اعداد و شمار کے مطابق اِس سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران امریکہ کا تجارتی خسارہ 79 ارب ڈالر رہا، جبکہ گزشتہ برس اسی سہ ماہی میں یہ خلیج 91 ارب ڈالر تھی، اور اگر یہ رجحان جاری رہا تو سال کے اختتام پر تجارتی خسارہ 419 ارب سے کم ہوکر 316 ارب ڈالر رہ جائے گا، جبکہ مئی کے مہینے میں امریکہ نے 3 سو ارب ڈالر مالیت کے نئے محصولات بھی عائد کردیے ہیں
امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی تنازع اپنے عروج پر ہے۔ اس کشیدگی کا آغاز گزشتہ سال اپریل میں اُس وقت ہوا جب صدر ٹرمپ نے املاکِ دانش یا Intellectual Properties کی چوری کا الزام لگاکر چینی مصنوعات کی درآمد پر 50 ارب ڈالر کے اضافی محصولات عائد کرنے کا اعلان کردیا۔ امریکی صدر نے اسی وقت متنبہ کیا تھا کہ یہ محض آغاز ہے اور وہ امریکہ کے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے انتہائی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ معاملہ محض چین تک محدود نہیں، وہ ایسی ہی کارروائی اپنے پڑوسی میکسیکو اور کینیڈا کے خلاف کرچکے ہیں۔کچھ اسی قسم کا رویہ امریکہ کے یورپی حلیفوں کے لیے بھی ہے۔
صدر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلسل کہہ رہے تھے کہ امریکہ کا تجارتی خسارہ قابو سے باہر ہوچکا ہے اور دوسرے ممالک خاص طور سے چین نے ہماری منڈیوں میں اپنی سستی مصنوعات کا انبار لگاکر امریکی کارخانوں کو تالہ بندی پر مجبور کردیا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں کارکن بے روزگار ہیں۔ اپنے جلسوں میں صدر ٹرمپ نے World Trade Organizationکو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ WTO امریکہ کی تباہی کا عالمی معاہدہ ہے۔ اپنی انتخابی تقریروں میں انھوں نے امریکی صنعت کی تباہی کا ذمہ دار ان تجارتی معاہدوں کو قراردیا جن میں امریکی مفادات کو نظرانداز کردیا گیا۔ اُن کا یہ جملہ صنعتی مزدوروں میں بہت مقبول ہوا کہ ’’آزاد تجارت کی آڑ میں چین ہماری صنعت کی عصمت دری کررہا ہے۔‘‘
صدر ٹرمپ کے اس مؤقف کو مزدوروں میں بے حد پذیرائی نصیب ہوئی، بلکہ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اس نکتے کو مستقل مزاجی کے ساتھ باربار اور جارحانہ انداز میں اٹھاکر ڈونلڈ ٹرمپ نے صنعتی ریاستوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کا ووٹ بینک لوٹ لیا۔ 2016ء میں جناب ٹرمپ کی کامیابی امریکہ کی صنعتی ریاستوں مشی گن، وسکونسن اور پنسلوانیا کی مرہونِ منت تھی۔ یہ تمام ریاستیں ڈیموکریٹک پارٹی کا مضبوط گڑھ سمجھی جاتی ہیں۔ خاص طور سے مشی گن اور وسکونسن میں ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست سے خود صدر ٹرمپ کو بھی حیرت ہوئی۔ برسرِاقتدار آتے ہی صدر ٹرمپ نے وزارتِ تجارت اور خزانہ کے اعلیٰ افسران پر مشتمل ایک ٹاسک فورس تشکیل دی جس نے تقریباً ایک سال تک امریکہ و چین کی باہمی تجارت کا جائزہ لیا اور امریکی املاکِ دانش کی چوری کی تحقیقات کیں۔ اس چھان بین کے بعد امریکی حکام اس نتیجے پر پہنچے کہ
