خوش رہیے… خوش رکھیے

اِس دنیا میں سُکھ کم، دُکھ زیادہ ہیں۔ غالب نے کہا تھا کہ حیات، غم کے ہاتھوں کی قیدی ہے اور موت سے پہلے غم سے نجات ممکن نہیں۔ لیکن مذہب لوگوں کو غموں اور دکھوں کے باوجود ہنس کر جینا سکھاتا ہے، اس کا پیغام ہے: خوش رہو اور خوش رکھو۔ یہ پیغام ہر عید کے موقع پر عام ہوتا ہے۔ بچے، بوڑھے، جوان، مرد، عورت، امیر، غریب، صحت مند، معذور ہر طرح کے لوگ خوشیاں بکھیرتے اور خوشیاں سمیٹتے ہیں۔ اس طرح خود خوش ہونا اور دوسروں کو خوش کرنا بھی رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اسلام نے خاص طور پر تعلیم دی ہے کہ مایوسی کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دو۔ حالات خواہ کیسے ہی خراب ہوں، روشن پہلوئوں کو تلاش کرو اور ان پر نظر جمائو۔ عید کی تقاریب ذہن سے یاسیت اور قنوطیت کو دور کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں، اور آج جبکہ قوم دل گرفتہ ہے اور اداسی ذہنوں پر غالب آرہی ہے تو عید کے ذریعے خوشیوں کے ماحول سے فائدہ اٹھاکر دل دماغ کی یاسیت کو دور کرنا چاہیے۔ اسلام ایسا مذہب نہیں ہے جو چہروں پر خشونت اور وحشت طاری کرنے کے لیے کہتا ہو۔ دین یہ ہے کہ ایک بندۂ مومن کی دوسرے انسان کے لیے مسکراہٹ بھی ایک نیکی ہے۔ اگر آپ کسی کو کچھ نہیں دے سکتے تو کم از کم ایک مسکراہٹ ضرور دیجیے، اور عید پر تو لوگوں کو گلے سے لگانے کی رسم ہے، آپ کے مصافحے میں بھی گرم جوشی ہونی چاہیے۔ یہ ایسا موقع ہے کہ گلے شکوے دور کرلیے جائیں، دلوں کے میل دھو دیئے جائیں، کسی سینے میں کسی طرح کی کدورت نہیں رہنی چاہیے، سب مسلمان ایک دوسرے سے بغل گیر ہوں، ایک دوسرے کے لیے خوشی کا ذریعہ ہوں اور خوش و خرم معاشرے کو اپنا نصب العین بنائیں۔ لیکن یہ خوشی حقیقی خوشی ہونی چاہیے، اور یہ خوشی بھڑکیلے ملبوسات، قیمتی خوشبویات اور مرغن غذائیات کی وقتی خوشی نہیں ہونی چاہیے، بلکہ وہ خوشی ہونی چاہیے جس کے سوتے باطن سے پھوٹتے ہوں، اور رمضان کے روزوں کے بعد کی خوشی یہی خوشی ہے۔ اس روحانی مسرت کو جو ماہِ صیام کی بھوک پیاس میں حاصل کی گئی سارا سال برقرار رکھنے کی کوشش کیجیے، اور دیکھیے کہ صرف آپ کا ظاہر ہی خوش نہ ہو، باطن بھی خوش رہے۔ عید کا پیغام یہ ہے کہ مسرت کو انفرادی نہیں اجتماعی بھی ہونا چاہیے، سب کو مل کر ایک مقررہ دن خوشی منانے کا حکم اسی لیے ہے کہ معاشرہ اجتماعی مسرت حاصل کرے اور ہم اس حقیقت کو سمجھیں کہ ہماری خوشی سب کی خوشی کے ساتھ ہے۔ ہم بڈھے ہیں لیکن بچوں کی خوشیوں میں شریک ہوں گے، اگر جوان ہیں تو بزرگوں کے ادب و احترام سے اپنا اور اُن کا جی خوش کریں گے، امیر ہیں تو غریب کے لیے خوشی کا ذریعہ بن جائیں گے، ہر پڑوسی دوسرے ہمسائے سے جذباتِ شادمانی سے ملے گا۔ اور یہ خوشی کے جذبات حقیقی ہوں، ان میں تصنع نہ ہو۔ یہی ہماری عید ہوگی۔
اسلام سے پہلے دین دار لوگ اپنی ایسی وضع بنائے رکھنا ضروری سمجھتے تھے جس میں چہرے پر بیزاری کے آثار ہوں، اور مردم بیزاری ہی کو روحانیت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اسلام نے بتایا کہ لوگوں میں گھلوملو، ان کے دکھ سُکھ میں شریک رہو، اپنے افرادِ معاشرہ کو بڑی خوشی نہیں دے سکتے تو چھوٹی چھوٹی خوشیاں دو۔ تحفے تحائف کو پسندیدہ چیز قرار دیا گیا، دعوت کو رد نہ کرنا اور قبول کرنا سنت بتایا گیا، خوشبویات کو مرغوب ٹھیرایا گیا۔ کام و دہن کی شیرینی نے بھی افضل حیثیت اختیار کی۔ غرض اللہ کی نعمتوں سے استفادہ اور اس پر شکر ادا کرنا مذہب کا حصہ ہوگیا، اور ہر سال جو عید کا اجتماع ہوتا ہے یہ بھی مسلمانوں کی شوکت کا مظہر ہے۔ جگہ جگہ عید کے عظیم اجتماعات ہمیں اپنی اجتماعی طاقت کا احساس دلاتے ہیں، اور نمازِ عید کی یہ اجتماعیت ملت کی عظمت و طاقت کا اظہار ہے۔ اس اجتماعیت کو عید کے موقع پر دیکھ کر اس کی حفاظت کا عہد کیجیے کہ اگر یہ اجتماعیت پارہ پارہ ہوجاتی ہے تو صرف رسمِ عید رہ جائے گی اور حقیقی خوشی مسلمانوں کے درمیان سے رخصت ہوجائے گی۔
غیر مسلموں کی عید یہ ہے کہ وہ بھنگڑا ڈالتے ہیں، جوا کھیلتے ہیں، منشیات استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہماری عید یہ ہے کہ سب مل کر خدا کے حضور سربسجود ہوتے ہیں، مباحات کا لطف حاصل کرتے ہیں، ممنوعات سے پرہیز کرتے ہیں۔ اور ایسا نہ کریں تو پھر عید کی مذہبی حیثیت نہیں رہتی اور اس کا ثواب غائب ہوجاتا ہے۔ عید کا سبق یہ ہے کہ خوشیاں مناتے ہوئے بھی جائز و ناجائز کو ملحوظ رکھا جائے، اور جو جائز خوشی ہے وہ خود بھی حاصل کی جائے، اور دوسروں کو خوش رکھنا خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس لیے عید کے پیغام کو سمجھئے کہ کسی حال میں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، خود بھی خوش رہیے اور دوسروں کو بھی خوش رکھیے۔ یہ آپ کا مذہبی فریضہ ہے۔
(15جنوری1999ء)