جاوید اقبال خواجہ ایک مخلص انسان

ظہور احمد نیازی
ڈاکٹروں سے سنا تھا کہ دل کے دورے کا سب سے بہترین وقت وہ ہے جب ایک شخص آپریشن ٹیبل پر ہو۔ کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر ڈاکٹر اس کا علاج شروع کرسکتے ہیں۔ لیکن ہمارے عزیز دوست جاوید اقبال خواجہ کے معاملے میں یہ مقولہ غلط ثابت ہوگیا۔ وہ جنوبی لندن کے معروف سینٹ جارجز اسپتال کی آپریشن ٹیبل پر تھے۔ تمام ادویہ، آلات، نرسیں اور ڈاکٹر موجود تھے۔ انجیوگرافی ہورہی تھی، اس دوران ان کا بدن بری طرح کانپنے لگا۔ دل کا شدید دورہ پڑا۔ بلڈ پریشر بہت نیچے چلا گیا۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ وہ اسٹنٹ ڈال کر دل کی بند رگ کھول دیں گے، لیکن اس کا موقع نہ آسکا۔ دل نے کام کرنا چھوڑ دیا اور ان کی روح خالقِ حقیقی کی جانب پرواز کرگئی، جس کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ موت سے کسی کو مفر نہیں۔ جس کا جو وقت مقرر ہے موت اسے آلے گی۔ نہ ایک لمحے کی تاخیر کی جاسکتی ہے، نہ ایک لمحے پہلے موت آسکتی ہے۔ سعید ارواح کو سبز خوشبودار غلاف میں لپیٹ کر فرشتے ساتوں آسمانوں سے گزر کر عرش معلیٰ تک لے جاتے ہیں۔ بری ارواح کے لیے پہلے آسمان کا دروازہ ہی نہیں کھولا جاتا اور وہیں سے سجین میں پٹخ دی جاتی ہیں۔ جاوید اقبال کے اخلاق، کردار، خدا خوفی، صلہ رحمی اور خاموشی سے ضرورت مندوں کی مدد کرنے کو دیکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ فرشتے جب ان کی سعید روح کو لے کر عرشِ معلیٰ تک پہنچے ہوں گے تو اس روح کو عرش کے نیچے اپنے رب کو سجدہ کرنے کی اجازت ملی ہوگی۔
زندگی میں ہزاروں لوگوں سے واسطہ رہتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا خلوص آپ کا دل اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ 40 سال کے لگ بھگ دوستی کے عرصے میں جاوید کی زبان سے نہ کسی کی غیبت سنی، نہ جھوٹ۔ گالی تو کیا، کسی کے لیے اُن کی زبان سے غیر شائستہ الفاظ تک نہیں سنے۔ طبیعت سنجیدہ تھی مگر مسکراہٹ گویا چہرے پر چپکی رہتی تھی۔ دوست ہوں یا گاہک، سب کے ساتھ خلوص و پیار سے معاملہ کرتے تھے۔ کسی سے اُلجھتے تھے نہ کسی کو زبردستی قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ نرمی سے اپنا نقطہ نظر بیان کردیتے تھے۔
جاوید یکم مارچ 1953ء کو خوشاب میں پیدا ہوئے۔ سات بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ والد صاحب کی اتنی آمدنی نہیں تھی کہ اخراجات آسانی سے پورے ہوں۔ 16 سال کی عمر میں ہی خاندان کی کفالت میں شریک ہوگئے۔ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ روزگار کے لیے کراچی منتقل ہوگئے۔ اس دوران ماسٹر آف لا (ایل ایل ایم) کرلیا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں سے متاثر ہوکر تجدید و احیائے دین کی سرگرمیوں میں شامل ہوگئے۔ ان کی پوری زندگی محنت، محنت اور سخت محنت سے عبارت ہے۔ مطالعے کے شوق کی بنا پر ہر اچھی کتاب خرید لیتے۔ ان کی وسیع لائبریری ان کے شوق کا پتا دیتی ہے۔
