مغرب کے ’’ظرف‘‘ اور برداشت کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے خلاف آواز اٹھانے والی شخصیات ہی کو نہیں، حکومتوں کو بھی مار ڈالتا ہے، یعنی راستے سے ہٹا دیتا ہے، بالخصوص مسلم دنیا میں
امتِ مسلمہ صرف ’’امتِ وسط‘‘ نہیں ہے، ’’امتِ مہربان‘‘ بھی ہے۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو امتِ مسلمہ ’’یہودی پرور‘‘ ہے، ’’عیسائی پرور‘‘ ہے، ’’ہندو پرور‘‘ ہے، ’’بدھ پرور‘‘ ہے۔ اس نے کافروں اور مشرکوں کو ’’برداشت‘‘ کیا ہے۔ سوشلسٹوں اور سیکولر عناصر کو ’’گوارا‘‘ کیا ہے۔ سرسید جیسے جدیدیوں کو ’’ہضم‘‘ کیا ہے۔ اس کے برعکس یہودی ’’مسلم خور‘‘ ہیں، عیسائی’’مسلم خور‘‘ ہیں، ہندو ’’مسلم خور‘‘ ہیں، بدھسٹ ’’مسلم خور‘‘ ہیں۔ یہ بہت بڑے دعوے ہیں، مگر یہ دعوے جتنے بڑے ہیں ان کو درست ثابت کرنے والی تاریخی شہادتیں بھی اتنی ہی بڑی ہیں۔
مسلمان صلیبی جنگوں کی اصطلاح استعمال تو کرتے ہیں، مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت نہیں جانتی کہ صلیبی جنگوں کا ’’موجد‘‘ کون تھا۔ صلیبی جنگوں کے موجد مسلمان نہیں تھے۔ صلیبی جنگوں کا موجد اُس وقت کا پوپ اربن دوئم تھا۔ اُس نے صلیبی جنگیں ایجاد کرنے کے لیے پورے اسلام کی توہین کی۔ اس نے کہا: اسلام ایک شیطانی مذہب ہے اور عیسائیوں کا فرض ہے کہ وہ اس شیطانی مذہب اور اس کے پیروکاروں کو صفحۂ ہستی سے مٹادیں۔ پوپ نے یہ بات 1095ء میںکہی اور 1099ء میں پورا یورپ ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوا اور اُن صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو کم و بیش دو سو سال جاری رہیں۔ ان جنگوں کے پہلے مرحلے میں صلیبی فوجوں نے مسلمانوں کے روحانی اور سیاسی مرکز بیت المقدس کو تاراج کردیا۔ انہوں نے بیت المقدس میں صرف مسلم فوجیوں کو نہیں بلکہ عام مسلمان شہریوں کو بھی بڑے پیمانے پر قتل کیا۔ مغربی مؤرخین نے لکھا ہے کہ بیت المقدس کی گلیوں میں اتنا خون تھا کہ گھوڑے چلانا دشوار ہوگیا تھا۔ یہ تاریخ کا ایک مرحلہ تھا، اس مرحلے کے فاتح عیسائی تھے، اور انہوں نے قول کی سطح پر نہیں عمل کی سطح پر اپنا ’’مسلم خور‘‘ ہونا ثابت کیا۔
تاریخ کا دوسرا مرحلہ وہ تھا جب سلطان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں مسلمانوں نے عیسائیوں کو شکستِ فاش دی۔ مسلمانوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کرلیا۔ ایک لاکھ سے زیادہ عیسائی بیت المقدس میں محصور ہوگئے۔ وہ مکمل طور پر مسلمانوں کے رحم و کرم پر تھے۔ مسلمانوں کے لیے نادر موقع تھا کہ وہ عیسائیوں سے اُن کی ’’مسلم خوری‘‘ کا حساب بے باق کریں۔ آج ان کے انتقام کی راہ میںکوئی قوت مزاحم نہیں ہوسکتی تھی۔ مگر عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور سلطان صلاح الدین ایوبی سے رحم کے طالب ہوئے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے کمالِ مہربانی سے ’’مسلم خور‘‘ عیسائیوں کو معاف کردیا، مگر کہاکہ عیسائیوں کو بیت المقدس سے جانے کے لیے ہرجانہ ادا کرنا ہوگا۔ یہاں ایک اور عجیب بات ہوئی، مال دار عیسائی ہرجانہ ادا کرکے مال و اسباب لے کر بیت المقدس سے روانہ ہوگئے، مگر اپنے پیچھے اُن ہزاروں غریب عیسائیوں کو چھوڑ گئے جو ہرجانہ ادا نہیں کرسکتے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے سوال یہ تھا کہ ان غریب عیسائیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ اس موقع پر کیا ہوا، مغربی دانش ور مائیکل مورگن ہملٹن کی زبانی سنیے، لکھتے ہیں:
“When about 30,000 Poore Christians comeup with their departure tax and cannot pay, rumours abound. They will be enslaved, they will be killed and they will be forced into conversion.
