وادیٔ کشمیر میں شہرۂ آفاق حریت پسند برہان وانی کے قریبی ساتھی ذاکر موسیٰ کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت کے بعد کشمیر کا آتش فشاں ایک بار پھر پھٹ پڑا ہے۔ پچیس سالہ ذاکر رشید بٹ عرف ذاکر موسیٰ بھارتی فوج کو مطلوب افراد میں شامل تھے اور اُن کے سر کی قیمت بارہ لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی۔
ذاکر موسیٰ بھی کشمیر کی اُس نسل سے تعلق رکھتے تھے جس نے عہد ِآشوب میں آنکھ کھولی اور اپنے دائیں بائیں گولیوں کی آوازوں، بارود کی بو اور ماتمی صدائوں اور کرفیو کی صورت درد و کرب کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان عملی شکل میں ڈھلتی دیکھی۔ اس ذہنی کیفیت اور ماحول نے وادی میں آزادی کی جدوجہد کو نیا رنگ و آہنگ عطا کیا۔ خوش حال گھرانوں سے وابستہ اور اچھے تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرنے والے نوجوانوں نے مزاحمت اور جدوجہد کو اپنا شعار بنالیا۔ برہان وانی اس نسل کا نمائندہ بن کر اُبھرا۔ فوجی وردی میں ملبوس برہان وانی کے بارہ ساتھیوں کی جس تصویر نے سوشل میڈیا پر دھوم مچادی تھی، ذاکر موسیٰ اس میں شامل تھے۔ انہیں برہان وانی کا جانشین بنایا گیا، اور نوجوانوں میں ان کی مقبولیت نہ صرف قائم رہی بلکہ بڑھتی ہی چلی گئی۔ احتجاجی اور ماتمی جلسوں میں ذاکر موسیٰ کے نعرے بلند ہوتے رہے۔ لوگ ان کے پوسٹر لہراتے رہے۔ برہان وانی حزب المجاہدین کے ’’پوسٹر بوائے‘‘ کہلائے۔ ان کی شخصیت نوجوانوں کو مزاحمت کی طرف کھینچتی رہی۔ ذاکر موسیٰ حزب المجاہدین میں ان کے جانشین تو بنے مگر وہ زیادہ دیر تک اپنے پیش رو کی ڈگر پر قائم نہ رہ سکے اور انہوں نے اعلان کیا کہ کشمیر میں پاکستان یا خودمختار کشمیر کے لیے سیاسی جدوجہد نہیں ہورہی بلکہ کشمیری عوام خلافت کے قیام کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حریت قیادت خلافت کی راہ میں رکاوٹ ہے، انہیں قتل کردینا چاہیے۔ ذاکر موسیٰ کے یہ خیالات حزب المجاہدین کے لیے قابلِ قبول نہیں تھے۔ اس کے بعد ذاکر موسیٰ نے حزب المجاہدین سے اپنی راہیں جدا کرلیں اور حزب المجاہدین نے بھی ان سے لاتعلقی کا اعلان کیا، جس کے بعد سے یہ اشارے ملنا شروع ہوگئے کہ ذاکر موسیٰ وادی میں داعش جیسی کسی تنظیم کے نیٹ ورک کی بنیاد ڈالیں گے۔ جلد ہی ذاکرموسیٰ نے غزوۃ الانصارالہند کے نام سے ایک تنظیم قائم کرلی جس سے ان کی سوچ میں ایک واضح تبدیلی کا اشارہ مل رہا تھا۔ کشمیر میں تمام عسکری گروپ خود کو داخلی اور سیاسی ایجنڈے یعنی حقِ خودارادیت کے ساتھ وابستہ رکھے ہوئے ہیں، ایسے میں ذاکر موسیٰ کا ایجنڈا ایک نئی آواز تھی۔ یہ حالات سے مایوس اور غصے سے بھرے نوجوانوں کے لیے پُرکشش تو ضرور تھی مگر اس سے کشمیر کی داخلی تحریک کو بین الاقوامی دہشت گردی کے ساتھ جوڑے جانے کا خدشہ تھا۔
ذاکر موسیٰ نے نئی تنظیم کے پلیٹ فارم سے بھی مزاحمت جاری رکھی اور بھارتی فوج ان کی تلاش میں سرگرداں رہی۔ نوجوانوں میں ان کی مقبولیت نہ صرف قائم رہی بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ آخرکار بھارتی فوج نے انہیں جالیا اور ذاکر موسیٰ کو ایک مکان میں گھیر کر شہید کردیا گیا۔