کراچی میں محمد عمر شیخ کی ملاقات اس نوجوان سے ہوئی۔ مرحوم شیخ لندن میں الیکٹرونکس کا کاروبار کرتے تھے۔ وہ اس نوجوان کے صاف ستھرے اجلے کردار، شگفتہ مزاج اور اچھے اخلاق سے متاثر ہوئے اور انہوں نے وہیں فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنی چھوٹی بیٹی شوکت کو ان کی زوجیت میں دیں گے۔ شیخ صاحب نے جاوید کو 1977ء میں لندن بلالیا۔ شادی ہوگئی اور وہ اپنے ہم زلف کے ہمراہ شیخ صاحب کی مرکزی لندن میں گوج اسٹریٹ ٹیوب اسٹیشن کے عقب میں واقع دکان پر کام کرنے لگے۔ کئی سال کے تجربے نے انہیں حوصلہ دیا اور شیخ صاحب کی اجازت سے انہوں نے الیکٹرونکس کا اپنا کاروبار شروع کردیا۔ اس دوران وہ روزنامہ جسارت کراچی کے لیے لکھتے رہے۔ محمد صلاح الدین شہید نے جسارت سے علیحدگی کے بعد جب اپنا ہفت روزہ تکبیر شروع کیا تو جاوید کو برطانیہ میں اپنا نمائندہ مقرر کردیا اور وہ باقاعدگی سے اس میں لکھتے رہے۔
ذوقِ مطالعہ نے انہیں تاریخ کا طالب علم بنادیا۔ یونیورسٹی آف لندن کے اسکول آف اورینٹل و افریقین اسٹڈیز (SOAS) سے انہوں نے تاریخ میں ایم اے کرلیا۔ یہ دور لندن میں ادبی سرگرمیوں کے عروج کا سنہری دور تھا۔ اردو مرکز کے زیر اہتمام برادرم افتخار عارف کی ہر دلعزیز شخصیت اور کاوشوں سے برطانیہ بھر کے ادیبوں، شاعروں اور اہلِ علم کو ایک پلیٹ فارم مل گیا تھا، بلکہ پاک و ہند سے آنے والے شعراء اور ادیبوں کے لیے بھی SOAS کے خوبصورت آڈیٹوریم میں تقریبات کا اہتمام کیا جاتا تھا جہاں علمی اور ادبی شخصیات سے ملاقات رہتی تھی۔ جاوید اقبال بھی ان محفلوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔ افتخار عارف کی ان محفلوں نے سب کا حلقہ احباب وسیع کردیا تھا۔ اردو مرکز کے خاتمے کے بعد برطانیہ کی ادبی سرگرمیوں پر جو جمود طاری ہوا وہ متعدد کوششوں کے بعد آج تک دور نہ ہوسکا۔ افتخار بھائی بھی جاوید اقبال سے خصوصی لگائو رکھتے تھے۔ حیرت ہے کہ لندن میں رہتے ہوئے جاوید اقبال کے وصال کی پہلی اطلاع اسلام آباد میں رہنے والے افتخار عارف کے توسط سے موصول ہوئی۔ انہوں نے اپنی بیٹی گیتی کو، اور گیتی نے ڈاکٹر جاوید شیخ کو، اور انہوں نے مجھے فون کرکے اطلاع دی۔
ہمارے ایک مشترکہ دوست ڈاکٹر زوار حسین زیدی SOAS میں استاد تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پاکستان جا کر اسلام آباد میں ایک ادارے قائداعظم پیپرز کے سربراہ ہوگئے تھے۔ وہ جاوید اور مجھے تاکید کیا کرتے تھے کہ ہم لوگ ڈاکٹریٹ کرلیں۔ جنگ لندن کی ذمہ داریوں اور مصروفیات کی وجہ سے میں تو ذہنی طور پر اس کے لیے تیار نہ ہوسکا حالانکہ جاوید بھی مجھے اکساتے رہتے تھے کہ اس کام کا بیڑہ اٹھالیا جائے، دونوں مل کر داخلہ لے لیتے ہیں۔ میں معذرت ہی کرتا رہا۔ پتا نہیں اپنی مصروفیات کی وجہ سے یا میری وجہ سے وہ بھی ہمت چھوڑ بیٹھے اور ڈاکٹریٹ نہ کی۔