Saladin`s advisors pointed out that the departing Christian patriarch Heraclius has more than enough wealth to ransom all the remenaining Christian. Why not make him pay for them. But saladin refuses, and to pay the bill, he, his brother and brother-in-law pay out of their own pockets. He allows Heraclius to depart with his wealth and icons.
(Lost History by Michael Hamilton Morgan.pg 271)
ترجمہ: ’’جب معلوم ہوا کہ 30 ہزار غریب عیسائی ہرجانہ ادا نہیںکرسکتے تو ہر طرف افواہیں پھیل گئیں۔ ایک افواہ یہ تھی کہ سب غریب عیسائیوں کو قید کردیا جائے گا، دوسری افواہ یہ تھی کہ انہیں قتل کردیا جائے گا، تیسری افواہ یہ تھی کہ انہیں زبردستی مشرف بہ اسلام کیا جائے گا۔ صلاح الدین کے مشیروں نے نشان دہی کی کہ عیسائی رہنما ہیرکلیس کے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ وہ غریب عیسائیوں کا ہرجانہ ادا کرسکتا ہے، مگر صلاح الدین ایوبی نے ہیرکلیس پر دبائو ڈالنے سے انکار کردیا۔ اِس کے برعکس خود اُس نے، اُس کے بھائی نے اور اُس کے برادرِ نسبتی نے اپنی جیبوں سے غریب عیسائیوں کا ہرجانہ ادا کیا۔ صلاح الدین ایوبی نے ہیرکلیس کو اپنے مال و اسباب کے ساتھ بیت المقدس سے جانے دیا‘‘۔
یہ تھی صلاح الدین ایوبی اور مسلمانوں کی ’’رواداری‘‘ اور ’’عیسائی پروری‘‘۔ المناک بات یہ دیکھیے کہ صلاح الدین نے ایک لاکھ عیسائیوں کی جاں بخشی کی، ان پر احسان کیا، مگر عیسائی عالموں نے سلطان صلاح الدین ایوبی اور اس کے فوجیوں کو ’’بربر‘‘ (Barbar) قرار دیا اور اس سے ’’بربریت‘‘ یا “Barbarism” کی اصطلاح برآمد کی جو آج تک ’’انسانیت سوزی‘‘ کو ظاہر کرنے کے لیے بروئے کار لائی جاتی ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے: جس پر احسان کرو اُس کے شر سے تیر کی طرح بھاگو۔ صلاح الدین نے رواداری اور ’’عیسائی پروری‘‘ کی انتہا کردی، مگر آج بھی عیسائی اس کا ذکر خون آشامی کی علامت کے طور پر کرتے ہیں۔ اس حوالے سے صلاح الدین ایوبی کے صرف دو جرم تھے، ایک یہ کہ وہ مسلمان تھا، اور دوسرا یہ کہ اس کا تعلق بربر قوم سے تھا۔
تاریخی ریکارڈ سے ثابت ہے کہ مسلمانوں نے 600 سال تک اسپین کے بڑے حصے پر حکومت کی۔ اس طویل دور کا حاصل یہ ہے کہ اگر مسلمان مسلم اسپین میں فلسفی، دانش ور اور شاعر پیدا کررہے تھے تو عیسائی اور یہودی بھی فلسفی، دانش ور اور شاعر پیدا کررہے تھے۔ مسلمان اگر سائنس دان پیدا کررہے تھے تو یہودی اور عیسائی بھی سائنس دان پیدا کررہے تھے۔ مسلمانوں میں اگر بڑے تاجر تھے تو یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی بڑے تاجر تھے۔ مسلمان اگر دربار میں وزیر اور مشیر تھے تو یہودی بھی دربار میں وزیر اور مشیر تھے۔ یہ تھی مسلمانوں کی ’’رواداری‘‘۔ مگر مسلمانوں کی 600 سالہ حکومت ختم ہوئی تو مسلم اسپین کے ’’نئے عیسائی حکمرانوں‘‘ نے مسلمانوں کے سامنے تین امکانات رکھے:
(1) عیسائی ہوجائو۔
(2) بھاگ جائو۔
(3) یا قتل ہونے کے لیے تیار رہو۔
