چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کے خلاف ایک ویڈیو اور آڈیو کال منظرعام پر آئی جس پر ملک بھر میں شور بلند ہونے لگا اور چیئرمین نیب کے کردار کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اپوزیشن نے معاملے کی تحقیقات کے لیے پارلیمنٹ کی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم طاقت ور سرپرستوں نے فیصلہ کیا ہے کہ چیئرمین نیب کام کرتے رہیں گے، بلکہ اب حکومت پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا، جس کے لیے پرویز خٹک، فیصل واڈا جیسے وزرا نیب کے ریڈار پر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ویڈیو معاملہ ہے کیا؟ اس کیس میں تین مرکزی کردار ہیں: چیئرمین نیب، طیبہ گل اور حکومت۔ ساری کہانی انہی تینوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ طیبہ گل ایک سابق میجر فاروق کی اہلیہ ہے اور اسلام آباد میں رہتی ہے، سرگودھا میں پڑھتی رہی ہے، وہیں سے ایک موبائل فون کے مارکیٹنگ شعبے سے وابستہ ہوئی، اور ٹیلی فون سمیں فروخت کیا کرتی تھی، اسی دوران فاروق نول سے ملاقات ہوئی تو یہ ملاقات شادی تک جاپہنچی۔ یہ خاتون زمانے کی اونچ نیچ سے اچھی طرح واقف ہے، چونکہ مارکیٹنگ کے شعبے سے وابستہ رہی ہے لہٰذا اسے سب علم ہے کہ سرکاری اداروں میں کام کیسے ہوتا ہے، اور وہ ان تمام امور کے مراحل طے کرتی رہی ہے۔ یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ اس نے بہت مہارت سے ویڈیو بنائی ہے۔ اس کیس میں فی الحال تو نقصان چیئرمین نیب کو پہنچا ہے، کیونکہ ان کی شہرت متاثر ہوئی ہے۔ طیبہ گل اور اس کے شوہر کا کچھ بھی نہیں بگڑا، وہ تو پہلے بھی زیر عتاب تھے اور اب بھی ہیں۔ اس کھیل میں لین دین سے متعلق ابھی ایک چیز سامنے آنی ہے، ہوسکتا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد آجائے، یا پھر معاملہ کسی مفاہمت کی جانب چل پڑے۔ طیبہ گل کے مطابق چیئرمین نیب سے اس کا تعارف تین سال قبل اُس وقت ہوا جب وہ ایک ہائوسنگ سوسائٹی میں پلاٹ کے پیسے دینے کے باوجود پلاٹ نہ ملنے پر نیب کے پاس پہنچی، اور جسٹس (ر) جاوید اقبال کو درخواست دی، اور اسی دوران اُس کے خلاف بھی درخواستیں آنا شروع ہوگئیں۔ یوں نیب، طیبہ گل اور درخواست گزاروں کے مابین مقدمہ بازی شروع ہوگئی۔ طیبہ کا مؤقف ہے کہ وہ کسی گینگ کا حصہ نہیں، انصاف لینے نیب کے پاس پہنچی تھی لیکن مافیا کے چنگل میں پھنس گئی۔ بقول اس کے، چیئرمین نیب اسے فلیٹ پر آنے، دفتر آنے اور اسلام آباد کلب میں ملنے کے لیے کہتے رہے، لہٰذا وہ اپنا کیس بھول کر چیئرمین نیب کو بے نقاب کرنے کے لیے دوستی کرنے پر آمادہ ہوئی۔ لیکن یہ ساری کہانی اتنی سادہ نہیں جتنی بیان کی گئی ہے۔ طیبہ گل کی نظر اس کے اپنے مفاد پر تھی، لہٰذا وہ اپنے اہداف کے حصول کے لیے سب کچھ کر گزرنے کو تیار تھی۔ اسے خود پر اعتماد بھی تھا کیونکہ وہ ایک سیاسی کارکن بھی رہی ہے اور چنیوٹ میں تحریک انصاف کی ایک متحرک کارکن کے طور پر جانی جاتی رہی ہے۔ چیئرمین کی ویڈیو کا کیس بہت پیچیدہ ہے اور خالصتاً انفرادی مفادات کا کھیل ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ اسے حکومت نے استعمال کیا وہ بھی غلط ہیں، اور جو سمجھتے ہیں کہ اسے اپوزیشن نے استعمال کیا اُن کی رائے بھی درست نہیں ہے۔ تاہم خود چیئرمین نیب نے اپنے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ انہیں صدرِ پاکستان اور سینیٹر بنانے کی پیش کش ہوئی ہے۔ چیئرمین نیب کا یہ بیان بہت اہم ہے۔ انہیں یہ پیش کش صرف حکومت ہی کرسکتی ہے، اپوزیشن کے بس میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ طیبہ گل کا کیس کم و بیش ایک ماہ سے اندر ہی اندر پک رہا تھا جس کا اندازہ خود چیئرمین نیب کو بھی ہوچکا تھا، اسی لیے انہوں نے اپنے اسٹاف کے ذریعے ’’منتخب‘‘ کالم نگار سے رابطہ کیا اور انہیں سب کچھ بتادیا۔ جو کہانی کالم میں بیان کی گئی ہے وہ حرف بہ حرف درست ہے۔ چیئرمین نیب اپنے قریبی حلقوں میں اس کھیل کے بارے میں بھی اظہارِ خیال کرچکے تھے۔ اگر اس کھیل کے بارے میں کچھ لکھا اور کہا جائے تو صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ اصل میں اسٹیبلشمنٹ کے اپنے کرداروں کی باہمی لڑائی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جہاں تک چیئرمین نیب کا تعلق ہے، بطور اہم شخصیت کسی خاتون کے ساتھ یہ اُن کا پہلا معاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ میں ایک خاتون دو سابق ججوں کے مابین جھگڑے کا باعث بن چکی ہے۔ اگر یہاں نیب کا جائزہ لیا جائے تو کسی بھی چیئرمین کا دور مثالی نہیں رہا، پہلے چیئرمین نیب جنرل امجد حسین ایک پلاٹ اسکینڈل کی وجہ سے مستعفی ہوئے۔ ان کے بعد جنرل خالد مقبول شیخ چیئرمین بنے، انہوں نے پلی بارگین کا سسٹم متعارف کرایا۔ ان کے بعد جنرل منیر حفیظ آئے، ان کا نام تعلیمی اسناد میں تبدیلی لانے میں آیا۔ ان کے بعد جنرل شاہد عزیز ذاتی خواہش پر ریٹائرمنٹ کے بعد نیب کے چیئرمین بنائے گئے۔ جسٹس دیدار حسین پیپلزپارٹی کی وجہ سے عدالتی فیصلے کے باعث برطرف ہوئے۔ فصیح بخاری اور ان کے بعد قمر زمان چودھری اور اب جاوید اقبال تگڑی سفارش کی وجہ سے چیئرمین نیب بنے ہیں۔ جسٹس(ر) جاوید اقبال کا نام تو فہرست میں شامل ہی نہیں تھا، ان کا نام بھی آصف علی زرداری نے دیا۔ فصیح بخاری اور قمر زمان چودھری کا نام بھی آصف علی زرداری نے دیا تھا۔ آصف علی زرداری نے ہامی بھری تو مسلم لیگ(ن) کے ایک سینیٹر کے بھائی ایک پراپرٹی ٹائیکون کے کہنے پر انہیں لے کر نوازشریف کے پاس پہنچے تھے۔ ان کی رضامندی کے بعد ہی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور عمران خان نے ان کے نام کی حمایت کی تھی۔ جسٹس(ر) جاویداقبال نے اپنے ایک انٹرویو میں ملک ریاض کی تعریف بلاوجہ نہیں کی۔ اس تمام پس منظر کے حامل حقائق کے باوجود یہ کہنا اور سمجھنا غلط نہیں ہوگا کہ جس طرح مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی احتساب نہیں چاہتیں، اب تحریک انصاف بھی اسی ڈگر پر چل پڑی ہے۔ یہ ویڈیو سامنے لانے میں حکومت پوری طرح شامل ہے۔ وزیر داخلہ چاہیں تو حقائق سامنے لاسکتے ہیں۔ مگر اس ویڈیو کا مقصد کچھ اور ہے، حکومت اس کے ذریعے کچھ ہدف پانا چاہتی ہے، اسے علم ہے کہ چیئرمین نیب کا عہدہ خالی ہوگیا تو ان کی جگہ دوسری تقرری بہت مشکل ہے، کیونکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں سینگ پھنسائے بیٹھی ہیں، اگر یہ عہدہ خالی رہتا ہے تو عارضی طور پر ڈپٹی چیئرمین ہی سے کام چلایا جائے گا۔ لیکن نیب آرڈی نینس ڈپٹی چیئرمین نیب کو مقدمات پر ریفرنس بنانے کے اختیارات نہیں دیتا، نیب میں چیئرمین نیب اور چیف پراسیکیوٹر ہی بااختیار ہیں، ان میں سے کوئی عہدہ خالی ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نیب بند۔ اگر ڈپٹی چیئرمین سے کام چلانے کا فیصلہ ہوا تو یہی سمجھا جائے کہ نیب نئے چیئرمین کی تقرری تک بند رہے گا، دوسری صورت میں اس قانون میں ترمیم لانا پڑے گی۔ یہ ترمیم اپوزیشن کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ چیئرمین نیب کو تگڑے لوگوں کی سرپرستی میسر ہے، لہٰذا یہ وار فی الحال خالی گیا ہے، تاہم یہ ویڈیو چیئرمین نیب کو کمزور ضرور کر گئی ہے، اب وہ بلیک میل ہوتے رہیں گے۔ ان کے سامنے ایک بڑا مافیا ہے جو احتساب کے عمل کے خلاف کام کررہا ہے۔ یہ مافیا پیسے کے بل بوتے پر سیاسی جماعتوں کے اندر بہت اثر رسوخ اور قوت رکھتا ہے، اسی لیے چیئرمین نیب کو اس منصب پر پہنچ کر خود کو قابو میں رکھنا چاہیے تھا، مگر وہ ناکام رہے ہیں، بہک جانے کی وجہ سے ویڈیو لیک کا شکار بنے ہیں۔ جب تک وہ سپریم کورٹ کے جج رہے اُس وقت تک کوئی بھی انہیں دھمکا نہیں سکا، حالانکہ ایک اطالوی خاتون کا کیس اُس وقت بھی سامنے آیا تھا، تفصیلات نہ ہی کھولی جائیں تو بہتر ہے۔ اب وہ چونکہ سپریم کورٹ کے جج نہیں رہے، لہٰذا انہیں آئینی تحفظ بھی میسر نہیں، اس لیے ان پر وار آسانی سے کیا گیا ہے۔ مگر یہاں طیبہ گل اور چیئرمین نیب دونوں مکمل سچ نہیں بول رہے، بلکہ آدھا سچ بول رہے ہیں۔ ملک کا میڈیا اُس مافیا کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے جو اس ملک میں احتساب نہیں چاہتا۔ چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کے خلاف کچھ عرصے سے ایک مہم جوئی کی جارہی تھی، انہیں بریگیڈیئر اسد منیر کیس بھی خود ہی دیکھنا چاہیے تھا، اس کیس کے بعد اب یہ دوسرا وار اسی مہم جوئی کا حصہ ہے۔ اس مہم جوئی کے آغاز پر ہی کارروائی کرنا چاہیے تھی، لیکن چونکہ احتساب کا عمل بھی خاص امتیاز کے ساتھ کیا جارہا ہے، لہٰذا بہت سے فیصلے ایسے ہیں جنہیں کبھی اخلاقی حمایت فراہم نہیں کی جاسکتی، اور نہ وہ جسٹس(ر) جاوید اقبال کے بس میں ہیں، اس میں لاہور نیب کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی ڈگری کا معاملہ بھی ہے۔ ان کی ڈگری درست ثابت کرنے کے لیے بیس ہزار دیگر ڈگریاں بھی درست تسلیم کرنا پڑی ہیں، اور خود چیئرمین نیب کی حیثیت سے جسٹس(ر) جاویداقبال کی تقرری بھی غیر معمولی حالات میں ہوئی تھی۔ ملکی حالات کے پیش نظر انہیں محتاط رہنے کی ضرورت تھی، مگر وہ ناکام رہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم کو تحقیقات کا حکم دینا چاہیے۔ چیئرمین نیب سے کام نہ کرنے کا مطالبہ درست نہیں، تحقیقات کے لیے ایسی اعلیٰ سطحی ٹیم ہونی چاہیے جس پر کسی کو شک نہ ہو، حکومت چاہے تو اس معاملے میں جوڈیشل انکوائری بھی ہوسکتی ہے۔ چیئرمین نیب عہدہ چھوڑ دیتے ہیں تو اُن کی جگہ نئے چیئرمین کا تقرر مشکل کام ہوگا۔ حکومت نے ازخود تحقیقات شروع کیں تو اس پر الزام آئے گا کہ وہ چیئرمین نیب کو ہٹانا چاہتی ہے۔ چیئرمین نیب کی اس معاملے میں کردارکشی ہورہی ہے، وہ خود بھی چاہیں گے کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات ہوں۔ جو انہیں قریب سے جانتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ جسٹس(ر) جاوید اقبال ویسے بھی بہت کمزور اور مفاہمت کے عادی ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کے والدین اُس وقت اُن کے سوتیلے بھائی نوید اقبال کے ہاتھوں قتل ہوئے جب وہ خود سپریم کورٹ کے جج تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ اس بارے میں جسٹس(ر) جاوید اقبال خود بتادیں تو بہتر ہوگا۔
اس ویڈیو کو نشر کرنے والے مختلف کرداروں سے بات کرکے کہانی جاننے کی کوشش کی گئی، تاہم کوئی بھی ذمہ دار شخص آن ریکارڈ کچھ بتانے کو تیار نہیں۔ چیئرمین نیب کی ویڈیو بنانے والی خاتون طیبہ فاروق بہت عرصے سے یہ ویڈیو میڈیا کے ذریعے سامنے لانے کی کوشش میں تھیں، نیوز ون ٹی وی کے لاہور دفتر میں طیبہ فاروق نے ایک اینکر تک رسائی حاصل کی اور اُن سے ویڈیو اور چیئرمین نیب کی جانب سے دباؤ ڈالے جانے کے بارے میں بات کی۔ اینکر نے پہلے ویڈیو اور آڈیو دیکھنے اور سننے کے لیے فراہم کرنے کے لیے کہا، جس کے بعد اس کو خبر کے طور پر نشر کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیے جانے سے آگاہ کیا۔ طیبہ فاروق کی جانب سے اینکر کو ویڈیو فراہم کی گئی تو اینکر اس کو نشر نہ کرسکے اور چینل کے مالک سے اسلام آباد میں ملاقات کے لیے پہنچ گئے۔ چینل مالک کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وہ ویڈیو پہلے وزیراعظم عمران خان کو دکھانا چاہتے تھے جو نیب کی کارکردگی اور ادارے کے سربراہ جاوید اقبال سے نالاں ہیں، ویڈیو کے بارے میں نیب کے چیئرمین جاوید اقبال سے بھی بات کرنا چاہتے تھے، تاہم ایسا نہیں ہوا، ویڈیو کو صرف ایک خاص خبر کے طور پر نشر کرنے کا پیشہ ورانہ فیصلہ کیا گیا، اور اس کے لیے نیوز ون کے مالک سے دو گھنٹے بحث ہوتی رہی۔ جب چینل کے مالک کو ویڈیو کو بطور خبر نشر کرنے پر قائل کیا گیا تو اُن سے آنے والے ممکنہ دباؤ کے بارے میں بھی بات کی گئی۔ جس روز یہ خبر نشر ہوئی طیبہ اُس روز نجی ٹی وی چینل کے دفتر گئی تھی، اس کے بعد ٹی وی چینل پر اس کی ویڈیو نشر ہوئی اور نیب کے چیئرمین خبر بن گئے۔