روزنامہ جسارت شہرت کی بلندیوں پر
جیل میں وقت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا، قید طویل ہوتی چلی جارہی تھی اور رہائی کی اُمید کی کرن نظر نہیں آرہی تھی۔ دوست احباب ملنے آتے تھے اور تسلی ہوتی تھی، اس طرح اُن سے باہر کے حالات کا علم ہوتا رہتا تھا۔ ایک دن اطلاع ملی کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے کچھ دوست ملنے آرہے ہیں۔ ملاقاتی کمرے میں گیا تو جمعیت کے ساتھیوں کے ساتھ لاہور سے کوئی نوجوان آیا تھا۔ تعارف ہوا تو وہ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے جنرل سیکرٹری تھے۔ ان سے کچھ دیر بڑی دلچسپ گفتگو ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ امان صاحب آپ جیل میں مولانا مودودی کا لٹریچر ساتھیوں کو دیا کریں، اس طرح ہماری دعوت بھی جیل میں پہنچ جائے گی۔ اُن سے کہا کہ کتابیں تو تقسیم کررہا ہوں، کیا ہی بہتر ہوتا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے بھی کچھ نوجوان اس جدوجہد میں بلوچستان کے عوام کے ساتھ ہوتے۔ پورے بلوچستان میں اسلامی جمعیت طلبہ کا کوئی بھی نوجوان قید میں نہیں ہے، اور نہ جماعت اسلامی کا کوئی لیڈر اور کارکن قید میں ہے۔ آپ کے کارکن جیل میں ہوتے تو اس کے اثرات کتابوں سے بہت زیادہ ہوتے۔ وہ کچھ کچھ شرمندہ سے ہوگئے۔ اُن سے کہا کہ جیل کے ساتھیوں سے اسلام پر گفتگو چلتی ہے اور مولانا کی کتابیں بھی تقسیم کرتا ہوں۔ کچھ دیر کے بعد وہ رخصت ہوگئے۔
میری چھوٹی بہن کی شادی کراچی میں ہوئی تھی اور ان کے شوہر میرے کزن ہیں، ہارون رشید۔ وہ اردو کے پروفیسر تھے، اب تو ریٹائر ہوئے عرصہ ہوگیا ہے۔ دن کے 11 بجے تھے کہ اطلاع ملی میری بہن مجھ سے ملنے جیل آئی ہے، اُس کے ساتھ میرے ماموں افضل شاہ کی چھوٹی بیٹی بھی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ بہن کو جیل میں ملنے نہیں آنا چاہیے تھا۔ یہ تو میرا احساس تھا، مگر بہن کی محبت اور احساسات کی دنیا ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ ملاقاتی کمرے میں پہنچا تو مجھے دیکھتے ہی رونا شروع کردیا۔ میں اسے رونے سے روکتا رہا اور وہ مسلسل رو رہی تھی۔ اس سے کہا کہ اگر تم نے رونا یونہی جاری رکھا تو میں جیل واپس اپنے احاطے میں چلا جائوں گا، تو اس کا رونا رُک گیا۔ یہ بات میں نے دل پر جبر کرکے اُس سے کہی، اور میں اس دوران اپنے جذبات پر مسلسل قابو پانے کی کوشش کررہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو میں بھی اس کے ساتھ رونا شروع کردوں۔ بڑی مشکل سے جذبات پر قابو پایا۔ بہن تھی اور بہنوں کی محبت کی دنیا ہی الگ ہوتی ہے۔ یہ مرحلہ گزر گیا تو اس سے ہنس کر کہا کہ میں جیل میں بالکل آرام سے ہوں اور کوئی تکلیف نہیں ہے، دوست ساتھ ہیں اس لیے جیل کا وقت پُرسکون گزر رہا ہے، تم پریشان مت ہو۔ تو پھر وہ بھی پُرسکون ہوگئی۔ اس سے گزارش کی کہ دوبارہ تکلیف نہ کرنا، میں خوش ہوں، بس میرے لیے دعا کرو۔ اس لمحے مجھے اپنی ماں یاد آگئیں کہ اگر وہ زندہ ہوتیں تو نہ جانے کتنی دعائیں کرتیں۔ جب ماں کسی لمحے یاد آتی ہے تو آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔ شادی پروہ بہت یاد آئیں اور جب میرا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو بھی ان کی بہت یاد آئی اور میں آنسوئوں سے بھیگ گیا۔ ہر خوشی اور غم کے لمحوں میں ماں کی یاد ستاتی رہتی ہے۔ بہن جب مجھ سے مل کر واپس گئی تو جیل کی ملاقات کا حال اپنے رشتہ داروں کو سناتی تھی اور کہتی تھی کہ میں تو بہت پریشان تھی کہ میرا بھائی جیل میں ہے، نہ جانے اس پر کیا گزر رہی ہوگی، معلوم نہیں اسے کھانا کیسا ملتا ہوگا، لیکن میں تو اُسے دیکھ کر حیران رہ گئی، وہ تو سُرخ سفید ہوگیا تھا، اس کی صحت تو پہلے سے بہت بہتر ہوگئی تھی اور وہ پریشان ہی نہیں تھا۔ وہ یہ داستان خوب ہنستے ہوئے سناتی تھی۔ جب جیل سے رہا ہوا تو اپنی بہن سے کراچی ملنے گیا، میرے ہمراہ میری ماموں زاد بہنیں بھی تھیں۔ بہن مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئی۔ باقی جتنے رشتہ دار تھے اُن سے ملا، وہ مجھ سے جیل جانے کی داستان سنتے رہتے تھے۔ یوں وہ وقت ہوا کے دوش پر سفر کرتا ہوا رواں دواں تھا۔ جیل کے اندر جب کوئی ملاقاتی آتا تو دوسرے ساتھی یہ ضرور پوچھتے تھے کہ کون آیا تھا؟ یوں ہم اپنی ملاقات کی داستان بیان کردیتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ جیل کی زندگی کا ایک معمول بن گیا تھا اور ہم اس کے عادی ہوگئے تھے۔ صبح نماز پڑھتا، تلاوتِ قرآن کرتا اور بی کلاس کے احاطے کے اندر کوئی نصف گھنٹہ جوگنگ کرتا، یوگا کرتا۔ اس کے بعد ہم سب مل کر ناشتہ کرتے تھے۔ پھر سیاسی گپ شپ ہوتی تھی۔ جیل میں میرے ساتھ سینیٹر زمرد حسین اور محمود عزیز کرد بھی تھے، ان کے گھروں سے ناشتہ بھی آتا اور دوپہر کا کھانا بھی۔ یہ منظر میرے لیے فائیو اسٹار ہوٹل سے کم نہ تھا۔ جیل میں دوبارہ ’’غبارِ خاطر‘‘ پڑھی تو اُس کا لطف ہی اور تھا۔ جیل کے دوران جماعت اسلامی کے صوبائی قائدین اور کارکن ہفتے میں ایک بار ضرور آتے تھے۔ میرے دوست، احباب کا معمول ملاقات کے لیے زیادہ تھا۔ ہمارے احاطے کے ساتھ دوسرے احاطے میں نیپ کے ایک رہنما یوسف علی زئی بھی قید تھے۔ ایک دن ہم صبح ناشتے کے بعد شطرنج کھیل رہے تھے کہ ان کے احاطے میں بڑی زبردست چیخ پکار شروع ہوگئی۔ ہم سب حیران ہوگئے کہ یہ کیا ہورہا ہے! چکر جمعدار کی آواز گونج رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی کسی کا چھترول ہورہا تھا۔ کیوں ہورہا تھا معلوم نہیں تھا۔ ساتھ کی دیوار سے چڑھ کر دیکھا تو مشقتی کو وارڈن جمعدار نے مرغا بنایا ہوا تھا اور مار رہا تھا۔ پھر میں اتر گیا۔ کچھ دیر بعد ہمارے احاطے میں چکر جمعدار آیا تو اس سے پوچھا کہ اس کو کیوں مار رہے تھے؟ اس نے کہا کہ پیر یوسف علی زئی کی صدری سے 50 روپے گم ہوگئے تھے، انہوں نے کہا کہ مشقتی نے چرائے ہیں، اس لیے ہم کارروائی کررہے تھے۔ ہم نے جب نیپ کے اس لیڈر سے ملاقات کی تو اُن سے کہا کہ آپ نے صرف 50 روپے کے لیے اتنی مار دھاڑ خوامخواہ کرائی، تو وہ کچھ شرمندہ سے ہوگئے، دوسرے دن معلوم ہوا کہ 50 روپے تو ان کی صدری ہی میں تھے، انہیں اُس وقت نہ ملے۔ اس پر تو وہ بہت شرمندہ نظر آئے۔
جیل میں عجیب و غریب واقعات ہوتے رہتے تھے۔ جیل کے ایک اور احاطے میں بلوچستان کے ایک اور شخص کو بھی نواب بگٹی نے دھرلیا تھا، اس پر الزام تھا کہ سخی دوست جان اور وہ اکٹھے احاطے میں تھے تو سخی دوست جان اپنے تاجر دوست کی روداد سنا کر خوب ہنستے تھے کہ یہ اکثر گھر کو یاد کرکے روتے ہیں۔ ہم بھی اس داستان سے لطف اندوز ہوتے۔ ایک دن ایک نوجوان بنگالی قیدی جیل کے احاطے میں مجھ سے ملا اور کہا کہ جیل کے کلرک نے میری گھڑی لے لی ہے، آپ کچھ کریں۔ میں کلرک سے ملا اور اس سے کہا کہ خاموشی سے اس کی گھڑی واپس کردو اسی میں تمہاری بہتری ہے، اور اس نے گھڑی واپس کردی۔ بنگالی نوجوان بہت خوش ہوا۔ اس سے کہا کہ اگر تمہارے ساتھیوں کو کوئی بھی تکلیف یا مشکل ہو تو مجھے ضرور بتانا۔ جیل کے قانون میں سی کلاس کے قیدی کو اخبارات کی سہولت تھی، تو صبح صبح احاطے میں جنگ اخبار ملتا تھا، جسارت تو دوست لا کر دیتے تھے۔ روزنامہ جسارت حزب اختلاف کا اخبار بن گیا تھا، اس لیے وہ جب کوئٹہ پہنچتا تھا تو ہاتھوں ہاتھ بک جاتا تھا۔ جسارت اخبار میں سردار عطاء اللہ مینگل کا ایک انٹرویو شائع ہوا، یہ شاید 1974ء یا 1975ء کی بات ہے۔ یہ انٹرویو ظہور نیازی نے لیا تھا، اور یہ دو قسطوں میں شائع ہوا تھا۔ اخبار ہاکر سے لیا اور ٹہلتا ہوا ڈان ہوٹل پہنچا تو ہوٹل میں ہر شخص کے ہاتھوں میں جسارت اخبار تھا اور سب بڑے انہماک سے انٹرویو پڑھ رہے تھے۔ اتنے میں ایک دوست آیا اور کہا کہ شادیزئی مجھے جسارت اخبار چاہیے۔ اس سے کہا کہ تم پڑھ لو۔ اس نے کہا کہ نہیں، میں اس کو لینا چاہتا ہوں۔ اس سے کہا کہ بازار سے خرید لو۔ اس نے کہا کہ بازار میں ختم ہوگیا ہے، مل نہیں رہا ہے۔ اس سے کہا کہ تم 50 روپے دو گے؟ اس نے کہا کہ ہاں۔ لیکن اس سے کہا کہ نہیں دوں گا، تم یہیں بیٹھے بیٹھے پڑھ لو۔ جسارت اخبار شہرت کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔
ہم مسلسل عدالت آتے جاتے، لیکن ابھی تک کیس شروع نہیں ہوا تھا، اس کی تاریخیں دی جاتی تھیں۔ کچھ دنوں کے بعد معلوم ہوا کہ اب باقاعدہ کیس سٹی مجسٹریٹ کی عدالت میں شروع ہونے والا ہے اور پولیس نے تمام انتظامات کرلیے تھے۔ جس دور کا ذکر کررہا ہوں پولیس کے پاس ٹیپ ریکارڈر تھا اور نہ موبائل تھے، اس لیے وہ دور سےکورٹ کی کارروائی کو نوٹ کرتے اور پھر اس پر مقدمہ قائم ہوجاتا، اس طریقے سے تو کوئی بھی ملزم کسی بات کا انکار کرسکتا تھا۔ اور پھر ایسا ہمارے کیس میں ہوگیا۔ یہ بھی ایک دلچسپ روداد ہے جو آگے چل کر بیان کروں گا۔ چونکہ اخبار صبح سویرے آتا تھا، ہمارے جیل کے ساتھی دیر سے اٹھتے تھے، اس لیے ان میں اکثریت نماز نہ پڑھنے والوں کی تھی۔ کچھ نے تو قوم پرستی سے یہ معنی اخذ کرلیے ہیں کہ ایک حقیقی قوم پرست وہ ہے جو نماز نہ پڑھے۔ نہ جانے یہ فلسفہ انہیں کس نے سکھلایا ہے، اور لیفٹسٹ بھی اس فلسفے پر قوم پرستوں سے زیادہ عمل کرتے ہیں، لیکن سوویت یونین کے خاتمے نے ان کے ہوش اُڑا دیے ہیں، ان کا فلسفہ ہی عدم کی دنیا میں چلا گیا اور معدوم ہوگیا۔ اب دیکھتا ہوں کل کے بی ایس او کے بڑے بڑے رہنما جمعہ کی نماز بڑے شوق سے پڑھتے ہیں اور اب تو عمرہ اور حج بھی کرتے ہیں۔ مجاہدین کی جدوجہد نے دنیا کے ایک سرخ استعمار کو زمین سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ کون تصور کرسکتا تھا کہ سرخ استعمار کو بھی تاریخی شکست ہوسکتی ہے اور سرخ جھنڈا اور سوویت یونین کا نام و نشان مٹ جائے گا، اور ہم نے یہ سب کچھ اپنی نگاہوں کے سامنے بکھرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایک دن صبح سویرے احاطے میں جنگ اخبار ملا، اسے اٹھایا اور احاطے کے لان میں آکر بیٹھ گیا، پڑھنا شروع کیا تو ایک خبر نے چونکا دیا، اس خبر پر یقین نہیں آرہا تھا، بار بار پڑھی اور کچھ پرسکون ہوگیا تو خوش ہوا اور خوب ہنسا۔ خبر یہ تھی کہ سوویت یونین کے سرکاری اخبار پراودا میں اداریہ چھپا تھا جس میں ذوالفقار علی بھٹو کی اس پالیسی کی حمایت کی گئی تھی جو بلوچستان میں فوجی آپریشن کے حوالے سے بھٹو نے اختیار کی تھی۔ یہ خبر ایسی تھی کہ میرے جیل کے ساتھی زمرد حسین، محمود عزیز کرد اور دوسرے بی ایس او کے نوجوان جو سوویت یونین سے آس لگائے بیٹھے تھے کہ وہ ہماری مدد کو آئے گا، لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ گیا تھا اور میں اپنے جیل کے قوم پرست روس نواز ساتھیوں کے نیند سے بیدار ہونے کا منتظر تھا۔ یہ اداریہ اُن کے لیے ایک خوفناک دھماکے سے کم نہ ہوتا۔
(جاری ہے)