بدامنی اور دہشت گردی کے خلاف قومیں یک زبان و صف آراء ہوتی ہیں۔ ایسے میں ناکامی حکومت یا فورسز یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ہوتی ہے۔ دہشت گردی سے نیوزی لینڈ جیسا خوش حال اور کم آبادی والا ملک بھی محفوظ نہیں رہ سکا ہے، جہاں کرائسٹ چرچ کی مساجد میں پچاس افراد مذہبی و نسلی منافرت کا نشانہ بنے۔ جاں بحق افراد میں 9کا تعلق پاکستان سے تھا۔ وہاں کی وزیراعظم جس دلی رنج و درد اور انسان دوستی کے جذبے کے ساتھ نمودار ہوئیں اس سے ان کی جرأت مندانہ قیادت دنیا کے لیے مثال بن گئی۔ پوری قوم دہشت گردی اور منافرت کے خلاف ایک آواز ہو گئی۔ ان سانحات کے بعد نیوزی لینڈ کے اندر سے حکومتی وعوامی سطح پر پوری دنیا کے لیے قومی، نسلی اور مذہبی احترام اور بقائے باہمی کا پیغام گیا۔
پاکستان کے لیے نیوزی لینڈ کی مساجد میں سفاکی اور انسان کُشی کے یہ واقعات نئے یا انہونے تصور کے حامل نہیں۔ ہمارا ملک چند عشروں میں بڑے خوفناک واقعات و سانحات سہہ چکا ہے۔ مساجد، امام بارگاہیں، جلسہ جلوس، مارکیٹ، کھیل کے میدان، پولیس دفاتر و تھانے، ٹریننگ سینٹر، فوجی چھائونیاں، ایئرپورٹ، ایئر بیسز، بندرگاہ، اسپتال، عدالتیں، تعلیمی ادارے،غرض کوئی ایسا مقام و طبقہ نہیں رہا جو دہشت گردی سے محفوظ رہا ہو۔ مذہب، قوم اور نسل کی بنیاد پر انسانوں کا قتلِ عام جائز سمجھا گیا۔ مردم کُشی کے یہ واقعات ابھی تھمے نہیں ہیں۔ اس قوم و معاشرے کے افراد اب بھی مختلف نام و شناخت کے ساتھ کٹ مر رہے ہیں۔ اس ضمن میں بھی تعصبات کا مکروہ کھیل کھیلا جارہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ فلاں قوم کی نسل کشی ہورہی ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ فلاں قوم کا قتلِ عام کیا جاتا ہے۔ حالانکہ دہشت گردوں کے اپنے اہداف، مقاصد اور عزائم ہیں جن کے ارادے اور سرگرمیاں پوری قوم پر منکشف ہیں۔
کرائسٹ چرچ کے واقعے سے زیادہ سنگین سانحات محض بلوچستان اور اس کے دارالحکومت کوئٹہ میں رونما ہوچکے ہیں۔ 4 جولائی2003ء کو امام بارگاہ ہزارہ (کلاں یا اثناء عشریہ) میکانگی روڈ پر اس نوعیت کا پہلا حملہ ہوا۔ تین مسلح افراد امام بارگاہ میں گھس گئے جہاں نماز جمعہ ادا کی جارہی تھی۔ وہ دہشت گرد چن چن کر نمازیوں کو مارتے رہے، دستی بم پھینکتے رہے، یہاں تک کہ 55 بے گناہ افراد کے خون سے مسجد سرخ ہوگئی۔ اس حملے میں 170نمازی زخمی ہوئے۔ علماء، اساتذہ، بیوروکریٹس، پولیس آفیسر، مزدور اور عام افراد… کون کون قتل نہ ہوا! کوئٹہ کے پشتون درہ کے اندر جامع مسجد رحمانیہ میں نمازِ جمعہ کے خطاب کے وقت مسجد کے منبر میں ہونے والا ٹائم بم دھماکا تازہ مثال ہے۔ پیش ازیں مسجد الہدیٰ سیٹلائٹ ٹائون کے باہر نمازِ تراویح کے دوران سیکورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر بم حملہ کیا گیا، جس میں پانچ اہلکار جاں بحق ہوگئے۔
رحمانیہ مسجد میں دھماکا اگر کچھ تاخیر سے ہوتا تو بہت بڑا نقصان ہوتا۔ نقصان تو اب بھی ہوا کہ چار بے گناہ روزہ دار نمازی خالقِ حقیقی سے جاملے، تیس کے قریب افراد بری طرح زخمی ہوگئے جن میں مسجد کے خطیب مولوی عبدالرحمان بھی شامل ہیں جو کراچی کے ایک اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ان کے جوان پوتے مفتی عطاء الرحمان جو اُس وقت جمعہ کی تقریر کررہے تھے جاں بحق ہوئے۔ وہ نوجوان قاری، حافظ اور عالم دین تھے۔ بنوری ٹائون کراچی کے فارغ التحصیل تھے۔ کراچی ہی میں رہتے تھے۔ رمضان گزارنے گھر آئے تھے اور نماز تراویح بھی پڑھارہے تھے۔ ظاہر بات ہے کہ دہشت گردوں کے آلہ کار مقامی لوگ ہی ہیں۔ یقینا رحمانیہ مسجد بم دھماکا بھی علاقے سے پوری طرح واقفیت رکھنے والے کسی مقامی بدبخت انسان نے کیا ہے۔ تحقیقات ہورہی ہیں، اللہ کرے اللہ اور اس کے رسولؐ کا یہ باغی جلد قانون کی گرفت میں آجائے۔
سچی بات یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کرسکے ہیں۔ ہر گروہ اور جماعت سانحات پر اپنے قول، خیالات، ترجیحات اور مقاصد کی اسیر ہے۔ کوئی کسی گروہ کی زیادتیوں پر مہر بہ لب ہے، تو کوئی کسی گروہ کے لیے ہمدردی رکھتا ہے۔ سب اپنی رائے اور پالیسیوں کا بلا جھجک اظہار کرتے ہیں۔ امریکہ کی سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے کابل کے اسٹیج پر کٹھ پتلیاں بٹھا رکھی ہیں۔ تابع افغان حکومت اور وہاں موجود بھارت ہر طرح سے پاکستان کو زچ کررہے ہیں۔ ریاستی پالیسیاں ملک کے مفاد، فہم اور دوراندیشی سے عاری ہیں جبکہ تشدد وفساد کا سبب بننے والی تنظیموں کو پس پردہ قوتوں کی مدد حاصل ہے۔ سیاست کے راستے حل طلب مسئلے جمود کا شکار ہیں۔ چناں چہ جب تک من حیث القوم ان جملہ برائیوں، خرابیوں اور اشرار کے خلاف اکٹھا نہیں ہوا جاتا، تب تک ملک کے اندر سکون و قرار ممکن نہیں ہے۔ ان حالات میں فوج کی سیاست اور سول معاملات میں دخل اندازی مزید بگاڑ کا موجب بن رہی ہے۔