بدقسمتی سے عیسائی حکمرانوں نے بیک وقت تینوں کام کیے۔ انہوں نے مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بنایا، انہیں خوف زدہ کرکے اسپین چھوڑنے پر مجبور کیا، اور جو مسلمان نہ بھاگے نہ عیسائی بنے، انہیں بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ یہ تھی عیسائیوں کی ’’مسلم خوری‘‘۔ ایسا کرتے ہوئے کسی عیسائی اور کسی یہودی کو یاد ہی نہ آیا کہ مسلمانوں نے پچاس یا سو سال تک نہیں 600 سال تک ان کے ساتھ کیسا شاندار انسانی سلوک کیا۔ مائیکل مورگن ہملٹن نے اپنی زیر بحث کتاب میں صاف لکھا ہے کہ مسلمانوں کے بغیر نہ یورپ، یورپ ہوسکتا تھا اور نہ یہودی اور عیسائی جدید علوم کے حامل ہوسکتے تھے، مگر عیسائیوں نے مسلمانوں کو ترقی کرنے کا کیا، مسلمان کی حیثیت سے زندہ رہنے کا حق بھی دینے سے صاف انکار کردیا۔
مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی۔ اس طویل مدت میں وہ آسانی کے ساتھ ’’ہندو خور‘‘ بن سکتے تھے، مگر اس طویل عرصے میں مسلمان ’’ہندو پرور‘‘ بنے رہے۔ انہوں نے نہ ہندوئوں کے مذہب کو چھیڑا، نہ ان کی تہذیب میں مداخلت کی، نہ ان کے کلچر میں رخنہ ڈالا، نہ ان کے رسوم و رواج کو ہاتھ لگایا، نہ ان کے تہواروں کو موقوف کیا، نہ ان کے ذات پات کے نظام کو کچھ کہا۔ ہم نے ہندو دانش وروں کی کئی ایسی تحریریں پڑھی ہیں جن میں انہوں نے مسلمانوں سے شکایت کی ہے کہ انہوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی مگر انہوں نے شودروںکو اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے ظلم سے نجات نہ دلائی۔ یہ اعتراض درست ہے، مگر مسلمانوں نے ایسا اس لیے نہ کیا کہ ذات پات کا نظام ہندوئوں کا ’’داخلی مسئلہ‘‘ ہے۔ مسلمان اگر صرف اس مسئلے کو لے کر کھڑے ہوجاتے تو کروڑوں ہری جن ہندوستان کی ایک ایک گلی میں برہمنوں، شتریوں اور ویشوں کو پھاڑ کر کھا جاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود ہندوئوں کی مقدس کتاب مہا بھارت میں صاف لکھا ہے کہ ایک برہمن کے گھر شودر اور شودر کے گھر برہمن پیدا ہوسکتا ہے۔ یعنی ہندوازم میں ذات پات کا نظام ’’نسلی حقیقت‘‘ نہیں ہے بلکہ برہمن کا مطلب ’’متقی اور صاحبِ علم‘‘ شخص ہے۔ شتری عسکری ذہن کے آدمی کا نام ہے۔ ویش ’’عقلِ معاش‘‘ رکھنے والا شخص ہے، اور شودر صرف جسمانی محنت کے قابل انسان۔ مسلمانوں نے ہزار سال حکومت کی مگر انہوں نے ہندوئوں کی کسی چیز کو ہاتھ نہ لگایا۔ لیکن انگریزوں نے آتے ہی پورے ہندوستان پر اینگلو سیکسن قانون مسلط کردیا۔ انہوں نے ہندوئوں پر اپنی زبان اور اپنی تہذیب مسلط کردی، انہوں نے ستی کی رسم کو غیر انسانی قرار دے کر بند کردیا۔ اگر انگریز سو سوا سو سال میں ہندوئوں کا سب کچھ بدل سکتے تھے تو مسلمان ایک ہزار سال میں ہندوستان کے اندر ایک بھی ہندو کو باقی نہ رہنے دیتے، وہ پورے ہندوستان کو مسلمان کرلیتے۔ مگر مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ اقتدار کے باوجود ہندوستان ہندو اکثریت کا ملک رہا۔ یہ ہے ’’اصلی رواداری‘‘… یہ ہے مسلمانوں کی ’’ہندو پروری‘‘۔ مگر جیسے ہی اقتدار ہندوئوں کے ہاتھ میں آیا انہوں نے ’’مسلم خوری‘‘ کی انتہا کردی۔
