جمعتہ الوداع۔۔۔افضل الجمعہ

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں اپنا تہبند مضبوط باندھتے (یعنی ان دس دنوں میں عبادت
الٰہی کے لیے زیادہ محنت کرتے) اور رات کو جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔ (عن عائشہ رضی اللہ عنہا۔ بخاری)
نبی کریم ﷺ رمضان میں دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے، جب وہ سال آیا جس میں آپؐ کی وفات
ہوئی تو آپؐ نے (رمضان کے آخری) بیس دن کا اعتکاف کیا (عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ۔ بخاری)
(وضاحت: اعتکاف سنت مؤکدہ ہے، اس کا بہت اجر و ثواب ہے۔ آپ بھی ہر سال کریں)

مولانا روح اللہ اراکانی
آج ’’جمعتہ الوداع‘‘ ہے جس کو افضل الجمعہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔ جمعہ کے مبارک دن کی فضیلت کتنی عظیم ہے کہ قرآن حکیم میں ایک سورۃ اس کے نام سے یعنی سورۃ الجمعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مخاطب فرماتے ہوئے جمعہ کی عبادت کی اہمیت کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
’’جب جمعہ کی نماز کے لیے (بذریعہ اذان) تمہیں پکارا جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت بند کردو۔ جب نماز سے فارغ ہوجائو تو زمین پر تلاشِ معاش کے لیے پھیل جائو، اگر تمہیں شعور ہے‘‘۔ تو خوب اچھی طرح جان لو کہ اس حکم پر عمل کرنے ہی میں تمہاری بھلائی ہے۔
رمضان المبارک کے متعلق سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کے تینوں عشرے علیحدہ علیحدہ برکتوں اور فضیلتوں کے حامل ہیں۔ اس کا پہلا عشرہ رحمتوں کا عشرہ ہے۔ دوسرا عشرہ مغفرت کا، اور تیسرا عشرہ آگ سے نجات کا عشرہ ہے۔ اس ماہ میں تزکیہ نفس کا موقع عنایت کیا جاتا ہے۔ اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگی جاتی ہے۔ روزہ دار نمازیں ادا کرتا ہے۔ صدقہ، خیرات، زکوٰۃ و فطرہ ادا کرتا ہے۔ غریبوں، مجبوروں، یتیموں، بیوائوں اور مسکینوں کی مدد کرتا ہے۔ وہ اپنے اختیار کے مطابق ہر ایک کا حق پورا پورا ادا کرتا ہے اور تقویٰ کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنا لیتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خوفِ خدا سے لرزیدہ رہتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے: ’’یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں، اور ساتھ ہی یہ خوف رکھتے ہیں کہ ان کے اعمال اللہ تعالیٰ نامنظور نہ کردے‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِ عالیہ میں جو چیزیں مقصود ہیں وہ یہ ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کے خوف کو ہر وقت پیش نظر رکھے۔ حدودِ انسانیت سے تجاوز نہ کرے۔ گناہِ کبیرہ سے پرہیز کرے اور گناہِ صغیرہ کو بھی کمتر نہ سمجھے۔ ممنوعہ اشیاء کے استعمال سے پرہیز ہی نہ کرے بلکہ ان کے قریب بھی نہ پھٹکے۔ دوسروں کے حقوق نہ مارے، عدل و انصاف کرے اور ایفائے عہد کو اپنا شعار اور اصولِ زندگی بنائے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’افضل ترین دن جس پر آفتاب نکلا، وہ جمعہ ہے۔ اسی دن آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا۔ اسی دن آدم علیہ السلام کو جنت سے دنیا میں بھیجا گیا۔ اور قیامت نہیں قائم ہوگی مگر جمعہ کے دن‘‘۔
’’صحیح مسلم‘‘ میں یوم جمعہ کو ’’افضل الایام‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس دن کا نام ہی یہ بتلارہا ہے کہ یہ تشکر و عبادت کے لیے اجتماع کا دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اسی نام کی ایک سورت نازل فرمائی۔ دوسری حدیث میں اس دن کو ’’سید الایام‘‘ بھی کہا گیا ہے۔
دراصل دنیا کی ہر قوم اور ملت میں ہفتے میں سے کوئی سے ایک دن باقی دنوں سے افضل اور مقدس ہوتا ہے۔ اس دن کو خصوصی اور قومی دن سمجھا جاتا ہے اور اس میں پوری قوم اپنے اپنے مقام پر جمع ہوکر اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کرتی ہے۔ چنانچہ یہود نے جمعہ اور اتوار کے درمیانی دن یعنی ہفتہ کو افضل الایام اور اجتماعی عبادت کا دن قرار دیا ہے۔ یہ قوم ہفتہ کے دن عبادت کے لیے اپنے عبادت خانوں میں جمع ہوتی ہے۔
