ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
خواجہ صاحب(یکم اپریل ۱۹۵۳ء- ۸؍ اپریل ۲۰۱۹ء) سے میری ملاقات ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ کراچی میں اُن کے کالم (مکتوب لندن) کے ذریعے ہوتی تھی۔ بالمشافہ ملاقات کئی سال بعد منصورہ میں ہوئی (جب وہ ایک بار لندن سے یہاں آئے ہوئے تھے)۔ وہ عبدالرحمن بزمی مرحوم (۲۷؍اگست ۱۹۳۰ء- ۱۴؍ نومبر ۲۰۰۵ء) کے نہایت قریبی دوست تھے۔ چنانچہ میں جب پہلی بار ۲۰۰۸ء میں لندن گیا، تو جاوید صاحب میری خواہش پر مجھے بزمی مرحوم کے بیٹوں، بیٹیوں سے ملوانے اُن کے گھر لے گئے۔ اُن کے اہلِ خانہ، مرحوم کا شعری مجموعہ شائع کرانا چاہتے تھے۔ انھوں نے جملہ دستیاب کلام، جاوید اقبال کے ذریعے مجھے بھیج دیا۔ راقم نے ترتیب لگائی، کمپوز کرایا، پروف خوانی کی، پھر برادر محترم حفیظ الرحمان احسن صاحب نے اسے باقاعدہ مرتب کیا۔ ابتدا میں ان کا مفصل مضمون شامل ہے۔ ’’حرفِ تمنا‘‘ پر جاوید اقبال خواجہ صاحب کا ایک مفصل مقدمہ بھی شامل ہے۔
جاوید صاحب کا آبائی تعلق جوہر آباد (ضلع خوشاب) سے تھا۔ انھوں نے کراچی یونی ورسٹی سے ایل ایل ایم کیا، لندن کے اسکول آف افریقن اینڈ اورینٹل اسٹڈیز سے ایم اے تاریخ کی ڈگری حاصل کی۔ پھر وہ لندن ہی کے ہوکر رہ گئے۔ اب لندن کے قلب میں بکنگھم پیلس روڈ پر اُن کی الیکٹرانکس کی دکان تھی۔ انھوں نے کاروبار اپنے بیٹوں کے سپرد کردیا تھا اور خود ایک طویل وقفے کے بعد کچھ لکھنے کی طرف متوجہ ہوئے تھے، جس کے لیے برادرم سلیم منصورخالد نے انھیں آمادہ کیا تھا۔ چنانچہ گزشتہ چھے مہینوں میں انھوں نے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں اعلیٰ درجے کے چند مضامین شائع کرائے۔ گزشتہ برس دو تین بار لاہور آئے۔ یہاں وہ اپنے بھائیوں کے ہاں قیام کرتے، اعزہ و اقربا سے ملتے، دوستوں سے تجدیدِ ملاقات ہوتی۔ ان کے ہر دورے میں ان سے کم از کم ایک بار ملاقات ضرور ہوجاتی۔ مارچ کے آخر میں تقریباً ایک ماہ یہاں رہ کر گئے۔ ملاقات بہت مختصر رہی۔ انھوں نے اپنے چند علمی منصوبوں کا ذکر کیا، جن کا تعلق مولانا مودودیؒ، قائداعظمؒ اور قیامِ پاکستان سے تھا۔ علامہ اقبال سے عقیدت انھیں ورثے میں ملی تھی۔ ان کے والد اقبال کے شیدائی تھے اور اسی وجہ سے بیٹے کا نام ’’جاوید اقبال‘‘ رکھا۔
لندن میں ان سے ملاقات بہت معلومات افزا ہوتی۔ گھومنا پھرنا تو فیاض صاحب کے ساتھ ہوتا، لیکن جاوید اقبال ہماری رہنمائی کرتے۔ سہولت بھی مہیا کرتے۔ تقریباً ہر دورے میں وہ مجھے Impact لندن کے مدیر حاشر فاروقی جیسے نایاب شخص سے ملوانے لے جاتے۔ وہ حاشر صاحب کا بہت خیال رکھتے اور مقدور بھر ان کی خدمت بجا لاتے۔ لندن کی مصروف زندگی میں مادی ضرورت کے بغیر بے مُزدکسی کا خیال رکھنا، ایک نایاب چیز ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ خود جاوید صاحب، لندن کے نایاب لوگوں میں سے تھے۔ ۲۰۱۶ء کے دورۂ لندن میں، مَیں نے ایک شب اُن کے ہاں قیام کیا۔ انھوں نے لندن کے مضافات میں کرائیدن کے علاقے میں ذاتی مکان بنوا لیا تھا۔ ۲۰۱۶ء کے دورے میں حاشر فاروقی سے مل کر میں خواجہ صاحب کے ساتھ بذریعہ ریل، اُن کے گھر چلا گیا۔ اُس شب کھانا کھانے کے بعد اور صبح ناشتے پر خواجہ صاحب سے بہت باتیں ہوئیں۔ زمانۂ طالب علمی ہی سے مولانا مودودیؒ کے قاری تھے۔ مولانا سے ملاقات کے بارے میں میرے استفسار پر انھوں نے بتایا:
’’میں کراچی میں زیرتعلیم تھا، جب بھی لاہور جاتا، اچھرہ میں مولانا کے ہاں حاضری دیتا۔ چاہتا تھا کہ اُن سے وقت لے کر برعظیم کی سیاست اور تحریکِ پاکستان پر مولانا کے تفصیلی خیالات قلم بند کروں، مگر مولانا کی بے پناہ مصروفیات اور کمزور صحت کی وجہ سے مجھے اُن سے درخواست کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ پھر جب میں لندن یونی ورسٹی میں ایم اے کررہا تھا اور نصاب میں جماعت اسلامی اور تحریک پاکستان پر ایک مضمون شامل تھا، اُس وقت مجھے مولانا سے براہِ راست معلومات حاصل کرنے کی ضرورت زیادہ محسوس ہوئی۔ ۱۹۷۹ء میں جب مولانا امریکہ جاتے ہوئے لندن رکے تو میں اُن سے ملا۔ میں نے چند سوالات مرتب کرلیے تھے اور سوچا تھا کہ امریکہ سے واپسی پر وہ سوال نامہ مولانا کی خدمت میں پیش کروں گا، لیکن مولانا امریکہ میں دورانِ علاج مالکِ حقیقی سے جاملے۔‘‘
خواجہ صاحب بولتے بولتے ایک دو لمحوں کے لیے رکے۔ محرومی کا ایک تاثر اُن کے چہرے سے نمایاں تھا۔ پھر آہستہ آہستہ بتانے لگے:
’’پھر میں نے مولانا کی تحریروں، تقریروں، خطوں اور ملفوظات سے اپنے سوالوں کے جواب تلاش کرنا شروع کیے۔ جوابات ملتے گئے۔ اس طرح ایک منفرد انٹرویو مرتب ہوگیا جو ۲۱؍ اگست ۱۹۹۷ء کے ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ کراچی میں شائع ہوا تھا۔‘‘
یہ دلچسپ روداد سن کر میں نے کہا: ’’خواجہ صاحب، افسوس ہے آپ کی ایک اسکالر کی صلاحیت بروئے کار نہ آسکی۔ گو آپ نے لکھا بہت ہے اور بعض تحریریں تو عالمانہ تجزیوں پر مشتمل ہیں اور پھر آپ انگریزی میں شائع ہونے والے تازہ لٹریچر سے بھی باخبر رہتے ہیں، اس لیے آپ کو اپنا قلم حرکت میں لانا چاہیے۔‘‘ مجھے خوشی ہے کہ خواجہ صاحب آمادہ نظر آئے۔ مگر اس آمادگی کو بروئے کار آنے میں ۳،۴ سال لگ گئے۔ یہ اعزاز (جیسا کہ میں اوپر ذکر کر چکا ہوں) برادر سلیم منصور خالد کو جاتا ہے کہ انھوں نے جاوید صاحب سے چند اعلیٰ درجے کے مقالات لکھوائے جو گزشتہ ۵،۷ ماہ میں ’’ترجمان القرآن‘‘ میں شائع ہوئے۔
سلیم منصور صاحب لکھتے ہیں: ’’جاوید صاحب اپنی مثال آپ تھے۔بے لوث، غیرت مند، سراپا ایثار، علم و فضل کے شیدا۔ قائد اعظم اور مولانا مودودیؒ سے عقیدت رکھنے والے، اور سب سے بڑھ کر شانِ رسالتؐ کے پروانے۔
’’۸؍ اپریل سے آج تک اُن کی تصویر اِس طرح دل میں ترازو ہے کہ یقین ہی نہیں آ رہا ہے کہ چلے گئے ہیں۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔‘‘
آمین، ثم آمین…!