ڈاکٹر ہمیشہ ڈراتے رہتے ہیں کہ اگر موٹاپا ہوا، گوشت، چکنائی اور تلی ہوئی چیزیں استعمال کرتے رہے، ورزش نہ کی تو دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی امر جاوید بھائی میں نہیں پایا جاتا تھا۔ اکہرے بدن کے چست و صحت مند انسان تھے۔ ہمیشہ گھر کا صحت مند کھانا کھاتے تھے۔ چکنائی اور تلی ہوئی چیزوں سے پرہیز کرتے تھے۔ ٹریڈ مل پر روزانہ گھر میں ہی 20 سے 30 منٹ تیز قدمی سے چلتے تھے۔ اس کے بعد ایکسر سائز بائیک پر 15 سے 20 منٹ لگاتے تھے۔ انتقال سے ایک ہفتہ پہلے ہی کئی گھنٹے لگا کر انہوں نے فرنٹ گارڈن کی صفائی کی۔ نہ سانس پھولی، نہ تھکن ہوئی۔ پیر 8 اپریل کو 10 بجے کے لگ بھگ انہیں دائیں بازو اور پھر کمر میں شدید درد شروع ہوا۔ اعصابی درد سمجھتے ہوئے انہوں نے اہلیہ سے کہا کہ کمر اور بازو پر مالش کردیں۔ درد میں کوئی کمی نہیں آرہی تھی تو اہلیہ نے ساڑھے دس بجے ایمبولینس بلالی۔ پیرامیڈیکل اسٹاف نے وہیں پر ECG کی تو انہیں پتا چلا کہ معاملہ اعصاب کے درد کا نہیں، دل کا ہے۔ وہ انہیں لے کر فوراً سینٹ جورجز اسپتال پہنچے اور آپریشن ٹیبل پر ہی ان کا صفحہ ہستی لپیٹ دیا گیا۔ ان کی میت لے کر جب ان کے بیٹے قبرستان پہنچے تو ان کی قبر کے اطراف میں کتنی ہی قبروں پر رخصت ہونے والوں کی عمریں 35، 37 لکھی ہوئی تھیں۔ میرے صاحبزادے کے قریب ہی جاوید بھائی کو دفن کیا گیا جو پچھلے سال 39 سال کی عمر میں چل بسا تھا۔ نمازِ جنازہ چیزل ہرسٹ کے مسلم قبرستان میں ہی ادا کی گئی۔ مرحوم کے بڑے صاحبزادے نوید نے امامت کی۔ کاش سارے ہی والدین اپنے بچوں کی اتنی تربیت کردیں کہ وہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھا سکیں۔
1981ء کے اوائل میں روزنامہ ملت کے ایڈیٹر کی حیثیت سے میں لندن آیا۔ ان دنوں جنگ اور ملت دو ہی اخبار تھے۔ دونوں ہفتے کے روز چھٹی کیا کرتے تھے اور اتوار کو اردو کا کوئی اخبار نہیں ہوتا تھا۔ ہفتے کی پہلی چھٹی پر ہی انہوں نے اپنے کام پر آنے کی دعوت دی اور پھر مجھے آکسفورڈ اسٹریٹ گھمانے لے گئے جہاں بڑے بڑے اسٹورز ہیں۔ بعدازاں ان کا ہمارے اور ہمارا ان کے گھر جانے کا معمول رہا۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے تینوں بچے جوان ہوگئے، شادیاں ہوئیں، ان کے بچے ہوگئے۔ 40 سال کے لگ بھگ یہ عرصہ پلک جھپکتے تمام ہوا۔ اس سارے عرصے میں ان سے محبت اور احترام کا رشتہ برقرار رہا۔ نہ کبھی غلط فہمی پیدا ہوئی، نہ شکایت۔
ان کی شگفتہ مزاج اہلیہ شوکت فروری 2010ء میں کسی ظاہری عارضے کے بغیر اچانک انتقال کرگئیں۔ وہ سب کا خیال اور لحاظ رکھنے والی خوش مزاج خاتون تھیں۔ ہماری مرحوم اہلیہ اور ان کا فون پر بھی رابطہ رہتا تھا۔ ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرتی رہتی تھیں۔ جاوید بھائی کے گھر پاکستان سے آنے والے مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ میاں بیوی خوش دلی سے ان کا استقبال کرتے تھے۔ مہمانوں کو اللہ کی رحمت جانتے تھے۔ ان کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے تھے۔ زندگی بھر کے ایسے ساتھی کی جدائی کو جاوید نے نہایت حوصلے سے برداشت کیا۔ اللہ کی رضا پر راضی رہے۔ دو سال بعد 2012ء میں جا کر جاوید نے دوسری شادی کی۔ نئی اہلیہ سے بھی ان کے تعلق کا یہ عالم تھا کہ جنازے پر سب سے زیادہ ان کی اہلیہ آنسو بہا رہی تھیں۔