مسیحی اقوام نے افضل الایام اور اجتماعی عبادت کا دن اتوار کو قرار دیا ہے اور وجہِ فضیلت یہ تجویز کی کہ اتوار کا دن تخلیقِ کائنات کی ابتدا کا دن ہے۔ اس دن کی بدولت آسمان و زمین وجود میں آئے اور انسانوں کو بھی وجود ملا، لہٰذا تشکر و عبادت کا خصوصی دن وہ ہونا چاہیے جس روز تخلیقِ کائنات کی ابتدا ہوئی ہے، اور وہ اتوار ہے۔ لیکن ’’اسلام‘‘ میں جمعتہ المبارک کو ایک خاص فضیلت اور امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فضائل جمعہ کے بارے میں ایک طویل حدیث روایت کی ہے جس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:
(1) اُن تمام دنوں میں جن میں سورج نکلا ہے، جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے۔(2)جمعہ کے دن آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے۔ اسی دن ان کی لغزش معاف ہوئی، اسی دن قیامت برپا ہوگی۔ ہر جاندار جمعہ کے دن سورج نکلنے تک قیامت کے خوف کی وجہ سے کان لگائے رہتا ہے۔ مشرق سے طلوعِ آفتاب کے بعد یہ خوف ختم ہوجاتا ہے۔ انسان اور جنات غافل رہتے ہیں۔ جمعہ کے دن غروبِ آفتاب تک ایسی ساعت آتی ہے کہ مسلمان بندہ اس ساعت کو نماز میں پاتا ہے۔ اس ساعت میں وہ اللہ تعالیٰ سے جو مانگتا ہے، عطا کیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلامؓ نے فرمایا کہ وہ جمعہ کی آخری ساعت ہے۔ ایک صحیح حدیث میں وہ ساعت امام کے منبر پر بیٹھنے سے نماز کے ختم ہونے تک ہے۔ علامہ زرقانی نے اس ساعت کے بارے میں 42 اقوال نقل کیے ہیں، پھر کہا کہ سب میں راجح وہی قول ہے کہ وہ امام کے منبر پر بیٹھنے سے نماز ختم ہونے تک ہے۔ یہی درست ہے کیونکہ شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس ساعت کی خود نشاندہی فرمائی ہے۔ تو دوسرے اقوال کی طرف التفات کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی عمل تھا کہ آپ جمعہ اور عیدین میں عمامہ باندھتے، خوشبو لگاتے اور اچھا کپڑا پہنتے تھے۔ یوں تو ہر جمعہ باقی دنوں پر فضیلت رکھتا ہے لیکن جو فضیلت رمضان المبارک کے جمعوں کو حاصل ہے وہ کسی اور جمعہ کو میسر نہیں آسکتی۔ وجہ یہ ہے کہ ماہ رمضان میں عبادات کا ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ حدیث کی رو سے رمضان میں فرض کا ثواب ستر گنا بڑھ جاتا ہے۔ اور نفل کا ثواب فرض کے برابر ہوتا ہے۔ ’’جمعتہ الوداع‘‘ ماہ رمضان کا آخری جمعہ ہے جو اسی ماہ کے آخری عشرے میں وارد ہوتا ہے۔ آخری عشرے کی طاق راتیں قدر کی راتیں ہیں۔ اس رات کی عبادت قرآن مجید کی رو سے ہزار مہینے سے افضل ہے۔ اگر جمعتہ الوداع لیلتہ القدر گزرنے کے بعد آئے تو اس مبارک دن اور اس کی رات کی عبادت کے ثواب کا شمار ممکن نہیں۔
جمعتہ الوداع دراصل ان تمام جمعوں سے افضل ترین جمعہ یوں بھی ہے کہ یہ روزہ داروں کے تشکر کا دن ہوتا ہے۔ ہر روزہ دار اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس کی رحمت سے اسے یہ ماہ صیام نصیب ہوا۔ اور اسی نے اسے ہمت اور توفیق عطا فرمائی کہ اس نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی۔
ماہِ صیام رخصت ہورہا ہے۔ آج مساجد میں جمعتہ الوداع کی وجہ سے فرزندانِ توحید کے عظیم اجتماعات ہوں گے۔ ایمان والوں کا فرض ہے کہ وہ آج کے مقدس اور مبارک دن پروردگارِ عالم کے حضور میں خلوصِ دل کے ساتھ دعا کریں کہ اے رب العالمین مسلمانوں کی کوتاہیوں کو معاف کردے۔ ان کو صحت و عافیت اور تزکیہ نفس کی توفیق عطا فرما، ان کی زکوٰۃ، خیرات و صدقات کو شرفِ قبولیت سے نواز دے، اور ہر آزمائش و امتحان میں ان کو کامرانی عطا فرما۔ آج کے دن کشمیری، فلسطینی اور روہنگیا مجاہدین کی کامیابی، پاکستان کی ترقی و استحکام اور عالم اسلام کے دیگر مسائل کے حل کے لیے خصوصی دعائیں مانگی جانی چاہئیں۔