٭امریکی اداروں اور سائنس دانوں نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد جو ایجادات کی ہیں چین ان کے تحفظ کے متعلق Patent قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ان کی نقل بناکر انتہائی کم دام پربازار میں پھیلارہا ہے۔ نقل کے لیے چین Reverse Engineering کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔
٭بیجنگ نے ایسے قوانین بنا رکھے ہیں جن کے تحت وہاں فروخت ہونے والی مصنوعات کے ڈیزائن کی ساری تفصیلات تقسیم کنندہ کو دینا ضروری ہے، اور مشارکے کی صورت میں اُن مصنوعات کی تفصیلات کی فراہمی پر بھی اصرار کیا جاتا ہے جو چین میں فروخت ہی نہیں ہوتیں۔ اس حکمت سے چینی ماہرین کو Reverse Engineering کی زحمت بھی نہیں اٹھانی پڑتی اور اصل ڈیزائن اور نقشوں کی مدد سے شرطیہ نئی کاپی ساختہ چین کی مہر لگاکر ارزاں داموں بازار میں پھیلا دی جاتی ہے۔
٭چین اپنی کرنسی کی قیمت جان بوجھ کر کم رکھتا ہے تاکہ اس کی برآمدات دوسرے ممالک کے مقابلے میں سستی رہیں۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ کرنسی کی قیمتوں میں ڈنڈی مارنا WTOکی صریح خلاف ورزی ہے۔
امریکیوں کے مؤقف میں وزن تو ہے لیکن امریکی قوم وسائل کے بارے میں کسی احتیاط و پرہیز کی قائل نہیں۔ آبادی کے اعتبار سے امریکہ دنیا کے 5 فیصد سے بھی کم ہے، لیکن توانائی سمیت دنیا کے چوتھائی سے زیادہ وسائل امریکی ڈکار رہے ہیں۔ آسان قرضوں اور کریڈٹ کارڈ نے امریکی صارفین کو غیر معمولی قوتِ خرید عطا کر رکھی ہے۔ بازار جانے کے لیے اب کرارے نوٹ یا بھری جیب کی ضرورت نہیں، بلکہ کریڈٹ کارڈ دکھا کر دنیا بھر کی آسائشیں بلاتردد و فکر خریدی جاسکتی ہیں۔ قرض کی امریکیوں کو کچھ ایسی لت پڑچکی ہے کہ فاقہ مستی کا ہلکا سا خوف بھی لاحق نہیں۔ ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ امریکی صارفین کے مطالبات کو پورا کرنا مقامی صنعت کاروں کے بس کی بات نہیں، اور طلب بلکہ ہوس کی تسکین کے لیے درآمدات ضروری ہیں۔ یا یوں کہیے کہ صدر ٹرمپ تجارتی خسارہ ختم کرنے کے لیے کتنا ہی زور لگالیں، درآمدات و برآمدات کے درمیان حائل خلیج کو پاٹنا ناممکن ہے۔
چینیوں کو امریکہ کی اس کمزوری کا اچھی طرح اندازہ ہے، چنانچہ بیجنگ نے جواب میں اشتعال کا مظاہرہ کرنے کے بجائے امریکی درآمدات پر جوابی محصولات لگاکر حساب برابر کردیا۔ اسی کے ساتھ امریکہ کے بازارِ حصص کو تاریخی گراوٹ کا سامنا کرنا پڑا اور نیویارک اسٹاک ایکس چینج 700 پوائنٹ نیچے آگیا۔
چینیوں نے محصولات کے لیے جن مصنوعات کا انتخاب کیا اس سے دیہی امریکہ متاثر ہوا جو ری پبلکن پارٹی کاگڑھ ہے۔ یعنی چین نے امریکی ٹیکنالوجی کے بجائے زرعی اجناس، مچھلی، سبزی، پھل، گوشت، دودھ، مکھن اور پنیر پر 25 فیصد ڈیوٹی عائد کردی۔ امریکہ کی تقریباً ہر ریاست براہِ راست چین سے کاروبار کرتی ہے۔ ریاست الاسکا (Alaska)کی ایک چوتھائی سے زیادہ برآمد چین کو ہوتی ہے۔ اسی طرح Illinois,Texas، اور Iowaکی زرعی معیشت کا دارومدار چین کو سویابین، گوار، مکئی اور کپاس کی برآمد پر ہے، جبکہ West Virginia چین کو کوئلہ برآمد کرتا ہے، اور ان چار ریاستوں سے چین کو 30 ارب ڈالر کی زرعی اجناس اور کوئلہ فراہم کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی وسط مغربی ریاستوں سے چین کو گائے کے گوشت اور دودھ، مکھن و پنیر کی فروخت کا تخمینہ کئی ارب ڈالر ہے۔
