ذکرِ الٰہی اور مولانا رومیؒ

ابوسعدی
ذکرِ الٰہی کے بارے میںمولانا رومیؒ اپنے اشعار میں یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں: (ترجمہ)۔

اللہ تعالیٰ کا ذکر پاک ہے، اس پاک نام کے ذکر
سے ناپاکی رخصت ہو جاتی ہے
شہوت کی آگ ایسی ہے جسے (ذکر کا) نور ہی ختم کر سکتا ہے
اس نور کی برکت سے ہی ابراہیمؑ کے لیے آگ ٹھنڈی ہو گئی تھی
اللہ کا نام اتنا شیریں ہے کہ اس سے
تو میری جان سراپا شیر و شکر ہو جاتی ہے
ذکرکی حرارت ہی فکر کو تحرک میں لاتی ہے
فکر کے جمود کو توڑنے کے لیے ذکر کو آفتاب کی طرح سمجھو
عجب حالت ہے کہ زباں پر تو اللہ اللہ ہے
لیکن دل میں گائے اور خر ہے

(حافظ محمد موسیٰ بھٹو)

معاشرتی انحطاط کا سدِّباب

ایک فی صد برسرِاقتدار طبقہ مغرب زدگی کے کوڑھ کو اس ملک کی 99 فی صد مسلم آبادی پر مسلط کردینے پر بضد ہے۔ حد یہ کہ رائے عامہ کے دباؤ کے تحت قراردادِ مقاصد میں اسلام کا کلمہ پڑھ لینے کے بعد، پھر اس کے متوازی یہ روش بھی جاری رہی ہے کہ اخلاقی و معاشرتی لحاظ سے قوم کو اسلامی معیار سے اور زیادہ نیچے گرا دیا جائے۔ پھر مسودۂ دستور میں اسلام کے نمایاں اجتماعی تقاضوں کو صاف صاف لفظوں میں جذب کرلینے کے بعد بھی یہ الٹی مہم چلائی جارہی ہے کہ آرٹ اور کلچر اور ترقی کی اصطلاحات کے پردے میں عریانی اور فحاشی کا ایک ایسا طوفان اٹھا دیا جائے جس کا پانی دستوری فیصلوں کے سر سے گزر جائے۔
اس موقع پر جماعت اسلامی کی مجلسِ شوریٰ نے اپنی ایک قرارداد کے ذریعے اربابِ اقتدار کو بھی اس بارے میں متنبہ کیا ہے اور عوام کو بھی توجہ دلائی ہے۔ قرارداد منفی نوعیت کی نہیں، مثبت طور پر اسلامی ماحول بنانے کے لیے تعمیری تجاویز بھی سامنے لاتی ہے۔ اِن تجاویز میں ریڈیو اور سینما اور دوسری تفریحات کو اخلاق سوز سرگرمیوں سے ہٹاکر تعمیری مقاصد کے تابع کرنے، جائز تفریحات کے لیے شہروں، قصبوں اور خاص طور پر نئی آبادیوں میں مناسب انتظامات کرنے، ملکی اور غیر ملکی لٹریچر پر احتساب کی کڑی نگاہ جمائے رکھنے، مخلوط تعلیم کا سدِّباب کرنے، آرٹ اور کلچر کے نام سے ہونے والی سرگرمیوں میں وزرا اور سرکاری افسروں کے لیے حصہ لینے کی ممانعت کرنے اور زناکاری کے اڈّوں کا ملک بھر میں استیصال کرنے کے مطالبات پیش کیے گئے ہیں۔ یہ وہ مفاسد ہیں جنھوں نے ہردور میں انسانیت کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہے اور جن کے مضر نتائج بار بار کے عالم گیر تجربوں سے نمایاں ہوچکے ہیں۔ خاص طور پر اسلامی نظامِ اخلاق ومعاشرت تو ان کے ہوتے ہوئے کسی درجے میں بھی پروان نہیں چڑھ سکتا۔ پس ہر معقول آدمی ان تجاویز کی اہمیت کو محسوس کرسکتا ہے۔ ان میں خطاب صرف حکومت ہی سے نہیں کیا گیا بلکہ عوام سے بھی دردمندانہ اپیل کی گئی ہے کہ وہ بھی اپنے آپ کو اور اپنے بھائیوں کے اخلاق کو بچانے کی سعی کریں۔
(’اشارات‘، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد42، عدد4، شوال 1373ھ، جولائی 1954ء، ص7۔8)

امام ابن الاثیرؒ

المبارک بن الاثیر بن محمد بن محمد (544ھ۔ 606ھ) عربی نثر کے مایہ ناز ادیب اور عالم دین تھے۔ تفسیر، نحو، لغت، حدیث اور فقہ وغیرہ میں ماہر تھے۔ جزیرہ ابنِ عمر میں ان کی ولادت ربیع الاول یا ربیع الثانی میں ہوئی اور وہیں پرورش ہوئی، پھر وہ موصل چلے گئے۔ یہاں کے امرا کو انہوں نے خطوط لکھے۔ یہ ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ انہوں نے بغداد میں علم حاصل کیا۔ ذی الحجہ میں موصل میں وفات پائی۔ ان کی تصانیف میں النہایۃ فی غریب الحدیث، جامع الاصول فی احادیث الرسول، الانصاف فی الجمع بن الکشف والکشاف، تفسیر الثعلبی والزمخشری، دیوان رسائل اور البدیع فی شرح الفصول مشہور ہیں۔ (پروفیسر عبدالجبار شاکر)

بلندی پر سانس کی تنگی

جس زمانے میں قرآن مجید نازل ہوا، لوگوں کا خیال تھا کہ جو شخص بلندی کی طرف جائے گا اسے زیادہ تازہ ہوا، زیادہ فرحت اور زیادہ خوشی حاصل ہو گی، لیکن جدید دور میں جب انسان نے ہوائی جہاز ایجاد کیا اور وہ تیس چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرنے لگا تو اسے پتا چلا کہ بلندی پر جاتے ہوئے اسے نسبتاً کم آکسیجن مہیا ہوتی ہے اور سانس لینے میں بہت دشواری پیش آتی ہے۔ اس شدید گھٹن سے بچنے کے لیے ہوائی جہازوں میں مصنوعی طور پر آکسیجن پہنچانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ حضورؐ کے زمانے میں اس قدر بلندی پر جانے کا تصور تھا نہ آکسیجن اورکاربن ڈائی آکسائیڈ کا، لیکن قرآن مجید میں یہ آیت ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہے:
’’پس (یہ حقیقت ہے کہ) جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ رکھتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے، اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کردیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے (بلندی کو جارہا ہے)۔‘‘ (الانعام: 125)
(ماہنامہ چشم بیدار،اپریل2019ء)