جاوید کے بچوں میں سب سے بڑی ان کی بیٹی عفت ہے۔ دو بیٹے ہیں۔ میں نے عفت سے پوچھا: تم نے اپنے باپ کو بحیثیت انسان کیسا پایا؟ تو ان کا کہنا تھا: مجھے ان کی بیٹی ہونے پر فخر ہے۔ میں نے زندگی بھر یہی دیکھا کہ ان کی دو ترجیحات رہیں۔ اوّل: اپنے ربّ سے لگائو۔ ساری زندگی انہوں نے پابندی سے نماز پڑھی۔ روزانہ صبح ترجمے اور تفسیر کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرتے۔ ان کا پسندیدہ مشغلہ مطالعہ تھا۔ اسلام، تاریخ اور سیاست کا مطالعہ ان کا ذوق و شوق تھا۔ جب وقت ملتا کوئی نہ کوئی کتاب ان کے ہاتھ میں ہوتی۔ آخرت میں جواب دہی کا احساس انہیں کوئی غلط کام نہیں کرنے دیتا تھا۔ معاملات میں اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ کسی کی حق تلفی کے مرتکب نہ ہوں۔ اپنے تعلقات کی بنا پر لوگوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے تھے بلکہ حتی المقدور انہیں فائدہ دیتے تھے۔عفت کی اس بات کا تو خود میں بھی گواہ ہوں کہ اپنے دوستوں کو خصوصاً الیکٹرونکس کی خریداری میں مشورے بھی دیتے تھے اور جو اُن سے کوئی چیز خریدنا چاہے اسے قیمتِ خرید پردے دیا کرتے تھے۔ عام خریداروں کو بھی انہوں نے کبھی غلط مشورہ نہیں دیا۔ ان کے اس اخلاص کی بنا پر ہی شاید اللہ نے ان کے کاروبار میں برکت دی تھی۔ بکنگھم پیلس کے عقب میں پیلس سے چند گز کے فاصلے پر مہنگے ترین علاقے میں ان کا کاروبار ہے، جو کئی سال سے اب ان کا چھوٹا بیٹا عاصم چلا رہا ہے۔
عفت کا کہنا تھا کہ میرے ابو کی دوسری ترجیح خاندان تھا۔ بچوں سے بے حد پیار کرتے تھے۔ کاروبار سے فارغ ہوتے تو اپنا وقت نواسی اور چھ پوتے پوتیوں کے ساتھ گزارتے۔ انہوں نے اپنی کامیابی کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے اعزہ کو بھی صائب مشوروں سے نوازتے تھے۔ خاندان میں مشہور ہے کہ جس کسی کو اچھا مشورہ لینا ہو وہ جاوید سے رجوع کرے۔ بچوں پر انہوں نے کبھی سختی نہیں کی۔ ایک مؤرخ کی حیثیت سے وہ ہمارے ساتھ اپنے مطالعے سے اخذ کردہ معلومات شیئر کرتے تھے تاکہ ہماری ذہنی آبیاری ہو اور ہم خود صحیح فیصلے کرسکیں۔ خصوصاً مسلم ممالک پاکستان، کشمیر اور فلسطین وغیرہ کے بارے میں وہ ہمیشہ ہمیں بتایا کرتے تھے۔
میرے ابو کی شخصیت نہایت متوازن اور متواضع تھی۔ پاکستان میں کتنے ہی خاندانوں کی وہ اس طرح کفالت کرتے تھے کہ کسی کو پتا بھی نہ چلے۔ ابو کی رحلت پر جتنے بھی لوگوں نے ہم سے تعزیت کی، ان سب کا یہی کہنا تھا کہ مرحوم ایک مخلص انسان تھے۔ دوستوں سے تعلقات کو نبھاتے تھے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مرحوم کے برزخ کے مرحلے کو آسان فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب کرے۔