ذاکر موسیٰ کی شہادت کے بعد کشمیر میں حالات کا آتش فشاں ایک بار پھر لاوہ اُگلنے لگا ہے۔ ان کی نمازِ جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ عوام کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ بیس بار نمازِ جنازہ ادا کرنا پڑی۔ ’’موسیٰ موسیٰ ذاکر موسیٰ‘‘ کے نعروں کی گونج میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ وادی میں کاروبارِ حیات معطل ہوگیا ہے، انٹرنیٹ پر پابندی ہے اور احتجاج کو دبانے کے لیے اعلانیہ کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ بھارتی فوج نے ذاکر موسیٰ کی شہادت کو اپنی ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔
ذاکر موسیٰ بھی کشمیر کی اس نوجوان نسل کا نمائندہ تھا جو خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھتی اور وقت اور حالات کے جدید تقاضوں سے آشنا ہے۔ ذاکر کے والد رشید بٹ ریٹائرڈ سول انجینئر، ان کے بڑے بھائی شاکر رشید آرتھوپیڈک سرجن، اور ان کی بہن شاہینہ رشید بینکر ہیں، اور خود ذاکرموسیٰ چندی گڑھ کے انجینئرنگ کالج سے تعلیم ادھوری چھوڑ کر مزاحمتی تحریک کا حصہ بنے تھے۔ مزاحمت کا یہ پہلو بھارت کے صاحب الرائے لوگوں کو چکرا کر رکھ دیتا ہے کہ بے روزگاری اور معاشی بدحالی سے کوسوں دور نوجوان آخر کیوں اپنی جانیں ہتھیلیوں پر لے کر نکل پڑتے ہیں؟ یہی سوال اور یہی پہلو کشمیر کے مسئلے کی سیاسی حیثیت کو اجاگر کرنے کا باعث بھی بن رہا ہے، یعنی یہ کہ کشمیر بے روزگاری اور معاشی بدحالی کا مسئلہ نہیں بلکہ اس کا اصل عارضہ تاریخ میں دور تک گہری جڑیں رکھنے والا سیاسی ہے۔
ذاکر موسیٰ کی شہادت کا واقعہ عین اُس دن ہوا جب بھارت میں نریندر مودی کی کامیابی کا جشن منایا جارہا تھا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ذاکر موسیٰ سمیت کشمیر کا ہر جوان بھارتی ایجنسیوں کے راڈار پر موجود ہے۔ ہر نوجوان کا ڈیٹا ان کے پاس جمع ہے۔ ذاکر موسیٰ کی شہادت کے لیے بہت سوچ سمجھ کر اس دن کا انتخاب کیا گیا جب بھارت میں نریندر مودی کی فتح کا جشن منایا جارہا تھا۔ یوں ایک معروف شخصیت کو نشانہ بناکر فتح کے نشے کو دوآتشہ کرنے کی حکمت عملی اپنائی گئی۔ تجزیہ نگاروں کی اس رائے کو درست مانا جائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کشمیر کو کس انداز سے دیکھ رہا ہے اور کشمیر کے حالات پر قابو پانے کے لیے کس حد تک جانے کو تیار ہے۔ کشمیر لوک سبھا کے انتخابات اور ان کے نتائج، کامیابیوں اور ناکامیوں سے بے نیاز ہوکر ذاکر موسیٰ کی شہادت پر غم زدہ، افسردہ اور ماتم کناں تھا اور ہے۔ یہ بھارت اور کشمیر کے تعلق کے مصنوعی اور غیر فطری ہونے کی ایک اور گواہی ہے۔
ذاکر موسیٰ کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والی اس صورت حال میں حکومتِ پاکستان کو تیزی کے ساتھ اپنے سفارت خانوں اور اقوام متحدہ میں اپنی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کو متحرک کرنا چاہیے کہ بھارت اس عوامی احتجاج کو دبانے کے لیے ایک بار پھر ظلم وتشدد کا سہارا لے سکتا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی مودی کی واپسی میں اچھے امکانات کی امید چھوڑ کر وادی میں پیدا ہونے والی صورت حال پر اسلامی ملکوں کے ساتھ رابطہ کرنا چاہیے۔