پاکستان کی معیشت سنبھالنا، عمران حکوت کے لیے مشکل ہوتا جارہا ہے، حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان غلامی کی نئی دستاویز پر دستخط ہونے جارہے ہیں۔ اس بات کی تصدیق کی جاچکی ہے کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول کا معاہدہ طے پاگیا ہے۔ معاہدے کے مطابق 39 مہینوں پر محیط اس پروگرام کے ذریعے پاکستان کو 6 ارب ڈالر کا قرضہ ملے گا، اور عالمی بینک کے علاوہ ایشیائی ترقیاتی بینک بھی چھ ارب ڈالر کے نئے قرضے فراہم کریں گے۔ اس معاہدے کی تفصیلات مانگی جارہی ہیں، اپوزیشن چاہتی ہے کہ پارلیمنٹ میں معاہدے پر بحث ہو، لیکن حکومت اور آئی ایم ایف دونوں اس معاہدے سے متعلق خاموشی اختیار کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ معاہدے میں آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم کی گئی ہیں۔ حکومت نے کوئی باقاعدہ اعلان نہیں کیا، اور آئی ایم ایف نے بھی صرف پریس ریلیز جاری کرکے اطلاع دی۔ حکومت نے کوشش کی تھی کہ آئی ایم ایف شرائط میں نرمی لائے، لیکن وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوا، اسی لیے معاہدے کا اعلان خاموش اعلامیے کے ذریعے کیا گیا۔ اس معاہدے میں ابہام کی وجہ سے پہلا ردعمل اسٹاک مارکیٹ میں ہوا، دوسرا ردعمل ڈالر کے ریٹ میں اضافے سے سامنے آیا، زرمبادلہ کا کاروبار کرنے والے نجی اداروں نے حکومت کو یقین دہانی کرائی کہ ڈالر کی قیمت 143روپے سے144.50 روپے کے درمیان رکھی جائے گی، لیکن انٹر بینک میں ڈالر 141.7 روپے سے بڑھ کر147 روپے تک جا پہنچا، اور مزید بڑھے گا۔ مالیاتی ادارے کے ساتھ معاہدے کے تحت اگلے 3 سال میں پاکستانی روپے کی قدر میں 20 فیصد کمی ہوگی، ڈالر کی قیمت 200 روپے کی سطح تک بھی جا سکتی ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے کے تحت پاکستان میں ڈالر کی قیمت 180 روپے کی سطح تک جانے کا امکان ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کے باعث اس وقت ملک میں بیرونی قرضوں کا حجم 105ارب 84 کروڑ ڈالر تک جاپہنچا ہے۔ گزشتہ سال اسی عرصے میں یہ قرضے92 ارب 29 کروڑ ڈالر تھے۔ تین ماہ میں 13 ارب 55 کروڑ ڈالر کے قرض کا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے قرضے جی ڈی پی کا تقریباً 75 فیصد ہوگئے ہیں، اور رواں سال دسمبر تک 5 ارب 72کروڑ ڈالر کے قرضے واپس کرنا ہیں، اور اگلے ماہ کے آخر تک 1 ارب 27 کروڑ ڈالر، جبکہ جولائی سے دسمبر تک 4 ارب 44کروڑ ڈالر واپس کرنا ہیں۔
روپے کے مقابلے میں ڈالر مہنگا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت کو چونکہ بیرونی قرض واپس کرنا ہے لہٰذا سٹے بازوں نے مارکیٹ سے ڈالر ہی اٹھا لیے ہیں۔ قرض کی قسط دینے کے لیے اب یہی ڈالر مہنگے داموں اسٹیٹ بینک خریدے گا۔ ڈالر کون بیچ رہا ہے اور کون اس کھیل میں کمائی کررہا ہے، دونوں سے حکومت واقف ہے مگر بے بس دکھائی دیتی ہے، اور نقصان سراسر ملک کو ہورہا ہے۔ روپے کی قدر ڈالر سے جوڑنے کا عمل مستقبل میں بھی ملک کو نقصان پہنچائے گا، کیونکہ مالیاتی ادارے کے ساتھ معاہدے کے تحت اگلے 3 سال میں پاکستانی روپے کی قدر میں 20 فیصد کمی ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت اس سے اچھی طرح واقف ہے، لیکن سیاسی مصلحت نے خاموش کرادیا ہے۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر مہنگا ہونے پر سوشل میڈیا پرڈالر کے بائیکاٹ کی مہم بھی شروع ہوچکی ہے، تاہم معاشی ماہرین اس مہم کے مثبت اثرات کے بارے میں پُرامید نہیں۔ سابق سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود فرائیڈے اسپیشل کے رابطہ کرنے پر کہتے ہیں کہ ’’اگر ڈالر کے بائیکاٹ کی ایسی کوئی تحریک جو قومی جذبے سے شروع کی گئی ہو، اس کا ہر صورت خیرمقدم کرنا چاہیے، ڈالر رکھنے کی قانونی اجازت ہے اور کوئی قدغن نہیں، لیکن جب آپ کسی کو کہیں کہ ڈالر نہ لیں کیونکہ یہ ملکی مفاد میں نہیں، تو اس کا جواب بھی سادہ ہے کہ اگر ملکی مفاد میں نہیں تو اجازت کیوں ہے؟‘‘ ایک رائے یہ بھی دی جارہی ہے کہ معاہدے پر عمل درآمد حکومت کو کرنا ہے اور یہی بنیادی شرط ہے جسے چھپایا جارہا ہے، اسی لیے وہ مافیا متحرک ہوا کہ حکومت اصل معاہدے کی تفصیلات بتائے۔ اس پس منظر میں اسٹاک مارکیٹ مزید گرکر تین سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔ سب بڑا مرحلہ بجٹ کا اعلان ہوگا۔ سات سو سے آٹھ سو ارب روپے کے ٹیکس عائد کیے جائیں گے اور بہت سارے اخراجات میں کٹوتی کردی جائے گی تاکہ بجٹ خسارہ محدود کیا جاسکے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ لیکن یہاں سے بڑا سوال پیدا ہوا ہے کہ سرکار کے دعوے کے مطابق 90 ارب ڈالر قرضہ لے کر کھایا جا چکاہے، اس سب کے باوجود ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لائی گئی ہے جس سے تین چار سوارب ملنے کی امید ہے۔ دنیا بھر میں اسکیمیں آتی ہیں لیکن ٹیکس پورا وصول کیا جاتا ہے، لیکن یہاں6 فیصد دینے کا کہہ کرکہا جارہا ہے کہ سارے اثاثے باہر ہی رکھو۔ یہ اسکیم تمام اسٹیک ہولڈرز مل کرلائے ہیں، اور اگر اس کے نتائج نہ ملے تو ناکامی کے ذمہ دار تنہا عمران خان نہیں ہوں گے۔ حفیظ شیخ، رضا باقر اور شبر زیدی پر مشتمل معاشی ٹیم عمران خان کی نہیں، اگر یہ معاشی ٹیم ناکام ہوجاتی ہے تو ذمہ دار کون ہوگا؟ یہاں حکومت کے سامنے دو راستے ہیں، پہلا یہ کہ وہ وہی کچھ کہتی اور کرتی رہے جو اب تک کہہ رہی ہے، دوسرا راستہ اب خود کچھ کرکے دکھانے کا ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اب اپنا نیا بیانیہ لے کر چلے، گزشتہ حکومتوں کے خلاف بیانیہ اب نہیں چلے گا، ورنہ یہ حکومت جلد فارغ ہوجائے گی۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ ہوا ہے، اورآئندہ بجٹ میں ترقیاتی فنڈ کے لیے 800 ارب روپے رکھے جارہے ہیں۔ یہ قلیل رقم ملک میں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے میں مددگار ثابت نہیں ہوگی، لیکن بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ میں 80 ارب روپے کا اضافہ کرکے اس بار فنڈ میں 180 ارب روپے رکھے جائیں گے۔آئی ایم ایف نے رپورٹ لکھی ہے کہ پاکستان کی معیشت 2.27 کی رفتار سے ترقی کرے گی۔ جب معیشت اتنی آہستہ ہو جائے گی تو نوکریاں کہاں سے نکلیں گی ؟بہت عرصے تک لوگ بے روزگار رہنے سے غربت کی لکیر سے نیچے چلے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام مصر میں دیا گیا، اور جب یہ پروگرام نومبر 2016ء میں شروع ہوا تو وہاں صرف 35 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے تھے، لیکن آج 2019ء میں وہاں 55 فیصد سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ غربت تیزی سے بڑھی ہے۔ اس پروگرام کا ڈیزائن ہی ایسا ہے جس میں معیشت کا سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے اور صورتحال یہ ہے کہ لوگ روزانہ کی بنیاد پر فاقہ کشی، علاج اور بے روزگاری کے باعث مررہے ہیں اور جن کی زندگی کی سانسیں چل بھی رہی ہیں تو وہ مشکل سے سانس لے پا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے زیر سایہ معیشت غریب اور متوسط طبقے کے لیے ایک پھندا ہے۔ اس نظام میں بدحالی کی کیفیت کو تبدیل کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ اعداد و شمار توڑمروڑ کر پیش کیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کی نااہلی اور بدنیتی پر مبنی پالیسی کا بوجھ عام آدمی پر پڑتا ہے اور وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زبوں حالی کا شکار ہورہا ہے یہ جھوٹ، فریب اور استحصالی نظام کے تحت چلنے والی معیشت کبھی عوام اور عام آدمی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی ہے۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی تشکیل دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکی شہر بریٹن ووڈ میں ہوئی تھی۔ ان اداروں کی تشکیل کا مقصد عالمی اقتصادی نظام پر امریکی کنٹرول تھا۔ اس مقصد کے لیے ڈالر کو عالمی کرنسی کا معیار قرار دیا گیا تاکہ کوئی بھی معیشت آزادانہ کردار ادا نہ کرسکے۔ ان اداروں کی اصل حیثیت اقتصادی غارت گر کی ہے، عالمی اقتصادی نظام سیکولر تہذیبِ مغرب کا اقتصادی اور معاشی چہرہ ہے جو آخرت کی جواب دہی سے آزاد اور بے نیاز ہے۔ اس لیے یہ جانتے بوجھتے کروڑوں انسانوں کو فاقہ کشی اور افلاس کے گڑھے میں گرا دیتے ہیں۔ اس نظام نے محکوم اور کمزور اقوام میں ایسے ضمیر فروش طبقات کو مقتدر اور حکمراں بنادیا ہے جو اپنے مالی اور دنیاوی مفادات کے لیے قوم کا سودا کرلیتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط اس بات کی علامت ہیں کہ سیکولر سرمایہ دارانہ نظام کے قائدین کتنے سفاک، سنگ دل اور دہشت گرد ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی غلامی کی جو نئی شرائط طے کی ہیں ان سے غریب اور متوسط طبقے کی بدحالی پر کوئی فرق پڑے گا؟ معیشت کی بگڑتی صورت حال پر قابو پایا جاسکے گا؟ مہنگائی کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے اندر ان چیلنجز سے نمٹنے کی اہلیت اور صلاحیت موجود ہے؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حکمرانوں سمیت سیاسی و غیر سیاسی قیادتوں میں قوم کو آئی ایم ایف کی اقتصادی غلامی سے نجات دلانے کا کوئی ارادہ بھی پایا جاتا ہے؟
بلاول بھٹو کا افطار ڈنر
اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی حکومت کو آئی ایم ایف کے معاہدے پر ریلیف دینا چاہتی ہیں لیکن اپنی شرط پر۔ دونوں جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت پر دبائو بڑھایا جائے گا لیکن اسے گرایا نہیں جائے گا۔ دیگر جماعتوں کا نکتہ نظر معلوم کرنے اور انہیں کسی حد تک اعتماد میں لینے کے لیے ہی پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ملک کی اپوزیشن جماعتوں کے سربراہوں کے اعزاز میں افطار ڈنر دیا، لیکن اس افطار ڈنر کی اہمیت اس لیے بڑھ گئی کہ مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز پہلی بار اپنی جماعت کے وفد کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں کی سیاسی مجلس میں شریک ہوئیں۔ یوں یہ افطار ڈنر باقاعدہ ایک سیاسی ایجنڈا بن گیا۔ اس بارے میں مریم اور بلاول کا نام لے کر حکومت کی جانب سے سب سے بڑا ردعمل وزیراعظم عمران خان نے دیا، اور اس طرح خود ہی حکومت نے اس افطار ڈنر کو خطرہ سمجھ لیا۔ وزیراعظم کے ردعمل کی وجہ سے تحریک انصاف کی لیڈرشپ اور کارکن نفسیاتی دبائو میں آگئے۔ جس سطح کا ردعمل حکومت نے دیا اس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ وزیراعظم نے اپنے سیاسی اناڑی پن کی وجہ سے حکومت کو دیوار سے لگا دیا۔ حکومت خاموش رہتی تو یہ افطار ڈنر خبروں کے ایک بلیٹن سے زیادہ اہمیت کا حامل پروگرام نہیں تھا۔ وزیراعظم کے ردعمل کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں نے بھی نفسیاتی وار کیا اور عید کے بعد کُل جماعتی کانفرنس بلانے اور حکومت مخالف تحریک چلانے کا عندیہ دے دیا۔ اسلام آباد کے زرداری ہائوس میں ہونے والے اس افطار ڈنر میں جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق بھی مدعو تھے، لیکن جماعت اسلامی کی نمائندگی نائب امیر لیاقت بلوچ کی سربراہی میں ایک وفد نے کی، اور جماعت اسلامی صرف افطار ڈنر میں شریک ہوئی، مشترکہ پریس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئی۔ جماعت اسلامی کا مؤقف ہے کہ وہ کسی کے لیے کندھا بننے کے بجائے اپنے اہداف کے لیے سیاسی عمل میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ افطار ڈنر کے بعد اپوزیشن رہنمائوں کی باقاعدہ مشاورتی مجلس ہوئی جس میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی اگرچہ حکومت کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دونوں جگہ کردار ادا کرنے کو تیار ہیں لیکن فی الحال حکومت گرانے کے موڈ میں نہیں ہیں، جب کہ جے یو آئی اور دیگر جماعتوں کی رائے یہ تھی کہ حکومت کا کریا کرم کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتیں سڑکوں پر آجائیں۔ چھوٹی سیاسی جماعتیں حکومت کو گھر بھیجنے پر متفق تھیں، لیکن بلاول اور مریم جلد بازی نہیں چاہتے۔ میاں افتخار اور دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے مریم اور بلاول سے سوال کیا کہ کہیں آپ ڈیل تو نہیں کریں گے؟ آپ دونوں جماعتیں خود کو اس حوالے سے کلیئر کریں۔ مریم نواز اور بلاول نے کہا کہ وہ ہرگز کوئی ڈیل نہیں کریں گے۔ البتہ ایک بیٹھک میں جہاں سب نے کھل کر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کی، مریم اور بلاول نے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ مریم نواز کی اس مجلس میں شرکت سے محسوس ہوا ہے کہ لندن میں بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کے درمیان میثاقِ جمہوریت کے بعد، اب ان کی اگلی نسل کی جانب سے نئے میثاقِ جمہوریت کی طرف پیش رفت ہوئی ہے، اور یہ پیش رفت اس بات کا بھی پتا دے رہی ہے کہ نوازشریف اور آصف علی زرداری دونوں اب سیاست میں بیک فٹ پر چلے گئے ہیں اور ان کی جگہ اب اگلی نسل نے سنبھال لی ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف اگرچہ جیل میں ہیں، لیکن اُن کے رابطے بڑھ گئے ہیں، اور کچھ معاملات طے بھی ہوچکے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ کسی بھی وقت عدالتی فیصلے کے بعد علاج کے لیے بیرونِ ملک جانے والے ہیں۔ بیک فٹ پر جانے کے لیے اُن کی ایک ہی شرط تھی کہ پارٹی مریم نواز کے حوالے کرنے دی جائے اور انہیں سیاست میں کام کرنے دیا جائے۔ سیاسی منظرنامہ اس بات کی تصدیق کرتا ہوا نظر آرہا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے نکتہ نظر سے معاملات سدھار کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ طے شدہ حکمت عملی یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی حکومت پر دبائو بڑھا کر اپنے حق میں فیصلے کروائیں گی۔ اسی لیے مریم نواز نے افطار ڈنر میں شرکت کے بعد اگلے روز مسلم لیگ(ن) کے اعلیٰ سطحی مشاورتی اجلاس کے بعد ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ پھر لگایا ہے۔ آگے چل کر وہ مزید جارحانہ انداز اپنائیں گی۔ افطار ڈنر اور بعد میں مسلم لیگ(ن) کے اجلاس میں بھی یہی بحث ہوئی کہ حکومت کے خلاف گھیرائو جلائو نہیں، بلکہ نرم احتجاج کیا جائے اور وقت کے دھارے کے مطابق سمت کا تعین کرلیا جائے۔ افطار میں شریک اے این پی کے میاں افتخار نے بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر سخت ناراضی کا اظہار کیا کہ گزشتہ برس اگست میں ہم نے اتحاد بنایا لیکن اسے برقرار نہیں رکھا گیا، اب ایک سال بعد ہم دوبارہ مل رہے ہیں، عوام مشکلات کا شکار ہیں، کیا ہم آج کے بعد بھی دوبارہ ایک مہینہ انتظار کریں گے! اے این پی کا خیال تھا کہ ملک کے اندرونی حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں، ملک کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ اے این پی کے ساتھ مولانا فضل الرحمان بھی اسی مؤقف کے حمایتی تھے، میرحاصل بزنجو بھی یہی فیصلہ چاہتے تھے کہ حکومت کو چلتا کرنے کے لیے جلد از جلد کوئی کام شروع ہوجانا چاہیے، حتیٰ کہ بی این پی مینگل جو حکومتی اتحادی ہے، اُس کے سینیٹر جہانزیب جمال دینی بھی حکومت کو چلتا کرنے کے منتظر دکھائی دیے۔ جہانزیب جمال دینی کا خیال تھا کہ اگر ایک مرتبہ پھر جولائی 2018ء کی طرز کے عام انتخابات ہوئے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آفتاب شیر پائو بھی حکومت سے چھٹکارا چاہتے تھے۔ حاصل بزنجو نے اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کی تجویز دی۔ پشتون تحفظ موومنٹ کو اسٹیبشلمنٹ سے بہت گلے تھے، محسن داوڑ بولے ’’ہم تو غدار ہیں‘‘، جواب میں مریم نواز بولیں ’’اس کمرے میں موجود سب غدار ہیں‘‘۔ تاہم اس پوری مجلس میں گفتگو کے دوران حمزہ شہباز بالکل خاموش بیٹھے رہے۔
آئی ایم ایف کا بارہواں قرضہ
پاکستان 1980 کی دہائی کے اواخر سے اب تک کئی بار آئی ایم ایف سے قرضے لے چکا ہے۔ آخری مرتبہ قرضہ 2013ء میں لیا گیا تھا، جبکہ سال 2019ء میں قرض کے لیے 6 ارب ڈالر کا معاہدہ طے ہوگیا ہے جس کی حتمی منظوری باقی ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے مختلف صورتوں میں قرضے فراہم کیے جاتے ہیں۔