چین کے جوابی اقدامات سے امریکی کسانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ دوسری طرف امریکی تاجروں کا کہنا تھا کہ چینی درآمدات پر محصولات سے سرکاری خزانے کو تو ضرورفائدہ پہنچا ہوگا لیکن ان پابندیوں سے امریکی صارفین زیادہ متاثر ہوئے ہیں، اور آنے والے دنوں میں عام استعمال کی چینی مصنوعات مہنگی ہوجائیں گی۔ اور تو اور خود صدر ٹرمپ کے مشیر اقتصادی امور لیری کڈلو (Larry Kudlow) نے بھی خدشہ ظاہر کیا کہ تجارت کی جنگ میں چین کا پلڑا بھاری ہے، اس لیے کہ چین کی برآمدات اتنی سستی ہیں کہ محصول کے بعد بھی وہ امریکی خام مال اور مصنوعات سے کم قیمت ہوں گی۔ یعنی محصولات کا سارا بوجھ امریکی صارفین کو برداشت کرنا ہوگا۔ دوسری طرف امریکی مچھلیوں، زرعی اجناس، پھل، سبزی، گوشت، دودھ، مکھن اور پنیر پر عائد کی جانے والی ڈیوٹی سے ایشیا اور یورپ کے تاجروں کو چین سے تجارت کے نئے مواقع مہیا ہوں گے کہ محصولات کے بعد چین کی منڈیوں میں امریکی اجناس دوسرے ملکوں کے مال سے مہنگی ہوجائیں گی۔
چین سے لڑائی کی بعض قدامت پسند مراکزِ دانش نے بھی مخالفت کی۔ انھیں تجارتی پابندیوں پر صدر ٹرمپ کا اصرار غیر منطقی نظر آیا کہ آزادانہ تجارت سرمایہ دارانہ نظام کی روح ہے۔ ان دانش وروں نے صدر ٹرمپ کو یاددلایا کہ WTOکی امریکہ اور یورپ نے اسی بنا پر حمایت کی تھی کہ بین الاقوامی تجارت کو ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ تجارت پر پابندیوں کا خاتمہ بڑی کاپوریشنوں کے مقابلے میں چھوٹے تاجروں اور کارخانوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے جو برآمدات کو اپنی پیداوار بڑھانے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
دوسری طرف چین بھی امریکی پابندیوں سے پریشان نظر آرہا ہے۔ چینی معیشت کی بنیاد برآمدات پر ہے اور اس کی کم قیمت مصنوعات سے دنیا کے بازار بھرے پڑے ہیں۔ چنانچہ صدر ژی جن پنگ نے صدر ٹرمپ کو فون کرکے تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے امریکہ سے درآمدات کا حجم بڑھانے کی پیشکش کی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق انھوں نے امریکہ سے خام تیل اور کوئلہ خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ چین اپنی ضرورت کا کوئلہ شمالی کوریا سے خریدتا ہے، لیکن اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیوں کے بعد چین نے اپنے پڑوسی سے کوئلے کی خریداری بند کردی ہے۔
13 مہینے سے جاری اس لڑائی میں باربار گرم و سرد مرحلے آئے، جس سے امریکہ کے ساتھ پاکستان سمیت ایشیا کے بازارِ حصص میں بے چینی بڑی واضح ہے۔ اپنے مؤقف بلکہ پالیسیوں کے اظہار کے لیے صدر ٹرمپ وزارتِ خارجہ یا صدارتی ترجمان کو زحمت نہیں دیتے، بلکہ براہِ راست ٹویٹ پیغام کے ذریعے اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ چین کے بارے میں ان کے تیکھے اور چبھتے ہوئے ٹویٹ پیغامات سے کشیدگی میں اضافہ اور بازارِ حصص میں ہلچل مچتی ہے، جس کے ایک یا دودن بعد بات چیت کی دعوت اور صدر ژی کے تدبر و معاملہ فہمی کی تعریف سے معمور مفاہمانہ ٹویٹ سے بازار دوبارہ استحکام کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔
امریکہ اور چین کے درمیان تجارت میں چین کو واضح برتری حاصل ہے۔ بیجنگ امریکہ سے سالانہ 120 ارب ڈالر کا مال خریدتا ہے، جبکہ اس کی امریکہ کو برآمدات کا سالانہ حجم 540 ارب ڈالر ہے۔ اسی بنا پر صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ محصولات کی جنگ میں امریکہ کے لیے ہارنے کو کچھ نہیں، اس لیے کہ چین کو امریکی برآمدات اتنی کم ہیں کہ بیجنگ کے عائد کردہ اضافی محصولات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ صدر ٹرمپ کے رفقا کا کہنا ہے کہ اضافی محصولات کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اِس سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران امریکہ کا تجارتی خسارہ 79 ارب ڈالر رہا، جبکہ گزشتہ برس اسی سہ ماہی میں یہ خلیج 91 ارب ڈالر تھی، اور اگر یہ رجحان جاری رہا تو سال کے اختتام پر تجارتی خسارہ 419 ارب سے کم ہوکر 316 ارب ڈالر رہ جائے گا، جبکہ مئی کے مہینے میں امریکہ نے 3 سو ارب ڈالر مالیت کے نئے محصولات بھی عائد کردیے ہیں۔
محصولات اور جوابی محصولات کے ساتھ ہی مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے اور دونوں طرف سے انتہائی اعلیٰ اختیاراتی وفد بات چیت میں مصروف ہے۔ امریکہ کی جانب سے وزیرتجارت ولبر راس، اور چین کے نائب وزیراعظم لیوہی (Liu He) اپنے اپنے وفود کی قیادت کررہے ہیں۔ 67 سالہ لیوہی بین الاقوامی تجارت کے ماہر اور چینی صدر کے انتہائی قابلِ اعتماد رفیق ہیں۔ لیو صاحب نے خاصہ وقت امریکہ میں گزارا ہے۔ انھوں نے نیوجرسی کی Seton Hall یونیورسٹی سے بی اے کے بعد جامعہ ہارورڈ (University Harvard) سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر کی سند حاصل کی۔ امریکی لہجے میں انگریزی بولنے والے لیوہی کے بہت سے ہم جماعت آج کل امریکی وزارتِ خزانہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ عمدہ اخلاق اور نرم لہجے کی بنا پر واشنگٹن میں جناب لیو کی بہت عزت ہے۔
تجارتی جنگ میں سیاست کا پہلو خاصہ نمایاں ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا، صدر ٹرمپ یہی وعدہ کرکے برسراقتدار آئے تھے کہ وہ امریکہ کی تباہ حال صنعت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کریں گے تاکہ یہاں روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ امریکہ کی صنعتی تجدید کے لیے ضروری ہے کہ درآمدات کے سیلاب پر بند باندھے جائیں کہ باہر سے آنے والی مصنوعات امریکی ساختہ چیزوں سے نہ صرف بہتر، ارزاں اور وافر ہیں بلکہ صنعتوں کو فراہم کی جانے والی سستی گیس و بجلی اور دوسری سہولیات سے فائد اٹھانے کے لیے امریکی صنعت کار اپنے کارخانے چین منتقل کررہے ہیں، جہاں تجربہ کار افرادی قوت بھی سستے داموں میسر ہے، جس کی وجہ سے پیداواری لاگت امریکہ کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