ہندو قیادت نے قیام پاکستان کے وقت فسادات کرواکے 10 لاکھ مسلمان شہید کرا دیئے۔ صرف پنجاب سے 80 ہزار مسلم خواتین اغوا ہوئیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب India Wins Freedom میں لکھا ہے کہ دِلّی میں مسلم کُش فسادات ہورہے تھے اور وہ نہرو سے کہہ رہے تھے کہ انہیں روکنے کے لیے کچھ کرو، مگر نہرو مولانا آزاد سے کہہ دیتے کہ میں وزیر داخلہ سردار پٹیل سے فسادات روکنے کے لیے کہتا ہوں مگر وہ کچھ کرتے ہی نہیں۔ نہرو بھارت کے وزیراعظم تھے، مقبول اور محبوب وزیراعظم۔ سردار پٹیل صرف وزیر داخلہ تھے، مگر نہرو کا اُن پر بس نہیں چل رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نہرو بھی یہی چاہتے تھے کہ مسلمان پاکستان بنانے کی قیمت ادا کریں۔ ان کے نواسے راجیو گاندھی نے کئی دہائیوں بعد یہی بات کہی۔ اندرا گاندھی اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں ماری گئیں تو ہندوئوں نے صرف دہلی میں ڈھائی تین ہزار سکھوں کو مار ڈالا۔ کسی نے راجیو گاندھی کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تو انہوں نے فرمایا:
’’جب بڑا درخت گرتا ہے تو یہی ہوتا ہے‘‘۔
یعنی اگر کوئی ہندو لیڈر قتل ہوگا تو ہزاروں سکھوں کا قتل ہونا قابلِ فہم بات ہے۔ لیکن مسئلہ صرف قیام پاکستان کے وقت کا نہیں۔
ہندوئوں نے ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی معیشت کو تباہ کردیا، ان کی سماجیات کو تباہ کردیا، ان کی تعلیم کو تباہ کردیا، ان کی سیاست کو تباہ کردیا۔ قیام پاکستان سے قبل مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں دس سے بیس فیصد کی تعداد میں موجود تھے، مگر اب وہ کہیں بھی ایک فیصد سے زیادہ نہیں، حالانکہ وہ بھارت کی آبادی کا کم از کم 20 فیصد ہیں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کی حالتِ زار پر مغربی ذرائع ابلاغ بھی چیخنے لگے ہیں۔ امریکہ کا ممتاز اخبار واشنگٹن پوسٹ اس حوالے سے لکھتا ہے:
’’بھارت میں انتہا پسند ہندوئوں نے مسلمانوں کو کاروبار اور عبادت کے حق سے محروم کرنے کے بعد اُن سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ مودی حکومت کے آنے کے بعد مسلمانوں کے مسائل میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں کے لیے گوشت کے کاروبار کو ناممکن بنادیا گیا ہے۔ گوشت لے جانے کے شبہ میں مسلمانوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی صورت میں مسلمانوں کے لیے انتہا پسند بھارت میں رہنا مشکل دکھائی دیتا ہے‘‘۔ (روزنامہ ایکسپریس کراچی، 16 مئی 2019ء)
نریندر مودی سے ایک بار ایک انٹرویو میں پوچھا گیا تھا کہ کیا آپ کو کسی مسلمان کے مرنے سے دکھ ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں مودی نے کہا: اگر آپ کی کار کے نیچے کتے کا پلا آجائے تو آپ کو دکھ تو ہوگا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مودی کے نزدیک ایک مسلمان اور کتے کے پلے میں کوئی فرق نہیں۔ یہ صرف ہم نہیں کہہ رہے۔ امریکہ کے ممتاز ہفت روزہ ٹائم نے اپنے حالیہ شمارے میں مودی کو “India’s Divider in Chief ” قرار دیا ہے۔ اس شمارے میں ٹائم کے نمائندے نے لکھا ہے کہ نریندر مودی کے دور میںگجرات کے اندر ایک ہزار سے زیادہ مسلمان قتل ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مودی ہجوم کے ساتھ تھے، مسلمانوں کے ساتھ نہیں۔ ٹائم کے نمائندے نے یوپی کے وزیراعلیٰ آدتیاناتھ کا ایک بیان رپورٹ کیا ہے۔ اس بیان میں آدتیاناتھ نے کہا تھا کہ مسلمان ایک ہندو ماریں گے تو ہم سو مسلمان ماریںگے۔ ٹائم کے نمائندے کے بقول مودی کے مقرر کردہ آدتیاناتھ بی جے پی کے ایک ایسے رہنما کے ساتھ اسٹیج پر موجود دیکھے گئے جو کہتا ہے کہ مسلمان عورتوں کو قبروں سے نکال کر بھی Rape کرنا پڑے، تو کرو۔ (ٹائم، 20 مئی 2019ء)
خدا کا شکر ہے مسلمانوں نے ایک ہزار سال میں ہندوئوں کے ساتھ وہ نہ کیا جو ہندوئوں نے صرف 71 سال میں کر ڈالا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ’’ہندوپرور‘‘ تھے، رواداری میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندو مسلم خور ہیں اور اُن میں مسلمانوں کے حوالے سے بنیادی انسانی تہذیب بھی موجود نہیں، اس لیے کہ اُن کے رہنما ایک ہندو کے بدلے ایک سو مسلمانوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں، اور ان کے لیڈر مسلمان عورتوں کو قبروں سے نکال کر ان کی عصمت دری کرنا چاہتے ہیں۔
مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی۔ ہندوستان میں صرف ہندو ہی آباد نہ تھے۔ بدھسٹ بھی ہندوستان کا حصہ تھے۔ مگر ایک ہزار سال کی طویل مدت میں مسلمانوں نے بدھسٹوں کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔ بدھ ازم میں جنگ و جدل کی گنجائش نہیں، چنانچہ بدھسٹوں کے ساتھ مسلمانوں کی ویسی معرکہ آرائی بھی نہ ہوئی جیسی ہندوئوں اور سکھوں کے بعض رہنمائوں اور بادشاہوں کے ساتھ ہوئی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بدھسٹوں کے اجتماعی ذہن میں مسلمانوں کے حوالے سے کوئی گہری منفی یاد نہیں، مگر اس کے باوجود برما میں بدھسٹوں نے ہزاروں مسلمانوں کو قتل کردیا ہے، سیکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کر ڈالی ہے، سیکڑوں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا ہے۔ بدھ ازم میں مکھی اور مچھر کو مارنا بھی ’’گناہ‘‘ ہے، کیونکہ مکھی اورمچھر بھی زندہ ہوتے ہیں۔ مگر بدھسٹوں نے مسلمانوں کے خون کو خود پر حلال کرلیا ہے۔ کیا ایک ہزار سال کی رواداری کا یہی صلہ ہوتا ہے؟
مسلمانوں اور یہودیوں کے تعلقات کی تاریخ بھی مسلمانوں کی بے مثال رواداری اور یہودیوں کی ہولناک خونخواری کی آئینہ دار ہے۔ یہودیوں کو ایک زمانے میں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خندق سے پہلے انہیں اپنا اتحادی بنایا، مگر یہودیوں نے اپنی فطرت کے عین مطابق مسلمانوں کو دھوکا دیا، تاہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دھوکے کے جواب میں صرف یہودیوں سے کیا گیا معاہدہ ختم فرمایا، یہودیوں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہ کی۔ خیبر فتح ہوا تو یہودی مسلمانوں کے رحم و کرم پر تھے، مگر اس بار بھی یہودیوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا گیا۔ البتہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں یہودیوں کی سازشوں کی وجہ سے انہیں مدینہ چھوڑنے پر مائل کیا گیا، تاہم ان کے خلاف کوئی مزید تادیبی کارروائی نہ کی گئی۔ مسلم اسپین ہو یا اسرائیل کے ناپاک وجود سے پہلے فلسطین… ہر جگہ مسلمانوں نے یہودیوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا۔ مگر یہودی گزشتہ 75 سال سے فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ یاسر عرفات اور ان کی پی ایل او اسرائیل کی مکمل تباہی کے قائل تھے، مگر امریکہ، یورپ، روس، چین اور عرب ممالک کے کہنے پر یاسر عرفات نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا، مگر اسرائیل نے اس امن معاہدے کو خود بے معنی بناکر ختم کردیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، مقبوضہ فلسطین جہنم کا منظر پیش کررہا ہے۔ غزہ کی ابتر حالت کا یہ عالم ہے کہ خود مغربی ذرائع ابلاغ اسے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل قرار دیتے ہیں۔ غزہ میں بے روزگاری کی شرح 80 فیصد ہے۔ غزہ کی کوئی معیشت ہی نہیں۔ اسرائیل غزہ میں پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضرورتوں کے سرچشموں کو تباہ کرچکا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے چند برسوں کے دوران فائرنگ سے ڈیڑھ ہزار سے زیادہ فلسطینی بچے یہ کہہ کر شہید کیے کہ یہ بچے ’’کراس فائرنگ‘‘ کی زد میں آگئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کی ’’مسلم خوری‘‘ خون آشامی میں بچوں کا بھی خیال نہیں رکھتی۔
امریکہ اور یورپ سیکولر ہیں، اور یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جہاد کے وقت امریکہ اور یورپ مسلمانوں کے ’’اتحادی‘‘ تھے۔ مغربی ذرائع ابلاغ افغانستان کے جہاد کو جہاد اور مجاہدین کو مجاہدین کہتے تھے۔ امریکہ کے سابق صدر رونالڈ ریگن نے افغانستان کے رہنمائوں کو وائٹ ہائوس میں دعوت پر بلایا تو فرمایا کہ افغان مجاہدین اخلاقی اعتبار سے بانیانِ امریکہ کے مساوی ہیں۔ مگر افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے ساتھ ہی مجاہدین ’’دہشت گرد‘‘ اور مجاہدین کا مذہب بنیاد پرستی اور انتہا پسندی سکھانے والا مذہب بن گیا۔ ہمیں یاد ہے امریکہ اور یورپ نے عراق پر اقتصادی پابندیاں لگائیں تو ان پابندیوں کے نتیجے میں عراق کے اندر غذا اور دوائوں کی قلت ہوگئی اور پانچ لاکھ بچوں سمیت دس لاکھ عراقی غذا اور دوائوں کی قلت کے باعث ہلاک ہوگئے۔ نائن الیون کے ایک سال بعد امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو اس حملے سے پانچ سال میں 6 لاکھ عراقی مارے گئے۔ یعنی سیکولر مغرب نے 15 برسوں میں عراق کے 16 لاکھ مسلمانوں کو قتل کردیا۔ افغانستان میں گزشتہ 17 سال کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔
چین اور مسلمانوں کے تعلقات ہمیشہ ’’برادرانہ‘‘ رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے چین کی اہمیت پر تو بہت بات ہوتی ہے مگر چین کے لیے پاکستان کی اہمیت پر کوئی بات نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر پاکستان چین کے خلاف امریکہ اور بھارت کا اتحادی بن جائے تو چین کی سالمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے، مگر پاکستان ہمیشہ سے چین کی وحدت اور سالمیت پر اصرار کرتا رہا۔ یہ چند روز پیشتر کی بات ہے کہ چین کے صدر ژی زن پنگ نے بیجنگ میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے تصور کو مسترد کردیا اور تہذیبوں کے مابین پُرامن بقائے باہمی کے تصور پر اصرار کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہم تمام تہذیبوں کے حسن و جمال کو سراہتے رہیں گے تہذیبوں کے درمیان کوئی تصادم نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایشیا تہذیبوں کی پیدائش کا بڑا مرکز ہے اور یہاں دنیا کی دو تہائی آبادی موجود ہے۔ (دی نیوز کراچی، 16 مئی 2019ء)
ہم نے آج تک چین کے کسی رہنما کو اس سطح کا جھوٹ بولتے دیکھا، نہ اتنی کھوکھلی باتیں کرتے سنا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین ایک جانب تہذیبوں کی پُرامن بقائے باہمی کا تصور پیش کرتے ہوئے تہذیبوں کے تصادم کو مسترد کررہا ہے، دوسری طرف چین نے اپنے صوبے سنکیانگ یا مشرقی ترکستان میں مسلمانوں کی مذہبی زندگی کو فنا کرنے پر کمر باندھی ہوئی ہے۔ روز اطلاعات آرہی ہیں کہ چین میں مسلمانوں کو نماز روزے سے روکا جارہا ہے، پردے پر پابندی لگا دی گئی ہے، داڑھی رکھنا جرم قرار پا گیا ہے۔ چین نے لاکھوں مسلمانوں کو ایک کیمپ میں محصور کیا ہوا ہے جہاں انہیں ’’برائے نام مسلمان‘‘ ہونے کی ’’تربیت‘‘ دی جارہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ تہذیبوں کا تصادم ہے یا تہذیبوں کی پُرامن بقائے باہمی کا منظر؟ غورکیا جائے تو یہاں بھی ایک طرف مسلمانوں کی رواداری ہے اور دوسری جانب دوست جیسے مذہبی و تہذیبی حریف کی خونخواری۔
تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان معاشروں نے جدیدیت پسندوں، سیکولرازم اور لبرل ازم کے علَم برداروں اور سوشلسٹوں کو بڑے صبر و ضبط کے ساتھ ’’برداشت‘‘ کیا ہے۔ سلیم احمد سرسید کو ’’بابائے جدیدیت‘‘ کہا کرتے تھے، مگر سرسید جدیدیت کے علَم بردار بھی نہیں تھے۔ ہوتے تو وہ اصلی جدیدیت پسندوں کی طرح خدا اور مذہب کو مکمل طور پر مسترد کردیتے۔ مگر انہوں نے ’’اسلام اور کفر‘‘ کا ’’امتزاج‘‘ تخلیق کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ انہیں بابائے جدیدیت تو نہیں البتہ بابائے ’’منافقت‘‘ ضرور کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ تو ایک جملۂ معترضہ ہے، یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ سرسید خود کو ’’جدید‘‘کہتے تھے، ’’صاحبِ علم‘‘ سمجھتے تھے، انگریزوں کی طرح خود کو ’’مہذب‘‘ باور کرتے تھے اور انگریزوں ہی کی طرح انہیں اپنے بارے میں یہ خیال لاحق تھا کہ وہ ’’عقل پرست‘‘ یا Rationalist بھی ہیں۔ لیکن سرسید نے اپنی تحریروں میں 1857ء کی جنگ ِآزادی کے مجاہدین کے لیے جو زبان استعمال کی ہے وہ سرسید کی ’’رواداری‘‘ کو بھی ظاہر کردیتی ہے اور اُن کی ’’تہذیب‘‘ اور ’’برداشت‘‘ کا بھی پول کھول دیتی ہے۔ سرسید نے 1857ء کی جنگ ِآزادی کے ہیروز کو ان ناموں سے پکارا:
(1) مفسد (2) حرام زادے (3) نمک حرام (4) غنیم، یعنی دشمن (5) غدار (6) کافر (7) بے ایمان (8) بدذات (9) پاجی (10) جاہل (11) بداطوار (12) تماش بین (13) شراب خور
(نقشِ سرسید۔ از ضیاء الدین لاہوری۔ صفحہ 186)
سرسید جدید ہوں یا نہ ہوں، برصغیر کے تمام جدیدیوں اور سیکولر اور لبرل عناصر کے ’’امام‘‘ ضرور ہیں۔ چنانچہ جو عیوب سرسید میں تھے وہی عیوب جدیدیوں، سیکولر اور لبرل عناصر میں بھی ہیں۔ جتنی غیررواداری اور عدم برداشت سرسید میں تھی، اتنی ہی غیر رواداری اور عدم برداشت جدیدیوں، سیکولر اور لبرل دانش وروں میں ہے۔ ہمیں یاد ہے ایک بار روزنامہ ڈان میں معروف جدیدیے اور سیکولر دانش ور پرویز ہود بھوئے نے امام غزالی کو ’’ملّا‘‘ قرار دیا تھا۔ انہوں نے غزالی کے لیے انگریزی میں وہی لفظ لکھا تھا جو ملّائوں اور مولویوں کے لیے لکھا جاتا ہے، یعنی Cleric۔ غزالی کو ملّا کہنا ایسا ہی ہے جیسے سورج کو ذرہ قرار دیا جائے۔ زاہدہ حنا نے ابھی حال ہی میں اپنے ایک کالم میں آنجہانی سوشلسٹ دانش ور سید سبط حسن کی تحریر کا حوالہ دیا ہے۔ اس حوالے میں سید سبط حسن نے مذہبی لوگوں کو انتہا پسند قرار دیتے ہوئے ’’شاہ دولہ کے چوہے‘‘ قرار دیا ہے۔ طالبان نے وقت کی واحد سپرپاور امریکہ کو شکست دے دی ہے مگر روزنامہ ڈان طالبان کے ایسے کارٹون شائع کرتا رہتا ہے کہ طالبان صرف وحشی، درندے اور شیطان صفت نظر آئیں۔ ڈان کی ’’دلجوئی‘‘ کے لیے اگر طالبان کو وحشی، درندے اور شیطان صفت مان لیا جائے تو پھر ڈان کو امریکہ کے زیادہ ہولناک کارٹون شائع کرنے چاہئیں، اس لیے کہ امریکہ طالبان سے کروڑوں گنا بڑا وحشی، درندہ اور شیطان صفت ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ طالبان نے اب تک ہزاروں لوگوں کو مارا ہے، مگر مائیکل مان کی تصنیف Dark side of the democracy کے مطابق امریکہ نے Americas میں 8 سے 10 کروڑ ریڈانڈینز اور دیگر قبائل کے لوگوں کو قتل کیا ہے۔ کہاں ہزاروں لوگوں کو قتل کرنے والے وحشی، اور درندے، اور کہاں 8 سے 10 کروڑ لوگوں کو قتل کرنے والا وحشی اور درندہ؟
یہاں سرسید کے ذکر سے یاد آیا کہ سرسید کے زمانے کے علماء نے سرسید کے خلاف کفر کے فتوے تو دیے مگر سرسید برصغیر کے مسلمانوں کے سینے پر ساری زندگی مونگ دلتے رہے اور ’’طبعی موت‘‘ مرے۔ سرسید کے مغرب کے ’’ظرف‘‘ اور برداشت کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے خلاف آواز اٹھانے والی شخصیات ہی کو نہیں، حکومتوں کو بھی مار ڈالتا ہے، یعنی راستے سے ہٹا دیتا ہے، بالخصوص مسلم دنیا میں۔ چنانچہ شاہ فیصل کو گھر کے آدمی سے شہید کرا دیا گیا۔ بھٹوکو ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی سزا دے کر مثال بنایا گیا۔ الجزائر میں اسلامی فرنٹ کی جمہوری کامیابی کو قتل کردیا گیا۔ ترکی میں اسلام پسند نجم الدین اربکان کو ایک سال سے زیادہ اقتدار میں نہیں رہنے دیا گیا۔ مصر میں صدر مرسی کی حکومت ایک سال میں فوج کے ذریعے گرا دی گئی۔ رجب طیب اردوان کا تختہ الٹ دیا گیا تھا، وہ محض اتفاق سے بچ گئے۔ حد تو یہ ہے کہ برطانیہ جیسا ملک ڈاکٹر ذاکر نائیک کو اپنے یہاں نہیں آنے دیتا، اور سیکولر انڈیا ذاکر نائیک کیا، اُن کے PEACE TV تک کو برداشت نہیں کرپارہا۔