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو دیے جانے والے قرضوں کی بات کی جائے تو یہ قرضے طویل اور بڑے ہوتے ہیں۔ طویل سے مراد قرضوں کی واپسی کا عمل ہے۔ 1958ء سے 1977ء کے درمیان اس کی مدت ایک سال تھی۔ اس دوران لیے گئے تمام قرضے بیل آئوٹ پیکیجز یا اسٹینڈ بائی معاہدے تھے۔ سال 1980ء سے سال 1995ء کے درمیان پاکستان آئی ایم ایف کے 7 پروگراموں سے منسلک رہا، جن میں سے ایک کے سوا سارے قرضوں کی واپسی کی میعاد ایک سے دو سال رہی۔ سال 1997ء سے سال 2013ء میں نون لیگی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد آئی ایم ایف سے 6.4 ارب ڈالر کا قرض لیا گیا، جو آئی ایم ایف کے 6 مختلف پروگراموں کے تحت حاصل کیا گیا، ان میں ایک کے سوا سارے پروگراموں کی میعاد تین سال تھی۔ حالیہ دنوں میں پاکستان 13ویں بار بیل آوٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف کے پاس گیا ہے، جو عالمی مالیاتی فنڈز کے تحت پاکستان کا 22 واں قرضہ ہے۔
ڈالر کی شرح اور بیرونی قرضے
اوپن مارکیٹ میں ڈالر مزید 2 روپے اضافے سے 153 روپے کا ہوگیا، جب کہ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 1 روپے 36 پیسے مہنگا ہوکر 151 روپے پر پہنچ گیا۔ انٹربینک میں ڈالر ایک روپے 78 پیسے مزید مہنگا ہوکر 149 روپے 65 پیسے، جب کہ اوپن مارکیٹ میں ایک روپے مہنگا ہوکر 152 روپے پر پہنچا تھا۔ایکس چینج کرنسی ایسوسی ایشن کے مطابق اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں 2 روپے کا مزید اضافہ ہوا اور وہ اس وقت 153 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ انٹر بینک میں ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے اور اس وقت 1 روپے 36 پیسے اضافے سے 151 روپے پر سودا ہوا۔ گزشتہ ہفتے کاروباری دنوں میں ڈالر کی قدر میں 9 روپے 60 پیسے اضافہ ہوا ہے جس کے بعد بیرونی قرضوں میں 1000 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ سوشل میڈیا پر مشیر خزانہ حفیظ شیخ سے منسوب ایک خبر گردش کرنے لگی کہ کرنسی مارکیٹ میں کام کرنے والی ایکس چینج کمپنیوں کوختم کردیا جائے گا۔ تاہم اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کی جانب سے ہنگامی طور پر وضاحتی بیان جاری ہوا جس میں ایسی تمام خبروں کو بے بنیاد قرار دیا گیا کہ سوشل میڈیا پر مشیر خزانہ حفیظ شیخ سے منسوب خبر بالکل جھوٹی ہے، حکومت نے کرنسی کا لین دین کرنے والی ایکس چینج کمپنیوں کو بند کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے نیشنل انوسٹمنٹ ٹرسٹ (این آئی ٹی) کے تحت 20 ارب روپے کے فنڈ کے اعلان کے بعد حصص مارکیٹ میں بہتری دیکھنے میں آئی۔ ماہرین کے مطابق شرح سود بڑھنے سے کاروباری لاگت اور حکومتی قرضوں میں اضافہ ہوگا۔ حکومتی مقامی قرضوں میں 300 ارب روپے اضافے کا خدشہ ہے، گاڑیوں اور گھروں کی خریداری پر قرض لینا مہنگا پڑے گا، جس سے گاڑیوں اور گھروں کی خریداری میں کمی آئے گی۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال کی تیسری سہ ماہی کے آخر میں بیرونی قرضوں کا حجم 105ارب 84 کروڑ ڈالر ہوگیا ہے۔ پاکستان کو رواں سال دسمبر تک 5 ارب 72 کروڑ ڈالر کے قرضے واپس کرنا ہیں۔ دسمبر سے پہلے 1ارب ڈالر مالیت کے بانڈ کی مدت بھی ختم ہورہی ہے، بانڈ کی رقم بھی سرمایہ کاروں کو واپس لوٹانی ہوگی۔