صدر ٹرمپ کے لیے مشکل یہ ہے کہ امریکہ کی چین کو برآمدات کا بڑا حصہ دیہی امریکہ سے جاتا ہے جو صدر ٹرمپ کی سیاسی قوت کا منبع ہے۔ 14 مئی کو چین نے امریکہ سے سور کے گوشت، سویابین اور گوار کی خریداری میں بھاری کٹوتی کا اعلان کیا ہے جس کی وجہ سے ریاست الی نوائے، وسکونسن اور ایووا میں قیامت برپا ہے۔ دوسری طرف تجارتی جنگ نے بازارِ حصص کو غیر مستحکم کردیا ہے جہاں صدر ٹرمپ کے امیر دوستوں نے اربوں کی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ ری پبلکن پارٹی کے زعما کو خدشہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے تجارتی جنگ کے لیے جو دودھاری تلوار سونتی ہے اُس سے ایک طرف امریکی دیہات میں ری پبلکن پارٹی کا ووٹ بینک لہولہان ہے، تو دوسری جانب بازار حصص کے عدم استحکام سے ری پبلکن پارٹی کو انتخابی عطیات دینے والے سرمایہ کاروں کے پیٹ پر لات پڑرہی ہے۔ تاجر طبقہ بھی محصولات سے خوش نہیں کہ اضافی خرچ برابر کرنے کے لیے دکاندار درآمدی مصنوعات کے دام بڑھانے پر مجبور ہیں جس سے گرمیِ بازار متاثر ہوسکتی ہے۔
2020ء میں صدر ٹرمپ کے ساتھ کانگریس میں اُن کے رفقا کو بھی ووٹروں کا سامنا ہے۔کئی ریاستوں میں کسانوں اور زراعت و مویشی پروری سے وابستہ کارکنوں کی طرف سے ری پبلکن پارٹی کے ارکانِ کانگریس اور گورنروں سے تند و تیز سوالات پوچھے جارہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے مخالفین کہہ رہے ہیں کہ انکم ٹیکس کی شرح میں کمی سے عوام کو جو اضافی نقدی حاصل ہوئی اُس کا تین گنا انھیں اب محصولات کی شکل میں واپس کرنا پڑرہا ہے۔
چینیوں کو معلوم ہے کہ چند ماہ بعد انتخابی مہم کے عروج پر پہنچتے ہی صدر ٹرمپ خود اپنی پارٹی کی جانب سے سخت دبائو میں آجائیں گے، چنانچہ بیجنگ صدر ٹرمپ کی جانب سے محصولات کے جواب میں بھرپور جوابی حملے کے بجائے مچھلی، گوشت، دودھ اور زرعی اجناس پر ڈیوٹی میں اضافے اور دوسری پابندیوں کے ذریعے ری پبلکن پارٹی کو فکر میں مبتلا کررہا ہے۔ اسی کے ساتھ بازارِ حصص میں عدم استحکام سے سرمایہ کاری اور تجارتی سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں۔ ماہرین خطرہ ظاہر کررہے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو قیمتوں میں اضافے کے ساتھ روزگار کے مواقع بھی سکڑ سکتے ہیں، اور ڈر ہے کہ مزدوروں کے ووٹ پکے کرنے کے ہونکے اوراَنا کی تسکین میں کہیں صدر ٹرمپ ملکی معیشت کا خود ہی گلا نہ گھونٹ ڈالیں، جس کے اقبال پر وہ ہر نشست میں شیخی بگھارتے ہیں۔ اس عفیفہ کے حوالے سے امریکی ماہرین کی فکرمندی اپنی جگہ، لیکن دو گینڈوں کی لڑائی میں گھاس بری طرح مسلی جارہی ہے۔ پاکستان کے بازارِ حصص میں جو مندی ہے اس کی وجہ معیشت پر مقامی سرمایہ کاروں کے عدم اعتماد کے ساتھ یہ تجارتی جنگ بھی ہے۔ ہانگ کانگ، ٹوکیو، ممبئی اور سنگاپور کے پنڈت بھی مستقبل قریب میں خوفناک کساد بازاری کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں۔
…………
اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