کر اور ملک میں نئے مصائب پیدا کرکے واپس امریکہ چلے جاتے ہیں۔ سیاسی استحکام کے لیے لازم ہے کہ سیاسی جماعتیں گلی محلے کی سطح پر جمہوری طور طریقوں پر مستحکم ہوں، اور ان کا داخلی نظام مسلمہ جمہوری کلچر کی عکاسی کرتا ہو۔
پاکستان پہلی بار آئی ایم ایف پروگرام میں 1958ء کے پہلے مارشل لا میں گیا تھا، جس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف نے اپنے حاضر سروس ملازم کو پاکستان کا وزیر خزانہ بنوا دیا تھا۔ تب سے قرضے دینے والے ہمارے ساتھ یہی کھیل کھیل رہے ہیں۔ پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان نے آئی ایم ایف کے قرضوں سے پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کا دعویٰ کیا، تو اس نظریے کو مسترد کرنے کے لیے پہلی مدلل اور مؤثر آواز چودھری محمد علی مرحوم (سابق وزیراعظم پاکستان) نے بلند کی تھی۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں خبردار کیا تھا اور تفصیل سے لکھا تھا کہ ’’یہ قرضے آگے چل کر پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کو ختم کردیں گے‘‘۔ چودھری محمد علی نے اپنے اسی مضمون میں بانی ٔ پاکستان قائداعظمؒ کے وژن کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستان کے ابتدائی دس برس میں معیشت کی بنیاد اپنی چادر کے مطابق پائوں پھیلائو اور خودانحصاری کے نظریے پر تھی۔ ایک اور موقع پر چودھری محمد علی نے انکشاف کیا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد سوفٹ ڈرنکس کی انٹرنیشنل کمپنیوں نے (جن میں کوکاکولا کمپنی بھی شامل تھی) پاکستان میں اپنی فیکٹریاں لگانے کی اجازت مانگی تھی۔ اُس وقت وزیراعظم (شہیدِ ملّت) خان لیاقت علی خان کی کابینہ میں وزیر تجارت فضل الرحمن (مرحوم) تھے، انہوں نے یہ فائل مجھ کو دی اور کہا کہ ’’آپ بتائیں کیا اس کی ضرورت ہے؟‘‘ جس پر میں نے نوٹ تیار کرکے کابینہ کو پیش کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ اس مرحلے پر پاکستانی عوام کو غیر ملکی مشروبات کی نہیں زراعت اور صنعتی ترقی کے لیے مشینری اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ جس سے وزیراعظم اور وزیر تجارت نے اتفاق کرتے ہوئے غیر ملکی مشروبات کی کمپنیوںکو اجازت نامہ جاری کرنے سے انکار کردیا تھا۔ یہاں یہ ذکر غیر ضروری نہیںہے کہ پاکستان میں غیر ملکی مشروبات کی کمپنیاں آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کے بعد جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں آئی تھیں، ورنہ اس سے قبل ہر چھوٹے بڑے شہر میں مقامی طور پر سوڈا واٹر کی چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں تھیں۔ کراچی، ڈھاکہ اور دوسرے بڑے شہروں میں پاکستانی صنعت کاروں نے اپنی فیکٹریاں لگائی تھیں، جیسے کراچی میں مقامی طور پر تیار ہونے والا مشروب ’’پاکولا‘‘ بڑا مقبول تھا۔ اب اس کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں ہے۔ ہمیں یا کسی اور کو یہ اعتراف کرنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان نے غیر ملکی قرضوں سے ترقی ضرور کی مگر عوام کو اس کے ثمرات اس طرح نہیں مل پائے جیسے اُن ملکوںکے عوام کو پہنچے جہاں مستحکم سیاسی نظام، قانون کی حکمرانی کے ذریعے اچھی حکمرانی، اور آئین کی بالادستی کو سب تسلیم کرتے ہیں۔ بلاشبہ جنرل ایوب خان کے دور میں صنعتی ترقی میں تیزی آئی تھی۔ خاص طور پر زرعی شعبے میں جو ترقی ہوئی وہ قابلِ قدر ہے ۔ نئی نئی صنعتیں بھی لگیں اور ڈیم بھی بنے۔ اور اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) کے دورِ حکومت میں پاکستان اسٹیل ملز کی تعمیر شروع ہوئی اور ایٹمی پروگرام کا منصوبہ بنا۔ جنرل ضیا الحق (مرحوم) کے دور میں اسٹیل ملز مکمل ہوئی، اور دفاعی شعبے میں سب سے اہم کارنامہ ایٹمی پروگرام کا مکمل ہونا ہے۔ میاں نوازشریف نے تمام تر عالمی دبائو کے باوجود ایٹمی دھماکہ کیا اور موٹر وے جیسے بڑے منصوبے بنائے، توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بجلی کے بڑے بڑے منصوبے بنائے، اور سی پیک جیسے بڑے منصوبے پر کام شروع کیا۔ مگر عوام کو اس کے خاطر خواہ ثمرات نہیں مل پائے، اس کا ایک بڑا سبب بار بار طالع آزمائوں کی مداخلت اور آئینی نظام میں تعطل کا آنا ہے۔1958ء میں جنرل ایوب خان مارشل لا لگاکر 1956ء کا دستور منسوخ کرکے شیڈول کے مطابق فروری 1959ء میں ہونے والے انتخابات کا راستہ نہ روکتے تو قائداعظم کی قیادت میں قائم ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست دولخت نہ ہوتی، اور نہ ہی آج ہم غیر ملکی قرضوں کی دلدل میں اس طرح دھنسے ہوئے ہوتے کہ آج یہ بھی نہیں بتا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف نے قرضے دینے کے لیے ہم سے کیا کیا شرائط منوائی ہیں، اور نہ وزیراعظم عمران خان کو اپنی معاشی ٹیم میں ان کو شامل کرنے پر مجبور ہونا پڑتا جن کے ناموں کی منظوری دینے سے قبل وہ ذاتی طور پر ان سے واقف تھے اور نہ ہی ان کی ان سے تقرری کرنے سے قبل ملاقات کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف نے یہ سلوک پہلی بار نہیں کیا ہے کہ آئی ایم ایف سے آئی ایم ایف کی ٹیم مذاکرات کرے۔ 1993ء میں بھی میاں نوازشریف کی حکومت کو ختم کرکے اُس وقت کے آرمی چیف کی ثالثی میں جو سیٹ اَپ لایا گیا تھا (جس کے تحت میاں نوازشریف کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ صدر غلام اسحاق خان (مرحوم) کو بھی مستعفی ہونا پڑا جسے جنرل وحید کاکڑ فارمولا کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے) اس کا نگراں وزیراعظم معین قریشی امریکہ سے امپورٹ کیا گیا تھا، جسے پاکستان کا شناختی کارڈ اور حلف اٹھانے کے لیے شیروانی پاکستانی حکام نے اسلام آباد ائرپورٹ پر فراہم کی تھی۔ جناب معین قریشی نے حلف اٹھاتے ہی پاکستان کی طرف سے عالمی مالیاتی اداروں سے مذاکرات کے لیے اُس شخص کو نامزد کیا جو وہاں اُس وقت حاضر سروس ملازم تھا، ساتھ ہی اُسے نگراں وزیر خزانہ بھی نامزد کردیا۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پاکستان میں پہلی بار آئی ایم ایف کی ٹیم آئی ایم ایف سے مذاکرات کررہی ہے۔ یہ تماشا قوم 1958ء کے بعد سے کئی بار دیکھ چکی ہے۔